پورٹ قاسم پر پیکنگ ٹیئر ویٹ قوانین پر عمل نہ ہونے کا انکشاف
خالص وزن کے بجائے پروڈکٹ کی پیکنگ شامل کرکے ویلیواسیسمنٹ کی جارہی ہے
پاکستان کسٹمز پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں گرین چینل کے ناجائز استعمال کے بعد درآمدی مصنوعات کی ضروری پیکنگ اورٹیئرویٹ کے قوانین پر بھی عمل درآمد نہ کرکے درآمدکنندگان کو ہراساں کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ انکشاف ایک سرفہرست درآمدکنندہ کی جانب سے کلکٹرپورٹ قاسم چوہدری محمد جاوید کو بھیجے گئے ایک مکتوب میں کیا گیا ہے جس میں متاثرہ درآمدکنندہ کمپنی نے کہاکہ متعدد بار یاد دہانی کے باوجود کلکٹریٹ میں تعینات ایک اعلیٰ افسر نامعلوم مفادات کی بنا پر درآمدکنندگان کو مستقل ہراساں کررہا ہے۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ یہ واضح قانون ہے کہ ''لازم پیکنگ یا اسینشل پیکنگ'' کو''اضافی وزن یا ٹیئرویٹ'' تصورکیا جائے گا اور متعلقہ پروڈکٹ کی ویلیو میں اسے شامل نہیں کیا جائے گا جس کی تصدیق ڈی جی کسٹمز ویلیوایشن اورممبرکسٹمز زاہدکھوکھر نے بھی کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ''اسینشل پیکنگ سے مرادایسی پیکنگ جس سے کسی پروڈکٹ کوپیک کیاجاتا ہے اور اس پیکنگ کا وزن اس پروڈکٹ کی ویلیو اسیسمنٹ میں شامل نہیں کیا جا سکتا بلکہ نیٹ ویٹ پر ویلیو اسیس کی جاتی ہے لیکن ان حقائق کے باوجود پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے اعلیٰ حکام اپنے ماتحت افسران کو اس بات کی اجازت نہیں دے رہے بلکہ متاثرہ درآمدکنندگان کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں مزید تاخیرپیدا کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
درآمدکنندہ کا موقف ہے کہ کنسائمنٹس طویل مدت تک بندرگاہ پر نہیں چھوڑسکتے کیونکہ ان کے چوری یا پروڈکٹس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ محکمہ کسٹمز کی جانب سے لیدراور ٹائرویکس کے ایک کنسائمنٹ کی نیٹ ویٹ پروسیسنگ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے متعلقہ درآمدکنندہ نے لاہور ہائی کورٹ میںپیٹیشن نمبر 18274/2015 دائرکی تھی جس پرعدالت نے متعلقہ کسٹمزکلکٹریٹ کو اپنے 15دسمبر 2011 کے فیصلے پرعمل درآمد کا حکم صادر کیا تھا اور عدالت نے ڈائریکٹر کسٹمز ویلیوایشن کے فیصلے کو ریفرکرتے ہوئے کنسائنمنٹس کی اسیسمنٹ میں اسینشل پیکنگ کو شامل نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، عدالت کے ان واضح فیصلوں کے باوجود پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں درآمدی شعبے کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
قانونی درآمدکنندگان نے ان حقائق کے تناظر میں ایف آئی اے اورقومی احتساب بیورو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پورٹ قاسم کسٹمزکلکٹریٹ میں تعینات اعلیٰ افسران ودیگر حکام کے خلاف اس ضمن میں فوری تحقیقات کرتے ہوئے سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائیں تاکہ ٹریڈ سیکٹر کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں بلاجوازتاخیر اور ہراساں ہونے سے بچ سکے۔
یہ انکشاف ایک سرفہرست درآمدکنندہ کی جانب سے کلکٹرپورٹ قاسم چوہدری محمد جاوید کو بھیجے گئے ایک مکتوب میں کیا گیا ہے جس میں متاثرہ درآمدکنندہ کمپنی نے کہاکہ متعدد بار یاد دہانی کے باوجود کلکٹریٹ میں تعینات ایک اعلیٰ افسر نامعلوم مفادات کی بنا پر درآمدکنندگان کو مستقل ہراساں کررہا ہے۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ یہ واضح قانون ہے کہ ''لازم پیکنگ یا اسینشل پیکنگ'' کو''اضافی وزن یا ٹیئرویٹ'' تصورکیا جائے گا اور متعلقہ پروڈکٹ کی ویلیو میں اسے شامل نہیں کیا جائے گا جس کی تصدیق ڈی جی کسٹمز ویلیوایشن اورممبرکسٹمز زاہدکھوکھر نے بھی کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ''اسینشل پیکنگ سے مرادایسی پیکنگ جس سے کسی پروڈکٹ کوپیک کیاجاتا ہے اور اس پیکنگ کا وزن اس پروڈکٹ کی ویلیو اسیسمنٹ میں شامل نہیں کیا جا سکتا بلکہ نیٹ ویٹ پر ویلیو اسیس کی جاتی ہے لیکن ان حقائق کے باوجود پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے اعلیٰ حکام اپنے ماتحت افسران کو اس بات کی اجازت نہیں دے رہے بلکہ متاثرہ درآمدکنندگان کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں مزید تاخیرپیدا کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
درآمدکنندہ کا موقف ہے کہ کنسائمنٹس طویل مدت تک بندرگاہ پر نہیں چھوڑسکتے کیونکہ ان کے چوری یا پروڈکٹس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ محکمہ کسٹمز کی جانب سے لیدراور ٹائرویکس کے ایک کنسائمنٹ کی نیٹ ویٹ پروسیسنگ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے متعلقہ درآمدکنندہ نے لاہور ہائی کورٹ میںپیٹیشن نمبر 18274/2015 دائرکی تھی جس پرعدالت نے متعلقہ کسٹمزکلکٹریٹ کو اپنے 15دسمبر 2011 کے فیصلے پرعمل درآمد کا حکم صادر کیا تھا اور عدالت نے ڈائریکٹر کسٹمز ویلیوایشن کے فیصلے کو ریفرکرتے ہوئے کنسائنمنٹس کی اسیسمنٹ میں اسینشل پیکنگ کو شامل نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، عدالت کے ان واضح فیصلوں کے باوجود پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں درآمدی شعبے کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
قانونی درآمدکنندگان نے ان حقائق کے تناظر میں ایف آئی اے اورقومی احتساب بیورو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پورٹ قاسم کسٹمزکلکٹریٹ میں تعینات اعلیٰ افسران ودیگر حکام کے خلاف اس ضمن میں فوری تحقیقات کرتے ہوئے سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائیں تاکہ ٹریڈ سیکٹر کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں بلاجوازتاخیر اور ہراساں ہونے سے بچ سکے۔