وزیر اعظم کو توہین عدالت کا نوٹس اور طلبی

عام قانونی رائے تو یہ ہے کہ ریاست کی اعلیٰ عدلیہ ہی یہ فیصلہ کرنے...

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف۔ فوٹو:اے ایف پی

بدھ کو دو بڑی پیش رفتیں ہوئیں' پہلی یہ کہ قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کے خلاف عدالتی حکم پر عملدرآمد کے کیس میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کر کے 27 اگست کو ذاتی طور پر طلب کر لیا ہے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا' ''یوسف رضا گیلانی (سابق وزیر اعظم) کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے۔

27 جون کو عدالت نے راجہ پرویز اشرف پر اعتماد کا اظہار کیا۔ بدقسمتی کی بات ہے وہ عدالتی احکام پر عمل میں ناکام رہے''۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت کی مسلسل اور جان بوجھ کر نافرمانی کی گئی اور وزیر اعظم کی طرف سے حتمی جواب نہ دیا جا سکا۔

دوسری پیش رفت یہ ہوئی کہ حکومت نے توہین عدالت قانون سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور این آر او عمل درآمد کیس میں 12جون اور 27 جولائی کا آرڈر چیلنج کر دیا۔ توہین عدالت قانون کو کالعدم کیے جانے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے حکومت کے اعتراضات کا فیصلہ کیے بغیر قانون کو کالعدم قرار دے کر آئین کی خلاف ورزی کی کیونکہ عدالت صرف آئین میں درج بنیادی حقوق کے اطلاق کی مجاز ہے، عدالت نے خود کیس سن کر آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ریاست کے تینوں ستونوں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کا دائرہ اختیار واضح ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روکا جا سکتا۔ نظرثانی کی ایک اور درخواست میں حکومت نے سپریم کورٹ سے این آر او عمل درآمد کیس میں 12جون اور 27 جولائی کے احکامات واپس لینے کی استدعا کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ عدالت کا حکم ناقابل عمل ہے اور وزیر اعظم اس حکم کے پابند نہیں، عدالت نے وزیر اعظم کو خط لکھنے کی ہدایت کر کے آرٹیکل 248 ذیلی شق ایک کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ سب آئینی اور قانونی معاملات ہیں اور عدالت کے زیر غور بھی ہیں اس لیے ان پر زیادہ بات نہیں کی جا سکتی البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عدالت کی جانب سے پہلے توہین عدالت ترمیمی بل کو کالعدم قرار دینے اور این آر او کیس پر عمل درآمد نہ کرنے پر نئے وزیر اعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے اور تقریباً تین ہفتے بعد عدالت کے روبرو پیش ہونے کے حکم نامے کے اجراء سے حکومت اور عدلیہ کے مابین تنائو کی کیفیت واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ریاست کے یہ دونوں ستون یہ تلقین کرتے ہیں کہ اگر سبھی ادارے آئین کے پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے اپنی خدمات سرانجام دیں تو کسی قسم کی کوئی گڑبڑ پیدا نہیں ہو گی' اس کے باوجود دونوں کو آئینی اور قانونی حوالوں سے ایک دوسرے سے شکایات ہیں۔


عدلیہ کا فیصلہ ہے کہ سوئس حکام کو ہر حال میں خط لکھا جانا چاہیے جب کہ حکومت اب بھی اس موقف پر قائم ہے کہ آئین کے مطابق وہ ایسا خط لکھنے کی پابند نہیں ہے حالانکہ ایک وزیر اعظم اسی موقف کی نذر ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوتا تو پھر کیا ہو گا؟ حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ آئین کے تحت سوئس حکام کو خط نہیں لکھ سکتی تو اس موقف کی تصدیق کون سی اتھارٹی کرے گی؟

عام قانونی رائے تو یہ ہے کہ ریاست کی اعلیٰ عدلیہ ہی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ آئین کے کسی آرٹیکل یا شق کا مطلب کیا ہے، انتظامیہ یا پارلیمنٹ اپنے طور یہ فیصلہ نہیں کر سکتیں کہ ان کے کسی ایکٹ کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے۔ این آر او کیس سے جنم لینے والے قانونی معاملات ہوں یا دیگر آئینی تنازعے، ان پر اعلیٰ عدلیہ ہی اپنے فیصلے کے ذریعے کوئی ایسا راستہ نکال سکتی ہے جسے آئینی و قانونی سند حاصل ہو گی۔

ضد یا ہٹ دھرمی سے ٹکرائو یا تصادم ہی برآمد ہو گا۔ بدھ کو سامنے آنے والی صورتحال کے بعد وہ درمیانی راستہ تلاش کرنا بظاہر زیادہ مشکل ہو گیا ہے جس کے بارے میں چند روز پہلے بات کی گئی تھی۔ نئے وزیر اعظم کو توہین عدالت کے نوٹس کے اجرا اور عدالت میں طلبی پر مختلف نوعیت کی آراء کا اظہار کیا جا رہا ہے' وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ دوسرے وزیر اعظم کو گھر بھیجا گیا تو اس سے کنفیوژن پیدا ہو گا۔

قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار یاسین آزاد نے کہا ہے کہ ایک اور وزیر اعظم کی نااہلی ملک کے مفاد میں نہیں' عدلیہ درمیانی راستہ نکالے۔ انھوں نے کہا کہ این آر او کیس پر من و عن عمل درآمد ہونا چاہیے تاہم کمیشن کے ذریعے سوئس حکام کو خط یا دیگر آپشن پر غور کیا جائے۔

یہ آراء اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں تاہم حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے غیرجمہوری قوتوں کو آگے آنے کا موقع مل جائے اور جمہوریت کی گاڑی' جو بڑی مشکل سے ٹریک پر آئی ہے' ایک بار پھر ڈی ریل نہ ہو جائے۔ ہمارے خیال میں اس مسئلے اور معاملے کا حل کسی متبادل راستے کی تلاش ہی ہو سکتا ہے۔

ایسا راستہ جس پر چل کر آئینی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے اور ریاستی ستونوں کے درمیان تصادم یا اختلافات کے تاثر کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔ یاد رکھیں کہ درمیانی راستہ کا آپشن بھی اس وقت تک کھلا ہے جب تک ٹکرائو نہیں ہوتا، اگر تصادم ہو گیا تو پھر سوائے انتشار، افراتفری اور انارکی کے کچھ نہیں بچے گا۔

Recommended Stories

Load Next Story