روس چین اور نیا ورلڈ آرڈر…
سوشلسٹ بلاک کے انہدام کے بعد امریکا عالمی حکمرانی کے جس سحر میں مبتلا رہا ہے اب وہ خود اس سحر سے باہر آنے پر۔۔۔
یہ صورتحال کسی ایک ملک یا چند ملکوں کی نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً سارے ہی ممالک ایک بحرانی اور ہیجانی دور سے گزر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دو سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام اپنی افادیت اپنی اہمیت کھوچکا ہے، چونکہ اس نظام کی بنیاد ہی ناانصافی اور ظلم پر رکھی گئی ہے، لہٰذا دنیا میں اس نظام سے مایوسی اور نفرت کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔
ساری دنیا کسی ایسے نظام کا انتظار کررہی ہے جو اس کے ہزاروں سال پر پھیلے دکھوں، محرومیوں کا ازالہ کرسکے، ایسے میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کا یہ بیان کہ ''چین اور روس دنیا کو ایک نیا ورلڈ آرڈر دے سکتے ہیں'' بظاہر بڑا حوصلہ افزا، بڑا پرامید دکھائی دیتا ہے۔ پیوٹن نے اس حوالے سے مزید کہا ہے کہ چینی وزیراعظم کا وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے روس کا دورہ کرنے کا پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی بن سکتا ہے، پیوٹن نے مزید کہا ہے کہ چینی وزیراعظم کا دورہ روس ایک نئی دنیا کی تعمیر کے لیے اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔
ماضی میں روس اور چین دنیا کی دو بڑی طاقتیں رہے ہیں، روس کی شکست و ریخت کے بعد اگرچہ بحیثیت مجموعی وہ پس منظر میں چلا گیا ہے لیکن چین کی ترقی اس سے متاثر نہیں ہوئی، بلکہ چین آج کی دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بننے کی طرف جارہا ہے اور آج بھی امریکا اور اس کے مغربی اتحادی چین کو مستقبل میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کی شکست کے باوجود آج بھی روس کا شمار دنیا کی ایک بااثر طاقت میں ہوتا ہے۔
سوشلسٹ بلاک کے انہدام کے بعد امریکا عالمی حکمرانی کے جس سحر میں مبتلا رہا ہے اب وہ خود اس سحر سے باہر آنے پر مجبور ہورہا ہے، ابھی حال میں اوباما کی نئی حکومت کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے یہ اعترافات کہ ''امریکا اکیلا دنیا کے مسائل حل نہیں کرسکتا'' اور اب دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکا اپنے ایجاد کردہ ورلڈ آرڈر سے مایوس ہورہا ہے۔
اس سیناریو میں ولادی میر پیوٹن کا بیان بلاشبہ ساری دنیا کے لیے ایک نئی امید ہے لیکن سوال یہی پیدا ہوتاہے کہ اس مبینہ نیو ورلڈ آرڈر کا نقشہ اس کی ہیئت کیا ہوگی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ معیشت کے حریفانہ کردار پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام دراصل جاگیردارانہ پیداواری رشتوں میں تبدیلی کا وسیلہ اس وقت بنا جب بھاپ کی دریافت کے ساتھ صنعتی زندگی کا آغاز ہوا، یہ آغاز اس تیزی سے آگے بڑھا کہ پرانے پیداواری رشتے اس کی تیز رفتاری میں کچلے جاتے رہے، اس ابھرتے ہوئے صنعتی کلچر نے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا وہ بلا شبہ اس نئے صنعتی کلچر کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت تو رکھتا تھا لیکن اس سسٹم کے اندر چند ایسی برائیوں نے جگہ بنالی جو انسانوں کی انتہائی نامنصفانہ تقسیم کا سبب بن گئیں۔
ان میں ایک بڑی برائی ارتکاز زر کی تھی، دوسری غیر معینہ منافع کی، تیسری بے لگام نجی ملکیت کے حق کی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ظالمانہ برائیوں پر نقاب ڈالنے کے لیے سیاسی محاذ پر جمہوریت کومتعارف کرایا گیا اور اس سے نام نہاد انسانی بنیادی حقوق کو اس طرح نتھی کردیا گیا کہ یہ جمہوریت انسانی بنیادی حقوق کی محافظ بنادی گئی، جب کہ اس نظام کی یہ کرشمہ سازی ہے کہ قدم قدم پر انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے، جمہوریت کو عوام کی حکومت کا ایسا تنگ لبادہ پہنایا گیا کہ وہ ہمیشہ عریانی کا نمونہ بنی رہی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ان سنگین برائیوں کے حواری ہیں جو نظام دنیا کے سامنے 1917 کے انقلاب روس کی شکل میں آیا وہ اگرچہ بہت مختصر عرصے یعنی 50 برسوں کے اندر اندر روس کو دنیا کی دوسری سپر پاور بناکر یہ ثابت کردیا کہ اس میں سرمایہ دارانہ نظام سے مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے لیکن اس نظام کو چلانے والوں کی اپنی کمزوریوں نے انھیں اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کردیا کہ کوئی نظام اپنی اصل میں حرف آخر نہیں ہوتا، اس میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو قومیں اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہیں وہ اپنے نظام کے ساتھ ماضی کے دھندلکوں میں چلی جاتی ہیں۔ یہاں ہوا یہ کہ سوشلسٹ معیشت کو چلانے والوں کی کمزوریوں کے ساتھ اس کے مخالف یعنی منڈی کی معیشت کے سرپرستوں کی سازشوں نے اس کا تیا پانچا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، یوں یہ نظام اپنی سنچری مکمل کرنے سے پہلے ہی شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔
سوشلست نظام معیشت میں سرمایہ دارانہ نظام استحصال کو روکنے کے لیے جو بنیادی تبدیلیاں لائی گئیں ان میں سب سے بڑی تبدیلی نجی ملکیت پر پابندی، دوسری بندش منافع کی بے لگام ہوس کا خاتمہ تھی، ان دو بنیادی تبدیلیوں نے ارتکاز زر کو بھی روک دیا اور منافع کی حیوانی خواہش کے منہ میں بھی لگام دی لیکن ان کو روبہ عمل لانے کے لیے قومی ملکیت کا جو نظام لاگو کیا گیا وہ غیر محتاط بھی تھا اور چیک اینڈ بیلنس سے محروم بھی، جس کی وجہ سے یہ نظام بتدریج ناکامی کا شکار ہوتا گیا، اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے شخصی آزادیوں پر جو قدغنیں لگائی گئیں اس کے خلاف مغرب کا پروپیگنڈا اس لیے کامیاب ہوتا گیا کہ وہ نمایندے عوام کو حاصل نہ ہوئے جس کی قیمت عوام اپنی شخصی آزادیوں سے دست برداری کی شکل میں ادا کررہے تھے۔
ادھر سرمایہ دارانہ نظام نے روسی بلاک سے نجات تو حاصل کرلی لیکن اس کی استحصالی بھوک میں وقت کے ساتھ ساتھ اتنی شدت سے اضافہ ہونے لگا کہ دنیا کی لگ بھگ 90 فیصد آبادی اس استحصالی جہنم کی آگ سے اس قدر جھلسنے لگی کہ ساری دنیا ہی جہنم میں بدل گئی۔ آج یہی جہنم ساری دنیا میں اس استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، اس پیش منظر میں روسی صدر کا بیان امید افزا ضرور ہے لیکن اصل سوال اس مبینہ نئے ورلڈ آرڈر کی ہیئت ترکیبی کا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ منڈی کی معیشت خود اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے بھی آج سخت بحرانوں کا شکار ہے اور دیوالیہ ملکوں اور معیشتوں کو اربوں ڈالر کے بیل آئوٹ دے کر بچانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بیل آئوٹ کے وینٹی لیٹر پر رکھا سرمایہ دارانہ نظام کیا بچ پائے گا؟ یہی وہ مایوس کن صورتحال ہے جس نے خود مغربی ملکوں کے سربراہوں کو حواس باختہ کردیا ہے اور وہ خود چیخ رہے ہیں کہ دنیا کو بچانے اور چلانے کے لیے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے، کیا ولادی میر پیوٹن کا مبینہ نیو ورلڈ آرڈر دنیا کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے؟
ہم نے اس بات کی نشاندہی کردی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی دو بڑی اور بنیادی خرابیاں ارتکاز زر اور لامحدود منافع ہے جسے سوشلسٹ معیشت میں ختم کرکے اس نظام کے خونخوار دانت توڑ دیے گئے تھے، کوئی نیا اقتصادی نظام اس وقت تک استحصال سے پاک نہیں ہوسکتا، جب تک ان دو خرابیوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، کیا پیوٹن کے نیو ورلڈ آرڈر ڈھانچے میں سابق سوشلسٹ معیشت کی ان دو خوبیوں کو سمویا جاسکتا ہے؟
کوئی نیو ورلڈ آرڈر اس وقت تک منصفانہ نہیں ہوسکتا جب تک اس میں ارتکاز زر اور بے لگام منافع کو روکا نہیں جاتا، سوال یہ ہے کہ کیا روس اور چین جو منڈی کی معیشت میں ملوث ہوگئے ہیں کیا وہ ان دو تبدیلیوں کو نئے ورلڈ آرڈر کا حصہ بنانے کے لیے تیار ہوںگے؟ اصل میں علاقائی تنازعات منڈیوں پر قبضے کی جنگ ہتھیاروں کی تیاری و تجارت یہ وہ برائیاں ہیں جن کے پیچھے منافع اور ارتکاز زرکی اندھی خواہش چھپی ہوئی ہے۔ ہمارے عالمی رہنما اور ان کے بنائے ہوئے مختلف ادارے ان برائیوں کو روکنے کی احمقانہ کوششیں تو کررہے ہیں لیکن یہ برائیاں علاقائی تنازعات علاقائی جنگیں اور ہتھیاروں کی تیاری وتجارت جو کھربوں ڈالرز تک پھیلی ہوئی ہے۔
انھیں اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک ان بنیادی خرابیوں کو ختم نہیں کیا جاتا، یعنی ارتکاز زر اور بے لگام منافع! مشکل یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کے ساتھ ساتھ قومی حکومتوں اور قومی مفادات کو جس قدر تقدیس کا درجہ دے دیا گیا ہے اور ان دونوں ''بھلائیوں'' کے تحفظ کے لیے جغرافیائی لکیروں کو جتنا پوتر بناکر اس کی پوجا پاٹ کی جارہی ہے ان ساری خرافات کا تدارک نہ کیا گیا تو کوئی نیو ورلڈ آرڈر آج کی جہنم زار دنیا کو جنت میں نہیں بدل سکتا۔ پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ چین روس سمیت مغربی دنیا اس قسم کی بامعنی تبدیلیوں کے لیے تیار ہوگی؟ کیونکہ ان کے بغیر کوئی نیا ورلڈ آرڈر دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔
ساری دنیا کسی ایسے نظام کا انتظار کررہی ہے جو اس کے ہزاروں سال پر پھیلے دکھوں، محرومیوں کا ازالہ کرسکے، ایسے میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کا یہ بیان کہ ''چین اور روس دنیا کو ایک نیا ورلڈ آرڈر دے سکتے ہیں'' بظاہر بڑا حوصلہ افزا، بڑا پرامید دکھائی دیتا ہے۔ پیوٹن نے اس حوالے سے مزید کہا ہے کہ چینی وزیراعظم کا وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے روس کا دورہ کرنے کا پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی بن سکتا ہے، پیوٹن نے مزید کہا ہے کہ چینی وزیراعظم کا دورہ روس ایک نئی دنیا کی تعمیر کے لیے اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔
ماضی میں روس اور چین دنیا کی دو بڑی طاقتیں رہے ہیں، روس کی شکست و ریخت کے بعد اگرچہ بحیثیت مجموعی وہ پس منظر میں چلا گیا ہے لیکن چین کی ترقی اس سے متاثر نہیں ہوئی، بلکہ چین آج کی دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بننے کی طرف جارہا ہے اور آج بھی امریکا اور اس کے مغربی اتحادی چین کو مستقبل میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کی شکست کے باوجود آج بھی روس کا شمار دنیا کی ایک بااثر طاقت میں ہوتا ہے۔
سوشلسٹ بلاک کے انہدام کے بعد امریکا عالمی حکمرانی کے جس سحر میں مبتلا رہا ہے اب وہ خود اس سحر سے باہر آنے پر مجبور ہورہا ہے، ابھی حال میں اوباما کی نئی حکومت کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے یہ اعترافات کہ ''امریکا اکیلا دنیا کے مسائل حل نہیں کرسکتا'' اور اب دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکا اپنے ایجاد کردہ ورلڈ آرڈر سے مایوس ہورہا ہے۔
اس سیناریو میں ولادی میر پیوٹن کا بیان بلاشبہ ساری دنیا کے لیے ایک نئی امید ہے لیکن سوال یہی پیدا ہوتاہے کہ اس مبینہ نیو ورلڈ آرڈر کا نقشہ اس کی ہیئت کیا ہوگی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ معیشت کے حریفانہ کردار پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام دراصل جاگیردارانہ پیداواری رشتوں میں تبدیلی کا وسیلہ اس وقت بنا جب بھاپ کی دریافت کے ساتھ صنعتی زندگی کا آغاز ہوا، یہ آغاز اس تیزی سے آگے بڑھا کہ پرانے پیداواری رشتے اس کی تیز رفتاری میں کچلے جاتے رہے، اس ابھرتے ہوئے صنعتی کلچر نے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا وہ بلا شبہ اس نئے صنعتی کلچر کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت تو رکھتا تھا لیکن اس سسٹم کے اندر چند ایسی برائیوں نے جگہ بنالی جو انسانوں کی انتہائی نامنصفانہ تقسیم کا سبب بن گئیں۔
ان میں ایک بڑی برائی ارتکاز زر کی تھی، دوسری غیر معینہ منافع کی، تیسری بے لگام نجی ملکیت کے حق کی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ظالمانہ برائیوں پر نقاب ڈالنے کے لیے سیاسی محاذ پر جمہوریت کومتعارف کرایا گیا اور اس سے نام نہاد انسانی بنیادی حقوق کو اس طرح نتھی کردیا گیا کہ یہ جمہوریت انسانی بنیادی حقوق کی محافظ بنادی گئی، جب کہ اس نظام کی یہ کرشمہ سازی ہے کہ قدم قدم پر انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے، جمہوریت کو عوام کی حکومت کا ایسا تنگ لبادہ پہنایا گیا کہ وہ ہمیشہ عریانی کا نمونہ بنی رہی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ان سنگین برائیوں کے حواری ہیں جو نظام دنیا کے سامنے 1917 کے انقلاب روس کی شکل میں آیا وہ اگرچہ بہت مختصر عرصے یعنی 50 برسوں کے اندر اندر روس کو دنیا کی دوسری سپر پاور بناکر یہ ثابت کردیا کہ اس میں سرمایہ دارانہ نظام سے مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے لیکن اس نظام کو چلانے والوں کی اپنی کمزوریوں نے انھیں اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کردیا کہ کوئی نظام اپنی اصل میں حرف آخر نہیں ہوتا، اس میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو قومیں اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہیں وہ اپنے نظام کے ساتھ ماضی کے دھندلکوں میں چلی جاتی ہیں۔ یہاں ہوا یہ کہ سوشلسٹ معیشت کو چلانے والوں کی کمزوریوں کے ساتھ اس کے مخالف یعنی منڈی کی معیشت کے سرپرستوں کی سازشوں نے اس کا تیا پانچا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، یوں یہ نظام اپنی سنچری مکمل کرنے سے پہلے ہی شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔
سوشلست نظام معیشت میں سرمایہ دارانہ نظام استحصال کو روکنے کے لیے جو بنیادی تبدیلیاں لائی گئیں ان میں سب سے بڑی تبدیلی نجی ملکیت پر پابندی، دوسری بندش منافع کی بے لگام ہوس کا خاتمہ تھی، ان دو بنیادی تبدیلیوں نے ارتکاز زر کو بھی روک دیا اور منافع کی حیوانی خواہش کے منہ میں بھی لگام دی لیکن ان کو روبہ عمل لانے کے لیے قومی ملکیت کا جو نظام لاگو کیا گیا وہ غیر محتاط بھی تھا اور چیک اینڈ بیلنس سے محروم بھی، جس کی وجہ سے یہ نظام بتدریج ناکامی کا شکار ہوتا گیا، اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے شخصی آزادیوں پر جو قدغنیں لگائی گئیں اس کے خلاف مغرب کا پروپیگنڈا اس لیے کامیاب ہوتا گیا کہ وہ نمایندے عوام کو حاصل نہ ہوئے جس کی قیمت عوام اپنی شخصی آزادیوں سے دست برداری کی شکل میں ادا کررہے تھے۔
ادھر سرمایہ دارانہ نظام نے روسی بلاک سے نجات تو حاصل کرلی لیکن اس کی استحصالی بھوک میں وقت کے ساتھ ساتھ اتنی شدت سے اضافہ ہونے لگا کہ دنیا کی لگ بھگ 90 فیصد آبادی اس استحصالی جہنم کی آگ سے اس قدر جھلسنے لگی کہ ساری دنیا ہی جہنم میں بدل گئی۔ آج یہی جہنم ساری دنیا میں اس استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، اس پیش منظر میں روسی صدر کا بیان امید افزا ضرور ہے لیکن اصل سوال اس مبینہ نئے ورلڈ آرڈر کی ہیئت ترکیبی کا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ منڈی کی معیشت خود اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے بھی آج سخت بحرانوں کا شکار ہے اور دیوالیہ ملکوں اور معیشتوں کو اربوں ڈالر کے بیل آئوٹ دے کر بچانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بیل آئوٹ کے وینٹی لیٹر پر رکھا سرمایہ دارانہ نظام کیا بچ پائے گا؟ یہی وہ مایوس کن صورتحال ہے جس نے خود مغربی ملکوں کے سربراہوں کو حواس باختہ کردیا ہے اور وہ خود چیخ رہے ہیں کہ دنیا کو بچانے اور چلانے کے لیے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے، کیا ولادی میر پیوٹن کا مبینہ نیو ورلڈ آرڈر دنیا کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے؟
ہم نے اس بات کی نشاندہی کردی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی دو بڑی اور بنیادی خرابیاں ارتکاز زر اور لامحدود منافع ہے جسے سوشلسٹ معیشت میں ختم کرکے اس نظام کے خونخوار دانت توڑ دیے گئے تھے، کوئی نیا اقتصادی نظام اس وقت تک استحصال سے پاک نہیں ہوسکتا، جب تک ان دو خرابیوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، کیا پیوٹن کے نیو ورلڈ آرڈر ڈھانچے میں سابق سوشلسٹ معیشت کی ان دو خوبیوں کو سمویا جاسکتا ہے؟
کوئی نیو ورلڈ آرڈر اس وقت تک منصفانہ نہیں ہوسکتا جب تک اس میں ارتکاز زر اور بے لگام منافع کو روکا نہیں جاتا، سوال یہ ہے کہ کیا روس اور چین جو منڈی کی معیشت میں ملوث ہوگئے ہیں کیا وہ ان دو تبدیلیوں کو نئے ورلڈ آرڈر کا حصہ بنانے کے لیے تیار ہوںگے؟ اصل میں علاقائی تنازعات منڈیوں پر قبضے کی جنگ ہتھیاروں کی تیاری و تجارت یہ وہ برائیاں ہیں جن کے پیچھے منافع اور ارتکاز زرکی اندھی خواہش چھپی ہوئی ہے۔ ہمارے عالمی رہنما اور ان کے بنائے ہوئے مختلف ادارے ان برائیوں کو روکنے کی احمقانہ کوششیں تو کررہے ہیں لیکن یہ برائیاں علاقائی تنازعات علاقائی جنگیں اور ہتھیاروں کی تیاری وتجارت جو کھربوں ڈالرز تک پھیلی ہوئی ہے۔
انھیں اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک ان بنیادی خرابیوں کو ختم نہیں کیا جاتا، یعنی ارتکاز زر اور بے لگام منافع! مشکل یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کے ساتھ ساتھ قومی حکومتوں اور قومی مفادات کو جس قدر تقدیس کا درجہ دے دیا گیا ہے اور ان دونوں ''بھلائیوں'' کے تحفظ کے لیے جغرافیائی لکیروں کو جتنا پوتر بناکر اس کی پوجا پاٹ کی جارہی ہے ان ساری خرافات کا تدارک نہ کیا گیا تو کوئی نیو ورلڈ آرڈر آج کی جہنم زار دنیا کو جنت میں نہیں بدل سکتا۔ پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ چین روس سمیت مغربی دنیا اس قسم کی بامعنی تبدیلیوں کے لیے تیار ہوگی؟ کیونکہ ان کے بغیر کوئی نیا ورلڈ آرڈر دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔