ادب اور سیاست
بھٹو صاحب کے بنائے ہوئے دستور میں اس قدر ردوبدل اور ترامیم کردی گئی ہیں کہ اب مصلحت پرست مصلحت بیں قوم پر حاکم ہی۔۔۔
ادب اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ ہر دور کا ادب اس عہد کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انقلابات زمانہ نے ہر دورکے ادب کو متاثر کیا ہے ۔انقلاب روس کے چند بڑے قلم کاروں میں گورکی، نکولائی، استروسکی ، چیخوف اور پھر ادیبوں کی ایک نسل پیدا ہوئی۔
انقلاب روس کی بازگشت برصغیر میں زیادہ سنائی دی ۔ تقسیم برصغیر سے قبل اردو ادب میں ترقی پسند تحریک ایک مضبوط قوت بن چکی تھی جس کو بنے بھائی سجاد ظہیر نے نئی توانائی بخشی ۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ترقی پسند تحریک کافی زور پکڑ چکی تھی۔ خان لیاقت علی خان کے آخری دور میں تو یہ تحریک کافی زور پکڑ چکی تھی بلکہ یہاں تک کہ انقلاب کی تاریخ بھی طے ہوچکی تھی جس کی اطلاع ایوب خان نے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خاں کو دی تھی کہ ایک بڑا فوجی اور عوامی انقلاب برپا ہونے کو ہے نتیجہ یہ ہوا کہ اس انقلاب کو وقت سے قبل ہی ضرب کاری لگا کر روک دیا گیا۔
اس انقلاب کی ناکامی کی اصل وجہ ایوب خان اور اسکندر مرزا کی چابک دستی نہ تھی بلکہ ترقی پسند اور کمیونسٹ تحریک کے ارکان میں اختلاف تھا۔ اس وقت جو جملے میں تحریر کر رہا ہوں شاید آنے والے تاریخ دانوں اور موجودہ تاریخ دانوں کو بھی یہ نہ پتہ ہو کہ جنرل اکبرخان اور سجاد ظہیر ایک نقطے پر متحد نہ ہوسکے، وہ نقطہ یہ تھا کہ جنرل اکبر خان نے فوجی بغاوت منظم کرلی تھی، ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم فوجی انقلاب برپا کریں گے اور آپ ملک بھر کے مزدوروں اور کسانوں کو سڑک پر لائیں اور طلبہ کو بھی تعلیمی اداروں سے اسی وقت تائید کے لیے نکالیے گا۔ مگر اس مباحثے میں سجاد ظہیر جو کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے انھوں نے اختلاف کیا اور یہ اختلافات اس قدر بڑھے کہ یہ آواز حکومت وقت کو پہنچ گئی۔
سجاد ظہیر کا یہ موقف تھا کہ اگر عوام کی اکثریت ہمارے ساتھ نہ ہوئی تو پھر یہ انقلاب ایک فوجی انقلاب کی شکل ہوگا اور عوامی راج کا تصور نہ ہوگا اور یہ زیادہ دیرپا نہ ہوگا۔غرض ترقی پسند تحریک انتشار کا شکار ہوئی، ایوب خان کے دور میں حسن ناصر کو لاہور میں شہید کردیا گیا، اس طرح کمیونسٹ پارٹی کے مضبوط آخری لیڈر بھی پاکستان سے رخصت ہوئے۔ بچے کھچے ترقی پسند عناصر بعدازاں روس چین کے نظریاتی اختلافات کا شکار ہوئے زیادہ تر چین نواز سوشلسٹوںنے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا کیونکہ وہ معاہدہ تاشقند کی مخالفت کرتے ہوئے سیاسی میدان میں اترے اور عوام سے تاشقند کی بلی تھیلے سے باہر نکالنے کی بات کرتے رہے لیکن جب منتخب ہوگئے تو تھیلے سے کوئی بلی باہر نہ آئی کیونکہ تھیلا ہی خالی تھا۔
1968 میں سوشلسٹ دوبارہ متحد ہونے کے قریب تھے اور کسی حد تک قریب آبھی چکے تھے مگر مشرقی پاکستان پر آپریشن نے ملک میں مثبت سوچ کو پھر منہدم کردیا۔ نئے مسائل ابھرے اور بھٹو اپنا پیغام آگے نہ لے جاسکے گو کہ ان کے ساتھ سابق ترقی پسند تحریک کے کچھ ساتھی بڑے عہدوں پر فائز ہوئے مگر روس نواز نظریات کے شاعر جو نیشنل عوامی پارٹی کے ایک لیڈر تھے ان کی پذیرائی بھی کی جارہی ہے جو بھٹو کے بنائے ہوئے دستور کو ماننے پر ہرگز تیار نہ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے:
جو سایہ میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا
بھٹو صاحب کے بنائے ہوئے دستور میں اس قدر ردوبدل اور ترامیم کردی گئی ہیں کہ اب مصلحت پرست مصلحت بیں قوم پر حاکم ہی رہیں گے، اب لیڈروں کی تیسری نسل عوام کا گلا گھونٹنے کے لیے تیار ہے، کوئی ایفی ڈرین کیس میں مبتلا، تو کوئی کسی فن میں ماہر ہے۔ علامہ طاہر القادری سے معاہدہ کرکے مکر جانے والی قیادت نے پھر ایک مضحکہ خیز خبر پھیلائی کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد محترم سے ناراض ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے اس خبر میں کیا صداقت ہو سکتی ہے۔ ایک نوعمر لڑکا اپنے باپ کی نافرمانی کیونکر کر سکتا ہے اور پھر وہ اس قدر جلدی مان بھی گیا۔ اس طرح عوام کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے تاکہ پی پی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہوسکے اور بلاول بھٹو کا امیج بنے۔
پیپلز پارٹی 1970 کی پارٹی نہیں جب یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس این ایس ایف کی قیادت میں 70 کلفٹن گئے تھے ، مگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید قدرتی طور پر بھٹو کی سی بصیرت رکھتی تھیں ان کو ملک کے مختلف طبقات کا خیال تھا وہ محض خواب دکھانے پر یقین نہیں رکھتی تھیں، خواب تصور کی ایک تصویر ہوتا ہے وہ اگر عوام کو کچھ دے سکتی تھیں تو وعدہ کرتی تھیں، ان کو دانشوروں، شاعروں، ادیبوں کی دور بینی کا ادراک تھا۔ اس لیے ادیبوں کی کانفرنس، شاعروں اور قلم کاروں کا اجتماع وہ اکثر کیا کرتی تھیں۔ برسر اقتدار آتے ہی ایک کانفرنس مارچ 29، 30، 31 اپریل 1989 کو انھوں نے لاہور میں منعقد کی جس کی مہمان نوازی کے فرائض فخر زمان کے سپرد تھے۔
پورے ملک سے ادیب، شاعر و دانشور جمع ہوئے تھے اور اپنی بصیرت سے عوام کو بصارت عطا کر رہے تھے۔ والد محترم پروفیسر مجتبیٰ حسین بھی وہاں گئے تھے، مگر یکم اپریل کو وہ لاہور میں ایک حادثے کا شکار ہوگئے۔ ایئرپورٹ سے چند سو گز کے فاصلے پر ڈاکٹر طارق عزیز کی کار کو بس نے ٹکر ماری اور یکم اپریل کو میں نے والد محترم کا تابوت وصول کیا۔ مصیبت کا یہ کوہ گراں بھی گھر پر گرا، مگر حیف کہ اب سائنس دانوں، شاعروں، ادیبوں کے لیے اس ملک کے حکمرانوں کے پاس کوئی جگہ نہیں۔
سیاستداں اور حکمراں شاطر دانوں کا ایک قبیلہ ہے جو ملک کی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے۔ رہزنوں کی آمد آمد ہے، عوام کو فخروبھائی سے امیدیں تھیں وہ بھی جاتی رہیں۔ ادیبوں اور شاعروں نے فصل گل کو جلتے دیکھا، مگر چپ ہیں، ادب کے سربکف مجاہد قیام پاکستان کے غازی ہماری مصلحت اندیشی پر چپ ہیں۔ معروف شاعروصحافی فرہاد زیدی نے ادیبوں اور دانشوروں کی مصلحت پرستی کی نقاب کشائی اپنی نظم شریف آدمی میں کچھ اس طرح کی ہے:
اگر میں نبیؐ کے مظلوم جاں نثاروں کی صف میں ہوتا
شہید ہوتا
لہٰذا وہ آگے چل کر یہ لکھتے ہیں کہ وہ ہر شریف آدمی کی مانند اپنے گھر بار کی خیر، اپنی اولاد کی خیر کی خاطر نہ ادھر ہوتا اور نہ ادھر ہوتا ہے۔ اب دانشور ملکی انتخاب کے بجائے آرٹس کونسلوں کے الیکشن میں اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں کیونکہ پاکستان میں نظریات کے بجائے غارت گری جاری ہے۔
انقلاب روس کی بازگشت برصغیر میں زیادہ سنائی دی ۔ تقسیم برصغیر سے قبل اردو ادب میں ترقی پسند تحریک ایک مضبوط قوت بن چکی تھی جس کو بنے بھائی سجاد ظہیر نے نئی توانائی بخشی ۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ترقی پسند تحریک کافی زور پکڑ چکی تھی۔ خان لیاقت علی خان کے آخری دور میں تو یہ تحریک کافی زور پکڑ چکی تھی بلکہ یہاں تک کہ انقلاب کی تاریخ بھی طے ہوچکی تھی جس کی اطلاع ایوب خان نے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خاں کو دی تھی کہ ایک بڑا فوجی اور عوامی انقلاب برپا ہونے کو ہے نتیجہ یہ ہوا کہ اس انقلاب کو وقت سے قبل ہی ضرب کاری لگا کر روک دیا گیا۔
اس انقلاب کی ناکامی کی اصل وجہ ایوب خان اور اسکندر مرزا کی چابک دستی نہ تھی بلکہ ترقی پسند اور کمیونسٹ تحریک کے ارکان میں اختلاف تھا۔ اس وقت جو جملے میں تحریر کر رہا ہوں شاید آنے والے تاریخ دانوں اور موجودہ تاریخ دانوں کو بھی یہ نہ پتہ ہو کہ جنرل اکبرخان اور سجاد ظہیر ایک نقطے پر متحد نہ ہوسکے، وہ نقطہ یہ تھا کہ جنرل اکبر خان نے فوجی بغاوت منظم کرلی تھی، ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم فوجی انقلاب برپا کریں گے اور آپ ملک بھر کے مزدوروں اور کسانوں کو سڑک پر لائیں اور طلبہ کو بھی تعلیمی اداروں سے اسی وقت تائید کے لیے نکالیے گا۔ مگر اس مباحثے میں سجاد ظہیر جو کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے انھوں نے اختلاف کیا اور یہ اختلافات اس قدر بڑھے کہ یہ آواز حکومت وقت کو پہنچ گئی۔
سجاد ظہیر کا یہ موقف تھا کہ اگر عوام کی اکثریت ہمارے ساتھ نہ ہوئی تو پھر یہ انقلاب ایک فوجی انقلاب کی شکل ہوگا اور عوامی راج کا تصور نہ ہوگا اور یہ زیادہ دیرپا نہ ہوگا۔غرض ترقی پسند تحریک انتشار کا شکار ہوئی، ایوب خان کے دور میں حسن ناصر کو لاہور میں شہید کردیا گیا، اس طرح کمیونسٹ پارٹی کے مضبوط آخری لیڈر بھی پاکستان سے رخصت ہوئے۔ بچے کھچے ترقی پسند عناصر بعدازاں روس چین کے نظریاتی اختلافات کا شکار ہوئے زیادہ تر چین نواز سوشلسٹوںنے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا کیونکہ وہ معاہدہ تاشقند کی مخالفت کرتے ہوئے سیاسی میدان میں اترے اور عوام سے تاشقند کی بلی تھیلے سے باہر نکالنے کی بات کرتے رہے لیکن جب منتخب ہوگئے تو تھیلے سے کوئی بلی باہر نہ آئی کیونکہ تھیلا ہی خالی تھا۔
1968 میں سوشلسٹ دوبارہ متحد ہونے کے قریب تھے اور کسی حد تک قریب آبھی چکے تھے مگر مشرقی پاکستان پر آپریشن نے ملک میں مثبت سوچ کو پھر منہدم کردیا۔ نئے مسائل ابھرے اور بھٹو اپنا پیغام آگے نہ لے جاسکے گو کہ ان کے ساتھ سابق ترقی پسند تحریک کے کچھ ساتھی بڑے عہدوں پر فائز ہوئے مگر روس نواز نظریات کے شاعر جو نیشنل عوامی پارٹی کے ایک لیڈر تھے ان کی پذیرائی بھی کی جارہی ہے جو بھٹو کے بنائے ہوئے دستور کو ماننے پر ہرگز تیار نہ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے:
جو سایہ میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا
بھٹو صاحب کے بنائے ہوئے دستور میں اس قدر ردوبدل اور ترامیم کردی گئی ہیں کہ اب مصلحت پرست مصلحت بیں قوم پر حاکم ہی رہیں گے، اب لیڈروں کی تیسری نسل عوام کا گلا گھونٹنے کے لیے تیار ہے، کوئی ایفی ڈرین کیس میں مبتلا، تو کوئی کسی فن میں ماہر ہے۔ علامہ طاہر القادری سے معاہدہ کرکے مکر جانے والی قیادت نے پھر ایک مضحکہ خیز خبر پھیلائی کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد محترم سے ناراض ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے اس خبر میں کیا صداقت ہو سکتی ہے۔ ایک نوعمر لڑکا اپنے باپ کی نافرمانی کیونکر کر سکتا ہے اور پھر وہ اس قدر جلدی مان بھی گیا۔ اس طرح عوام کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے تاکہ پی پی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہوسکے اور بلاول بھٹو کا امیج بنے۔
پیپلز پارٹی 1970 کی پارٹی نہیں جب یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس این ایس ایف کی قیادت میں 70 کلفٹن گئے تھے ، مگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید قدرتی طور پر بھٹو کی سی بصیرت رکھتی تھیں ان کو ملک کے مختلف طبقات کا خیال تھا وہ محض خواب دکھانے پر یقین نہیں رکھتی تھیں، خواب تصور کی ایک تصویر ہوتا ہے وہ اگر عوام کو کچھ دے سکتی تھیں تو وعدہ کرتی تھیں، ان کو دانشوروں، شاعروں، ادیبوں کی دور بینی کا ادراک تھا۔ اس لیے ادیبوں کی کانفرنس، شاعروں اور قلم کاروں کا اجتماع وہ اکثر کیا کرتی تھیں۔ برسر اقتدار آتے ہی ایک کانفرنس مارچ 29، 30، 31 اپریل 1989 کو انھوں نے لاہور میں منعقد کی جس کی مہمان نوازی کے فرائض فخر زمان کے سپرد تھے۔
پورے ملک سے ادیب، شاعر و دانشور جمع ہوئے تھے اور اپنی بصیرت سے عوام کو بصارت عطا کر رہے تھے۔ والد محترم پروفیسر مجتبیٰ حسین بھی وہاں گئے تھے، مگر یکم اپریل کو وہ لاہور میں ایک حادثے کا شکار ہوگئے۔ ایئرپورٹ سے چند سو گز کے فاصلے پر ڈاکٹر طارق عزیز کی کار کو بس نے ٹکر ماری اور یکم اپریل کو میں نے والد محترم کا تابوت وصول کیا۔ مصیبت کا یہ کوہ گراں بھی گھر پر گرا، مگر حیف کہ اب سائنس دانوں، شاعروں، ادیبوں کے لیے اس ملک کے حکمرانوں کے پاس کوئی جگہ نہیں۔
سیاستداں اور حکمراں شاطر دانوں کا ایک قبیلہ ہے جو ملک کی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے۔ رہزنوں کی آمد آمد ہے، عوام کو فخروبھائی سے امیدیں تھیں وہ بھی جاتی رہیں۔ ادیبوں اور شاعروں نے فصل گل کو جلتے دیکھا، مگر چپ ہیں، ادب کے سربکف مجاہد قیام پاکستان کے غازی ہماری مصلحت اندیشی پر چپ ہیں۔ معروف شاعروصحافی فرہاد زیدی نے ادیبوں اور دانشوروں کی مصلحت پرستی کی نقاب کشائی اپنی نظم شریف آدمی میں کچھ اس طرح کی ہے:
اگر میں نبیؐ کے مظلوم جاں نثاروں کی صف میں ہوتا
شہید ہوتا
لہٰذا وہ آگے چل کر یہ لکھتے ہیں کہ وہ ہر شریف آدمی کی مانند اپنے گھر بار کی خیر، اپنی اولاد کی خیر کی خاطر نہ ادھر ہوتا اور نہ ادھر ہوتا ہے۔ اب دانشور ملکی انتخاب کے بجائے آرٹس کونسلوں کے الیکشن میں اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں کیونکہ پاکستان میں نظریات کے بجائے غارت گری جاری ہے۔