شام میں کیا ہورہا ہے
اسرائیل کا مشرق وسطیٰ کی بالادست قوت بننے کا خواب 60 سالوں بعد آخر کار پورا ہوگیا ہے۔
شام میں گزشتہ سال فروری سے شروع ہونے والی فضائی بمباری میں اب تک 850 افراد مارے جاچکے ہیں جن میں دو سو کے قریب بچے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ غذائی قلت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ بجلی، پانی اور صحت کی سہولیات انتہائی ابتر ہے۔ یورپی یونین نے شامی فورسز کی طرف سے مشرقی غوطہ کے محاصرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ نیدریکا موگیرنی کے مطابق اس طرح عام شہریوں کا محاصرہ اور ان پر بمباری جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتا ہے۔ موگیرنی کے مطابق باغیوں کی موجودگی کو جواز بناکر مسلسل بمباری کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ دریں اثناء روس نے شامی باغیوں کو مشرقی غوطہ سے باہر جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کی پیشکش کردی ہے۔ روسی کے مطابق باغی اپنے خاندان کے ہمراہ مخصوص راستے سے باہر جاسکتے ہیں۔
مشرقی غوطہ دمشق کے نواح میں واقعہ ہے جو وہاں سے صرف 15 کلو میٹر دور ہے۔ اسی طرح دوسرا قصبہ دوما ہے۔ جس کا فاصلہ دمشق سے صرف 10 کلو میٹر ہے۔ یہ دونوں جگہیں شامی باغیوں کی آماجگاہیں ہیں۔ بشار آمریت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوتے ہی ان دونوں مقامات سے دمشق پر حملے شروع ہوگئے۔ شامی افواج نے ان دونوں مقامات کا محاصرہ کرلیا لیکن شامی افواج یہاں پر موجود باغیوں کو شکست نہ دے سکیں۔
بشار مخالف قوتیں یہاں سے دمشق میں دہشت گردی اور میزائل سے نشانہ بناتی رہیں لیکن شامی فوج ان دونوں جگہوں کو فتح نہ کرسکیں۔ 2015ء میں قریب تھا کہ دمشق پر بشار مخالف قوتوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر شامی حکومت نے روس سے درخواست کی کہ وہ مداخلت کرے۔ یاد رہے کہ شام اور روس کے درمیان فوجی معاہدہ طویل عرصہ پہلے ہوا تھا۔
اس معاہدے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی جارحیت کی صورت میں روس شام کی مدد کرے گا۔ چنانچہ اس نازک موقع پر روس کی مدد نے شامی حکومت کو نئی زندگی بخش دی۔ شامی حکومت جو پے در پے شکست کھارہی تھی۔ قریب تھا کہ دہائیوں پر قائم بشارالاسد کی خاندانی آمریت کا خاتمہ ہوجاتا۔ روسی مدد نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔
بشار مخالف قوتیں دو طرح کی تھیں، ایک طرف ''فری سیرین آرمی'' تھی جس کو امریکا یورپ اور اسرائیل کی پشت پناہی تھی تو دوسری طرف داعش، القاعدہ اور اس کی ذیلی شاخیں تھیں جن کو سعودی اور دیگر عرب بادشاہتوں کی بھر پور فوجی و مالی حمایت میسر تھی۔ ادھر شامی حکومت کی حمایت روس کے علاوہ ایران، لبنان کی حزب اﷲ کررہی تھی جس کے سربراہ شیخ نصراللہ ہیں۔ بشارالاسد آمریت کی بچ جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ مذہبی جنگ بن گئی جس میں مختلف مسالک کے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔
روس کی مدد نے نہ صرف شامی حکومت کو مضبوط کیا بلکہ شام میں روسی عسکری طاقت میں اضافے کا باعث ہے۔ اب روس شام میں اپنی عسکری طاقت میں اضافے کے لیے ایک نیول اور ایک ایئربیس بنارہا ہے۔ روس کے جنگی اڈے شام میں ہیں۔ اگر اس کو شکست ہوتی ہے تو مشرق وسطیٰ میں اس کی موجودگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے روس کے لیے اس کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ شکست کی صورت میں اس کے اسٹرٹیجک مفادات کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اس طرح یہ صورتحال امریکا اسرائیل کی تاریخی جیت ہوگی کیونکہ مصر اور عراق میں اس کے اثرور رسوخ کا مدت ہوئے پہلے ہی خاتمہ ہوچکا ہے۔ جب کہ ایران کا معاملہ یہ ہے کہ بشار حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں امریکا اور اسرائیل اس کی سرحدوں پر پہنچ جائیں گے۔ پھر ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت آسان اور آخر کار ایران کی موجودہ حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہوجائے گا۔ اس طرح امریکا اور اسرائیل کی دہائیوں پرانی سازشیں اپنی تکمیل کو پہنچیں گی۔ چنانچہ پاکستان مکمل طور پر امریکی گھیرے میں آجائے گا۔
افغانستان میں پہلے ہی سے بھارت اور امریکا موجود ہیں۔ اب آپ کو سمجھ آجانی چاہیے کہ ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے تمام تر اندرونی اور بیرونی(مخالفت دباؤ)کے باوجود گزشتہ سال کے آخر میں تین روزہ دورہ ایران کیوں کیا۔ ایران کی موجودہ حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں پاکستان امریکا اور بھارت کا دباؤ برداشت نہیں کرسکے گا۔
اس طرح نہ صرف برصغیر سے لے کر مشرق وسطیٰ تک بھارتی بالادستی کی راہ ہموار ہوجائے گی بلکہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں وہ عناصر کو طاقتور ہو جائیں گے جوپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
شام کی جنگ کتنی خوفناک تھی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف شامی سرکاری افواج اب تک ایک لاکھ کی تعداد میں ماری جاچکی ہیں۔ یہ ہے ''امریکی عرب بہار'' کا شاخسانہ جس میں اب تک لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
نتیجے میں اسرائیل کا مشرق وسطیٰ کی بالادست قوت بننے کا خواب 60 سالوں بعد آخر کار پورا ہوگیا ہے۔ لیکن اس بالادستی کو خطرہ اب بھی ایران سے ہے۔ اسی لیے ایٹمی معاہدے سے جان چھڑانے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ سے مذاکرات پر آمادگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یکسو ہوکر پوری قوت سے ایران سے نمٹا جائے۔
٭... 20 سے 30 مارچ کے درمیان مشرقی غوطہ شام کے حالات بہتری کی طرف جانا شروع ہوجائیں گے کیوں کہ 7 سالہ جنگ اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ نیدریکا موگیرنی کے مطابق اس طرح عام شہریوں کا محاصرہ اور ان پر بمباری جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتا ہے۔ موگیرنی کے مطابق باغیوں کی موجودگی کو جواز بناکر مسلسل بمباری کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ دریں اثناء روس نے شامی باغیوں کو مشرقی غوطہ سے باہر جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کی پیشکش کردی ہے۔ روسی کے مطابق باغی اپنے خاندان کے ہمراہ مخصوص راستے سے باہر جاسکتے ہیں۔
مشرقی غوطہ دمشق کے نواح میں واقعہ ہے جو وہاں سے صرف 15 کلو میٹر دور ہے۔ اسی طرح دوسرا قصبہ دوما ہے۔ جس کا فاصلہ دمشق سے صرف 10 کلو میٹر ہے۔ یہ دونوں جگہیں شامی باغیوں کی آماجگاہیں ہیں۔ بشار آمریت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوتے ہی ان دونوں مقامات سے دمشق پر حملے شروع ہوگئے۔ شامی افواج نے ان دونوں مقامات کا محاصرہ کرلیا لیکن شامی افواج یہاں پر موجود باغیوں کو شکست نہ دے سکیں۔
بشار مخالف قوتیں یہاں سے دمشق میں دہشت گردی اور میزائل سے نشانہ بناتی رہیں لیکن شامی فوج ان دونوں جگہوں کو فتح نہ کرسکیں۔ 2015ء میں قریب تھا کہ دمشق پر بشار مخالف قوتوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر شامی حکومت نے روس سے درخواست کی کہ وہ مداخلت کرے۔ یاد رہے کہ شام اور روس کے درمیان فوجی معاہدہ طویل عرصہ پہلے ہوا تھا۔
اس معاہدے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی جارحیت کی صورت میں روس شام کی مدد کرے گا۔ چنانچہ اس نازک موقع پر روس کی مدد نے شامی حکومت کو نئی زندگی بخش دی۔ شامی حکومت جو پے در پے شکست کھارہی تھی۔ قریب تھا کہ دہائیوں پر قائم بشارالاسد کی خاندانی آمریت کا خاتمہ ہوجاتا۔ روسی مدد نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔
بشار مخالف قوتیں دو طرح کی تھیں، ایک طرف ''فری سیرین آرمی'' تھی جس کو امریکا یورپ اور اسرائیل کی پشت پناہی تھی تو دوسری طرف داعش، القاعدہ اور اس کی ذیلی شاخیں تھیں جن کو سعودی اور دیگر عرب بادشاہتوں کی بھر پور فوجی و مالی حمایت میسر تھی۔ ادھر شامی حکومت کی حمایت روس کے علاوہ ایران، لبنان کی حزب اﷲ کررہی تھی جس کے سربراہ شیخ نصراللہ ہیں۔ بشارالاسد آمریت کی بچ جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ مذہبی جنگ بن گئی جس میں مختلف مسالک کے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔
روس کی مدد نے نہ صرف شامی حکومت کو مضبوط کیا بلکہ شام میں روسی عسکری طاقت میں اضافے کا باعث ہے۔ اب روس شام میں اپنی عسکری طاقت میں اضافے کے لیے ایک نیول اور ایک ایئربیس بنارہا ہے۔ روس کے جنگی اڈے شام میں ہیں۔ اگر اس کو شکست ہوتی ہے تو مشرق وسطیٰ میں اس کی موجودگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے روس کے لیے اس کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ شکست کی صورت میں اس کے اسٹرٹیجک مفادات کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اس طرح یہ صورتحال امریکا اسرائیل کی تاریخی جیت ہوگی کیونکہ مصر اور عراق میں اس کے اثرور رسوخ کا مدت ہوئے پہلے ہی خاتمہ ہوچکا ہے۔ جب کہ ایران کا معاملہ یہ ہے کہ بشار حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں امریکا اور اسرائیل اس کی سرحدوں پر پہنچ جائیں گے۔ پھر ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت آسان اور آخر کار ایران کی موجودہ حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہوجائے گا۔ اس طرح امریکا اور اسرائیل کی دہائیوں پرانی سازشیں اپنی تکمیل کو پہنچیں گی۔ چنانچہ پاکستان مکمل طور پر امریکی گھیرے میں آجائے گا۔
افغانستان میں پہلے ہی سے بھارت اور امریکا موجود ہیں۔ اب آپ کو سمجھ آجانی چاہیے کہ ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے تمام تر اندرونی اور بیرونی(مخالفت دباؤ)کے باوجود گزشتہ سال کے آخر میں تین روزہ دورہ ایران کیوں کیا۔ ایران کی موجودہ حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں پاکستان امریکا اور بھارت کا دباؤ برداشت نہیں کرسکے گا۔
اس طرح نہ صرف برصغیر سے لے کر مشرق وسطیٰ تک بھارتی بالادستی کی راہ ہموار ہوجائے گی بلکہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں وہ عناصر کو طاقتور ہو جائیں گے جوپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
شام کی جنگ کتنی خوفناک تھی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف شامی سرکاری افواج اب تک ایک لاکھ کی تعداد میں ماری جاچکی ہیں۔ یہ ہے ''امریکی عرب بہار'' کا شاخسانہ جس میں اب تک لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
نتیجے میں اسرائیل کا مشرق وسطیٰ کی بالادست قوت بننے کا خواب 60 سالوں بعد آخر کار پورا ہوگیا ہے۔ لیکن اس بالادستی کو خطرہ اب بھی ایران سے ہے۔ اسی لیے ایٹمی معاہدے سے جان چھڑانے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ سے مذاکرات پر آمادگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یکسو ہوکر پوری قوت سے ایران سے نمٹا جائے۔
٭... 20 سے 30 مارچ کے درمیان مشرقی غوطہ شام کے حالات بہتری کی طرف جانا شروع ہوجائیں گے کیوں کہ 7 سالہ جنگ اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔
سیل فون:۔ 0346-4527997