اسلام کا تصورِ حیات
یاد رکھو کہ ساری خیر، خوش گواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں، اور سارا شر اور دُکھ اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں۔
ISLAMABAD:
موجودہ دور کا انسان دنیا میں اس قدر گم ہے کہ اُس نے اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔
غریب امیر اور امیر امیر تر ہونے کی دوڑ میں ہر قسم کی اخلاقیات، حرام حلال اور اچھے بُرے کی تمیز بُھلا بیٹھا ہے۔ اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ مرنے کے بعد بھی ایک دنیا ہے، جہاں اُس سے اُس کے تمام اعمال کا حساب کتاب لیا جائے گا۔ یاد کیسے رہے؟ یہ ساری باتیں یاد رکھنے کے لیے اللہ کی کتاب اور اُس کے حبیبؐ کی سیرت طیبہ سے رشتہ جوڑنا پڑتا ہے، جو آج بھی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اے انسان: '' تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ ہرگز نہیں! (مال و دولت تمہارے کام نہیں آئیں گے) تم عن قریب (اس حقیقت کو) جان لو گے۔'' (التکاثر، 1-3)
روزانہ ہم لاتعداد جنازے دیکھتے ہیں اور کئی جنازوں کو ہم خود کندھا دیتے ہیں جو ہمارے لیے اس دنیائے فانی سے سبق حاصل کرنے کا بہترین درس ہے۔ جب انسان مرتا ہے تو رشتے دار کہتے ہیں اس کے سِلے ہوئے کپڑے اُتار دو۔ اگر اُتارنے میں کہیں مشقت ہو تو عزیز و اقارب ہی کہتے ہیں کہ پھاڑ کہ اتار دو۔
کپڑوں کو پھاڑا جاتا ہے۔ پھر کفن لایا جاتا ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ بھائی جاکہ درزی سے سلوا کر لے آؤ بلکہ بغیر سلا ہوا کپڑا (کفن) پہنایا جاتا ہے۔ دوست واحباب آتے ہیں اور ہر کسی کی زبان پر یہ ہوتا ہے کہ کتنی دیر باقی ہے دفنانے میں۔ افسوس! جس دنیا کے لیے اتنی محنت کی، اس کے لیے اپنوں کے ساتھ بے گانوں جیسا سلوک کیا، آج صرف دو گز کا ٹکڑ اس کے حصے میں آیا۔ آج ان لوگوں سے جاکر اگر پوچھا جائے جو اس زمیں کے نیچے چلے گئے کہ بھائی دنیا تمہارے کتنے کام آئی ہے تو ان کا جواب یہی ہوگا۔ جو جوڑ گیا وہ چھوڑ گیا۔ دنیا کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔
اس دنیا سے محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔ کہنے والے نے کیا خوب کہا کہ آنسوؤں کا جاری نہ ہونا دل کی سختی کی وجہ سے ہے۔ دل کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہے۔ گناہوں کی کثرت موت کو بھلانے کی وجہ سے ہے۔ موت کو بھلانا لمبی امیدوں کی وجہ سے ہے۔ لمبی امیدیں دنیا کی محبت کی وجہ سے ہیں۔
نبی کریمؐ کی لاتعداد احادیث مبارکہ دنیا کے بے قیمت ہونے کا درس دیتی ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول اکرمؐ صحابہ کرام کے ہم راہ ایک جگہ سے گزرے۔ راستے میں بکری کا مردہ بچہ پڑا ہوا تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرام سے پوچھا: '' تم میں سے کوئی ایک اس مرے ہوئے بچے کو صرف ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم تو اس کو کسی قیمت پر بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا: قسم ہے خدا کی کہ دنیا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ ذلیل اور بے قیمت ہے جتنا ذلیل اور بے قیمت تمہارے نزدیک یہ مردار بچہ ہے۔'' (صحیح مسلم)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر منکر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے حبیبؐ کے ہا ں اس دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
افسوس کہ آج مسلمان اس فانی دنیا کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ جو شخص اسے حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے وہ کبھی گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ ہاں! اگر دنیا کو دین کے تابع کرکے حاصل کیا جائے تو پھر دنیا بھی اچھی اور آخرت بھی اچھی ہوسکتی ہے، اور اگر دین کو دنیا کے تابع کرنا شروع کر دیا، جیسا کہ عموماً ہو رہا ہے تو نہ دنیا اچھی ہوگی نہ آخرت۔
حضرت قتادہ بن نعمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا سے اس کو اس طرح پرہیز کراتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے (جب کہ اس کو پانی سے نقصان پہنچتا ہو)۔'' ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کر دے۔ حقیقی کام یابی یہی ہے۔ مال اور دنیا کی محبت بڑھاپے میں بھی جوان رہتی ہے۔ انسان بوڑھا ہو جاتا ہے، چلنے پھرنے سے بھی عاری ہو جاتا ہے، پھر بھی دنیا کی محبت سے جی نہیں بھرتا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: '' آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان اور طاقت ور ہوتی ہیں۔ ایک دولت کی حرص اور دوسری زیادتی عمر کی حرص۔''
حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایک دن خطبہ دیا اور اپنے اس خطبے میں ارشاد فرمایا: ''سن لو اور یاد رکھو کہ دنیا ایک عارضی اور وقتی سودا ہے، جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے (اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اسی لیے) اِس میں ہر نیک و بد کا حصہ ہے اور سب اس کو کھاتے ہیں، اور یقین کرو کہ آخرت مقررہ وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے اور سب کچھ قدرت رکھنے والا شہنشاہ اسی میں (لوگوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا) فیصلہ کرے گا۔
یاد رکھو کہ ساری خیر، خوش گواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں، اور سارا شر اور دُکھ اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں۔ پس خبردار! خبردار (جو کچھ کرو) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کیے جاؤگے۔ پس جس شخص نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی کوئی برائی کی ہوگی وہ اس کو بھی پالے گا۔'' (مسند امام شافعی)
یہ خطبہ تمام امت مسلمہ کو درس دیتا ہے کہ اس دنیا کا سودا عارضی اور وقتی ہے۔ یہ ہمیں اس دنیا کی جھوٹی آنکھوں سے نظر نہیںآتا۔ جب یہ آنکھ بند ہوگی اور حقیقی آنکھ کھلے گی تب غافل انسان کو ہوش آئے گا۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ ایک مرتبہ کسی کام سے اپنے محل سے باہر گئے۔ ان کی خادمہ صفائی کی غرض سے اُن کے محل میں داخل ہوئی ۔ صفائی کرتے کرتے جب ان کے تخت پر پہنچی تو خیال آیا کہ ذرا اس تخت پہ بیٹھ کر دیکھتی ہوں کہ یہ کیسا ہے۔
جب اس پر بیٹھی تو اتنا سکون ملا کہ آنکھ لگ گئی ۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ واپس آئے اور دیکھا کہ خادمہ ان کے تخت پہ سوئی ہوئی ہے، انہیں بہت غصہ آیا فوراً دُرّہ نکالا اور اُسے پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی اور رونے لگی۔ تھوڑی دیر روئی اور پھر ہنسنا شروع کردیا۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ حیران ہوئے کہ رونے کے بعد فوراً ہنسنا کیسا؟ اس سے پوچھ بیٹھے کہ روئی تو اس وجہ سے ہو کے میرے دُرّے مارنے کی وجہ سے تجھے درد محسوس ہوا۔ ذرا مجھے یہ بتا کہ رونے کے بعد فوراً ہنسنا کیوں شروع کر دیا؟ اس خادمہ نے بڑا عجیب جواب دیا کہ اے بادشاہ محترم۔ میں چند منٹ کے لیے اس تخت پر سوئی تھی۔
مجھے اتنے سخت دُرّے لگے اور جو اس تخت پہ اس عارضی دنیا میں پوری زندگی سوتا رہا کل قیامت کے دن پتا نہیں اسے کتنے دُرے لگیں گے۔ بس کیا تھا اس وقت حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے تاجِ بادشاہی اتارا اور جنگل کا راستہ اختیار کر لیا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے کسی وزیر کا وہاں سے گزر ہوا۔ پوچھا کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ انہوں نے بڑا پیارا جواب دیا کہ جب میں بادشاہ تھا تو میری بات میری رعایا بھی نہیں سنتی تھی۔ مگر اب میں اس سمندر کے کنارے بیٹھ کر خدا کے نام کی ضرب لگاتا ہوں تو مچھلیاں میری اس صدا کو سنتی ہیں تو فوراً ہوا میں چھلانگ لگاتی ہیں۔
دوبارہ اللہ کے نام کی ضرب لگاتا ہوں تو واپس نیچے آجاتی ہیں۔ جب اس دنیا کی محبت دل سے نکلتی ہے اور اللہ کی محبت دل میں آتی ہے تو پھر حیوان بھی بات سننا شروع کر دیتے ہیں، پھر شیر بھی راستے کا پتا بتاتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی محبت سے رب نہیں ملتا اور رب کی محبت سے دنیا اور آخرت دونوں مل جاتی ہیں۔ دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا ہوگا اور یہ نکلے گی ذکرِ خدا کی کثرت سے۔ مولانا رومؒ سے کسی نے دنیا کی حقیقت پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے پیچھے شیر چلا آتا ہے۔ وہ بھاگتا ہے۔
جب بھاگتے بھاگتے تھک جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سامنے ایک گڑھا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ گڑھے میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچالے، مگر گڑھے میں اژدھا نظر آتا ہے۔ اتنے میں درخت کی ایک ٹہنی پر نظر پڑتی ہے۔ وہ اسے پکڑ کر درخت پہ چڑھ جاتا ہے، مگر درخت پہ چڑھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ دو چوہے ایک سفید اور دوسرا سیاہ درخت کی جڑ کو کاٹ رہے ہیں۔ وہ بہت پریشان ہوتا ہے کہ کچھ دیر میں درخت گِر جائے گا اور میں شیر اور اژدہے کا شکار ہو جاؤں گا۔ اتنے میں اسے اوپر کی جانب ایک شہد کا چھتہ نظر آتا ہے اور وہ شہد پینے میں اتنا گم ہو جاتا ہے کہ اُسے شیر، اژدھے اور چوہوں کی فکر ہی نہیں رہتی۔ کچھ دیر بعد درخت کی جڑ کٹتی ہے، وہ نیچے گرتا ہے اور شیر اُسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں اژدھا اُسے نگل لیتا ہے۔
مولانا رومؒ تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنگل سے مراد یہ دنیا ہے۔ شیر سے مراد موت ہے جو اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ گڑھا قبر ہے جو انسان کے آگے ہے۔ اژدہا بُرے اعمال ہیں جو قبر میں عذاب دیں گے۔ چوہے دن، رات اور درخت عمر ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے، اور شہد کا چھتا دنیا کی غافل کر دینے والی لذتیں ہیں، جن کے پیچھے پڑ کر انسان اعمال کی جواب دہی، موت، قبر سب بھول جاتا ہے اور موت اسے اچانک آن لیتی ہے۔ انسان اگر دنیا کماتا ہے تو اسے یہ بھی چاہیے کہ دین کے اصول بھی سامنے رکھے کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ ورنہ دنیا دنیا میں ہی رہ جائے گی اور وہ قبر کی پہلی منزل میں ہی پھنس جائے گا جس سے چھٹکارا مشکل ہو جائے گا۔ دنیا کے بے شمار بادشاہوں کی قبروں پر جب نظر پڑتی ہے تو اُنہیں دیکھ کر یہی پیغام ملتا ہے کہ ؎
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
موجودہ دور کا انسان دنیا میں اس قدر گم ہے کہ اُس نے اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔
غریب امیر اور امیر امیر تر ہونے کی دوڑ میں ہر قسم کی اخلاقیات، حرام حلال اور اچھے بُرے کی تمیز بُھلا بیٹھا ہے۔ اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ مرنے کے بعد بھی ایک دنیا ہے، جہاں اُس سے اُس کے تمام اعمال کا حساب کتاب لیا جائے گا۔ یاد کیسے رہے؟ یہ ساری باتیں یاد رکھنے کے لیے اللہ کی کتاب اور اُس کے حبیبؐ کی سیرت طیبہ سے رشتہ جوڑنا پڑتا ہے، جو آج بھی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اے انسان: '' تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ ہرگز نہیں! (مال و دولت تمہارے کام نہیں آئیں گے) تم عن قریب (اس حقیقت کو) جان لو گے۔'' (التکاثر، 1-3)
روزانہ ہم لاتعداد جنازے دیکھتے ہیں اور کئی جنازوں کو ہم خود کندھا دیتے ہیں جو ہمارے لیے اس دنیائے فانی سے سبق حاصل کرنے کا بہترین درس ہے۔ جب انسان مرتا ہے تو رشتے دار کہتے ہیں اس کے سِلے ہوئے کپڑے اُتار دو۔ اگر اُتارنے میں کہیں مشقت ہو تو عزیز و اقارب ہی کہتے ہیں کہ پھاڑ کہ اتار دو۔
کپڑوں کو پھاڑا جاتا ہے۔ پھر کفن لایا جاتا ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ بھائی جاکہ درزی سے سلوا کر لے آؤ بلکہ بغیر سلا ہوا کپڑا (کفن) پہنایا جاتا ہے۔ دوست واحباب آتے ہیں اور ہر کسی کی زبان پر یہ ہوتا ہے کہ کتنی دیر باقی ہے دفنانے میں۔ افسوس! جس دنیا کے لیے اتنی محنت کی، اس کے لیے اپنوں کے ساتھ بے گانوں جیسا سلوک کیا، آج صرف دو گز کا ٹکڑ اس کے حصے میں آیا۔ آج ان لوگوں سے جاکر اگر پوچھا جائے جو اس زمیں کے نیچے چلے گئے کہ بھائی دنیا تمہارے کتنے کام آئی ہے تو ان کا جواب یہی ہوگا۔ جو جوڑ گیا وہ چھوڑ گیا۔ دنیا کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔
اس دنیا سے محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔ کہنے والے نے کیا خوب کہا کہ آنسوؤں کا جاری نہ ہونا دل کی سختی کی وجہ سے ہے۔ دل کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہے۔ گناہوں کی کثرت موت کو بھلانے کی وجہ سے ہے۔ موت کو بھلانا لمبی امیدوں کی وجہ سے ہے۔ لمبی امیدیں دنیا کی محبت کی وجہ سے ہیں۔
نبی کریمؐ کی لاتعداد احادیث مبارکہ دنیا کے بے قیمت ہونے کا درس دیتی ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول اکرمؐ صحابہ کرام کے ہم راہ ایک جگہ سے گزرے۔ راستے میں بکری کا مردہ بچہ پڑا ہوا تھا۔ آپؐ نے صحابہ کرام سے پوچھا: '' تم میں سے کوئی ایک اس مرے ہوئے بچے کو صرف ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم تو اس کو کسی قیمت پر بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا: قسم ہے خدا کی کہ دنیا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ ذلیل اور بے قیمت ہے جتنا ذلیل اور بے قیمت تمہارے نزدیک یہ مردار بچہ ہے۔'' (صحیح مسلم)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر منکر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے حبیبؐ کے ہا ں اس دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
افسوس کہ آج مسلمان اس فانی دنیا کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ جو شخص اسے حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے وہ کبھی گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ ہاں! اگر دنیا کو دین کے تابع کرکے حاصل کیا جائے تو پھر دنیا بھی اچھی اور آخرت بھی اچھی ہوسکتی ہے، اور اگر دین کو دنیا کے تابع کرنا شروع کر دیا، جیسا کہ عموماً ہو رہا ہے تو نہ دنیا اچھی ہوگی نہ آخرت۔
حضرت قتادہ بن نعمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا سے اس کو اس طرح پرہیز کراتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے (جب کہ اس کو پانی سے نقصان پہنچتا ہو)۔'' ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کر دے۔ حقیقی کام یابی یہی ہے۔ مال اور دنیا کی محبت بڑھاپے میں بھی جوان رہتی ہے۔ انسان بوڑھا ہو جاتا ہے، چلنے پھرنے سے بھی عاری ہو جاتا ہے، پھر بھی دنیا کی محبت سے جی نہیں بھرتا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: '' آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان اور طاقت ور ہوتی ہیں۔ ایک دولت کی حرص اور دوسری زیادتی عمر کی حرص۔''
حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایک دن خطبہ دیا اور اپنے اس خطبے میں ارشاد فرمایا: ''سن لو اور یاد رکھو کہ دنیا ایک عارضی اور وقتی سودا ہے، جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے (اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اسی لیے) اِس میں ہر نیک و بد کا حصہ ہے اور سب اس کو کھاتے ہیں، اور یقین کرو کہ آخرت مقررہ وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے اور سب کچھ قدرت رکھنے والا شہنشاہ اسی میں (لوگوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا) فیصلہ کرے گا۔
یاد رکھو کہ ساری خیر، خوش گواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں، اور سارا شر اور دُکھ اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں۔ پس خبردار! خبردار (جو کچھ کرو) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کیے جاؤگے۔ پس جس شخص نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی کوئی برائی کی ہوگی وہ اس کو بھی پالے گا۔'' (مسند امام شافعی)
یہ خطبہ تمام امت مسلمہ کو درس دیتا ہے کہ اس دنیا کا سودا عارضی اور وقتی ہے۔ یہ ہمیں اس دنیا کی جھوٹی آنکھوں سے نظر نہیںآتا۔ جب یہ آنکھ بند ہوگی اور حقیقی آنکھ کھلے گی تب غافل انسان کو ہوش آئے گا۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ ایک مرتبہ کسی کام سے اپنے محل سے باہر گئے۔ ان کی خادمہ صفائی کی غرض سے اُن کے محل میں داخل ہوئی ۔ صفائی کرتے کرتے جب ان کے تخت پر پہنچی تو خیال آیا کہ ذرا اس تخت پہ بیٹھ کر دیکھتی ہوں کہ یہ کیسا ہے۔
جب اس پر بیٹھی تو اتنا سکون ملا کہ آنکھ لگ گئی ۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ واپس آئے اور دیکھا کہ خادمہ ان کے تخت پہ سوئی ہوئی ہے، انہیں بہت غصہ آیا فوراً دُرّہ نکالا اور اُسے پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی اور رونے لگی۔ تھوڑی دیر روئی اور پھر ہنسنا شروع کردیا۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ حیران ہوئے کہ رونے کے بعد فوراً ہنسنا کیسا؟ اس سے پوچھ بیٹھے کہ روئی تو اس وجہ سے ہو کے میرے دُرّے مارنے کی وجہ سے تجھے درد محسوس ہوا۔ ذرا مجھے یہ بتا کہ رونے کے بعد فوراً ہنسنا کیوں شروع کر دیا؟ اس خادمہ نے بڑا عجیب جواب دیا کہ اے بادشاہ محترم۔ میں چند منٹ کے لیے اس تخت پر سوئی تھی۔
مجھے اتنے سخت دُرّے لگے اور جو اس تخت پہ اس عارضی دنیا میں پوری زندگی سوتا رہا کل قیامت کے دن پتا نہیں اسے کتنے دُرے لگیں گے۔ بس کیا تھا اس وقت حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے تاجِ بادشاہی اتارا اور جنگل کا راستہ اختیار کر لیا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے کسی وزیر کا وہاں سے گزر ہوا۔ پوچھا کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ انہوں نے بڑا پیارا جواب دیا کہ جب میں بادشاہ تھا تو میری بات میری رعایا بھی نہیں سنتی تھی۔ مگر اب میں اس سمندر کے کنارے بیٹھ کر خدا کے نام کی ضرب لگاتا ہوں تو مچھلیاں میری اس صدا کو سنتی ہیں تو فوراً ہوا میں چھلانگ لگاتی ہیں۔
دوبارہ اللہ کے نام کی ضرب لگاتا ہوں تو واپس نیچے آجاتی ہیں۔ جب اس دنیا کی محبت دل سے نکلتی ہے اور اللہ کی محبت دل میں آتی ہے تو پھر حیوان بھی بات سننا شروع کر دیتے ہیں، پھر شیر بھی راستے کا پتا بتاتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی محبت سے رب نہیں ملتا اور رب کی محبت سے دنیا اور آخرت دونوں مل جاتی ہیں۔ دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا ہوگا اور یہ نکلے گی ذکرِ خدا کی کثرت سے۔ مولانا رومؒ سے کسی نے دنیا کی حقیقت پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے پیچھے شیر چلا آتا ہے۔ وہ بھاگتا ہے۔
جب بھاگتے بھاگتے تھک جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سامنے ایک گڑھا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ گڑھے میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچالے، مگر گڑھے میں اژدھا نظر آتا ہے۔ اتنے میں درخت کی ایک ٹہنی پر نظر پڑتی ہے۔ وہ اسے پکڑ کر درخت پہ چڑھ جاتا ہے، مگر درخت پہ چڑھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ دو چوہے ایک سفید اور دوسرا سیاہ درخت کی جڑ کو کاٹ رہے ہیں۔ وہ بہت پریشان ہوتا ہے کہ کچھ دیر میں درخت گِر جائے گا اور میں شیر اور اژدہے کا شکار ہو جاؤں گا۔ اتنے میں اسے اوپر کی جانب ایک شہد کا چھتہ نظر آتا ہے اور وہ شہد پینے میں اتنا گم ہو جاتا ہے کہ اُسے شیر، اژدھے اور چوہوں کی فکر ہی نہیں رہتی۔ کچھ دیر بعد درخت کی جڑ کٹتی ہے، وہ نیچے گرتا ہے اور شیر اُسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں اژدھا اُسے نگل لیتا ہے۔
مولانا رومؒ تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنگل سے مراد یہ دنیا ہے۔ شیر سے مراد موت ہے جو اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ گڑھا قبر ہے جو انسان کے آگے ہے۔ اژدہا بُرے اعمال ہیں جو قبر میں عذاب دیں گے۔ چوہے دن، رات اور درخت عمر ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے، اور شہد کا چھتا دنیا کی غافل کر دینے والی لذتیں ہیں، جن کے پیچھے پڑ کر انسان اعمال کی جواب دہی، موت، قبر سب بھول جاتا ہے اور موت اسے اچانک آن لیتی ہے۔ انسان اگر دنیا کماتا ہے تو اسے یہ بھی چاہیے کہ دین کے اصول بھی سامنے رکھے کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ ورنہ دنیا دنیا میں ہی رہ جائے گی اور وہ قبر کی پہلی منزل میں ہی پھنس جائے گا جس سے چھٹکارا مشکل ہو جائے گا۔ دنیا کے بے شمار بادشاہوں کی قبروں پر جب نظر پڑتی ہے تو اُنہیں دیکھ کر یہی پیغام ملتا ہے کہ ؎
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے