بکراپیڑی پر گدھوں کی روایتی منڈی دوبارہ آباد ہوگئی
منڈی میں گدھاگاڑی چلانے والے اورگدھوںکی ریس کے شوقین آتے ہیں۔
تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث شہر میں بار بردارگاڑیوں کی طلب بڑھ گئی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گنجان بازاروں میں بڑی لوڈنگ گاڑیوں کا داخلہ مشکل ہونے کی وجہ سے گدھا گاڑیوں کو ترجیح دی جاتی ہے تاہم گدھوں کی قیمت بھی اب آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری سے متصل بکرا پیڑی کے قریب لیاری ایکسپریس وے کے ساتھ ہر اتوار کو گدھوں کی منڈی لگائی جاتی ہے لیاری میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کی وجہ سے یہ منڈی بھی ختم ہوگئی تھی تاہم اب رینجرز کی کاوشوں سے لیاری میں امن قائم ہوگیا ہے اور لیاری کے مکینوں کے ساتھ دیگر علاقوں کے شہری بھی امن کے ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں۔
لیاری کی ہفتہ وار گدھوں کی منڈی میں کراچی بھر سے گدھا گاڑی چلانے والے اور ریس کے گدھوں کے شوقین افراد شرکت کرتے ہیں بازار میں ہر ہفتہ 400 گدھے فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں زیادہ تر سندھ اور بلوچستان کی نسلوں کے گدھے فروخت کیے جاتے ہیں چند سال کے دوران گدھوں کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
جوان اور مضبوط قد کاٹھ کے اوسط گدھے کی قیمت 30سے 40ہزار روپے ہے تاہم 6 فٹ اونچے قد تک کے گدھے بھی فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں جن کی قیمت ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک بتائی جاتی ہے گدھوں کے بیوپاریوں کے مطابق گدھے کی قیمت اس کی ظاہری خوبصورتی، تندرستی، عمر ، رفتار اور وزن اٹھانے کی صلاحیت کی بنا پر طے کی جاتی ہے۔
بوڑھے اور ناتواں گدھے10ہزار روپے تک میں مل جاتے ہیں تاہم کماکر دینے والے گدھوں کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے اتوار بازار میں ایسے بھی گدھے لائے جاتے ہیں جو ڈیڑھ ٹن 1500کلو گرام تک کا وزن اٹھاسکتے ہیں یہ چھوٹی سوزوکی گاڑیوں کی لوڈنگ کی طاقت کے برابر ہے جس میں سوزوکی سے کم خرچہ آتا ہے۔
بیوپاریوں کے مطابق گدھوں کا اتوار بازار صبح 9بجے سے لگ جاتا ہے اور گدھوں کی خریدوفروخت 3بجے تک جاری رہتی ہے عموماً گدھوں کے ساتھ گدھا گاڑیاں بھی فروخت کی جاتی ہیں نئی اور مضبوط گاڑیوں کی قیمت 40 سے 50ہزار روپے ہے جبکہ پرانی اور قابل مرمت گاڑیاں 10سے 15ہزار روپے میں مل جاتی ہیں۔
بیوپاریوں کے مطابق شہر میں تجارتی سرگرمیاں بڑھنے سے گدھا گاڑیوں کی طلب میں بھی اضافہ ہورہا ہے اب گدھا گاڑیاں سازوسامان کی ترسیل کے علاوہ پھل اور سبزیوں کی ریڑھی کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہیں جنھیں ایک سے دوسری جگہ لے جانا آسان ہوتا ہے روزگار کے مواقع بڑھنے کی وجہ سے زیادہ تر غریب مزدور گدھا گاڑیوں کے ذریعے روزگار کمارہے ہیں شہر کے مختلف علاقوں میں کچرا اٹھانے کے لیے بھی گدھا گاڑیوں کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے گدھوں کی طلب بھی بڑھ گئی ہے اور اتوار کو لگنے والے گدھوں کے بازار میں گاہکوں اور گدھے فروخت کرنے والوں کا رش بھی بڑھتا جارہا ہے۔
گدھاگاڑی سے کمائی گئی نصف رقم گدھے کی خوراک پرلگتی ہے
گدھا گاڑیاں چلانے والوں کے مطابق گدھا گاڑی سے یومیہ500 سے800 روپے تک کی آمدن ہوجاتی ہے تاہم نصف رقم گدھے کی خوراک پر خرچ کی جاتی ہے خوراک پر توجہ نہ دی جائے تو گدھا لاغر اور بیمار ہوجاتا ہے جس سے روزی بھی متاثر ہوتی ہے ایک گدھا یومیہ 200 سے 300 روپے تک کی خوراک کھاتا ہے زیادہ خوراک کھلانا بھی نقصان دہ ہے جس کی وجہ سے گدھا بیمار ہوجاتا ہے اور وزن اٹھانے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے۔
گدھا گاڑی چلانے والوں کے مطابق لوڈنگ گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں میں یہ فرق ہے کہ گاڑی کھڑی رہتی ہے تو پٹرول خرچ نہیں ہوتا لیکن گدھا کام نہ بھی کرے تو خوراک کا خرچ اپنی جگہ برقرار ہتا ہے گدھوں کو دن میں وقفہ وقفہ سے 3 سے 4 بار خوراک دی جاتی ہے جس میں سوکھی گھاس، لوسن وغیرہ شامل ہیں گدھے کی خوراک اور صحت کا خیال رکھا جائے تو اس کی عمر بھی بڑھتی ہے ورنہ ایک گدھا دس پندرہ سال بعد بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور اونے پونے فروخت کردیا جاتا ہے۔
بازار میں ملیر سے آنے والے فرید نے بتایا کہ وہ ٹیکسٹائل مل میں نوکری کرتے ہیں جہاں ماہوار 15 ہزار روپے ملتے ہیں انھوں نے پیسے جمع کر کے اپنے جوان بیٹے کو گدھا گاڑی دلوائی ہے جس میں 40 ہزار روپے کا گدھا اور 20ہزار روپے کی گاڑی شامل ہے اس گدھا گاڑی سے رہائشی علاقوں میں پانی کے کین سپلائی کرتے ہیں جس سے گزر بسر ہوجاتی ہے۔
مارکیٹ سے ریس کا گدھا خرید کر لے جانے والے حاجی محمد نے بتایا کہ اس نے مکرانی نسل کا گدھا 50 ہزار روپے میں خریدا ہے جو ابھی کمسن ہے اور اس کو ریس کے لیے تیار کرنے پر مزید لاگت آئے گی حاجی محمد نے بتایا کہ گدھے کی خوبصورتی اس کی قیمت کا تعین کرتی ہے اور شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اس لیے پسند آنے پر 50 ہزار روپے کا گدھا خریدنے میں دیر نہیں لگائی۔
گدھا منڈی میںگدھوں کی آرائشی اشیا بھی فروخت ہونے لگیں
بکرا پیڑی کے قریب لگنے والے گدھوں کے اتوار بازار میں گدھوں کی آرائشی اشیا بھی فروخت کی جاتی ہیں سوزوکی گاڑی میں چلتی پھرتی دکان سجا کر بیٹھے ابراہیم نامی دکاندار نے بتایا کہ ان کی پکی دکان نیوکراچی میں ہے تاہم وہ ہر اتوار کو بکرا پیڑی کے گدھوں کے بازار میں سوزوکی میں گدھوں کا آرائشی سامان فروخت کرتے ہیں جن میں گدھوں کی باگ، کاٹھی، منہ کا کڑا، گلے میں ڈالنے والی سجاوٹی مالائیں اور موتیوں کی لڑیاں شامل ہیں۔
محمد ابراہیم نے بتایا کہ وہ اپنی سوزوکی میں گدھے اور گدھا گاڑیوں کا مکمل سامان فروخت کرتے ہیں اور لیاری کے اتوار بازار کے علاوہ جمعہ کو بھینس کالونی میں لگنے والے بازار میں بھی گاڑی لگاتے ہیں گدھے کی رفتار کم زیادہ کرنے اور اسے موڑنے کے لیے استعمال ہونے والے منہ کے کڑے کی قیمت 50 سے 350روپے تک ہے اسی طرح باگ، لگامیں اور کاٹھیں بھی معیار کے لحاظ سے مختلف قیمتوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ شہر میں لوڈنگ گاڑیوں کے مقابلے میں گدھا گاڑیوں کی تعداد کم ہورہی ہے تاہم کام چل رہا ہے،گدھا گاڑی چلاکر روزگار کمانے والوں کی قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے منافع بھی کم رکھا جاتا ہے اور ہر قیمت کا سامان فروخت کیا جاتا ہے انہوں نے بتایاکہ گدھوں کی دوڑ کے لیے رکھے جانے والے گدھوں کے مالکان اس کی سجاوٹ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور مہنگا سامان بھی خریدلیتے ہیں۔
بکراپیڑی کے اردگردکئی حجام الیکٹرک استروں سے گدھوںکے بال کاٹتے ہیں
گدھوں کی اتوار کو لگنے والی منڈی سے گدھوں کے بال کاٹنے والے حجاموں کا روزگار بھی وابستہ ہے بکرا پیڑی کے اردگرد متعدد حجام گدھوں کے بال کاٹ کر روزی کمارہے ہیں گدھوں کے بال کاٹنے کے لیے اب روایتی ہاتھ کے استروں کے بجائے جنریٹر سے چلنے والے الیکٹرک استرے استعمال کیے جارہے ہیں جن کی مدد سے ایک گدھے کے بال 10سے 15منٹ میں کاٹ دیے جاتے ہیں گرمی کے موسم میں گدھوں کے بال کاٹنے سے گرمی کم لگتی ہے اور گدھا زیادہ چاق و چوبند رہتاہے۔
گدھے کے بال کاٹنے کی اجرت 300روپے تک وصول کی جاتی ہے بڑے گدھوں یا زیادہ عرصے سے بال نہ کٹوانے والے گدھوں کے بال کاٹنے کے لیے 400سے 500 روپے بھی وصول کیے جاتے ہیں۔فروخت کے لیے اتوار بازار آنے والے پہلے گدھوں کے بال کٹوانے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے گدھے کی ظاہری خوبصورتی بڑھ جاتی ہے گدھوں کے حجام اتوار کے روز باآسانی 10سے 15گدھوں کی کٹنگ کرلیتے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گنجان بازاروں میں بڑی لوڈنگ گاڑیوں کا داخلہ مشکل ہونے کی وجہ سے گدھا گاڑیوں کو ترجیح دی جاتی ہے تاہم گدھوں کی قیمت بھی اب آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری سے متصل بکرا پیڑی کے قریب لیاری ایکسپریس وے کے ساتھ ہر اتوار کو گدھوں کی منڈی لگائی جاتی ہے لیاری میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کی وجہ سے یہ منڈی بھی ختم ہوگئی تھی تاہم اب رینجرز کی کاوشوں سے لیاری میں امن قائم ہوگیا ہے اور لیاری کے مکینوں کے ساتھ دیگر علاقوں کے شہری بھی امن کے ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں۔
لیاری کی ہفتہ وار گدھوں کی منڈی میں کراچی بھر سے گدھا گاڑی چلانے والے اور ریس کے گدھوں کے شوقین افراد شرکت کرتے ہیں بازار میں ہر ہفتہ 400 گدھے فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں زیادہ تر سندھ اور بلوچستان کی نسلوں کے گدھے فروخت کیے جاتے ہیں چند سال کے دوران گدھوں کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
جوان اور مضبوط قد کاٹھ کے اوسط گدھے کی قیمت 30سے 40ہزار روپے ہے تاہم 6 فٹ اونچے قد تک کے گدھے بھی فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں جن کی قیمت ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک بتائی جاتی ہے گدھوں کے بیوپاریوں کے مطابق گدھے کی قیمت اس کی ظاہری خوبصورتی، تندرستی، عمر ، رفتار اور وزن اٹھانے کی صلاحیت کی بنا پر طے کی جاتی ہے۔
بوڑھے اور ناتواں گدھے10ہزار روپے تک میں مل جاتے ہیں تاہم کماکر دینے والے گدھوں کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے اتوار بازار میں ایسے بھی گدھے لائے جاتے ہیں جو ڈیڑھ ٹن 1500کلو گرام تک کا وزن اٹھاسکتے ہیں یہ چھوٹی سوزوکی گاڑیوں کی لوڈنگ کی طاقت کے برابر ہے جس میں سوزوکی سے کم خرچہ آتا ہے۔
بیوپاریوں کے مطابق گدھوں کا اتوار بازار صبح 9بجے سے لگ جاتا ہے اور گدھوں کی خریدوفروخت 3بجے تک جاری رہتی ہے عموماً گدھوں کے ساتھ گدھا گاڑیاں بھی فروخت کی جاتی ہیں نئی اور مضبوط گاڑیوں کی قیمت 40 سے 50ہزار روپے ہے جبکہ پرانی اور قابل مرمت گاڑیاں 10سے 15ہزار روپے میں مل جاتی ہیں۔
بیوپاریوں کے مطابق شہر میں تجارتی سرگرمیاں بڑھنے سے گدھا گاڑیوں کی طلب میں بھی اضافہ ہورہا ہے اب گدھا گاڑیاں سازوسامان کی ترسیل کے علاوہ پھل اور سبزیوں کی ریڑھی کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہیں جنھیں ایک سے دوسری جگہ لے جانا آسان ہوتا ہے روزگار کے مواقع بڑھنے کی وجہ سے زیادہ تر غریب مزدور گدھا گاڑیوں کے ذریعے روزگار کمارہے ہیں شہر کے مختلف علاقوں میں کچرا اٹھانے کے لیے بھی گدھا گاڑیوں کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے گدھوں کی طلب بھی بڑھ گئی ہے اور اتوار کو لگنے والے گدھوں کے بازار میں گاہکوں اور گدھے فروخت کرنے والوں کا رش بھی بڑھتا جارہا ہے۔
گدھاگاڑی سے کمائی گئی نصف رقم گدھے کی خوراک پرلگتی ہے
گدھا گاڑیاں چلانے والوں کے مطابق گدھا گاڑی سے یومیہ500 سے800 روپے تک کی آمدن ہوجاتی ہے تاہم نصف رقم گدھے کی خوراک پر خرچ کی جاتی ہے خوراک پر توجہ نہ دی جائے تو گدھا لاغر اور بیمار ہوجاتا ہے جس سے روزی بھی متاثر ہوتی ہے ایک گدھا یومیہ 200 سے 300 روپے تک کی خوراک کھاتا ہے زیادہ خوراک کھلانا بھی نقصان دہ ہے جس کی وجہ سے گدھا بیمار ہوجاتا ہے اور وزن اٹھانے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے۔
گدھا گاڑی چلانے والوں کے مطابق لوڈنگ گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں میں یہ فرق ہے کہ گاڑی کھڑی رہتی ہے تو پٹرول خرچ نہیں ہوتا لیکن گدھا کام نہ بھی کرے تو خوراک کا خرچ اپنی جگہ برقرار ہتا ہے گدھوں کو دن میں وقفہ وقفہ سے 3 سے 4 بار خوراک دی جاتی ہے جس میں سوکھی گھاس، لوسن وغیرہ شامل ہیں گدھے کی خوراک اور صحت کا خیال رکھا جائے تو اس کی عمر بھی بڑھتی ہے ورنہ ایک گدھا دس پندرہ سال بعد بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور اونے پونے فروخت کردیا جاتا ہے۔
بازار میں ملیر سے آنے والے فرید نے بتایا کہ وہ ٹیکسٹائل مل میں نوکری کرتے ہیں جہاں ماہوار 15 ہزار روپے ملتے ہیں انھوں نے پیسے جمع کر کے اپنے جوان بیٹے کو گدھا گاڑی دلوائی ہے جس میں 40 ہزار روپے کا گدھا اور 20ہزار روپے کی گاڑی شامل ہے اس گدھا گاڑی سے رہائشی علاقوں میں پانی کے کین سپلائی کرتے ہیں جس سے گزر بسر ہوجاتی ہے۔
مارکیٹ سے ریس کا گدھا خرید کر لے جانے والے حاجی محمد نے بتایا کہ اس نے مکرانی نسل کا گدھا 50 ہزار روپے میں خریدا ہے جو ابھی کمسن ہے اور اس کو ریس کے لیے تیار کرنے پر مزید لاگت آئے گی حاجی محمد نے بتایا کہ گدھے کی خوبصورتی اس کی قیمت کا تعین کرتی ہے اور شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اس لیے پسند آنے پر 50 ہزار روپے کا گدھا خریدنے میں دیر نہیں لگائی۔
گدھا منڈی میںگدھوں کی آرائشی اشیا بھی فروخت ہونے لگیں
بکرا پیڑی کے قریب لگنے والے گدھوں کے اتوار بازار میں گدھوں کی آرائشی اشیا بھی فروخت کی جاتی ہیں سوزوکی گاڑی میں چلتی پھرتی دکان سجا کر بیٹھے ابراہیم نامی دکاندار نے بتایا کہ ان کی پکی دکان نیوکراچی میں ہے تاہم وہ ہر اتوار کو بکرا پیڑی کے گدھوں کے بازار میں سوزوکی میں گدھوں کا آرائشی سامان فروخت کرتے ہیں جن میں گدھوں کی باگ، کاٹھی، منہ کا کڑا، گلے میں ڈالنے والی سجاوٹی مالائیں اور موتیوں کی لڑیاں شامل ہیں۔
محمد ابراہیم نے بتایا کہ وہ اپنی سوزوکی میں گدھے اور گدھا گاڑیوں کا مکمل سامان فروخت کرتے ہیں اور لیاری کے اتوار بازار کے علاوہ جمعہ کو بھینس کالونی میں لگنے والے بازار میں بھی گاڑی لگاتے ہیں گدھے کی رفتار کم زیادہ کرنے اور اسے موڑنے کے لیے استعمال ہونے والے منہ کے کڑے کی قیمت 50 سے 350روپے تک ہے اسی طرح باگ، لگامیں اور کاٹھیں بھی معیار کے لحاظ سے مختلف قیمتوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ شہر میں لوڈنگ گاڑیوں کے مقابلے میں گدھا گاڑیوں کی تعداد کم ہورہی ہے تاہم کام چل رہا ہے،گدھا گاڑی چلاکر روزگار کمانے والوں کی قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے منافع بھی کم رکھا جاتا ہے اور ہر قیمت کا سامان فروخت کیا جاتا ہے انہوں نے بتایاکہ گدھوں کی دوڑ کے لیے رکھے جانے والے گدھوں کے مالکان اس کی سجاوٹ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور مہنگا سامان بھی خریدلیتے ہیں۔
بکراپیڑی کے اردگردکئی حجام الیکٹرک استروں سے گدھوںکے بال کاٹتے ہیں
گدھوں کی اتوار کو لگنے والی منڈی سے گدھوں کے بال کاٹنے والے حجاموں کا روزگار بھی وابستہ ہے بکرا پیڑی کے اردگرد متعدد حجام گدھوں کے بال کاٹ کر روزی کمارہے ہیں گدھوں کے بال کاٹنے کے لیے اب روایتی ہاتھ کے استروں کے بجائے جنریٹر سے چلنے والے الیکٹرک استرے استعمال کیے جارہے ہیں جن کی مدد سے ایک گدھے کے بال 10سے 15منٹ میں کاٹ دیے جاتے ہیں گرمی کے موسم میں گدھوں کے بال کاٹنے سے گرمی کم لگتی ہے اور گدھا زیادہ چاق و چوبند رہتاہے۔
گدھے کے بال کاٹنے کی اجرت 300روپے تک وصول کی جاتی ہے بڑے گدھوں یا زیادہ عرصے سے بال نہ کٹوانے والے گدھوں کے بال کاٹنے کے لیے 400سے 500 روپے بھی وصول کیے جاتے ہیں۔فروخت کے لیے اتوار بازار آنے والے پہلے گدھوں کے بال کٹوانے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے گدھے کی ظاہری خوبصورتی بڑھ جاتی ہے گدھوں کے حجام اتوار کے روز باآسانی 10سے 15گدھوں کی کٹنگ کرلیتے ہیں۔