نواز شریف سے یہ سلوک افسوس
سینیٹ میں نواز شریف کے امیدوار کا ہار جانا میاں صاحب کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
نارووال، سیالکوٹ اور لاہور میں مسلم لیگ نون کے تین لیڈروں سے یکے بعد دیگرے جو بد سلوکی اور بیہودگی کی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ آیاہمارے دلوں میں کسی پاکستانی کی کوئی عزت، کوئی توقیر، کوئی حُرمت باقی رہ گئی ہے؟ایک دنیا سناٹے میں ہے۔ ہمارے ایک عظیم شاعر کو کئی عشرے قبل جب لینن امن انعام سے نوازا گیا، ہم نے اجتماعی سطح پر اُس کی بھی پگڑی اچھال دی تھی۔ اُسے ''اشتراکیوں اور ملحدوں کا ایجنٹ'' کہا گیا۔
ساری دنیا میں اُس کا احترام کیا جارہا تھا اور ہم اُسے راندئہ درگاہ قرار دینے پر تُلے بیٹھے تھے۔ ہمارے دو پاکستانیوں کو نوبل انعام ایسے عالمی اعزاز سے نوازا گیا، تب بھی ملک بھر میں ایسے افراد کی تعداد نہایت ہی قلیل تھی جنہوں نے اِ س اعزاز کو اپنا اعزاز اور اپنی خوشی کہا۔ دونوں کے بارے میں ہمارے ہاں بالعموم یہ بات بکثرت کہی گئی کہ ''مغرب نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر ان دونوں کو نوبل انعام سے نوازا ہے۔''
صرف وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی میں یہ مناظر رُونما نہیں ہُوئے، باقی عالمِ اسلام کا بھی کم وبیش یہی حال دیکھا گیا ہے۔ مصر کے ڈاکٹر نجیب محفوظ کو ادب کا، بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس کو معاشیات کا، ایران کی ڈاکٹر شیریں عبادی کو امن کا اور ترکی کے اورہان پامک کو ادب کا ۔۔۔۔اِن سب نامور مسلمانوں کو نوبل انعام دیے گئے لیکن اُن کے اپنے اپنے ممالک میں کسی کا بھی قومی سطح پر اکرام نہیں کیا گیا۔ سب کو مشکوک، مغرب اور امریکہ کے ایجنٹ ہونے کا خطاب دے دیا گیا۔ مصری ادیب ڈاکٹر نجیب محفوظ کو تو مصریوں نے خنجر مار دیا تھا۔افسوس، صد افسوس!!
بیہودگی کرنے والوں نے نہ تو ہمارے وزیر داخلہ کو چھوڑا ہے، نہ ہمارے وزیر خارجہ کو اور نہ ہی تین بار وزیر اعظم بننے والے صاحب کو۔ پہلے احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا، پھر خواجہ آصف پر کالی سیاہی پھینک دی گئی اور بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ نواز شریف کی طرف بھی جوتا اچھال دیا گیا۔ اُن کے کندھے پر لگا لیکن ضبط اور صبر دیکھئے کہ نواز شریف کی زبان سے حملہ آور کے خلاف ایک لفظ تک ادا نہ ہُوا۔ وہ پریشان تو یقیناً ہُوئے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ مَیں نے یہ منظر ٹی وی پر دیکھا تو،سچی بات ہے، ششدر رہ گیا۔
معاً سوچا: وہ شخص جو تین بار ہمارا وزیر اعظم رہ چکا ہے، کیا ہم اُس کے ساتھ ایسا گھناؤنا سلوک بھی کر سکتے ہیں؟ اور یہ بد سلوکی بھی کہاں کی گئی؟ لاہور کے ایک محترم اور معروف دینی مدرسے میں۔ گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ میں۔مفتی محمد حسین نعیمی علیہ رحمہ ایسے مہذب، شائستہ مزاج اور درویش صفت ممتاز ترین عالمِ دین نے جس کی بنیادیں رکھیں۔ سارے لاہور میں جو محبت اور اپنائیت کی علامت تھے۔ سارے ملک میں جو اتحادِ امت کے غیر متنازع داعی تھے۔ جامعہ نعیمیہ کی حدود میں جناب نواز شریف سے یہ بدتمیزی کی گئی ہے تو دل بہت اداس ہے کہ یہ وہ مدرسہ ہے جہاں دہشتگردوں اور انتہا پسندوں نے مفتی محمد حسین نعیمی صاحب علیہ رحمہ کے عالم فاضل فرزند ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو شہید کر دیا تھا۔ جس فرش پر ڈاکٹر سرفراز شہید کا لہو بہا تھا، اب وہیں پر انتہا پسندی کا یہ منظر اُبھرا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے سپریم لیڈر کی طرف جوتا اچھال دیا گیا ہے۔ افسوس، ہائے افسوس، صد افسوس!!
جامعہ نعیمیہ صوفیا اور محبتوں کا مرکز ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا منفرد محور۔ یہاں سیکڑوں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیںلیکن اِس کے موجودہ مہتمم ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب دامت برکاتہ نے کبھی اس کا اشتہار نہیں بنایا۔جرمن اور امریکی سفارتکار بھی روشنی اور ہدایت کی تلاش میں یہاں حاضری لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ اگر لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں افراد، بِلا مبالغہ، اس دلکشا درسگاہ سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اِس توسط سے مفتی محمد حسین نعیمی صاحب مرحوم اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب شہید کے درجات بھی مسلسل بلند ہورہے ہیں اور اُن کے قبر کا نُور بھی بڑھتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں۔یہ واقعہ نہیں، دلفگار سانحہ ہے۔دنیا بھر میں ہماری ندامت اور شرمندگی کا باعث۔ حملہ آور شاید نادم ہیں نہ شرمندہ۔ چھ دن گزر گئے ہیں لیکن نواز شریف پر جوتا پھینکنے والا منظر آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہا۔ ظالمو!تم نے مسجد اور مدرسے کی تقدیس اور عظمت کی بھی پرواہ نہیں کی؟پھر تم میں اور اُن لوگوں میں کیا فرق رہ گیا ہے جنہوں نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو شہید کیا تھا؟ جناب ڈاکٹر راغب نعیمی سے فون پر دو بار بات ہُوئی تو انھیں سخت رنجیدہ اور مجروح قلب پایا۔انھیں اِس امر کا زیادہ صدمہ تھا کہ اُن کے گھر آئے معزز اور معروف مہمان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا۔
وہ ایک اُردو معاصر میں شایع ہونے والی ایک خبر پر بھی کفِ افسوس مَل رہے تھے جو، بقول اُن کے، بے بنیاد بھی تھی اور کردار کشی کے مترادف بھی۔ ناراضی سے کہہ رہے تھے: ''اِس میں رتّی بھر صداقت نہیں ہے۔'' خبر میں کہا گیا تھا کہ جامعہ نعیمیہ کے بہت سے ذمے داران اور وابستگان قطعی نہیں چاہتے تھے کہ نواز شریف، مفتی محمد حسین نعیمی صاحب مرحوم کے عرس میں شریک ہوں۔ میرے استفسار پر ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب نے بتایا:''یہ بالکل غلط بات لکھی گئی ہے۔ ہم نعیمی فیملی، جس میں میرے بزرگ چچا تاجور نعیمی صاحب بھی شریک اور شامل تھے، کا متفقہ فیصلہ تھا کہ میاں نواز شریف صاحب کو عرس میں شرکت کرنی چاہیے۔''راغب صاحب کو یہ بات زیادہ مرغوب ہے کہ وہ کسی پر تہمت عائد نہ کریں۔ کئی دیگر افراد کی طرح وہ بھی شائد یہ بات ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ کوئی منظّم، مربوط اور منصوبہ بند گروہ نون لیگی قیادت پر حملہ آور ہے۔
یہ انفرادی اقدام کہے جا سکتے ہیں۔ اپنی تمام تر احتیاط پسندی کے باوصف ڈاکٹر راغب صاحب دو تین اطراف میں شبہے کا اظہار کرتے ہیں۔ معلوم نہیں حقیقت کیا ہے؟ جن تین ملزموں کو میاں صاحب پر حملے کے الزام میں پکڑا گیا ہے، ممکن ہے اُن سے پوچھ گچھ کے دوران کوئی سرا مل جائے۔ ہمارے ہاں مگر مروّج مشہور ٹالرنس، رواداری کو دھچکا ضرور لگا ہے۔ مکالمے کے بجائے، گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی روایت آگے بڑھ رہی ہے۔ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین بھی اِس ضمن میں دُکھی اور دلگیر نظر آرہے ہیں۔
اِس سانحہ کے دوسرے روز چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا رَن پڑا ہُوا تھا۔ اس لیے یہ معاملہ میڈیا میں نسبتاً دَب کر رہ گیا۔مگر رُوح اور دل پر لگے پھَٹ کون بھر سکے گا؟ سینیٹ میں نواز شریف کے امیدوار کا ہار جانا میاں صاحب کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔شائد تیسری شکست۔ جو قوتیں بلوچستان میں نواز شریف کے وزیر اعلیٰ (ثنا اللہ زہری) کو ہٹا کر اپنا وزیر اعلیٰ(قدوس بزنجو)لے آئی تھیں، وہی اب اپنا چیئرمین سینیٹ (محمد صادق سنجرانی) بھی منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ صد سلام ہے ایسی جمہوریت کو!!
ساری دنیا میں اُس کا احترام کیا جارہا تھا اور ہم اُسے راندئہ درگاہ قرار دینے پر تُلے بیٹھے تھے۔ ہمارے دو پاکستانیوں کو نوبل انعام ایسے عالمی اعزاز سے نوازا گیا، تب بھی ملک بھر میں ایسے افراد کی تعداد نہایت ہی قلیل تھی جنہوں نے اِ س اعزاز کو اپنا اعزاز اور اپنی خوشی کہا۔ دونوں کے بارے میں ہمارے ہاں بالعموم یہ بات بکثرت کہی گئی کہ ''مغرب نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر ان دونوں کو نوبل انعام سے نوازا ہے۔''
صرف وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی میں یہ مناظر رُونما نہیں ہُوئے، باقی عالمِ اسلام کا بھی کم وبیش یہی حال دیکھا گیا ہے۔ مصر کے ڈاکٹر نجیب محفوظ کو ادب کا، بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس کو معاشیات کا، ایران کی ڈاکٹر شیریں عبادی کو امن کا اور ترکی کے اورہان پامک کو ادب کا ۔۔۔۔اِن سب نامور مسلمانوں کو نوبل انعام دیے گئے لیکن اُن کے اپنے اپنے ممالک میں کسی کا بھی قومی سطح پر اکرام نہیں کیا گیا۔ سب کو مشکوک، مغرب اور امریکہ کے ایجنٹ ہونے کا خطاب دے دیا گیا۔ مصری ادیب ڈاکٹر نجیب محفوظ کو تو مصریوں نے خنجر مار دیا تھا۔افسوس، صد افسوس!!
بیہودگی کرنے والوں نے نہ تو ہمارے وزیر داخلہ کو چھوڑا ہے، نہ ہمارے وزیر خارجہ کو اور نہ ہی تین بار وزیر اعظم بننے والے صاحب کو۔ پہلے احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا، پھر خواجہ آصف پر کالی سیاہی پھینک دی گئی اور بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ نواز شریف کی طرف بھی جوتا اچھال دیا گیا۔ اُن کے کندھے پر لگا لیکن ضبط اور صبر دیکھئے کہ نواز شریف کی زبان سے حملہ آور کے خلاف ایک لفظ تک ادا نہ ہُوا۔ وہ پریشان تو یقیناً ہُوئے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ مَیں نے یہ منظر ٹی وی پر دیکھا تو،سچی بات ہے، ششدر رہ گیا۔
معاً سوچا: وہ شخص جو تین بار ہمارا وزیر اعظم رہ چکا ہے، کیا ہم اُس کے ساتھ ایسا گھناؤنا سلوک بھی کر سکتے ہیں؟ اور یہ بد سلوکی بھی کہاں کی گئی؟ لاہور کے ایک محترم اور معروف دینی مدرسے میں۔ گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ میں۔مفتی محمد حسین نعیمی علیہ رحمہ ایسے مہذب، شائستہ مزاج اور درویش صفت ممتاز ترین عالمِ دین نے جس کی بنیادیں رکھیں۔ سارے لاہور میں جو محبت اور اپنائیت کی علامت تھے۔ سارے ملک میں جو اتحادِ امت کے غیر متنازع داعی تھے۔ جامعہ نعیمیہ کی حدود میں جناب نواز شریف سے یہ بدتمیزی کی گئی ہے تو دل بہت اداس ہے کہ یہ وہ مدرسہ ہے جہاں دہشتگردوں اور انتہا پسندوں نے مفتی محمد حسین نعیمی صاحب علیہ رحمہ کے عالم فاضل فرزند ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو شہید کر دیا تھا۔ جس فرش پر ڈاکٹر سرفراز شہید کا لہو بہا تھا، اب وہیں پر انتہا پسندی کا یہ منظر اُبھرا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے سپریم لیڈر کی طرف جوتا اچھال دیا گیا ہے۔ افسوس، ہائے افسوس، صد افسوس!!
جامعہ نعیمیہ صوفیا اور محبتوں کا مرکز ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا منفرد محور۔ یہاں سیکڑوں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیںلیکن اِس کے موجودہ مہتمم ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب دامت برکاتہ نے کبھی اس کا اشتہار نہیں بنایا۔جرمن اور امریکی سفارتکار بھی روشنی اور ہدایت کی تلاش میں یہاں حاضری لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ اگر لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں افراد، بِلا مبالغہ، اس دلکشا درسگاہ سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اِس توسط سے مفتی محمد حسین نعیمی صاحب مرحوم اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب شہید کے درجات بھی مسلسل بلند ہورہے ہیں اور اُن کے قبر کا نُور بھی بڑھتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں۔یہ واقعہ نہیں، دلفگار سانحہ ہے۔دنیا بھر میں ہماری ندامت اور شرمندگی کا باعث۔ حملہ آور شاید نادم ہیں نہ شرمندہ۔ چھ دن گزر گئے ہیں لیکن نواز شریف پر جوتا پھینکنے والا منظر آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہا۔ ظالمو!تم نے مسجد اور مدرسے کی تقدیس اور عظمت کی بھی پرواہ نہیں کی؟پھر تم میں اور اُن لوگوں میں کیا فرق رہ گیا ہے جنہوں نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو شہید کیا تھا؟ جناب ڈاکٹر راغب نعیمی سے فون پر دو بار بات ہُوئی تو انھیں سخت رنجیدہ اور مجروح قلب پایا۔انھیں اِس امر کا زیادہ صدمہ تھا کہ اُن کے گھر آئے معزز اور معروف مہمان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا۔
وہ ایک اُردو معاصر میں شایع ہونے والی ایک خبر پر بھی کفِ افسوس مَل رہے تھے جو، بقول اُن کے، بے بنیاد بھی تھی اور کردار کشی کے مترادف بھی۔ ناراضی سے کہہ رہے تھے: ''اِس میں رتّی بھر صداقت نہیں ہے۔'' خبر میں کہا گیا تھا کہ جامعہ نعیمیہ کے بہت سے ذمے داران اور وابستگان قطعی نہیں چاہتے تھے کہ نواز شریف، مفتی محمد حسین نعیمی صاحب مرحوم کے عرس میں شریک ہوں۔ میرے استفسار پر ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب نے بتایا:''یہ بالکل غلط بات لکھی گئی ہے۔ ہم نعیمی فیملی، جس میں میرے بزرگ چچا تاجور نعیمی صاحب بھی شریک اور شامل تھے، کا متفقہ فیصلہ تھا کہ میاں نواز شریف صاحب کو عرس میں شرکت کرنی چاہیے۔''راغب صاحب کو یہ بات زیادہ مرغوب ہے کہ وہ کسی پر تہمت عائد نہ کریں۔ کئی دیگر افراد کی طرح وہ بھی شائد یہ بات ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ کوئی منظّم، مربوط اور منصوبہ بند گروہ نون لیگی قیادت پر حملہ آور ہے۔
یہ انفرادی اقدام کہے جا سکتے ہیں۔ اپنی تمام تر احتیاط پسندی کے باوصف ڈاکٹر راغب صاحب دو تین اطراف میں شبہے کا اظہار کرتے ہیں۔ معلوم نہیں حقیقت کیا ہے؟ جن تین ملزموں کو میاں صاحب پر حملے کے الزام میں پکڑا گیا ہے، ممکن ہے اُن سے پوچھ گچھ کے دوران کوئی سرا مل جائے۔ ہمارے ہاں مگر مروّج مشہور ٹالرنس، رواداری کو دھچکا ضرور لگا ہے۔ مکالمے کے بجائے، گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی روایت آگے بڑھ رہی ہے۔ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین بھی اِس ضمن میں دُکھی اور دلگیر نظر آرہے ہیں۔
اِس سانحہ کے دوسرے روز چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا رَن پڑا ہُوا تھا۔ اس لیے یہ معاملہ میڈیا میں نسبتاً دَب کر رہ گیا۔مگر رُوح اور دل پر لگے پھَٹ کون بھر سکے گا؟ سینیٹ میں نواز شریف کے امیدوار کا ہار جانا میاں صاحب کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔شائد تیسری شکست۔ جو قوتیں بلوچستان میں نواز شریف کے وزیر اعلیٰ (ثنا اللہ زہری) کو ہٹا کر اپنا وزیر اعلیٰ(قدوس بزنجو)لے آئی تھیں، وہی اب اپنا چیئرمین سینیٹ (محمد صادق سنجرانی) بھی منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ صد سلام ہے ایسی جمہوریت کو!!