ہمارے بعد اندھیرا نہیں۔۔۔
دیکھا جائے تو اصل قصور حکمرانوں کا ہی ٹھہرے گا جو بعد کے زمانوں میں کوتاہ اندیشی کا شکار رہے۔
سید کاوش رضوی ہمارے درمیان نہیں رہے ایک ترقی پسند اور پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ بنتے دیکھنے والی آنکھ بند ہوگئی۔
بے لوث اور انتھک محنت اور اپنے نظریے سے انمٹ وابستگی جن سیاسی کارکنوں کا طرہ امتیاز تھی وہ اس آخری پیڑھی کے رکن رکین تھے جو اب تقریباً ناپید ہوچکی ہے انھوں نے ترقی پسندی کی شاہراہ پر اپنی جوانی وار دی اور اس راہ پر چلتے ہوئے اپنی شریک حیات اور بچوں کی جائز ضروریات کو بھی بہت محدود رکھا اور خود بھی فقر وفاقہ کی کبھی پرواہ نہ کی اپنے ہاتھ سے کورنگی، شاہ فیصل اور گلبرگ میں محنت کشوں کو پلاٹ اور مکان الاٹ کروائے مگر آخر وقت تک خود کرائے کے مکان میں رہے، وہ بنگال کے شاعر انقلاب نذر الاسلام کے ارشاد کی زندہ تصویر تھے جس نے کہا تھا ''تم نے مرنے کے لیے جنم لیا ہے یا کچھ کرنے کے لیے'' انھوں نے اپنی شاعری میں معاشرے اور تمام محنت کشوں کے جذبات کی ترجمانی کی ان کا مجموعہ کلام ''سرخ دھمال'' 1911 میں شایع ہوکر ہر خاص و عام سے داد تحسین پاچکا تھا اور وہ اپنے دوسرے مجموعے کی تدوین میں مصروف تھے۔
سوبھوگیان چندانی نے ان کے مجموعہ کلام کے پیش لفظ میں لکھا ''سید کاوش رضوی صرف گفتارکے غازی نہیں بلکہ کردار کے غازی بھی ہیں، انھوں نے اپنے نظریے اورآدرش کے لیے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیں ان کے جیل کے ایام اور وہاں کی زندگی کے گوشے اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ آزمائشوں اور امتحانوں سے سرخ رو گزرے اور کسی مرحلے پر پسپائی اور شکست خوردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔''
مشہور ترقی پسند دانشور مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ''حضرت کاوش رضوی اثباتیت اور رجائیت کی متاع بے بہا سے بہرہ ور ہیں۔''
کاوش صاحب کا سن پیدائش 1925 اور وطن امروہہ ہے اور سن وفات 2015 گویا انھوں نے تقریباً 90 برس کی عمر پائی۔ 1978 تک بہت فعال زندگی گزاری اور ہر محاذ پر سرگرم رہے مگر ایک حادثے میں معذوری کے بعد صاحب فراش ہوگئے مگر فعال رہے اور دیگر ساتھیوں کی ہمت افزائی اور رہنمائی کرتے رہے، یہ ان کا جذبہ ہی تھا جس نے انھیں آخر دم تک ذہنی طور پر چاق و چوبند رکھا اور وہ اسی فعالیت کی بنا پر ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں ممتاز رہیں گے۔
انھوں نے اپنی کتاب سرخ دھمال کے دیباچے میں لکھا ''1950 میں عظیم مزدور رہنما مرزا ابراہیم کراچی گولیمار تشریف لائے یادگار جلسہ ہوا ،گولیمار کے جس میدان میں جلسہ کیا گیا وہ مرزا ابراہیم اور دانشور اور ادیب و شاعر احمد ندیم قاسمی نے کارکنوں کے ساتھ مل کر دریاں بچھائیں۔ 1950-51 میں حسرت موہانی جب پاکستان تشریف لائے تو ہم ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے ان کے اعزاز میں ایک تاریخی جلسہ ڈینسو ہال کی لائبریری میں منعقد کیا جلسے سے مولانا حسرت موہانی نے خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ انھیں پاکستان کی فضائیں رومی امارات اور ایرانی شہنشاہیت اور انتہا پسندانہ رجحانات سے زہر آلود نظر آرہی ہیں میرا دم گھٹا جا رہا ہے ایک حبس کا عالم ہے آپ دانشوروں ادیبوں اور صحافیوں نے اگر اس ابھرتی ہوئی فسطائیت اور بنیاد پرست اقدار کے خلاف قدم نہیں بڑھایا تو برصغیر جہنم بن جائے گا۔''
اور تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کی باتیں کس قدر حقیقت پسندانہ تھیں ہر آزاد اور ترقی پسندانہ آواز کوکچلنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے اور پاکستان میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی اپنا کام دکھا رہی ہے۔ حالانکہ مذہب اور دین انسانوں میں محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور رواداری کو فروغ مگر مفاداتی سیاست نے اسے قتل و غارت میں بدل دیا ہے۔
کوئی بھی ملک یا معاشرہ ہوا میں پرورش نہیں پاتا اس کا کلچر اور تاریخی روایات اور مذہبی اقدار اس کے اجتماعی خمیر کا حصہ ہوتی ہیں ان کی آزادانہ نشوونما اور رواداری کا امتزاج ہی انھیں باہم متحد رکھتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے آپ ان میں سے کسی بھی عنصرکو زبردستی دوسرے پر لاگو نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے انتشار پیدا ہوتا ہے ہر قوم کو اپنی روایات اور اقدار سے پیار ہوتا ہے وہ ان کے خون میں رچا بسا ہوتا ہے آپ اس کی نفی نہیں کرسکتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسا کہ دنیا کے دوسرے معاشروں میں ہوتا ہے علم کی ترقی اور معلومات کا تبادلہ اور سماجی شعور میں اضافہ خود ہی ان کے منفی اثرات کو مثبت اثرات میں بدلتا رہتا ہے اور محبت و رواداری آہستہ آہستہ اپنا راستہ بناتی ہوئی معاشرے میں توازن قائم کردیتی ہے۔
بدقسمتی سے ہندوستان اور پاکستان میں یہ قدرتی پراسس بوجوہ جاری نہ رہ سکا جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں بلکہ دونوں ممالک مفاداتی سیاست کی نذر ہوگئے اس کو بڑھاوا دینے میں بیرونی ہاتھ بھی کارفرما رہا ہے اور اب بھی ہے مگر دیکھا جائے تو اصل قصور حکمرانوں کا ہی ٹھہرے گا جو بعد کے زمانوں میں کوتاہ اندیشی کا شکار رہے۔ کاوش صاحب سے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو رہتی تھی اور ان کا تجزیہ حقیقت پسندی پر مبنی ہوتا تھا۔
ان کا یہی کہنا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے ترقی پسند دانشوروں نے اس انتہا پسندی کے فروغ کو روکنے میں وہ پیش رفت نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی روز اول سے۔ اور موجودہ حالات میں ہندوستان کے انتہا پسند ٹولے نے جس طرح پاکستان کے امن پسند عوام کو مایوس کیا ہے اسے اب ہندوستانی حکومت ہی ٹھیک کرسکتی ہے پاکستان کو تحمل کے ساتھ الجھنے کی بجائے اس وقت کا اظہار کرنا چاہیے جب تک ہندوستان اس انتہا پسندی پر قابو نہیں پالیتا کیونکہ وہاں کے عوام کی اکثریت اور دانشوروں کے موجودہ ردعمل نے اس انتہا پسند ٹولے سے اپنی برأت کا اعلان کیا ہے ہمارے لیے بھی یہ گھر کو ٹھیک کرنے کا موقع ہے معاشی طور پر مضبوط پاکستان اور مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے پاک پاکستان ہی اس کا بہترین جواب اور ہمارا مستقبل ہے۔
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے
بے لوث اور انتھک محنت اور اپنے نظریے سے انمٹ وابستگی جن سیاسی کارکنوں کا طرہ امتیاز تھی وہ اس آخری پیڑھی کے رکن رکین تھے جو اب تقریباً ناپید ہوچکی ہے انھوں نے ترقی پسندی کی شاہراہ پر اپنی جوانی وار دی اور اس راہ پر چلتے ہوئے اپنی شریک حیات اور بچوں کی جائز ضروریات کو بھی بہت محدود رکھا اور خود بھی فقر وفاقہ کی کبھی پرواہ نہ کی اپنے ہاتھ سے کورنگی، شاہ فیصل اور گلبرگ میں محنت کشوں کو پلاٹ اور مکان الاٹ کروائے مگر آخر وقت تک خود کرائے کے مکان میں رہے، وہ بنگال کے شاعر انقلاب نذر الاسلام کے ارشاد کی زندہ تصویر تھے جس نے کہا تھا ''تم نے مرنے کے لیے جنم لیا ہے یا کچھ کرنے کے لیے'' انھوں نے اپنی شاعری میں معاشرے اور تمام محنت کشوں کے جذبات کی ترجمانی کی ان کا مجموعہ کلام ''سرخ دھمال'' 1911 میں شایع ہوکر ہر خاص و عام سے داد تحسین پاچکا تھا اور وہ اپنے دوسرے مجموعے کی تدوین میں مصروف تھے۔
سوبھوگیان چندانی نے ان کے مجموعہ کلام کے پیش لفظ میں لکھا ''سید کاوش رضوی صرف گفتارکے غازی نہیں بلکہ کردار کے غازی بھی ہیں، انھوں نے اپنے نظریے اورآدرش کے لیے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیں ان کے جیل کے ایام اور وہاں کی زندگی کے گوشے اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ آزمائشوں اور امتحانوں سے سرخ رو گزرے اور کسی مرحلے پر پسپائی اور شکست خوردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔''
مشہور ترقی پسند دانشور مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ''حضرت کاوش رضوی اثباتیت اور رجائیت کی متاع بے بہا سے بہرہ ور ہیں۔''
کاوش صاحب کا سن پیدائش 1925 اور وطن امروہہ ہے اور سن وفات 2015 گویا انھوں نے تقریباً 90 برس کی عمر پائی۔ 1978 تک بہت فعال زندگی گزاری اور ہر محاذ پر سرگرم رہے مگر ایک حادثے میں معذوری کے بعد صاحب فراش ہوگئے مگر فعال رہے اور دیگر ساتھیوں کی ہمت افزائی اور رہنمائی کرتے رہے، یہ ان کا جذبہ ہی تھا جس نے انھیں آخر دم تک ذہنی طور پر چاق و چوبند رکھا اور وہ اسی فعالیت کی بنا پر ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں ممتاز رہیں گے۔
انھوں نے اپنی کتاب سرخ دھمال کے دیباچے میں لکھا ''1950 میں عظیم مزدور رہنما مرزا ابراہیم کراچی گولیمار تشریف لائے یادگار جلسہ ہوا ،گولیمار کے جس میدان میں جلسہ کیا گیا وہ مرزا ابراہیم اور دانشور اور ادیب و شاعر احمد ندیم قاسمی نے کارکنوں کے ساتھ مل کر دریاں بچھائیں۔ 1950-51 میں حسرت موہانی جب پاکستان تشریف لائے تو ہم ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے ان کے اعزاز میں ایک تاریخی جلسہ ڈینسو ہال کی لائبریری میں منعقد کیا جلسے سے مولانا حسرت موہانی نے خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ انھیں پاکستان کی فضائیں رومی امارات اور ایرانی شہنشاہیت اور انتہا پسندانہ رجحانات سے زہر آلود نظر آرہی ہیں میرا دم گھٹا جا رہا ہے ایک حبس کا عالم ہے آپ دانشوروں ادیبوں اور صحافیوں نے اگر اس ابھرتی ہوئی فسطائیت اور بنیاد پرست اقدار کے خلاف قدم نہیں بڑھایا تو برصغیر جہنم بن جائے گا۔''
اور تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کی باتیں کس قدر حقیقت پسندانہ تھیں ہر آزاد اور ترقی پسندانہ آواز کوکچلنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے اور پاکستان میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی اپنا کام دکھا رہی ہے۔ حالانکہ مذہب اور دین انسانوں میں محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور رواداری کو فروغ مگر مفاداتی سیاست نے اسے قتل و غارت میں بدل دیا ہے۔
کوئی بھی ملک یا معاشرہ ہوا میں پرورش نہیں پاتا اس کا کلچر اور تاریخی روایات اور مذہبی اقدار اس کے اجتماعی خمیر کا حصہ ہوتی ہیں ان کی آزادانہ نشوونما اور رواداری کا امتزاج ہی انھیں باہم متحد رکھتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے آپ ان میں سے کسی بھی عنصرکو زبردستی دوسرے پر لاگو نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے انتشار پیدا ہوتا ہے ہر قوم کو اپنی روایات اور اقدار سے پیار ہوتا ہے وہ ان کے خون میں رچا بسا ہوتا ہے آپ اس کی نفی نہیں کرسکتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسا کہ دنیا کے دوسرے معاشروں میں ہوتا ہے علم کی ترقی اور معلومات کا تبادلہ اور سماجی شعور میں اضافہ خود ہی ان کے منفی اثرات کو مثبت اثرات میں بدلتا رہتا ہے اور محبت و رواداری آہستہ آہستہ اپنا راستہ بناتی ہوئی معاشرے میں توازن قائم کردیتی ہے۔
بدقسمتی سے ہندوستان اور پاکستان میں یہ قدرتی پراسس بوجوہ جاری نہ رہ سکا جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں بلکہ دونوں ممالک مفاداتی سیاست کی نذر ہوگئے اس کو بڑھاوا دینے میں بیرونی ہاتھ بھی کارفرما رہا ہے اور اب بھی ہے مگر دیکھا جائے تو اصل قصور حکمرانوں کا ہی ٹھہرے گا جو بعد کے زمانوں میں کوتاہ اندیشی کا شکار رہے۔ کاوش صاحب سے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو رہتی تھی اور ان کا تجزیہ حقیقت پسندی پر مبنی ہوتا تھا۔
ان کا یہی کہنا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے ترقی پسند دانشوروں نے اس انتہا پسندی کے فروغ کو روکنے میں وہ پیش رفت نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی روز اول سے۔ اور موجودہ حالات میں ہندوستان کے انتہا پسند ٹولے نے جس طرح پاکستان کے امن پسند عوام کو مایوس کیا ہے اسے اب ہندوستانی حکومت ہی ٹھیک کرسکتی ہے پاکستان کو تحمل کے ساتھ الجھنے کی بجائے اس وقت کا اظہار کرنا چاہیے جب تک ہندوستان اس انتہا پسندی پر قابو نہیں پالیتا کیونکہ وہاں کے عوام کی اکثریت اور دانشوروں کے موجودہ ردعمل نے اس انتہا پسند ٹولے سے اپنی برأت کا اعلان کیا ہے ہمارے لیے بھی یہ گھر کو ٹھیک کرنے کا موقع ہے معاشی طور پر مضبوط پاکستان اور مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے پاک پاکستان ہی اس کا بہترین جواب اور ہمارا مستقبل ہے۔
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے