اوکاڑہ NA144 کوئی بھی جماعت امیدوار فائنل نہیں کرسکی
ایک ایک سیاسی جماعت کے کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کراکے اپنے آپ کو پارٹی کا امیدوارشوکرنا شروع کردیا۔
الیکشن 2008ء میں حلقہ این اے 144 میں رجسٹر ووٹوں کی تعداد تین لاکھ ایک ہزار 558 ووٹ تھی جن میں سے ایک لاکھ22ہزار 124 ووٹ کاسٹ ہوئے۔
ٹرن آؤٹ 40.5 فیصد رہا۔ اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری سجاد الحسن نے کورننگ امیدوار کے ہوتے ہوئے 77 ہزار 795 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار سابق وفاقی وزیر راؤ سکندر اقبال نے 33 ہزار پانچ سو27ووٹ حاصل کئے۔ ضلع بھر میں چوہدری سجاد الحسن نے اَپ سیٹ کیا۔
اس حلقہ میں کل 11 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال، مسلم لیگ(ق) کی ٹکٹ پر، محمد عارف چوہدری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر،سابقہ ایم پی اے محمد اشرف خان سوہنا نے آزاد،فرید طارق خان نے آزاد، چوہدری سجاد الحسن نے آزاد، مرزا نعیم بیگ نے آزاد، ریاض الحق چندوڑ نے آزاد، میاں محمد منیر نے آزاد، راؤ خلیل اختر نے آزاد، نعیم اجمل خاں لشاری نے ایم کیو ایم، میاں یاور زمان مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے الیکشن2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد عارف چوہدری جعلی ڈگری کی وجہ سے الیکشن لڑنے سے نااہل قرار پائے جس پر پیپلز پارٹی نے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے چوہدری سجاد الحسن کو اپنا کورننگ امیدوار نامزد کیا۔
یوں پی پی کی حمایت یافتہ امیدوار نے تیر کے نشان کی بجائے گھڑیال کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیا۔ اس حلقہ میں الیکشن 2008 میں مسلم لیگ(ق) کے نامزد امیدوار سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال اور پیپلز پارٹی کے کورننگ امیدوار چوہدری سجاد الحسن کے مابین مقابلہ ہوا جس میں چوہدری سجاد الحسن نے ضلع بھر میں اَپ سیٹ کرتے ہوئے ایک مضبوط ترین امیدوار راؤ سکندر اقبال کو بڑے مارجن سے شکست سے دوچار کیا۔
راؤ سکندر اقبال کے پیپلز پارٹی کو چھوڑنے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ راؤ سکندر اقبال نے اوکاڑہ کی عوام کیلئے کروڑوں روپے مالیت کے ترقیاتی کاموں جن میں اوکاڑہ میں سوئی گیس کی فراہمی،کیڈٹ کالج کا قیام، یونیورسٹی کیمپس کا قیام، بے نظیر ایونیو، ایم اے جناح روڈ کا دورایہ کرنا،دیہاتوں میں بجلی کی فراہمی شامل ہے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھرپور جدوجہد کی تھی۔راؤ سکندر اقبال کی وفات کے بعد ان کی بیگم شفیقہ سکندر اقبال عملی سیاست میں حصہ لے چکی ہیں۔
الیکشن 2013حلقہ این اے144 سے ریکارڈ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ کل 28 امیدوار انتخابی میدان میں لنگوٹے کس کر سامنے آگئے،مسلم لیگ(ن)کے امیدوار نے اپنے بیٹے کے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے۔جماعت اسلامی کے سوا کوئی سیاسی جماعت حلقہ این اے144 سے اپنے امیدوار کا حتمی فیصلہ نہ کرسکی امیدواروں کے ساتھ ساتھ عوام بھی تذبذب کا شکار،سیاسی جماعت کا فیصلہ کن امیدواروں کے حق میں ہوتا ہے ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
ایک ایک سیاسی جماعت کے کئی کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کراکے اپنے آپ کو پارٹی کا امیدوار شو کرنا شروع کردیا۔ حلقہ این اے 144 جو اوکاڑہ کی سیاست کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی خاصی اہمیت کا حامل حلقہ ہے میں کل128امیدواروں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سابق وفاقی وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال کی اہلیہ بیگم شفیقہ سکندر، سابق صوبائی وزیر محمد اشرف خاں سوہنا، سابق ایم این اے و وفاقی پارلیمانی سیکرٹری خزانہ چوہدری سجاد الحسن، مسلم لیگ(ن) کی طرف سے محمد عارف چوہدری،ان کے بیٹے علی عارف چوہدری، فیاض احمد خان غوری، میاں محمد منیر، ریاض الحق، میاں یاور زمان، تحریک انصاف کی طرف سے رانا احتشام ربانی، راؤ راشد شیر علی، حاجی عبدالستار واہلہ، راؤ خالد مصطفیٰ، چوہدری اظہر محمود ، جماعت اسلامی کے امیدوار محمد فاروق شیخ کے علاوہ چوہدری محمود احمد، فیاض علی، غلام قادر، محمد اشرف، خالد محمود، غلام عباس، راؤ خالد محمود خاں، نصیر احمد خان، شہزاد کلیم طاہر، رب نواز خاں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔سیاسی جاعتیں کس کا انتخاب کرتی ہیں اور کسے سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
PP-190:
الیکشن2013میں بھی ریکارڈ امیدواروں نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ کل34امیدوار سیاسی میدان میں پنجہ لڑائیں گے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، جماعت اسلامی کے امیدواروں کے علاوہ خاصی تعداد میں آزاد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔اس حلقہ سے سابق صوبائی وزیر محمد اشرف خان سوہنا، پاکستان پیپلز پارٹی کے کنفرم امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن)کی طرف سے میاں محمد منیر، مرزا نعیم بیگ، ریاض الحق جج، اکبر علی خان، تحریک انصاف کی طرف سے چوہدری اظہر محمد، راؤ راشد شیر علی، چوہدری شبیر حسین، حاجی عبدالستار واہلہ کے علاوہ ثمینہ اختر راؤ، شفیق الرحمان، فیاض ظفر، محمد اسلم مغل،محمد طیب چوہدری، چوہدری محبوب قادری، چوہدری امام علی، عرفان مجید، چوہدری ناصر علی کمبوہ، راؤ مظہر الٰہی، کامران خان، خالد محمود، محمد اشرف، ریحان علی، عبدالحکیم، خلیل الرحمان، اطہر اقبال،ڈاکٹر بُرہان غنی، عبدالرزاق، جہانزیب، فیاض ظفر اور محمد اشرف نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
PP-191:
الیکشن2013 میں حلقہ پی پی 191 میں کل 15امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی ٹکٹیں کنفرم پیپلز پارٹی نے انجمن مزارعین پنجاب کے صدر مہر عبدالستار کو ٹکٹ دے دی ہے جبکہ مسلم لیگ(ن)نے سابقہ ایم پی اے میاں یاور زمان کی ٹکٹ کنفرم کردی ہے۔ یاد رہے حلقہ پی پی191وہ حلقہ ہے جس حلقہ میں الیکشن2008میں مسلم لیگ(ن) نے میاں یاور زمان کی شکل میں واحد سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار کو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ مل جانے کے باعث (ن) لیگ کے امیدوار میاں یاور زمان کو بڑے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس حلقہ میں مزارعین کے ووٹوں کی تعداد کثیر ہے جن کی حمایت پیپلزپارٹی کے امیدوار مہر عبدالستار کے ساتھ ہے۔
بڑا کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا اس حلقہ سے تحریک انصاف کی طرف سے ضلعی جنرل سیکرٹری، حفیظ اللہ بلوچ،ساہیوال ڈویژن کے نائب صدر حاجی عبدالستار واہلہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے مہر عبدالستار مسلم لیگ (ن)کے میاں یاور زمان کے علاوہ ملک مشتاق احمد، محمد وقاص، راؤ محمد اشرف، میاں محمد الطاف، مقصود الحسن، ڈاکٹر محمد اشرف، شفیق اکرم، عبدالحکیم، نور نبی ایڈووکیٹ نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
زرعی لحاظ سے انتہائی زرخیز ضلع اوکاڑہ سیاسی میدان میں بے پناہ زرخیزی کا عمل ہے۔ اور اوکاڑہ شہر کا حلقہ این اے 144اہمیت کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتا ہے ماضی میں یہاں سے کامیاب ہونے والے امیدوار، وفاقی وزراء اور ڈپٹی پرائم منسٹر کے عہدوں تک پہنچے ہیں۔یہ حلقہ شہری اور دیہاتی آبادی پر مشتمل ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی ذاتی اہلیت اُن کا سوشل ورکر اور اپنی برادری میں اہم مقام رکھنا بھی لازم ہے۔شہری آبادیوں میں آرائیں، راجپوت، شیخ، ملک اور دیگر قومیں یہاں اپنی انفرادی اہمیت رکھتی ہیں۔دیہی ووٹرز میں مہاجر اور مقامی آباد کار اہمیت رکھتے ہیں اور مقامی گروپ بندی بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
مسلم لیگ(ن)کی جانب سے محمدعارف چوہدری کو ٹکٹ ملنے کے قوی امکانات ہیں اور ان کا تعلق مقامی ڈھڑے بندی کے لحاظ سے آرائیں برادری سے ہے مگر ان کی شخصیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ دیگر آبادیوں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔جبکہ ان کے مدمقابل پی پی کے امیدوار سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال مرحوم کی بیگم محترمہ شفیقہ سکندر پیپلز پارٹی کی امیدوار ہیں جنہوں نے چند روز قبل ہی ٹکٹ کی مخالفت پر مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔راؤ سکندر اقبال بھی اوکاڑہ کی عوام میں بے حد مقبول ہیں اور اوکاڑہ کی تعمیر و ترقی میں بھی اِن کا بہت کردار ہے۔
دونوں امیدوار جہاں اپنی اپنی جگہ پر کامیابی کیلئے پُر امید ہیں وہاں ملک میں بدلتا ہوا سیاسی منظر بھی ووٹرز پر اپنا رنگ دکھائے گا اسی حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے چوہدری سجاد الحسن بھی امیدوار ہیں اور ان کا تعلق بھی آرائیں برادری سے ہے چونکہ اس وقت بیگم شفیقہ راؤ اور چوہدری سجاد الحسن کے مابین پارٹی ٹکٹ کے کوششیں پوری آب و تاب سے جاری ہیں لہذا نتائج کے حوالے سے کہنا قبل از وقت ہوگا۔اگر چوہدری سجاد الحسن ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سیاست کا میدان ہر صورت آرائیں برادری کے ساتھ ہی رہے گا۔اسی حلقہ میں صوبائی اسمبلی کے پی پی 190کے 2امیدوار میاں محمد منیر اور ریاض الحق جج کے مابین ٹکٹ کی تگ و دوجاری ہے۔
میاں منیر چیئرمین بلدیہ رہ چکے ہیں اور2مرتبہ مسلم لیگ کے ٹکٹ ہولڈر بھی رہے ہیں اور دونوں دفعہ PP-190 سے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ سے انتخاب ہار چکے ہیں۔ اور دوسری جانب ریاض الحق جج نوجوان ابھرتے ہوئے سیاستدان ہیں جو سابق سٹی ناظم رہ چکے ہیں اور اُن کا تعلق ایک صنعتی گروپ سے ہے اور جبکہ وہ بھی آرائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کیلئے سابق صوبائی وزیر محمدا شرف خاں سوہنا ہی واحد امیدوار ہیں اور وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 2 بار MPA منتخب ہوچکے ہیں۔ اگر مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ٹکٹ میاں منیر کو مل جاتا ہے اور ریاض الحق جج آزاد حیثیت سے حصہ لیتے ہیں تو ایک دفعہ پھر لاٹری اشرف خاں سوہنا کی نکل سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی مضبوط سیاسی ہوا کے پیش نظر کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے سابق سٹی ناظم چوہدری محمد اظہر بھی امیدوار ہیں۔اگر وہ بھی میدان میں آتے ہیں تو اس کا فائدہ بھی غیر آرائیں امیدوار کو جاسکتا ہے۔حلقہ 191 دیہی آبادی پر مشتمل ہے جہاں سابق MPAمیاں یاور زمان اور انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار کے مابین مقابلہ ہے۔اس حلقہ میں مزارعین کی تحریک اور جدوجہد کے باعث مہر عبدالستار کو تنظیمی اور تحریکی دوستوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ میاں محمد یاور زمان کے خاندان گزشتہ چار دہائیوں سے مضبوط سیاسی اثرورسوخ کا دھڑا رکھتے ہیں۔
مہر عبدالستار اَب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کو راجپوت برادری کا بھی ساتھ میسر ہے اور دوسری جانب تحریک انصاف کے ضلعی جنرل سیکرٹری قاری حفیظ اللہ بلوچ اسی حلقے سے انتخابات لڑرہے ہیں وہاں بلوچ برادری خاصی تعداد میں موجود ہے اور یہ ہمیشہ میاں یاور زمان کے دھڑے اوران کے حلقہ سیاست میں رہے ہیں۔اب بلوچ امیدوار سامنے آنے کے باعث یہ دھڑا اپنی برادری کو سپورٹ کرے گا۔
ٹرن آؤٹ 40.5 فیصد رہا۔ اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری سجاد الحسن نے کورننگ امیدوار کے ہوتے ہوئے 77 ہزار 795 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار سابق وفاقی وزیر راؤ سکندر اقبال نے 33 ہزار پانچ سو27ووٹ حاصل کئے۔ ضلع بھر میں چوہدری سجاد الحسن نے اَپ سیٹ کیا۔
اس حلقہ میں کل 11 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال، مسلم لیگ(ق) کی ٹکٹ پر، محمد عارف چوہدری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر،سابقہ ایم پی اے محمد اشرف خان سوہنا نے آزاد،فرید طارق خان نے آزاد، چوہدری سجاد الحسن نے آزاد، مرزا نعیم بیگ نے آزاد، ریاض الحق چندوڑ نے آزاد، میاں محمد منیر نے آزاد، راؤ خلیل اختر نے آزاد، نعیم اجمل خاں لشاری نے ایم کیو ایم، میاں یاور زمان مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے الیکشن2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد عارف چوہدری جعلی ڈگری کی وجہ سے الیکشن لڑنے سے نااہل قرار پائے جس پر پیپلز پارٹی نے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے چوہدری سجاد الحسن کو اپنا کورننگ امیدوار نامزد کیا۔
یوں پی پی کی حمایت یافتہ امیدوار نے تیر کے نشان کی بجائے گھڑیال کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیا۔ اس حلقہ میں الیکشن 2008 میں مسلم لیگ(ق) کے نامزد امیدوار سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال اور پیپلز پارٹی کے کورننگ امیدوار چوہدری سجاد الحسن کے مابین مقابلہ ہوا جس میں چوہدری سجاد الحسن نے ضلع بھر میں اَپ سیٹ کرتے ہوئے ایک مضبوط ترین امیدوار راؤ سکندر اقبال کو بڑے مارجن سے شکست سے دوچار کیا۔
راؤ سکندر اقبال کے پیپلز پارٹی کو چھوڑنے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ راؤ سکندر اقبال نے اوکاڑہ کی عوام کیلئے کروڑوں روپے مالیت کے ترقیاتی کاموں جن میں اوکاڑہ میں سوئی گیس کی فراہمی،کیڈٹ کالج کا قیام، یونیورسٹی کیمپس کا قیام، بے نظیر ایونیو، ایم اے جناح روڈ کا دورایہ کرنا،دیہاتوں میں بجلی کی فراہمی شامل ہے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھرپور جدوجہد کی تھی۔راؤ سکندر اقبال کی وفات کے بعد ان کی بیگم شفیقہ سکندر اقبال عملی سیاست میں حصہ لے چکی ہیں۔
الیکشن 2013حلقہ این اے144 سے ریکارڈ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ کل 28 امیدوار انتخابی میدان میں لنگوٹے کس کر سامنے آگئے،مسلم لیگ(ن)کے امیدوار نے اپنے بیٹے کے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے۔جماعت اسلامی کے سوا کوئی سیاسی جماعت حلقہ این اے144 سے اپنے امیدوار کا حتمی فیصلہ نہ کرسکی امیدواروں کے ساتھ ساتھ عوام بھی تذبذب کا شکار،سیاسی جماعت کا فیصلہ کن امیدواروں کے حق میں ہوتا ہے ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
ایک ایک سیاسی جماعت کے کئی کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کراکے اپنے آپ کو پارٹی کا امیدوار شو کرنا شروع کردیا۔ حلقہ این اے 144 جو اوکاڑہ کی سیاست کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی خاصی اہمیت کا حامل حلقہ ہے میں کل128امیدواروں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سابق وفاقی وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال کی اہلیہ بیگم شفیقہ سکندر، سابق صوبائی وزیر محمد اشرف خاں سوہنا، سابق ایم این اے و وفاقی پارلیمانی سیکرٹری خزانہ چوہدری سجاد الحسن، مسلم لیگ(ن) کی طرف سے محمد عارف چوہدری،ان کے بیٹے علی عارف چوہدری، فیاض احمد خان غوری، میاں محمد منیر، ریاض الحق، میاں یاور زمان، تحریک انصاف کی طرف سے رانا احتشام ربانی، راؤ راشد شیر علی، حاجی عبدالستار واہلہ، راؤ خالد مصطفیٰ، چوہدری اظہر محمود ، جماعت اسلامی کے امیدوار محمد فاروق شیخ کے علاوہ چوہدری محمود احمد، فیاض علی، غلام قادر، محمد اشرف، خالد محمود، غلام عباس، راؤ خالد محمود خاں، نصیر احمد خان، شہزاد کلیم طاہر، رب نواز خاں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔سیاسی جاعتیں کس کا انتخاب کرتی ہیں اور کسے سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
PP-190:
الیکشن2013میں بھی ریکارڈ امیدواروں نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ کل34امیدوار سیاسی میدان میں پنجہ لڑائیں گے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، جماعت اسلامی کے امیدواروں کے علاوہ خاصی تعداد میں آزاد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔اس حلقہ سے سابق صوبائی وزیر محمد اشرف خان سوہنا، پاکستان پیپلز پارٹی کے کنفرم امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن)کی طرف سے میاں محمد منیر، مرزا نعیم بیگ، ریاض الحق جج، اکبر علی خان، تحریک انصاف کی طرف سے چوہدری اظہر محمد، راؤ راشد شیر علی، چوہدری شبیر حسین، حاجی عبدالستار واہلہ کے علاوہ ثمینہ اختر راؤ، شفیق الرحمان، فیاض ظفر، محمد اسلم مغل،محمد طیب چوہدری، چوہدری محبوب قادری، چوہدری امام علی، عرفان مجید، چوہدری ناصر علی کمبوہ، راؤ مظہر الٰہی، کامران خان، خالد محمود، محمد اشرف، ریحان علی، عبدالحکیم، خلیل الرحمان، اطہر اقبال،ڈاکٹر بُرہان غنی، عبدالرزاق، جہانزیب، فیاض ظفر اور محمد اشرف نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
PP-191:
الیکشن2013 میں حلقہ پی پی 191 میں کل 15امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی ٹکٹیں کنفرم پیپلز پارٹی نے انجمن مزارعین پنجاب کے صدر مہر عبدالستار کو ٹکٹ دے دی ہے جبکہ مسلم لیگ(ن)نے سابقہ ایم پی اے میاں یاور زمان کی ٹکٹ کنفرم کردی ہے۔ یاد رہے حلقہ پی پی191وہ حلقہ ہے جس حلقہ میں الیکشن2008میں مسلم لیگ(ن) نے میاں یاور زمان کی شکل میں واحد سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار کو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ مل جانے کے باعث (ن) لیگ کے امیدوار میاں یاور زمان کو بڑے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس حلقہ میں مزارعین کے ووٹوں کی تعداد کثیر ہے جن کی حمایت پیپلزپارٹی کے امیدوار مہر عبدالستار کے ساتھ ہے۔
بڑا کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا اس حلقہ سے تحریک انصاف کی طرف سے ضلعی جنرل سیکرٹری، حفیظ اللہ بلوچ،ساہیوال ڈویژن کے نائب صدر حاجی عبدالستار واہلہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے مہر عبدالستار مسلم لیگ (ن)کے میاں یاور زمان کے علاوہ ملک مشتاق احمد، محمد وقاص، راؤ محمد اشرف، میاں محمد الطاف، مقصود الحسن، ڈاکٹر محمد اشرف، شفیق اکرم، عبدالحکیم، نور نبی ایڈووکیٹ نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
زرعی لحاظ سے انتہائی زرخیز ضلع اوکاڑہ سیاسی میدان میں بے پناہ زرخیزی کا عمل ہے۔ اور اوکاڑہ شہر کا حلقہ این اے 144اہمیت کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتا ہے ماضی میں یہاں سے کامیاب ہونے والے امیدوار، وفاقی وزراء اور ڈپٹی پرائم منسٹر کے عہدوں تک پہنچے ہیں۔یہ حلقہ شہری اور دیہاتی آبادی پر مشتمل ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی ذاتی اہلیت اُن کا سوشل ورکر اور اپنی برادری میں اہم مقام رکھنا بھی لازم ہے۔شہری آبادیوں میں آرائیں، راجپوت، شیخ، ملک اور دیگر قومیں یہاں اپنی انفرادی اہمیت رکھتی ہیں۔دیہی ووٹرز میں مہاجر اور مقامی آباد کار اہمیت رکھتے ہیں اور مقامی گروپ بندی بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
مسلم لیگ(ن)کی جانب سے محمدعارف چوہدری کو ٹکٹ ملنے کے قوی امکانات ہیں اور ان کا تعلق مقامی ڈھڑے بندی کے لحاظ سے آرائیں برادری سے ہے مگر ان کی شخصیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ دیگر آبادیوں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔جبکہ ان کے مدمقابل پی پی کے امیدوار سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال مرحوم کی بیگم محترمہ شفیقہ سکندر پیپلز پارٹی کی امیدوار ہیں جنہوں نے چند روز قبل ہی ٹکٹ کی مخالفت پر مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔راؤ سکندر اقبال بھی اوکاڑہ کی عوام میں بے حد مقبول ہیں اور اوکاڑہ کی تعمیر و ترقی میں بھی اِن کا بہت کردار ہے۔
دونوں امیدوار جہاں اپنی اپنی جگہ پر کامیابی کیلئے پُر امید ہیں وہاں ملک میں بدلتا ہوا سیاسی منظر بھی ووٹرز پر اپنا رنگ دکھائے گا اسی حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے چوہدری سجاد الحسن بھی امیدوار ہیں اور ان کا تعلق بھی آرائیں برادری سے ہے چونکہ اس وقت بیگم شفیقہ راؤ اور چوہدری سجاد الحسن کے مابین پارٹی ٹکٹ کے کوششیں پوری آب و تاب سے جاری ہیں لہذا نتائج کے حوالے سے کہنا قبل از وقت ہوگا۔اگر چوہدری سجاد الحسن ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سیاست کا میدان ہر صورت آرائیں برادری کے ساتھ ہی رہے گا۔اسی حلقہ میں صوبائی اسمبلی کے پی پی 190کے 2امیدوار میاں محمد منیر اور ریاض الحق جج کے مابین ٹکٹ کی تگ و دوجاری ہے۔
میاں منیر چیئرمین بلدیہ رہ چکے ہیں اور2مرتبہ مسلم لیگ کے ٹکٹ ہولڈر بھی رہے ہیں اور دونوں دفعہ PP-190 سے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ سے انتخاب ہار چکے ہیں۔ اور دوسری جانب ریاض الحق جج نوجوان ابھرتے ہوئے سیاستدان ہیں جو سابق سٹی ناظم رہ چکے ہیں اور اُن کا تعلق ایک صنعتی گروپ سے ہے اور جبکہ وہ بھی آرائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کیلئے سابق صوبائی وزیر محمدا شرف خاں سوہنا ہی واحد امیدوار ہیں اور وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 2 بار MPA منتخب ہوچکے ہیں۔ اگر مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ٹکٹ میاں منیر کو مل جاتا ہے اور ریاض الحق جج آزاد حیثیت سے حصہ لیتے ہیں تو ایک دفعہ پھر لاٹری اشرف خاں سوہنا کی نکل سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی مضبوط سیاسی ہوا کے پیش نظر کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے سابق سٹی ناظم چوہدری محمد اظہر بھی امیدوار ہیں۔اگر وہ بھی میدان میں آتے ہیں تو اس کا فائدہ بھی غیر آرائیں امیدوار کو جاسکتا ہے۔حلقہ 191 دیہی آبادی پر مشتمل ہے جہاں سابق MPAمیاں یاور زمان اور انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار کے مابین مقابلہ ہے۔اس حلقہ میں مزارعین کی تحریک اور جدوجہد کے باعث مہر عبدالستار کو تنظیمی اور تحریکی دوستوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ میاں محمد یاور زمان کے خاندان گزشتہ چار دہائیوں سے مضبوط سیاسی اثرورسوخ کا دھڑا رکھتے ہیں۔
مہر عبدالستار اَب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کو راجپوت برادری کا بھی ساتھ میسر ہے اور دوسری جانب تحریک انصاف کے ضلعی جنرل سیکرٹری قاری حفیظ اللہ بلوچ اسی حلقے سے انتخابات لڑرہے ہیں وہاں بلوچ برادری خاصی تعداد میں موجود ہے اور یہ ہمیشہ میاں یاور زمان کے دھڑے اوران کے حلقہ سیاست میں رہے ہیں۔اب بلوچ امیدوار سامنے آنے کے باعث یہ دھڑا اپنی برادری کو سپورٹ کرے گا۔