نوشتہ دیوار
سیاسی اور نظریاتی اختلافات میں تلخی اور شدت کا وقتی یا ہنگامی طور پر آجانا بلاشبہ کوئی خوشگوار بات نہیں۔
ایک پرانے محاورے ''میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا'' کے مصداق نہ چاہتے ہوئے بھی آج سیاست سے متعلق ایک موضوع پر بات کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ اب یہ معاملہ تمیز' شرافت' اخلاق' انسانیت' تحمل' انصاف' ذہنی پستی اور اجتماعی انارکی سمیت اور بہت سے لمحات فکر کا مجموعہ بن گیا ہے۔
پاناما کیس میں میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمی اور بعدازاں مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہلی کے فیصلوں سے لے کر سینیٹ کے حالیہ ہنگامے اور اس دوران میں ہونے والے ضمنی انتخابات میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی پر زور اور پرشور احتجاجی اور انقلابی تقریروں اور حالیہ چند دنوں میں سیاسی لیڈروں پر سیاہی اور جوتا پھینکنے کی انتہائی قابل افسوس وارداتوں تک جو بھی کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کا سب قومی حوالے سے ہماری عمومی ذہنی ناپختگی اور اہل سیاست کی ناقص سیاسی تربیت کا ایک ایسا منظرنامہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اور اس سے بھی زیادہ قابل مذمت بات یہ ہے کہ اس میں عام کارندوں سے لے کر تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت میں شامل سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کے سربراہ بھی برابر کے شریک ہیں۔
سیاسی اور نظریاتی اختلافات میں تلخی اور شدت کا وقتی یا ہنگامی طور پر آجانا بلاشبہ کوئی خوشگوار بات نہیں لیکن یہ کوئی بہت زیادہ غیرمعمولی بات بھی نہیں کہ لمحاتی گرما گرمی میں کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے لیکن اس کیفیت کا مستقل اظہار اور گھٹیا اور بازاری زبان کا مسلسل استعمال یقیناً ایک ایسا عمل ہے جو انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہے کہ ایک غلط العام تصور کے برعکس نہ محبت میں ہر چیز جائز ہے اور نہ سیاست میں۔اس بحث سے قطع نظر کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط! آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا یا برباد کیا اور عمران خان نیا پاکستان بنا سکتا ہے یا نہیں؟
سب سے پہلے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ تینوں بڑی پارٹیوں کے یہ سربراہ پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے جس پروگرام اور نظام کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اور اس ضمن میں ان کی ذات اور ان کے تھنک ٹینکس کی سوچ' اپروچ اور صلاحیت کیا ہے درست کہ نیتوں کا حال صرف رب دو جہاں ہی جانتا ہے مگر آپ کے اب تک کے اعمال اور ٹریک ریکارڈ ایک ایسی بنیاد یقیناً فراہم کر دیتے ہیں جس سے آپ ان کے وزن اور اہلیت کا ایک عمومی اندازہ ضرور قائم کر سکتے ہیں سو مسلم لیگ ن کے مرکز اور پنجاب' پیپلز پارٹی کے مرکز اور سندھ اور تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا میں پانچ پانچ سال کی کارکردگیاں اس حوالے سے دیکھی جا سکتی ہیں، شرط یہ ہے کہ سب کے لیے رعایت اور جرمانے کا پیمانہ ایک سا ہو اورتجزیہ نگار ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر ارادے اور عمل کا حساب اور احتساب کریں۔
بدقسمتی سے ہمارے عوام' میڈیا' تجزیہ کار اور خود سیاسی رہنما بھی اپنے اپنے مسائل کی وجہ سے اس وقت اس انصاف پسندی' بالغ نظری' برداشت اور کشادگی قلب و نظر سے تقریباً محروم ہیں جن پر کسی مہذب اور باشعور معاشرے کی عمارت استوار ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر فریق اپنے آپ کو سو فی صد صحیح اور دوسرے کو یکسر غلط سمجھتا اور بتاتا ہے۔
ہر ایک کا جلسہ سب سے بڑا کامیاب اور پرہجوم ہوتا ہے اور ہر لیڈر اسٹیج پر اپنے دیدہ اور نادیدہ مخالفین کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرتا ہے جس میں سے اگر گالیوں بڑھکوں اور دھمکیوں کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا اور مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ساری کردار کشی' گالم گلوچ اور ذاتیات پر مبنی ڈرامہ ان عوام کے نام پر کیا جاتا ہے جن کا رول اس سارے تماشے میں کرداروں کے بجائے تماش بینوں کا سا ہو کر رہ گیا ہے کہ ان کا کام صرف گالی دینا یا تالی بجانا رہ گیا ہے۔ تسلیم کہ اس ساری صورت حال میں ہماری تاریخ' جغرافیے' ہمسایوں اور بین الاقوامی سازشوں اور مفادات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
مذہب' مسلک' ذات برادری اور طبقاتی حوالے سے بھی ہم لوگ گوناگوں مسائل کے شکار ہیں۔ صوبائیت' زبان اور کلچر کے تنازعات بھی ہمیں تقسیم کیے رکھتے ہیں مگر کیا یہ مسائل صرف ہم ہی کو درپیش ہیں؟ اور کیا ہر شہری کے بنیادی حقوق یعنی تعلیم' صحت' روز گار' چھت' قانون کی حکمرانی' مساوی اور بلا قیمت انصاف کی فراہمی اور عقیدے کی آزادی کے بغیر کسی سیاسی جماعت کے منشور کا کوئی تصور ممکن ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر ہماری سیاست ان کے بجائے چند شخصیات اور ان کے ذاتی تعصبات اور مفادات کی غلام بن کر کیوں رہ گئی ہے؟
بھانت بھانت کی سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہب کے نام پر چلائی جانے والی نام نہاد تحریکیں یا ان کے حوالے سے سینٹر اسٹیج پر نظر آنے والے چھوٹے بڑے نام اگر ان کی موجودگی سے وطن عزیز کے شہریوں اور اللہ کی مخلوق کی زندگی میں آسانی اور سہولت پیدا نہیں ہوتی تو ان کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہے۔
اگر ان لیڈر حضرات نے ایک دوسرے کو گالیاں ہی دینی ہیں اور الزام تراشیوں کی لڈو ہی کھیلتے رہنا ہے تو انھیں جان لینا چاہیے کہ خدا کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ہر طرف سے جو جوڑ توڑ ہوئے اور اس کا جو ردعمل سامنے آ رہا ہے وہ جیتنے اور ہارنے والوں کے لیے ایک برابر کا لمحہ فکریہ ہے اور وہ یہ کہ اگر بدزبانی اور قومی سلامتی کے اداروں سے مخاصمت کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ سب لوگ نہ صرف عوام کے دلوں سے اتر جائیں گے بلکہ تقدیر اپنا وہ بے رحمانہ فیصلہ بھی سنا دے گی جس میں نہ سر سلامت رہیں گے اور نہ دستاریں۔
اور اگر کوئی بچے گا تو صرف وہ کہ جس نے اپنی ذات پر خلق خدا کی خدمت اور بھلائی کو ترجیح دی اور اداروں کی مضبوطی کے لیے کام اور ان کا احترام کیا۔ اختلاف ضرور کیجیے مگر اس کا مقصد عوام کی بہتری اور فلاح کے راستوں اور طریقوں کی تلاش ہونا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو بے عزت کر کے اپنی دکان چمکانا۔ غلط کام ہمیشہ غلط اور صحیح' صحیح ہوتا ہے چاہے وہ میاں نواز شریف کریں' آصف زرداری یا عمران خان یا کوئی اور۔
پاناما کیس میں میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمی اور بعدازاں مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہلی کے فیصلوں سے لے کر سینیٹ کے حالیہ ہنگامے اور اس دوران میں ہونے والے ضمنی انتخابات میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی پر زور اور پرشور احتجاجی اور انقلابی تقریروں اور حالیہ چند دنوں میں سیاسی لیڈروں پر سیاہی اور جوتا پھینکنے کی انتہائی قابل افسوس وارداتوں تک جو بھی کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کا سب قومی حوالے سے ہماری عمومی ذہنی ناپختگی اور اہل سیاست کی ناقص سیاسی تربیت کا ایک ایسا منظرنامہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اور اس سے بھی زیادہ قابل مذمت بات یہ ہے کہ اس میں عام کارندوں سے لے کر تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت میں شامل سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کے سربراہ بھی برابر کے شریک ہیں۔
سیاسی اور نظریاتی اختلافات میں تلخی اور شدت کا وقتی یا ہنگامی طور پر آجانا بلاشبہ کوئی خوشگوار بات نہیں لیکن یہ کوئی بہت زیادہ غیرمعمولی بات بھی نہیں کہ لمحاتی گرما گرمی میں کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے لیکن اس کیفیت کا مستقل اظہار اور گھٹیا اور بازاری زبان کا مسلسل استعمال یقیناً ایک ایسا عمل ہے جو انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہے کہ ایک غلط العام تصور کے برعکس نہ محبت میں ہر چیز جائز ہے اور نہ سیاست میں۔اس بحث سے قطع نظر کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط! آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا یا برباد کیا اور عمران خان نیا پاکستان بنا سکتا ہے یا نہیں؟
سب سے پہلے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ تینوں بڑی پارٹیوں کے یہ سربراہ پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے جس پروگرام اور نظام کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اور اس ضمن میں ان کی ذات اور ان کے تھنک ٹینکس کی سوچ' اپروچ اور صلاحیت کیا ہے درست کہ نیتوں کا حال صرف رب دو جہاں ہی جانتا ہے مگر آپ کے اب تک کے اعمال اور ٹریک ریکارڈ ایک ایسی بنیاد یقیناً فراہم کر دیتے ہیں جس سے آپ ان کے وزن اور اہلیت کا ایک عمومی اندازہ ضرور قائم کر سکتے ہیں سو مسلم لیگ ن کے مرکز اور پنجاب' پیپلز پارٹی کے مرکز اور سندھ اور تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا میں پانچ پانچ سال کی کارکردگیاں اس حوالے سے دیکھی جا سکتی ہیں، شرط یہ ہے کہ سب کے لیے رعایت اور جرمانے کا پیمانہ ایک سا ہو اورتجزیہ نگار ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر ارادے اور عمل کا حساب اور احتساب کریں۔
بدقسمتی سے ہمارے عوام' میڈیا' تجزیہ کار اور خود سیاسی رہنما بھی اپنے اپنے مسائل کی وجہ سے اس وقت اس انصاف پسندی' بالغ نظری' برداشت اور کشادگی قلب و نظر سے تقریباً محروم ہیں جن پر کسی مہذب اور باشعور معاشرے کی عمارت استوار ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر فریق اپنے آپ کو سو فی صد صحیح اور دوسرے کو یکسر غلط سمجھتا اور بتاتا ہے۔
ہر ایک کا جلسہ سب سے بڑا کامیاب اور پرہجوم ہوتا ہے اور ہر لیڈر اسٹیج پر اپنے دیدہ اور نادیدہ مخالفین کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرتا ہے جس میں سے اگر گالیوں بڑھکوں اور دھمکیوں کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا اور مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ساری کردار کشی' گالم گلوچ اور ذاتیات پر مبنی ڈرامہ ان عوام کے نام پر کیا جاتا ہے جن کا رول اس سارے تماشے میں کرداروں کے بجائے تماش بینوں کا سا ہو کر رہ گیا ہے کہ ان کا کام صرف گالی دینا یا تالی بجانا رہ گیا ہے۔ تسلیم کہ اس ساری صورت حال میں ہماری تاریخ' جغرافیے' ہمسایوں اور بین الاقوامی سازشوں اور مفادات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
مذہب' مسلک' ذات برادری اور طبقاتی حوالے سے بھی ہم لوگ گوناگوں مسائل کے شکار ہیں۔ صوبائیت' زبان اور کلچر کے تنازعات بھی ہمیں تقسیم کیے رکھتے ہیں مگر کیا یہ مسائل صرف ہم ہی کو درپیش ہیں؟ اور کیا ہر شہری کے بنیادی حقوق یعنی تعلیم' صحت' روز گار' چھت' قانون کی حکمرانی' مساوی اور بلا قیمت انصاف کی فراہمی اور عقیدے کی آزادی کے بغیر کسی سیاسی جماعت کے منشور کا کوئی تصور ممکن ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر ہماری سیاست ان کے بجائے چند شخصیات اور ان کے ذاتی تعصبات اور مفادات کی غلام بن کر کیوں رہ گئی ہے؟
بھانت بھانت کی سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہب کے نام پر چلائی جانے والی نام نہاد تحریکیں یا ان کے حوالے سے سینٹر اسٹیج پر نظر آنے والے چھوٹے بڑے نام اگر ان کی موجودگی سے وطن عزیز کے شہریوں اور اللہ کی مخلوق کی زندگی میں آسانی اور سہولت پیدا نہیں ہوتی تو ان کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہے۔
اگر ان لیڈر حضرات نے ایک دوسرے کو گالیاں ہی دینی ہیں اور الزام تراشیوں کی لڈو ہی کھیلتے رہنا ہے تو انھیں جان لینا چاہیے کہ خدا کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ہر طرف سے جو جوڑ توڑ ہوئے اور اس کا جو ردعمل سامنے آ رہا ہے وہ جیتنے اور ہارنے والوں کے لیے ایک برابر کا لمحہ فکریہ ہے اور وہ یہ کہ اگر بدزبانی اور قومی سلامتی کے اداروں سے مخاصمت کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ سب لوگ نہ صرف عوام کے دلوں سے اتر جائیں گے بلکہ تقدیر اپنا وہ بے رحمانہ فیصلہ بھی سنا دے گی جس میں نہ سر سلامت رہیں گے اور نہ دستاریں۔
اور اگر کوئی بچے گا تو صرف وہ کہ جس نے اپنی ذات پر خلق خدا کی خدمت اور بھلائی کو ترجیح دی اور اداروں کی مضبوطی کے لیے کام اور ان کا احترام کیا۔ اختلاف ضرور کیجیے مگر اس کا مقصد عوام کی بہتری اور فلاح کے راستوں اور طریقوں کی تلاش ہونا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو بے عزت کر کے اپنی دکان چمکانا۔ غلط کام ہمیشہ غلط اور صحیح' صحیح ہوتا ہے چاہے وہ میاں نواز شریف کریں' آصف زرداری یا عمران خان یا کوئی اور۔