علی المرتضیٰ کا طرز ِ زندگی
علیؓ نے فرمایا:’’یہ وہ لباس ہے جو دل کو دباتا ہے، غرور کو انسان سے دور کرتا ہے اور مومن اس کی اقتدا کرتا ہے۔‘‘
حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ دنیا میں ہر انسان امیدوں کے سہارے ہی جینا چاہتا ہے اور یہ مسئلہ اس قدر عمیق ہوگیا ہے کہ ہر شخص کا ایک ہی خیال ہے، وہ یہ کہ یہ دنیا امید پر قائم ہے، حالاں کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب اس نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ صرف امید سے کوئی کام بننے والا نہیں ہے، بلکہ کامیابی کی اصل کلید ہی عمل ہے۔
انسان کا فرض ہے کہ وہ دنیا میں عمل کرے، تاکہ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکے اور اتنی ہی امید قائم کرے جتنی اس کی حدود اور عمل میں آسکتی ہے۔ علی ابن ابی طالب کا کہنا ہے:''مفلسی مومن کے لیے بہتر اس لیے ہے کہ یہ اس کو ہمسایوں کی جلن، دوستوں کی چاپلوسی اور بادشاہ کے تسلط سے نجات دیتی ہے۔''
آپؓ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:''اے لوگو! میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں تمہیں اﷲ کی اطاعت کی دعوت اس وقت تک نہیں دیتا جب تک میں خود اس پر عمل نہ کرسکوں، اور نہ ہی میں تمہیں کسی گناہ سے روکتا ہوں جب تک میں اپنا دامن تم سے پہلے اس سے نہ بچالوں۔''
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ حضرت علیؓ بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کا لباس بہت سادہ اور کم قیمت ہوتا تھا اور موٹے کپڑے کا ہوتا تھا جو آپ پانچ درہم میں خرید لیتے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا تھا آپ اپنے لباس میں پیوند لگاتے رہتے تھے اور زیادہ تر پیوند چمڑے یا خرمے کی چھال کے ہوتے تھے۔
ایک شخص نے علی ابن ابی طالب کی خدمت میں عرض کیا:''آپ ریاست و خلافت کے زمانے میں بھی پیوند والے کپڑے پہنتے ہیں۔ اس سے دشمن آپ کو حقیر سمجھتے ہیں؟''
جواب میں علیؓ نے فرمایا:''یہ وہ لباس ہے جو دل کو دباتا ہے، غرور کو انسان سے دور کرتا ہے اور مومن اس کی اقتدا کرتا ہے۔''
حضرت علیؓ اور ان کے غلام کا لباس یکساں ہوتا تھا۔ آپ ایک وقت میں دو کپڑے خریدتے تھے۔ اس میں سے گھٹیا کپڑا خود پہنتے اور اچھا کپڑا اپنے غلام قنبر کو دے دیتے تھے۔ غذا میں حضرت علیؓ جو کی خشک روٹی خود کھاتے تھے اور گیہوں کی روٹی شکر شہد اور خرما فقیروں، یتموں اور محتاجوں کو کھلاتے تھے۔ خود پیوند والا لباس پہنتے تھے، لیکن یتیموں اور بیوائوں کو نفیس کپڑے پہناتے تھے۔
حضرت علی سیاست عادلانہ کا مرکز تھے۔ عام معنیٰ میں سیاست جس پر دنیاداروں کا عمل ہے یعنی پالیسی، ریاکاری، چاپلوسی، جھوٹ، دشمنوں کی خوشامد اور ظاہری منفعتوں کے لیے ان کو فریب دینا وغیرہ تو یہ حضرت علی کے مزاج سے کوسوں دور تھی، کیوں کہ آپ عدل و انصاف اور خوف الٰہی کا مجسمہ اور روز جزا کے معتقد تھے۔ دوست و دشمن کے ساتھ حضرت کی عنایت و مہربانی سے کسی کو انکار نہیں تھا۔ بے بس عورتوں اور بے کس یتیموں سے اس قدر ہمدردی فرمائی کہ بیوائوں اور مسکینوں کے باپ مشہور ہوگئے تھے۔ تاریخ کے اوراق میں بارہا ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ آپ خلافت راشدہ کے دور میں خلیفۂ وقت ہونے کے باوجود لوگوں کے گھروں تک اپنی کمر پر راشن رکھ کر پہنچاتے یا پانی کی چھاگل بھرکر پہنچاتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ آپ کسی بیوہ کے یتیم بچوں کا راشن پہنچاکر اس وقت تک بچوں کے ساتھ کھیلتے رہے جب تک ان کی ماں نے ان کے لیے کھانا تیار نہ کرلیا ہو۔ عدل و انصاف کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے آپ نے اپنے بیٹے امام حسن کو وصیت کی تھی کہ ان کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کو شربت کا گلاس پیش کریں اور اگر وہ (حضرت علی) ابن ملجم کے لگائے ہوئے زخم سے صحت یاب نہ ہوسکیں تو اسے ایک تلوار کی صرف ایک ضرب لگائیں، کیوں کہ اس نے بھی حضرت علیؓ کے سر پر تلوار سے ایک ضرب لگائی تھی۔
امیر المؤمنین نے اپنی خلافت کے زمانے میں اپنے خاندان کی کسی بھی فرد کی طرف داری یا جانب داری نہیں کی، بلکہ آپؓ کے نزدیک دوست و دشمن سب برابر تھے اور آپ کی شفقت و مہربانی سب کے لیے یکساں تھی۔ تاریخ کے صفحات پر یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے بڑے بھائی حضرت عقیل نے ایک مرتبہ اپنے حق سے زیادہ امداد طلب کی تو آپ نے ان کی اس درخواست پر کوئی توجہ نہ دی۔ بعد ازاں حضرت عقیل نے کافی اصرار کیا اور حضرت کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ آپ تو خلیفۂ وقت ہیں اور سارے نظم و نسق کے مالک ہیں لہٰذا ہماری حاجت روائی اور امداد میں اضافہ کردیں تو اس کے جواب میں حضرت علیؓ نے ایک گرم لوہے کا ٹکڑا منگوا کر اپنے بھائی کی جانب بڑھایا اور ان سے کہا کہ اسے ہاتھ لگائیں۔ اس پر حضرت عقیل نے کہا کہ کیا آپ مجھے اس گرم لوہے سے جلانا چاہتے ہیں؟
جواب میں حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا:''بھائی! آپ اس گرم لوہے کے ٹکڑے سے ڈر رہے ہیں اور مجھ سے ناانصافی کرواکے مجھے دوزخ کی آگ کی طرف بھیج رہے ہیں!''
زہد اور تقویٰ میں حضرت علیؓ کا بہت بڑا مقام تھا۔
ا
ٓپ کے زہد و تقوے کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ آپ پرہیزگاری میں بلند و ممتاز تھے۔
حضرت علیؓ اپنے نفس کو لذیذ غذائوں سے باز رکھتے تھے، تاکہ نفس کا غلبہ نہ ہوجائے۔ اگر دسترخوان پر ایک سے زیادہ کھانے ہوتے تو آپ صرف اس کھانے کو پسند فرماتے جو سادہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ضربت کی شب جب وہ اپنی بیٹی حضرت زینب کے گھر روزہ افطار کرنے گئے تو وہاں دستر خوان پر نمک کے علاوہ دودھ بھی موجود تھا۔ آپ نے نمک سے روزہ افطار کیا اور دودھ چھوڑ دیا۔ حضرت عبداﷲ بن رافع کی روایت ہے کہ ایک روز میں افطار کے وقت حضرت علیؓ کے ہاں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت کے سامنے ایک سربہ مہر تھیلی لائی گئی۔ جب آپ نے اس کو کھولا تو اس میں بغیر چھنا ہوا آٹا تھا جس میں کافی بھوسی شامل تھی۔ آپ نے اس میں سے تین مٹھی آٹا لے کر نوش فرمایا اور اوپر سے ایک گھونٹ پانی پی کر خدا کا شکر بجالائے۔
حضرت عبداﷲ بن رافع کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ آپ نے تھیلی کے منہ پر مہر کس لیے لگائی تھی تو آپ نے ارشاد فرمایا:''اس لیے کہ حسنین مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ اس میں روغن زیتون یا شیرنی شامل کردیں اور علی کا نفس اس کو کھانے سے لذت حاصل کرلے۔''
انسان کا فرض ہے کہ وہ دنیا میں عمل کرے، تاکہ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکے اور اتنی ہی امید قائم کرے جتنی اس کی حدود اور عمل میں آسکتی ہے۔ علی ابن ابی طالب کا کہنا ہے:''مفلسی مومن کے لیے بہتر اس لیے ہے کہ یہ اس کو ہمسایوں کی جلن، دوستوں کی چاپلوسی اور بادشاہ کے تسلط سے نجات دیتی ہے۔''
آپؓ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:''اے لوگو! میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں تمہیں اﷲ کی اطاعت کی دعوت اس وقت تک نہیں دیتا جب تک میں خود اس پر عمل نہ کرسکوں، اور نہ ہی میں تمہیں کسی گناہ سے روکتا ہوں جب تک میں اپنا دامن تم سے پہلے اس سے نہ بچالوں۔''
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ حضرت علیؓ بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کا لباس بہت سادہ اور کم قیمت ہوتا تھا اور موٹے کپڑے کا ہوتا تھا جو آپ پانچ درہم میں خرید لیتے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا تھا آپ اپنے لباس میں پیوند لگاتے رہتے تھے اور زیادہ تر پیوند چمڑے یا خرمے کی چھال کے ہوتے تھے۔
ایک شخص نے علی ابن ابی طالب کی خدمت میں عرض کیا:''آپ ریاست و خلافت کے زمانے میں بھی پیوند والے کپڑے پہنتے ہیں۔ اس سے دشمن آپ کو حقیر سمجھتے ہیں؟''
جواب میں علیؓ نے فرمایا:''یہ وہ لباس ہے جو دل کو دباتا ہے، غرور کو انسان سے دور کرتا ہے اور مومن اس کی اقتدا کرتا ہے۔''
حضرت علیؓ اور ان کے غلام کا لباس یکساں ہوتا تھا۔ آپ ایک وقت میں دو کپڑے خریدتے تھے۔ اس میں سے گھٹیا کپڑا خود پہنتے اور اچھا کپڑا اپنے غلام قنبر کو دے دیتے تھے۔ غذا میں حضرت علیؓ جو کی خشک روٹی خود کھاتے تھے اور گیہوں کی روٹی شکر شہد اور خرما فقیروں، یتموں اور محتاجوں کو کھلاتے تھے۔ خود پیوند والا لباس پہنتے تھے، لیکن یتیموں اور بیوائوں کو نفیس کپڑے پہناتے تھے۔
حضرت علی سیاست عادلانہ کا مرکز تھے۔ عام معنیٰ میں سیاست جس پر دنیاداروں کا عمل ہے یعنی پالیسی، ریاکاری، چاپلوسی، جھوٹ، دشمنوں کی خوشامد اور ظاہری منفعتوں کے لیے ان کو فریب دینا وغیرہ تو یہ حضرت علی کے مزاج سے کوسوں دور تھی، کیوں کہ آپ عدل و انصاف اور خوف الٰہی کا مجسمہ اور روز جزا کے معتقد تھے۔ دوست و دشمن کے ساتھ حضرت کی عنایت و مہربانی سے کسی کو انکار نہیں تھا۔ بے بس عورتوں اور بے کس یتیموں سے اس قدر ہمدردی فرمائی کہ بیوائوں اور مسکینوں کے باپ مشہور ہوگئے تھے۔ تاریخ کے اوراق میں بارہا ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ آپ خلافت راشدہ کے دور میں خلیفۂ وقت ہونے کے باوجود لوگوں کے گھروں تک اپنی کمر پر راشن رکھ کر پہنچاتے یا پانی کی چھاگل بھرکر پہنچاتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ آپ کسی بیوہ کے یتیم بچوں کا راشن پہنچاکر اس وقت تک بچوں کے ساتھ کھیلتے رہے جب تک ان کی ماں نے ان کے لیے کھانا تیار نہ کرلیا ہو۔ عدل و انصاف کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے آپ نے اپنے بیٹے امام حسن کو وصیت کی تھی کہ ان کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کو شربت کا گلاس پیش کریں اور اگر وہ (حضرت علی) ابن ملجم کے لگائے ہوئے زخم سے صحت یاب نہ ہوسکیں تو اسے ایک تلوار کی صرف ایک ضرب لگائیں، کیوں کہ اس نے بھی حضرت علیؓ کے سر پر تلوار سے ایک ضرب لگائی تھی۔
امیر المؤمنین نے اپنی خلافت کے زمانے میں اپنے خاندان کی کسی بھی فرد کی طرف داری یا جانب داری نہیں کی، بلکہ آپؓ کے نزدیک دوست و دشمن سب برابر تھے اور آپ کی شفقت و مہربانی سب کے لیے یکساں تھی۔ تاریخ کے صفحات پر یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے بڑے بھائی حضرت عقیل نے ایک مرتبہ اپنے حق سے زیادہ امداد طلب کی تو آپ نے ان کی اس درخواست پر کوئی توجہ نہ دی۔ بعد ازاں حضرت عقیل نے کافی اصرار کیا اور حضرت کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ آپ تو خلیفۂ وقت ہیں اور سارے نظم و نسق کے مالک ہیں لہٰذا ہماری حاجت روائی اور امداد میں اضافہ کردیں تو اس کے جواب میں حضرت علیؓ نے ایک گرم لوہے کا ٹکڑا منگوا کر اپنے بھائی کی جانب بڑھایا اور ان سے کہا کہ اسے ہاتھ لگائیں۔ اس پر حضرت عقیل نے کہا کہ کیا آپ مجھے اس گرم لوہے سے جلانا چاہتے ہیں؟
جواب میں حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا:''بھائی! آپ اس گرم لوہے کے ٹکڑے سے ڈر رہے ہیں اور مجھ سے ناانصافی کرواکے مجھے دوزخ کی آگ کی طرف بھیج رہے ہیں!''
زہد اور تقویٰ میں حضرت علیؓ کا بہت بڑا مقام تھا۔
ا
ٓپ کے زہد و تقوے کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ آپ پرہیزگاری میں بلند و ممتاز تھے۔
حضرت علیؓ اپنے نفس کو لذیذ غذائوں سے باز رکھتے تھے، تاکہ نفس کا غلبہ نہ ہوجائے۔ اگر دسترخوان پر ایک سے زیادہ کھانے ہوتے تو آپ صرف اس کھانے کو پسند فرماتے جو سادہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ضربت کی شب جب وہ اپنی بیٹی حضرت زینب کے گھر روزہ افطار کرنے گئے تو وہاں دستر خوان پر نمک کے علاوہ دودھ بھی موجود تھا۔ آپ نے نمک سے روزہ افطار کیا اور دودھ چھوڑ دیا۔ حضرت عبداﷲ بن رافع کی روایت ہے کہ ایک روز میں افطار کے وقت حضرت علیؓ کے ہاں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت کے سامنے ایک سربہ مہر تھیلی لائی گئی۔ جب آپ نے اس کو کھولا تو اس میں بغیر چھنا ہوا آٹا تھا جس میں کافی بھوسی شامل تھی۔ آپ نے اس میں سے تین مٹھی آٹا لے کر نوش فرمایا اور اوپر سے ایک گھونٹ پانی پی کر خدا کا شکر بجالائے۔
حضرت عبداﷲ بن رافع کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ آپ نے تھیلی کے منہ پر مہر کس لیے لگائی تھی تو آپ نے ارشاد فرمایا:''اس لیے کہ حسنین مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ اس میں روغن زیتون یا شیرنی شامل کردیں اور علی کا نفس اس کو کھانے سے لذت حاصل کرلے۔''