سیاست کا المیہ
پاکستان میں سیاست عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔
KARACHI:
پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے نیب کی طرف سے کرپشن کے خلاف ملک بھر میں Say no to curruption پر مبنی نعروں والے بینرز اور پوسٹرز لگے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن آج کے دور میں وائٹ کالر کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات سے زیادہ بلاتفریق احتساب کی ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں پارٹی سربراہ اور پارلیمنٹیرین ہارس ٹریڈنگ کا حصہ بن جائیں اور ایوانوں میں بیٹھ کر آئین سازی کریں، تو اس معاشرے سے کرپشن کے خاتمے کی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔
کرپشن ایک ایسی بیماری ہے جو دوسری بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کچھ ایسے احساسات پروان چڑھا دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے کرپشن کے بارے میں معاشرے میں قبولیت کے جذبات پیدا ہوچکے ہیں۔ جب کرپشن معاشرے میں سرائیت کر جائے اور پارلیمنٹ میں بیٹھے بااثر اور طاقتور حلقے کرپشن کے فروغ کا باعث بن جائیں تو پھر اس کا خاتمہ آسان نہیں ہوتا۔
پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کے لیے انفرادی اور پارلیمانی سطح پر بڑی طویل اور موثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہر چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام کو بھی دوبارہ سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سیاست اور بدعنوانی کے رابطے منقطع کیے جاسکیں۔
حالیہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ نے پوری قوم کو شرمندہ کردیا ہے۔ بے ضمیر ارکان اسمبلی نے اپنی جماعت اور اپنے ووٹرز سے بے وفائی کی اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی نے تو برملا اظہار کیا ہے کہ ان کی قیمت 8 کروڑ روپے لگائی جاچکی ہے۔
ماضی کے مقابلے اس بار کچھ زیادہ ہی مارکیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائدکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بارہ ارکان اسمبلی کو خریدا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پیپلز پارٹی نے خیبرپختونخوا سے دو نشستیں جیتی ہیں۔ جب کہ سابق گورنر پنجاب اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما چوہدری سرور پنجاب سے سینیٹر منتخب ہوگئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ 30 ووٹ رکھنے والا 44 ووٹ لے کر کامیاب ہوجائے۔ دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کی دہائی دینے والے اس بات کا جواب کیسے دیں گے کہ ان کا امیدوار پنجاب سے کیسے جیت گیا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی کے محض سات اراکین ہیں، وہاں سے اس کی دو نشستوں پر کامیابی حیران کن ہے۔ خرید و فروخت کے اس کھیل میں سب سے زیادہ سینیٹر پیپلز پارٹی نے کامیاب کرائے۔ سینیٹ انتخاب سے قبل ہی بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت کو لپیٹ کر رکھ دیا تھا، وہاں سے آزاد منتخب ہونے والے سینیٹرز نے پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اور یوں پیپلز پارٹی سینیٹ میں عددی اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور تیسرے نمبر پر تحریک انصاف ہے، جب کہ مسلم لیگ سرفہرست ہے۔
حالیہ الیکشن میں بہت سے امیدوار کسی چمتکار کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ارب پتی اور بااثر شخصیات نے اپنی معاشی، سیاسی اور سماجی حیثیت میں اضافے کے لیے سینیٹ کی نشست کے حصول کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی۔ دیگر تین صوبوں کے برعکس پچھلی تین دہائیوں کے دوران خیبرپختونخوا سے سینیٹ کے لیے منتخب ہونے والوں میں اہم بااثر اور مالدار ترین افراد کی تعداد زیادہ رہی ہے۔
سینیٹ کے حالیہ انتخابات نے جمہوریت، پارلیمنٹ اور عوام کے لاکھوں ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کے کردار پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ کی سیاست سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ پارلیمنٹ، پارلیمانی نظام کے تحفظ اور سیاست دانوں کے وقار کی سربلندی اور عظمت کے لیے دولت اور ثروت کی سیاست کو روکنا ہوگا۔ انتخابی عمل میں ''زر داری'' اور'' رازداری'' نہیں بلکہ شفافیت کو برقرار رکھنا ہوگا۔
دولت کے ذریعے سینیٹر بننا، سینیٹ جیسے ادارے کو کمزور اور لاغرکرنا اور جمہوریت کے لیے ایک بھیانک سازش ہوگی۔ ایک جانب یہ بحث کی جاری ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہوچکا ہے، سیاست دان ناکام ہوچکے ہیں، پاکستان میں ٹیکنوکریٹ یا صدارتی نظام لانے کی بات کی جارہی ہے۔ جس طرح سے سیاست دانوں کو بے توقیر کیا جارہا ہے، سیاست دان، سیاستدانوں کو ہی سرعام ننگا کررہے ہیں۔
سیاستدانوں پر کرپشن اور لوٹ مار کے سچے جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں، ان کی تذلیل کی جاتی ہے، اس کے باوجود سیاست دان سینیٹ کی ایک سیٹ کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرلیں تو پھر وطن عزیز سے کرپشن کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔
ہارس ٹریڈنگ کے راستوں کو بند کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کو ہارس ٹریڈنگ میں شامل ارکان اسمبلی کو بے نقاب کرنا چاہیے اور ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر دونوں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کو سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اور بے پناہ دولت کے استعمال کا ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ پینے کے پانی، اسپتالوں، جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے عوام نے ازخود نوٹسز کا خیر مقدم کیا ہے لیکن یہ اس سے زیادہ اہم معاملہ ہے۔
پاکستان میں سیاست عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں، یہاں تو یونین کونسل کا چیئرمین بننے کے لیے 40 سے 50 لاکھ روپے لگانے پڑتے ہیں، ممبر قومی و صوبائی اسمبلی بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جب کہ ممبر سینیٹ بننے پر بات اربوں روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کھیل اس ہی طرح کھیلا جاتا رہا تو جمہوریت مزید کمزور ہوگی۔
اگر یہ خرید و فروخت اور توڑ جوڑ نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے کی جارہی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ تو ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی سینیٹ میں اپنا چیئرمین لانے میں کامیاب ہوجائے، لیکن آگے چل کر نقصان پھر پیپلز پارٹی کا ہی ہوگا۔
ایک طرف توڑ جوڑ کی سیاست ہوگی اور دوسری طرف عوامی سیاست جو نواز شریف کررہے ہیں۔ کیا وقت تھا کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن کر پیپلز پارٹی کو گرانے کی کوشش کرتے تھے اور آج پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن کر نواز شریف کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہی ہمارے سیاست دانوں کا المیہ ہے کہ وہ اپنے حریف کو گرانے کے لیے خود بہت نیچے گر جاتے ہیں۔
پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے نیب کی طرف سے کرپشن کے خلاف ملک بھر میں Say no to curruption پر مبنی نعروں والے بینرز اور پوسٹرز لگے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن آج کے دور میں وائٹ کالر کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات سے زیادہ بلاتفریق احتساب کی ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں پارٹی سربراہ اور پارلیمنٹیرین ہارس ٹریڈنگ کا حصہ بن جائیں اور ایوانوں میں بیٹھ کر آئین سازی کریں، تو اس معاشرے سے کرپشن کے خاتمے کی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔
کرپشن ایک ایسی بیماری ہے جو دوسری بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کچھ ایسے احساسات پروان چڑھا دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے کرپشن کے بارے میں معاشرے میں قبولیت کے جذبات پیدا ہوچکے ہیں۔ جب کرپشن معاشرے میں سرائیت کر جائے اور پارلیمنٹ میں بیٹھے بااثر اور طاقتور حلقے کرپشن کے فروغ کا باعث بن جائیں تو پھر اس کا خاتمہ آسان نہیں ہوتا۔
پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کے لیے انفرادی اور پارلیمانی سطح پر بڑی طویل اور موثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہر چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام کو بھی دوبارہ سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سیاست اور بدعنوانی کے رابطے منقطع کیے جاسکیں۔
حالیہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ نے پوری قوم کو شرمندہ کردیا ہے۔ بے ضمیر ارکان اسمبلی نے اپنی جماعت اور اپنے ووٹرز سے بے وفائی کی اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی نے تو برملا اظہار کیا ہے کہ ان کی قیمت 8 کروڑ روپے لگائی جاچکی ہے۔
ماضی کے مقابلے اس بار کچھ زیادہ ہی مارکیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائدکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بارہ ارکان اسمبلی کو خریدا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پیپلز پارٹی نے خیبرپختونخوا سے دو نشستیں جیتی ہیں۔ جب کہ سابق گورنر پنجاب اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما چوہدری سرور پنجاب سے سینیٹر منتخب ہوگئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ 30 ووٹ رکھنے والا 44 ووٹ لے کر کامیاب ہوجائے۔ دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کی دہائی دینے والے اس بات کا جواب کیسے دیں گے کہ ان کا امیدوار پنجاب سے کیسے جیت گیا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی کے محض سات اراکین ہیں، وہاں سے اس کی دو نشستوں پر کامیابی حیران کن ہے۔ خرید و فروخت کے اس کھیل میں سب سے زیادہ سینیٹر پیپلز پارٹی نے کامیاب کرائے۔ سینیٹ انتخاب سے قبل ہی بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت کو لپیٹ کر رکھ دیا تھا، وہاں سے آزاد منتخب ہونے والے سینیٹرز نے پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اور یوں پیپلز پارٹی سینیٹ میں عددی اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور تیسرے نمبر پر تحریک انصاف ہے، جب کہ مسلم لیگ سرفہرست ہے۔
حالیہ الیکشن میں بہت سے امیدوار کسی چمتکار کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ارب پتی اور بااثر شخصیات نے اپنی معاشی، سیاسی اور سماجی حیثیت میں اضافے کے لیے سینیٹ کی نشست کے حصول کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی۔ دیگر تین صوبوں کے برعکس پچھلی تین دہائیوں کے دوران خیبرپختونخوا سے سینیٹ کے لیے منتخب ہونے والوں میں اہم بااثر اور مالدار ترین افراد کی تعداد زیادہ رہی ہے۔
سینیٹ کے حالیہ انتخابات نے جمہوریت، پارلیمنٹ اور عوام کے لاکھوں ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کے کردار پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ کی سیاست سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ پارلیمنٹ، پارلیمانی نظام کے تحفظ اور سیاست دانوں کے وقار کی سربلندی اور عظمت کے لیے دولت اور ثروت کی سیاست کو روکنا ہوگا۔ انتخابی عمل میں ''زر داری'' اور'' رازداری'' نہیں بلکہ شفافیت کو برقرار رکھنا ہوگا۔
دولت کے ذریعے سینیٹر بننا، سینیٹ جیسے ادارے کو کمزور اور لاغرکرنا اور جمہوریت کے لیے ایک بھیانک سازش ہوگی۔ ایک جانب یہ بحث کی جاری ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہوچکا ہے، سیاست دان ناکام ہوچکے ہیں، پاکستان میں ٹیکنوکریٹ یا صدارتی نظام لانے کی بات کی جارہی ہے۔ جس طرح سے سیاست دانوں کو بے توقیر کیا جارہا ہے، سیاست دان، سیاستدانوں کو ہی سرعام ننگا کررہے ہیں۔
سیاستدانوں پر کرپشن اور لوٹ مار کے سچے جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں، ان کی تذلیل کی جاتی ہے، اس کے باوجود سیاست دان سینیٹ کی ایک سیٹ کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرلیں تو پھر وطن عزیز سے کرپشن کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔
ہارس ٹریڈنگ کے راستوں کو بند کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کو ہارس ٹریڈنگ میں شامل ارکان اسمبلی کو بے نقاب کرنا چاہیے اور ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر دونوں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کو سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اور بے پناہ دولت کے استعمال کا ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ پینے کے پانی، اسپتالوں، جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے عوام نے ازخود نوٹسز کا خیر مقدم کیا ہے لیکن یہ اس سے زیادہ اہم معاملہ ہے۔
پاکستان میں سیاست عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں، یہاں تو یونین کونسل کا چیئرمین بننے کے لیے 40 سے 50 لاکھ روپے لگانے پڑتے ہیں، ممبر قومی و صوبائی اسمبلی بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جب کہ ممبر سینیٹ بننے پر بات اربوں روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کھیل اس ہی طرح کھیلا جاتا رہا تو جمہوریت مزید کمزور ہوگی۔
اگر یہ خرید و فروخت اور توڑ جوڑ نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے کی جارہی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ تو ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی سینیٹ میں اپنا چیئرمین لانے میں کامیاب ہوجائے، لیکن آگے چل کر نقصان پھر پیپلز پارٹی کا ہی ہوگا۔
ایک طرف توڑ جوڑ کی سیاست ہوگی اور دوسری طرف عوامی سیاست جو نواز شریف کررہے ہیں۔ کیا وقت تھا کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن کر پیپلز پارٹی کو گرانے کی کوشش کرتے تھے اور آج پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن کر نواز شریف کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہی ہمارے سیاست دانوں کا المیہ ہے کہ وہ اپنے حریف کو گرانے کے لیے خود بہت نیچے گر جاتے ہیں۔