ڈی فیکٹو ڈی جیرو ریاست
وزیراعظم نواز شریف نے بھارت، افغانستان اور ایران سمیت تمام ممالک سے دوستی کی پالیسی اختیار کی
ریاست کے اندر ریاست بنتی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ نے ڈی فیکٹو ریاست ختم نہ کی تو ٹکراؤ ہوگا۔ 2018 کا انتخاب عدلیہ پر ریفرنڈم نہ بن جائے، جب احتساب کمیٹی میں سب کے احتساب کی بات آئی تو میری جماعت بھی پیچھے ہٹ گئی۔ پارلیمان کی خود مختاری ختم ہورہی ہے، جب چیف جسٹس قسم کھا کرکہے میرا سیاسی ایجنڈا نہیں تو تشویش ہوتی ہے۔ 2018کا انتخاب عدلیہ کا ریفرنڈم نہ بن جائے۔ ڈی فیکٹو ریاست احتساب سے ماورا ہے، صرف ڈی جیرو ریاست کا احتساب ہوتا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم صوبوں کے اختیارات کی منتقلی رول بیک کی جا رہی ہے۔ ایسا نہ ہوکہ چھوٹے صوبے اٹھ کھڑے ہوں، پاکستان کو بچانے کی ذمے داری پارلیمنٹ پر ہے۔ سیاست دان اور فلسفی فرحت اﷲ بابر نے سینیٹ میں اپنی آئینی مدت کے اختتام پر الوداعی تقریر میں یہ حقائق بیان کرکے اس ملک کے حقیقی بحران کوآشکار کیا۔
پاکستان دنیا کے ان منفرد ممالک میں شامل ہے جو ووٹ کے ذریعے قائم ہوا ۔ اس ملک کے بانی محمدعلی جناح نے ساری زندگی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی مگر المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے اور نئی ریاست کے قیام کے بعد کبھی ووٹ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ یوں ملک کا اکثریتی حصہ علیحدہ ہوا اور اب پھر یہ بحران مزید شدید ہوگیا ہے۔ صرف اس صدی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو فرحت اﷲ بابرکی تقریر میں بیان کی گئی باتوں کی تصدیق ہوتی ہے ۔
فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو پامال کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی فوجی سربراہ کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کے حق میں نہیں تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے فوجی آمریتوں کو آئینی راستہ دکھانے والے قانون دان شریف الدین پیرزادہ سے مشورہ مانگا ۔ شریف الدین پیرزادہ کے مشورے پر عبوری آئینی حکم (P.C.O) جاری ہوا۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت سینئر ججوں کو سپریم کورٹ سے رخصت کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس جسٹس ارشاد حسن خان پر مشتمل بنچ نے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا تو ججوں نے بغاوت کردی ۔
وکلاء نے تحریک چلائی۔ پرویز مشرف کے فوجی وردی میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے ججوں کو ایک اور عبوری آئینی حکم (P.C.O) کے ذریعے رخصت کیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انتخابات ہوئے اور پہلی دفعد بغیر کسی رکاوٹ کے وفاق، سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پختون خواہ میں عوامی نیشنل پارٹی نے حکومتیں قائم کیں۔ یہ ایک انتہائی مدبرانہ فیصلہ تھا مگر عسکری اسٹیبلشمنٹ نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا، یوں چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں گیلانی حکومت کو مطعون کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ یہ فیصلہ منسوخ ہوا مگر پاکستان بین الاقوامی سطح پر ایک نئے اسکینڈل میں ملوث ہوگیا۔
جب امریکی سینیٹ نے کیری لوگر بل منظورکیا تو جنرل کیانی نے منتخب حکومت کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ایک ایسا بیان جاری کیا جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں دوری پیدا ہوئی۔ ایسا ہی 2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی میرین دستوں کے آپریشن اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ پارلیمنٹ کو پوری دنیا میں ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے واقعے کی تحقیقات کا موقع ملا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے ذریعے صدر کے منتخب اسمبلی کو توڑنے کے اختیارات ختم ہوئے اور 1940کی قرارداد لاہور کے مطابق صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوگئی ، الیکشن کمیشن کی خودمختاری یقینی ہوگئی۔ سیاسیات اور پاکستان کے تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اٹھارہویں ترمیم 1950 میں ہو جاتی تو ملک 1971 میں نہیں ٹوٹتا ۔
وزیراعظم نواز شریف نے بھارت، افغانستان اور ایران سمیت تمام ممالک سے دوستی کی پالیسی اختیار کی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی افغانستان اور ایران کے صدور پاکستان آئے مگر میاں نواز شریف کو بھارتی ایجنٹ قرار دینے کی مہم اچانک شروع ہوئی۔ ایران کے صدر کو ان کے دورئہ پاکستان میں ایک توہین آمیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک وزیر اعظم نواز شریف کی مکمل حمایت کے باوجود لاپتہ افراد کا معاملہ طے نہیں کرپائے۔ وفاقی حکومت نے آئین توڑنے کے الزام میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ وفاقی حکومت کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل اکرم شیخ کی زندگی مشکل ہوگئی۔ جب پرویز مشرف کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری ہوتا اسلام آباد کی سڑکوں پر بم پھٹنے لگتے۔
پرویز مشرف عدالتی سمن کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام آباد میں اپنے گھر سے روانہ ہوئے مگر اسپتال میں داخل ہوگئے۔ پرویز مشرف ایک دفعہ بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ ان کی ضمانت ہوئی اور ملک سے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ تحریک انصاف کے دھرنوں نے حکومت کو مفلوج کردیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے بہیمانہ حملے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں امن و امان کے بارے میں فیصلے کرنے سے محروم ہوگئیں۔ اب خارجہ امور پر وزیر خارجہ اور داخلہ امور پر وزیر داخلہ کی اہمیت کم ہوگئی ۔
احتساب بیورو 2008سے ریلوے کے وزیر جنرل جاوید اشرف قاضی اور دیگر ریٹائرڈ جرنیلوں کے بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات کررہا ہے مگر اب تک یہ معاملات آگے نہیں بڑھے۔ سندھ میں مصطفی کمال کی پارٹی میں ایم کیو ایم کے منتخب اراکین کی شمولیت اور ان کی صوبائی اسمبلی میں رکنیت برقرار رکھنے، بلوچستان میں ثناء اﷲ زہری حکومت کی رخصتی میں نامعلوم افراد کا کردار ہے،جو ڈی فیکٹو اور ڈی جیرو ریاستوں کی حیثیت کو واضح کرتی ہیں۔ پاناما اسکینڈل میں میاں نواز شریف او ر ان کے اہل خانہ کے احتساب اور اس اسکینڈل کی فہرست میں کئی سو افراد جن میں اعلیٰ عدالت کے جج بھی شامل ہیں کے معاملات پر خاموشی سیاسیات کے طلبہ کے ذہنوں میں سوالات ابھارتی ہے۔
آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم نے بھی کئی معاملات واضح کردیے ہیں۔ اس صورتحال میں ڈی فیکٹو اور ڈی جیرو ریاست کے تضادات کے نتیجے میں پاکستان بین الاقوامی منظر نامے میں تنہائی کا شکار ہوگیا ہے۔ گیلانی حکومت اور میاں نواز شریف کی حکومت کی واضح پالیسی تھی کہ غیر ریاستی کرداروں (Non state actors) کا قلع قمع ضروری ہے۔ پاکستان کسی بھی نوعیت کی پراکسی وار کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر مقتدرہ اس پالیسی کے حق میں نہیں تھی۔ یوں مذہبی انتہاپسندی کے مکمل خاتمے اور ریاست کے بیانیے کی تبدیلی کا عمل مکمل نہ ہوا۔ پھر یہ وقت آیا کہ دہشت گردی کی معاونت کے الزام کے دفاع کے لیے چین اور سعودی عرب نے بھی منہ پھیر لیا۔ چین نے سلامتی کونسل میں مولانا مسعود اظہر کو بھارت کے حوالے کرنے کی امریکا اور بھارت کی قرارداد پرکئی دفعہ ویٹوکا حق استعمال کیا تھا۔ اب ہمارا ملک دہشت گردی کی مالیاتی مدد کرنے والے ممالک کی فہرست کے ''گرے ایریا ''میں شامل ہے۔
فرحت اﷲ بابر کا یہ الزام درست ہے کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔ زرداری صاحب نادیدہ قوتوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی جستجو میں شامل ہیں مگر یہ بڑا کمزور راستہ ہے۔ وہ اس راستے پر چل کر میاں نواز شریف اور عمران خان کو تو شکست دے سکتے ہیں مگر اقتدار کے جس کیک کو حاصل کریں گے حقیقتاً ان کے لیے اس کیک میں حصہ بہت کم ہوگا۔ بین الاقوامی صورتحال ملک کے حالات خاص طور پر بلوچستان میں 2000 سے مسلسل آپریشن کے باوجود بلوچ مزاحمت کاروں ''سر مچاروں''کی نوجوان نسل میں مقبولیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ڈی فیکٹو ریاست ختم ہونی چاہیے۔ ریاست کے تمام اداروں پر پارلیمنٹ کی بالادستی ہر موسم اور ہر وقت کی ضرورت ہے۔ صوبوں کو ملنے والی خودمختاری میں مزید اضافہ کر کے وفاق کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے تاریخ کے ایک سنگین موڑ پر سچائی کا علم بلند کیا ہے۔ آصف زرداری نے بابر صاحب کو پارٹی کے ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے مگر یہ بابر صاحب کا نقصان نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کا نقصان ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے مخلص، ایماندار اور اصولی کارکن کوکھو ر ہی ہے۔
پاکستان دنیا کے ان منفرد ممالک میں شامل ہے جو ووٹ کے ذریعے قائم ہوا ۔ اس ملک کے بانی محمدعلی جناح نے ساری زندگی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی مگر المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے اور نئی ریاست کے قیام کے بعد کبھی ووٹ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ یوں ملک کا اکثریتی حصہ علیحدہ ہوا اور اب پھر یہ بحران مزید شدید ہوگیا ہے۔ صرف اس صدی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو فرحت اﷲ بابرکی تقریر میں بیان کی گئی باتوں کی تصدیق ہوتی ہے ۔
فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو پامال کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی فوجی سربراہ کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کے حق میں نہیں تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے فوجی آمریتوں کو آئینی راستہ دکھانے والے قانون دان شریف الدین پیرزادہ سے مشورہ مانگا ۔ شریف الدین پیرزادہ کے مشورے پر عبوری آئینی حکم (P.C.O) جاری ہوا۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت سینئر ججوں کو سپریم کورٹ سے رخصت کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس جسٹس ارشاد حسن خان پر مشتمل بنچ نے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا تو ججوں نے بغاوت کردی ۔
وکلاء نے تحریک چلائی۔ پرویز مشرف کے فوجی وردی میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے ججوں کو ایک اور عبوری آئینی حکم (P.C.O) کے ذریعے رخصت کیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انتخابات ہوئے اور پہلی دفعد بغیر کسی رکاوٹ کے وفاق، سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پختون خواہ میں عوامی نیشنل پارٹی نے حکومتیں قائم کیں۔ یہ ایک انتہائی مدبرانہ فیصلہ تھا مگر عسکری اسٹیبلشمنٹ نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا، یوں چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں گیلانی حکومت کو مطعون کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ یہ فیصلہ منسوخ ہوا مگر پاکستان بین الاقوامی سطح پر ایک نئے اسکینڈل میں ملوث ہوگیا۔
جب امریکی سینیٹ نے کیری لوگر بل منظورکیا تو جنرل کیانی نے منتخب حکومت کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ایک ایسا بیان جاری کیا جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں دوری پیدا ہوئی۔ ایسا ہی 2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی میرین دستوں کے آپریشن اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ پارلیمنٹ کو پوری دنیا میں ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے واقعے کی تحقیقات کا موقع ملا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے ذریعے صدر کے منتخب اسمبلی کو توڑنے کے اختیارات ختم ہوئے اور 1940کی قرارداد لاہور کے مطابق صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوگئی ، الیکشن کمیشن کی خودمختاری یقینی ہوگئی۔ سیاسیات اور پاکستان کے تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اٹھارہویں ترمیم 1950 میں ہو جاتی تو ملک 1971 میں نہیں ٹوٹتا ۔
وزیراعظم نواز شریف نے بھارت، افغانستان اور ایران سمیت تمام ممالک سے دوستی کی پالیسی اختیار کی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی افغانستان اور ایران کے صدور پاکستان آئے مگر میاں نواز شریف کو بھارتی ایجنٹ قرار دینے کی مہم اچانک شروع ہوئی۔ ایران کے صدر کو ان کے دورئہ پاکستان میں ایک توہین آمیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک وزیر اعظم نواز شریف کی مکمل حمایت کے باوجود لاپتہ افراد کا معاملہ طے نہیں کرپائے۔ وفاقی حکومت نے آئین توڑنے کے الزام میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ وفاقی حکومت کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل اکرم شیخ کی زندگی مشکل ہوگئی۔ جب پرویز مشرف کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری ہوتا اسلام آباد کی سڑکوں پر بم پھٹنے لگتے۔
پرویز مشرف عدالتی سمن کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام آباد میں اپنے گھر سے روانہ ہوئے مگر اسپتال میں داخل ہوگئے۔ پرویز مشرف ایک دفعہ بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ ان کی ضمانت ہوئی اور ملک سے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ تحریک انصاف کے دھرنوں نے حکومت کو مفلوج کردیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے بہیمانہ حملے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں امن و امان کے بارے میں فیصلے کرنے سے محروم ہوگئیں۔ اب خارجہ امور پر وزیر خارجہ اور داخلہ امور پر وزیر داخلہ کی اہمیت کم ہوگئی ۔
احتساب بیورو 2008سے ریلوے کے وزیر جنرل جاوید اشرف قاضی اور دیگر ریٹائرڈ جرنیلوں کے بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات کررہا ہے مگر اب تک یہ معاملات آگے نہیں بڑھے۔ سندھ میں مصطفی کمال کی پارٹی میں ایم کیو ایم کے منتخب اراکین کی شمولیت اور ان کی صوبائی اسمبلی میں رکنیت برقرار رکھنے، بلوچستان میں ثناء اﷲ زہری حکومت کی رخصتی میں نامعلوم افراد کا کردار ہے،جو ڈی فیکٹو اور ڈی جیرو ریاستوں کی حیثیت کو واضح کرتی ہیں۔ پاناما اسکینڈل میں میاں نواز شریف او ر ان کے اہل خانہ کے احتساب اور اس اسکینڈل کی فہرست میں کئی سو افراد جن میں اعلیٰ عدالت کے جج بھی شامل ہیں کے معاملات پر خاموشی سیاسیات کے طلبہ کے ذہنوں میں سوالات ابھارتی ہے۔
آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم نے بھی کئی معاملات واضح کردیے ہیں۔ اس صورتحال میں ڈی فیکٹو اور ڈی جیرو ریاست کے تضادات کے نتیجے میں پاکستان بین الاقوامی منظر نامے میں تنہائی کا شکار ہوگیا ہے۔ گیلانی حکومت اور میاں نواز شریف کی حکومت کی واضح پالیسی تھی کہ غیر ریاستی کرداروں (Non state actors) کا قلع قمع ضروری ہے۔ پاکستان کسی بھی نوعیت کی پراکسی وار کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر مقتدرہ اس پالیسی کے حق میں نہیں تھی۔ یوں مذہبی انتہاپسندی کے مکمل خاتمے اور ریاست کے بیانیے کی تبدیلی کا عمل مکمل نہ ہوا۔ پھر یہ وقت آیا کہ دہشت گردی کی معاونت کے الزام کے دفاع کے لیے چین اور سعودی عرب نے بھی منہ پھیر لیا۔ چین نے سلامتی کونسل میں مولانا مسعود اظہر کو بھارت کے حوالے کرنے کی امریکا اور بھارت کی قرارداد پرکئی دفعہ ویٹوکا حق استعمال کیا تھا۔ اب ہمارا ملک دہشت گردی کی مالیاتی مدد کرنے والے ممالک کی فہرست کے ''گرے ایریا ''میں شامل ہے۔
فرحت اﷲ بابر کا یہ الزام درست ہے کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔ زرداری صاحب نادیدہ قوتوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی جستجو میں شامل ہیں مگر یہ بڑا کمزور راستہ ہے۔ وہ اس راستے پر چل کر میاں نواز شریف اور عمران خان کو تو شکست دے سکتے ہیں مگر اقتدار کے جس کیک کو حاصل کریں گے حقیقتاً ان کے لیے اس کیک میں حصہ بہت کم ہوگا۔ بین الاقوامی صورتحال ملک کے حالات خاص طور پر بلوچستان میں 2000 سے مسلسل آپریشن کے باوجود بلوچ مزاحمت کاروں ''سر مچاروں''کی نوجوان نسل میں مقبولیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ڈی فیکٹو ریاست ختم ہونی چاہیے۔ ریاست کے تمام اداروں پر پارلیمنٹ کی بالادستی ہر موسم اور ہر وقت کی ضرورت ہے۔ صوبوں کو ملنے والی خودمختاری میں مزید اضافہ کر کے وفاق کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے تاریخ کے ایک سنگین موڑ پر سچائی کا علم بلند کیا ہے۔ آصف زرداری نے بابر صاحب کو پارٹی کے ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے مگر یہ بابر صاحب کا نقصان نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کا نقصان ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے مخلص، ایماندار اور اصولی کارکن کوکھو ر ہی ہے۔