دبئی دبئی ہے پہلا حصہ
دبئی کے اہل نظر حکمرانوں کے اس انوکھے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا اردن کے عبدل ناصر رحل کے سر ہے۔
SHAKAI:
فروری کا مہینہ ہمارے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس ماہ کے دوران ہماری زندگی کے کئی اہم واقعات رونما ہوئے ہیں ، جن میں سب سے اہم واقعہ ہماری اس جہان فانی میں آمد ہے۔ دبئی میں ہماری آمد بھی اسی مہینے کے اوائل میں ہوئی۔
قصہ کوتاہ کہ ہمارے صاحبزادے جو بسلسلہ روزگار عرصہ دراز سے دبئی میں اپنی اہلیہ اور شیرخوار بیٹے کے ساتھ مقیم ہیں ہم سے اصرار پر اصرار کر رہے تھے کہ ہم دبئی کا چکر ضرور لگائیں۔ ان کی خواہش کی تکمیل کے لیے بالآخر ہم معہ اہلیہ فروری کے اوائل میں دبئی پہنچ گئے۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو موسم بہار کی تازہ ہوا کے جھونکے نے ہمیں مسحور کردیا۔ بقول شاعر:
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
موسم کی بات نکلی ہے تو اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے:
دل کا موسم اگر سہانا ہو
سارے موسم حسین لگتے ہیں
لاہور کے بارے میں مشہور ہے کہ ''جنے لاہور نئی ویکھیا او جمیا ای نئیں'' سو دبئی کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ دبئی آنے سے پہلے اس کی شہرت کے ہم نے بڑے چرچے سنے تھے مگر ''شنید کے بود مانند دیدن'' کے مصداق دبئی میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ بیان سے باہر ہے گویا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
دبئی میں پہلی مرتبہ آنے والے کی کیفیت land Alice in Wonder جیسی ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ سیاحوں کی جنت ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ دبئی ایک لق و دق صحرا ہوا کرتا تھا۔ اس وقت شاید کسی کے خواب وخیال صحرا میں بھی بہ ہوگا کہ یہ خطہ پوری دنیا کے لیے ایک مرکز+کشش بن جائے گا، مگر یہ سارا کمال ایک مخلص اور Visionary قیادت کا ہے جس نے دبئی کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ مصور پاکستان علامہ اقبال نے بالکل بجا فرمایا تھا:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
دبئی میں قابل دید مقامات کا کوئی شمار نہیں تب ہی تو دنیا کے گوشے گوشے سے سیاح ایک مقناطیسی کشش کے ذریعے یہاں کھینچے چلے آتے ہیں۔ ان Torist Attrations کو بیان کرنا تو درکنار ان کا شمار کرنا بھی دریا کوکوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ ان کا محض تذکرہ ہی کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی اختصار کے ساتھ۔
دبئی آمد کے تیسرے دن ہم نے جس مقام کو دیکھنے کا انتخاب کیا وہ ہے Dubai Miracle Garden اس کو دیکھنے سے پہلے اس کا تصورکرنا بھی ناممکن ہے۔ صحرا میں اتنا حسین گلشن بھی ہوسکتا ہے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ 72000 مربع میٹر پر محیط اس گلستان میں 250 million پودوں پر 120 اقسام کے 50 million سے زیادہ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ بقول اقبال:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
نیلے نیلے' اودے اودے' پیلے پیلے پیرہن
دبئی کے اہل نظر حکمرانوں کے اس انوکھے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا اردن کے عبدل ناصر رحل کے سر ہے۔ یہ باغ نومبر سے اپریل تک عوام کے لیے کھلا رہتا ہے۔ اس سال اس کا یہ چھٹا Season تھا۔ اس گلشن بے مثال کو دنیا کا سب سے بڑا گلستان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ گزشتہ سال اس نے کئی عالمی ریکارڈ توڑے جن میں Emirates A380 ہوائی جہاز کے Full Size Replica کی نقاب کشائی بھی شامل تھی جس کو پھولوں سے بنایا گیا تھا۔
اس باغ کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں پھولوں کو مختلف شکلوں میں سجایا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ باغ حسن انتظام کا قابل رشک شاہکار ہے جس میں وسیع ترین پارکنگ سے لے کر بہترین ٹوائلٹس، فرسٹ ایڈ روم، عبادتی گوشوں اور خوبصورت Stalls کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بزرگ شہریوں اور معذور افراد کے لیے وہیل چیئرز اورگاڑیوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ دو سال سے کم عمرکے بچے اور وہیل چیئر والے افراد اس باغ کی مفت سیرکرسکتے ہیں۔ یہ باغ کیا ہے ایک حیرت کدہ ہے جس سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ اقبال صفی پوری (مرحوم) نے شاید ایسے ہی کسی موقعے کے حوالے سے یہ شعر کہا ہوگا:
اب ہم پہ کھلا یہ راز چمن الجھا کے بہاروں میں دامن
کانٹوں سے گزرنا آساں تھا پھولوں سے نکلنا مشکل ہے
دبئی میں ہمیں جس دوسری جگہ نے بے حد متاثر کیا وہ ہے یہاں کا Global Village۔ جیساکہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے Global Village دنیا کے مختلف ممالک کا آئینہ دار ہے جس میں ان کی صنعتیں اور ثقافتیں شامل ہیں۔ اسے ایک خوبصورت دھنک کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ 75 رنگا رنگ ثقافتوں پر مشتمل اس گلوبل ولیج میں 27 ممالک کے خوبصورت نمایندہ پویلین شامل ہیں جن میں وطن عزیز پاکستان کا پویلین بھی قابل ذکر ہے۔ شارع شیخ محمد بن زاید پر واقع Global Village۔ 1.6 ملین مربع میٹر پر محیط ہے، اگرچہ یہ ولیج دیکھنے والوں کے لیے صبح سے ہی کھل جاتا ہے تاہم اسے دیکھنے کا اصل لطف شام ہی کو آتا ہے جب یہ رنگا رنگ روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔
Global Village کا افتتاح 1997 میں ہوا تھا مگر تب یہ کسی اور جگہ پر واقع تھا۔ چونکہ اس کے لیے وسیع ترین رقبہ درکار تھا اس لیے اس کی جگہ تبدیل کرنا پڑی۔ اس کی موجودہ وسعت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اطراف 18300پارکنگ Slots ہیں۔ رات کے وقت Global Village میں ایک عجب سماں ہوتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے بھانت بھانت کے لوگ یہاں آکر نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ مختلف ممالک کی سوغات بھی خریدتے ہیں۔ کھانے پینے کے شوقین لوگوں کے لیے تو یہ جگہ جنت سے کم نہیں کیونکہ یہاں 23 خوبصورت ریستوران اور 120 کھانے پینے کے چھوٹے Stalls ہیں۔
اس کے علاوہ یہاں آکر لوگ Joy Rides، آتش بازی کے مظاہروں اور Concerts سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بازی گروں کے تماشے اس کے علاوہ ہیں جنھیں بڑے اور بچے یکساں شوق سے دیکھتے ہیں۔ گلوبل ولیج کا یہ میلہ ہفتے کے ساتوں دن جاری رہتا ہے لیکن پیر کے دن یہاں صرف فیملی والے ہی داخل ہوسکتے ہیں۔ گلوبل ولیج کو مشرق وسطیٰ ، مشرق بعید، یورپ، افریقہ، امریکا اور جنوبی ایشیا کے خطوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا ایریا متحدہ عرب امارات (UAE)، سعودیہ عرب، عراق، یمن، لبنان، شام، بحرین، عمان، ایران، کویت اور اردن پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ خلیفہ فاؤنڈیشن کے لیے ایک الگ جگہ مختص ہے۔
مشرق بعید کا حصہ چین، تھائی لینڈ، جاپان، کوریا، انڈونیشیا اور فلپائن پر مشتمل ہے۔ یورپ کے لیے مختص ایریا میں ترکی، روس، بوسنیا اور UK شامل ہیں۔ افریقہ والا حصہ مصر اور مراکش پر مشتمل ہے۔ مصر کا پویلین اہرام کی شکل کا ہے جو قدیم مصری تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکا کا حصہ مکمل طور پر امریکا کے لیے مختص ہے۔ جنوبی ایشیا کے حصے میں پاکستان، افغانستان، ہندوستان، سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
یوں تو ہر ملک اور خطے کے پویلین اپنی اپنی صنعتوں اور تہذیبوں کی نمایندگی کرتے ہیں اور ہر ایک کی اپنی کشش ہے لیکن افریقہ کا پویلین اپنے مخصوص انداز اور تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہے۔ گلوبل ولیج کا تفصیلی دورہ کرنے کے لیے شاید ایک ماہ کا عرصہ بھی کم ہوگا تاہم ایک عام Visitor کے لیے محض سرسری نگاہ ڈالنے کے واسطے کم سے کم چار پانچ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
فروری کا مہینہ ہمارے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس ماہ کے دوران ہماری زندگی کے کئی اہم واقعات رونما ہوئے ہیں ، جن میں سب سے اہم واقعہ ہماری اس جہان فانی میں آمد ہے۔ دبئی میں ہماری آمد بھی اسی مہینے کے اوائل میں ہوئی۔
قصہ کوتاہ کہ ہمارے صاحبزادے جو بسلسلہ روزگار عرصہ دراز سے دبئی میں اپنی اہلیہ اور شیرخوار بیٹے کے ساتھ مقیم ہیں ہم سے اصرار پر اصرار کر رہے تھے کہ ہم دبئی کا چکر ضرور لگائیں۔ ان کی خواہش کی تکمیل کے لیے بالآخر ہم معہ اہلیہ فروری کے اوائل میں دبئی پہنچ گئے۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو موسم بہار کی تازہ ہوا کے جھونکے نے ہمیں مسحور کردیا۔ بقول شاعر:
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
موسم کی بات نکلی ہے تو اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے:
دل کا موسم اگر سہانا ہو
سارے موسم حسین لگتے ہیں
لاہور کے بارے میں مشہور ہے کہ ''جنے لاہور نئی ویکھیا او جمیا ای نئیں'' سو دبئی کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ دبئی آنے سے پہلے اس کی شہرت کے ہم نے بڑے چرچے سنے تھے مگر ''شنید کے بود مانند دیدن'' کے مصداق دبئی میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ بیان سے باہر ہے گویا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
دبئی میں پہلی مرتبہ آنے والے کی کیفیت land Alice in Wonder جیسی ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ سیاحوں کی جنت ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ دبئی ایک لق و دق صحرا ہوا کرتا تھا۔ اس وقت شاید کسی کے خواب وخیال صحرا میں بھی بہ ہوگا کہ یہ خطہ پوری دنیا کے لیے ایک مرکز+کشش بن جائے گا، مگر یہ سارا کمال ایک مخلص اور Visionary قیادت کا ہے جس نے دبئی کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ مصور پاکستان علامہ اقبال نے بالکل بجا فرمایا تھا:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
دبئی میں قابل دید مقامات کا کوئی شمار نہیں تب ہی تو دنیا کے گوشے گوشے سے سیاح ایک مقناطیسی کشش کے ذریعے یہاں کھینچے چلے آتے ہیں۔ ان Torist Attrations کو بیان کرنا تو درکنار ان کا شمار کرنا بھی دریا کوکوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ ان کا محض تذکرہ ہی کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی اختصار کے ساتھ۔
دبئی آمد کے تیسرے دن ہم نے جس مقام کو دیکھنے کا انتخاب کیا وہ ہے Dubai Miracle Garden اس کو دیکھنے سے پہلے اس کا تصورکرنا بھی ناممکن ہے۔ صحرا میں اتنا حسین گلشن بھی ہوسکتا ہے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ 72000 مربع میٹر پر محیط اس گلستان میں 250 million پودوں پر 120 اقسام کے 50 million سے زیادہ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ بقول اقبال:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
نیلے نیلے' اودے اودے' پیلے پیلے پیرہن
دبئی کے اہل نظر حکمرانوں کے اس انوکھے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا اردن کے عبدل ناصر رحل کے سر ہے۔ یہ باغ نومبر سے اپریل تک عوام کے لیے کھلا رہتا ہے۔ اس سال اس کا یہ چھٹا Season تھا۔ اس گلشن بے مثال کو دنیا کا سب سے بڑا گلستان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ گزشتہ سال اس نے کئی عالمی ریکارڈ توڑے جن میں Emirates A380 ہوائی جہاز کے Full Size Replica کی نقاب کشائی بھی شامل تھی جس کو پھولوں سے بنایا گیا تھا۔
اس باغ کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں پھولوں کو مختلف شکلوں میں سجایا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ باغ حسن انتظام کا قابل رشک شاہکار ہے جس میں وسیع ترین پارکنگ سے لے کر بہترین ٹوائلٹس، فرسٹ ایڈ روم، عبادتی گوشوں اور خوبصورت Stalls کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بزرگ شہریوں اور معذور افراد کے لیے وہیل چیئرز اورگاڑیوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ دو سال سے کم عمرکے بچے اور وہیل چیئر والے افراد اس باغ کی مفت سیرکرسکتے ہیں۔ یہ باغ کیا ہے ایک حیرت کدہ ہے جس سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ اقبال صفی پوری (مرحوم) نے شاید ایسے ہی کسی موقعے کے حوالے سے یہ شعر کہا ہوگا:
اب ہم پہ کھلا یہ راز چمن الجھا کے بہاروں میں دامن
کانٹوں سے گزرنا آساں تھا پھولوں سے نکلنا مشکل ہے
دبئی میں ہمیں جس دوسری جگہ نے بے حد متاثر کیا وہ ہے یہاں کا Global Village۔ جیساکہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے Global Village دنیا کے مختلف ممالک کا آئینہ دار ہے جس میں ان کی صنعتیں اور ثقافتیں شامل ہیں۔ اسے ایک خوبصورت دھنک کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ 75 رنگا رنگ ثقافتوں پر مشتمل اس گلوبل ولیج میں 27 ممالک کے خوبصورت نمایندہ پویلین شامل ہیں جن میں وطن عزیز پاکستان کا پویلین بھی قابل ذکر ہے۔ شارع شیخ محمد بن زاید پر واقع Global Village۔ 1.6 ملین مربع میٹر پر محیط ہے، اگرچہ یہ ولیج دیکھنے والوں کے لیے صبح سے ہی کھل جاتا ہے تاہم اسے دیکھنے کا اصل لطف شام ہی کو آتا ہے جب یہ رنگا رنگ روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔
Global Village کا افتتاح 1997 میں ہوا تھا مگر تب یہ کسی اور جگہ پر واقع تھا۔ چونکہ اس کے لیے وسیع ترین رقبہ درکار تھا اس لیے اس کی جگہ تبدیل کرنا پڑی۔ اس کی موجودہ وسعت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اطراف 18300پارکنگ Slots ہیں۔ رات کے وقت Global Village میں ایک عجب سماں ہوتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے بھانت بھانت کے لوگ یہاں آکر نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ مختلف ممالک کی سوغات بھی خریدتے ہیں۔ کھانے پینے کے شوقین لوگوں کے لیے تو یہ جگہ جنت سے کم نہیں کیونکہ یہاں 23 خوبصورت ریستوران اور 120 کھانے پینے کے چھوٹے Stalls ہیں۔
اس کے علاوہ یہاں آکر لوگ Joy Rides، آتش بازی کے مظاہروں اور Concerts سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بازی گروں کے تماشے اس کے علاوہ ہیں جنھیں بڑے اور بچے یکساں شوق سے دیکھتے ہیں۔ گلوبل ولیج کا یہ میلہ ہفتے کے ساتوں دن جاری رہتا ہے لیکن پیر کے دن یہاں صرف فیملی والے ہی داخل ہوسکتے ہیں۔ گلوبل ولیج کو مشرق وسطیٰ ، مشرق بعید، یورپ، افریقہ، امریکا اور جنوبی ایشیا کے خطوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا ایریا متحدہ عرب امارات (UAE)، سعودیہ عرب، عراق، یمن، لبنان، شام، بحرین، عمان، ایران، کویت اور اردن پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ خلیفہ فاؤنڈیشن کے لیے ایک الگ جگہ مختص ہے۔
مشرق بعید کا حصہ چین، تھائی لینڈ، جاپان، کوریا، انڈونیشیا اور فلپائن پر مشتمل ہے۔ یورپ کے لیے مختص ایریا میں ترکی، روس، بوسنیا اور UK شامل ہیں۔ افریقہ والا حصہ مصر اور مراکش پر مشتمل ہے۔ مصر کا پویلین اہرام کی شکل کا ہے جو قدیم مصری تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکا کا حصہ مکمل طور پر امریکا کے لیے مختص ہے۔ جنوبی ایشیا کے حصے میں پاکستان، افغانستان، ہندوستان، سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
یوں تو ہر ملک اور خطے کے پویلین اپنی اپنی صنعتوں اور تہذیبوں کی نمایندگی کرتے ہیں اور ہر ایک کی اپنی کشش ہے لیکن افریقہ کا پویلین اپنے مخصوص انداز اور تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہے۔ گلوبل ولیج کا تفصیلی دورہ کرنے کے لیے شاید ایک ماہ کا عرصہ بھی کم ہوگا تاہم ایک عام Visitor کے لیے محض سرسری نگاہ ڈالنے کے واسطے کم سے کم چار پانچ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)