بیلٹ پیپر کا خالی خانہ
الیکشن کمیشن کے ذرایع کے مطابق بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے میں بعض قانونی پیچیدگیاں ہیں۔
ملک میں انتخابات کا دور دورہ ہے، اس وقت تمام سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی توجہ تمام تر معاملات سے ہٹ کر صرف اور صرف 11مئی کے انتخابات پر مرکوز ہے، عوام بھی دیگر معاملات بھول کر انتخابات میں اپنی اپنی عقل و فہم اور مختلف نسبتوں اور خوش گمانیوں کی بنا پر مختلف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی حمایت یا مخالفت پر عمل پیرا ہیں، ایک طبقہ ہمیشہ سے ایسا رہا ہے جو تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں اور امیدواروں سے بدظن، نالاں یا مایوس و لاتعلق رہتا ہے جس کے خیال میں کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت ملک و قوم کے لیے مخلص نہیں ہے یا پھر اس کے پاس اس کی اہلیت نہیں ہے۔
ہمارے ملک کے انتخابات کی تاریخ میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ اور یعنی ووٹ ڈالنے کی شرح ہمیشہ سے بہت کم رہی ہے۔ جس کا عام مطلب تو یہ لیا جاتا ہے کہ ووٹ نہ ڈالنے والے جن کا تناسب ملک کے تمام انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے وہ انتخابات میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں یا اس انتخابی عمل کی نفی کرتے ہیں لیکن اگر ووٹ کاسٹ نہ کرنے والی غالب اکثریت کا تجزیہ کیا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں، پہلی یہ کہ ملک میں تمام باشندوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ ووٹ کے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔
کچھ لوگ کام کاج، ملازمتوں وغیرہ کے سلسلے میں اپنے حلقے میں موجود نہیں ہوتے، کچھ بیمار ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکتے، بعض علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی مگر ان تمام لوگوں میں ووٹ ڈالنے کی تمنا ہوتی ہے لیکن دوسری طرف ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے چپے چپے پر تقریباً تمام انتخابی حلقوں میں قائم پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کے جعلی ووٹ بزور طاقت اور انتخابی عملے کو خوفزدہ کرکے اور مخالف امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس اور ووٹرز کو مارپیٹ کر ووٹ بھگتا دیے جاتے ہیں، بہت سے لوگ پولنگ اسٹیشنز پر پہنچتے ہیں تو ان کے ووٹ پہلے ہی ڈالے جاچکے ہوتے ہیں۔
انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں اور امیدوار بڑے سائنٹیفک انداز میں کام کرتے ہیں، ووٹرز کی فہرستیں لے کر ان پر پہلے سے ہی ایسے افراد کی مارکنگ (نشاندہی) کرلی جاتی ہے جو مخالف امیدواروں سے ہمدردی رکھتے ہیں، علاقے سے رہائش منتقل کرچکے ہوں، مرچکے ہوں یا بیرون ملک ہوں، ایسے لوگوں کے ووٹ پہلی فرصت میں بھگتا دیے جاتے ہیں، انتخابات کے موقع پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک جعلی شناختی کارڈ بنوانے، جعلی بیلٹ پیپر بنوانے، بیلٹ بکس بدل دینے جیسے کئی واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، لہٰذا ایک بات تو صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کے باشندوں کی غالب اکثریت ملک کے انتخابی عمل سے لا تعلق اور بددل ہے۔
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرایع کے مطابق بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے میں بعض قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پہلے نگراں حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے کی سفارش کی تھی کہ بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے انتخابی نشانات کے علاوہ ایک خالی خانہ بھی رکھا جائے جس میں وہ لوگ نشان لگائیں گے جو کسی انتخابی امیدوار کو پسند نہیں کرتے، اگر ایسا ہوتا تو اس سے ایک نئی و سنسنی خیز صورتحال پیدا ہو جاتی، اگر ووٹرز کی غالب اکثریت جو اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتی ہے بیلٹ پیپر پر دیے گئے خالی خانہ کا استعمال کردے تو انتخابات کی حیثیت ہی سوالیہ نشان بن جاتی ہے، جو سیاسی عمل کو نیا رخ دے سکتی ہے۔
طاہر القادری کی عوامی تحریک جو الیکشن کمیشن کے وجود کو غیر آئینی قرار دے کر مسلسل اس کی وکالت پر کمربستہ ہے اور انتخابات کے موقع پر اس نظام کے خلاف دھرنوں کا اعلان کرکے کہہ چکی ہے کہ اس کے دھرنے موجودہ نظام کے خلاف خاموش اکثریت ثابت ہوںگے، اگر خالی خانہ شامل کر دیا جائے تو یہ اس خاموش اکثریت کو زبان بھی دے سکتا ہے، اس خاموش اکثریت کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر بہت سے مقاصد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن پر عمومی طور پر سیاسی جماعتوں، سیاسی حلقوں اور عوام الناس کی طرف سے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے، گو کہ بعض حلقوں کی جانب سے کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے، کمیشن کی کارکردگی تاحال تسلی بخش سمجھی جارہی ہے، انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے اس نے تمام امیدواروں کی اسکروٹنی بے رحمی سے کرنے اور کاغذات پبلک اسکروٹنی کے لیے ویب سائٹ پر ڈالنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
پاکستان میں جہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کرپشن اور بدعنوانی کے بڑے بڑے ریکارڈ قائم کیے تھے، وہیں تاریخ میں پہلی مرتبہ احتساب کے شکنجے میں آتے دکھائی دے رہے ہیں اور ان میں سراسیمگی پھیلی ہوئی نظر آرہی ہے، انھیں اپنے سیاسی مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل بھی خطرے میں نظر آرہا ہے، کئی سابق ارکان اسمبلی جیل بھیج دیے گئے ہیں، کئی ایک کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، کچھ اشتہاری ملزم قرار دیے جاچکے ہیں، کچھ روپوش ہوچکے ہیں، کچھ ضمانت قبل از گرفتاری کروا رہے ہیں، کچھ آیندہ کے انتخابی عمل سے دست بردار ہوچکے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے موقع پر برطانوی ادارے برٹش کونسل نے Next generation goes to the Ballet box سروے میں 18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں کے انٹرویو کیے تو 94 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ پاکستان غلط سمت جارہا ہے جب کہ 2007 کے سروے میں یہ تناسب 50 فیصد تھا، سیاسی نظام کے بارے میں سب سے زیادہ نوجوانوں نے شرعی نظام کے حق میں رائے دی، جب کہ فوجی نظام دوسرے اور جمہوریت تیسرے نمبر پر رہی، 70 فیصد افراد کو فوج پر جب کہ صرف 13 فیصد کو جمہوریت پر اعتماد تھا، دو تہائی نے حالات کو 5 سال سے بدتر قرار دیا، 50 فیصد سے کم نے کہا کہ وہ لازمی طور پر ووٹ ڈالیںگے۔
بی بی سی کے مطابق یہ جائزہ ایسی نسل کی تصویر کشی کرتا ہے جو 5 سالہ جمہوری دور سے ذرا بھی خوش نہیں ہیں، حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر نوجوانوں کا اعتماد بہت کم ہے۔ برٹش کونسل کے مطابق قنوطیت تیزی سے پاکستان کی آیندہ نسل کی شخصیت کا حصہ بنتی جارہی ہے۔
30 سال سے کم عمر افراد کے اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں جمہوری حکومت پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور ان کی 50 فیصد سے بھی کم شرح ووٹ ڈالنے کے حق میں ہے۔ اگر نوجوانوں میں جمہوری نظام سے بددلی اور مایوسی کا یہ عالم ہے تو عمر رسیدہ افراد میں بار بار کے تجربات، ناکامیوں، نامرادیوں کی بنا پر انتخابی عمل سے بددلی اور لاتعلقی کی شرح کیا ہوگی، اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔
صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ 25 یا 30 فیصد سے کم ووٹوں کی درجن بھر جماعتوں میں تقسیم، انتخابی اتحاد اور اتحادی اقتدار کی صورت میں قائم ہونے والی حکومت کو حقیقی معنوں میں عوام کی بھرپور نمایندہ حکومت نہیں کہا جاسکتا ہے، عوام کا اعتماد اور شراکت حاصل کرنے کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
ہمارے ملک کے انتخابات کی تاریخ میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ اور یعنی ووٹ ڈالنے کی شرح ہمیشہ سے بہت کم رہی ہے۔ جس کا عام مطلب تو یہ لیا جاتا ہے کہ ووٹ نہ ڈالنے والے جن کا تناسب ملک کے تمام انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے وہ انتخابات میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں یا اس انتخابی عمل کی نفی کرتے ہیں لیکن اگر ووٹ کاسٹ نہ کرنے والی غالب اکثریت کا تجزیہ کیا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں، پہلی یہ کہ ملک میں تمام باشندوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ ووٹ کے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔
کچھ لوگ کام کاج، ملازمتوں وغیرہ کے سلسلے میں اپنے حلقے میں موجود نہیں ہوتے، کچھ بیمار ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکتے، بعض علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی مگر ان تمام لوگوں میں ووٹ ڈالنے کی تمنا ہوتی ہے لیکن دوسری طرف ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے چپے چپے پر تقریباً تمام انتخابی حلقوں میں قائم پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کے جعلی ووٹ بزور طاقت اور انتخابی عملے کو خوفزدہ کرکے اور مخالف امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس اور ووٹرز کو مارپیٹ کر ووٹ بھگتا دیے جاتے ہیں، بہت سے لوگ پولنگ اسٹیشنز پر پہنچتے ہیں تو ان کے ووٹ پہلے ہی ڈالے جاچکے ہوتے ہیں۔
انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں اور امیدوار بڑے سائنٹیفک انداز میں کام کرتے ہیں، ووٹرز کی فہرستیں لے کر ان پر پہلے سے ہی ایسے افراد کی مارکنگ (نشاندہی) کرلی جاتی ہے جو مخالف امیدواروں سے ہمدردی رکھتے ہیں، علاقے سے رہائش منتقل کرچکے ہوں، مرچکے ہوں یا بیرون ملک ہوں، ایسے لوگوں کے ووٹ پہلی فرصت میں بھگتا دیے جاتے ہیں، انتخابات کے موقع پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک جعلی شناختی کارڈ بنوانے، جعلی بیلٹ پیپر بنوانے، بیلٹ بکس بدل دینے جیسے کئی واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، لہٰذا ایک بات تو صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کے باشندوں کی غالب اکثریت ملک کے انتخابی عمل سے لا تعلق اور بددل ہے۔
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرایع کے مطابق بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے میں بعض قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پہلے نگراں حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے کی سفارش کی تھی کہ بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے انتخابی نشانات کے علاوہ ایک خالی خانہ بھی رکھا جائے جس میں وہ لوگ نشان لگائیں گے جو کسی انتخابی امیدوار کو پسند نہیں کرتے، اگر ایسا ہوتا تو اس سے ایک نئی و سنسنی خیز صورتحال پیدا ہو جاتی، اگر ووٹرز کی غالب اکثریت جو اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتی ہے بیلٹ پیپر پر دیے گئے خالی خانہ کا استعمال کردے تو انتخابات کی حیثیت ہی سوالیہ نشان بن جاتی ہے، جو سیاسی عمل کو نیا رخ دے سکتی ہے۔
طاہر القادری کی عوامی تحریک جو الیکشن کمیشن کے وجود کو غیر آئینی قرار دے کر مسلسل اس کی وکالت پر کمربستہ ہے اور انتخابات کے موقع پر اس نظام کے خلاف دھرنوں کا اعلان کرکے کہہ چکی ہے کہ اس کے دھرنے موجودہ نظام کے خلاف خاموش اکثریت ثابت ہوںگے، اگر خالی خانہ شامل کر دیا جائے تو یہ اس خاموش اکثریت کو زبان بھی دے سکتا ہے، اس خاموش اکثریت کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر بہت سے مقاصد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن پر عمومی طور پر سیاسی جماعتوں، سیاسی حلقوں اور عوام الناس کی طرف سے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے، گو کہ بعض حلقوں کی جانب سے کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے، کمیشن کی کارکردگی تاحال تسلی بخش سمجھی جارہی ہے، انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے اس نے تمام امیدواروں کی اسکروٹنی بے رحمی سے کرنے اور کاغذات پبلک اسکروٹنی کے لیے ویب سائٹ پر ڈالنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
پاکستان میں جہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کرپشن اور بدعنوانی کے بڑے بڑے ریکارڈ قائم کیے تھے، وہیں تاریخ میں پہلی مرتبہ احتساب کے شکنجے میں آتے دکھائی دے رہے ہیں اور ان میں سراسیمگی پھیلی ہوئی نظر آرہی ہے، انھیں اپنے سیاسی مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل بھی خطرے میں نظر آرہا ہے، کئی سابق ارکان اسمبلی جیل بھیج دیے گئے ہیں، کئی ایک کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، کچھ اشتہاری ملزم قرار دیے جاچکے ہیں، کچھ روپوش ہوچکے ہیں، کچھ ضمانت قبل از گرفتاری کروا رہے ہیں، کچھ آیندہ کے انتخابی عمل سے دست بردار ہوچکے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے موقع پر برطانوی ادارے برٹش کونسل نے Next generation goes to the Ballet box سروے میں 18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں کے انٹرویو کیے تو 94 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ پاکستان غلط سمت جارہا ہے جب کہ 2007 کے سروے میں یہ تناسب 50 فیصد تھا، سیاسی نظام کے بارے میں سب سے زیادہ نوجوانوں نے شرعی نظام کے حق میں رائے دی، جب کہ فوجی نظام دوسرے اور جمہوریت تیسرے نمبر پر رہی، 70 فیصد افراد کو فوج پر جب کہ صرف 13 فیصد کو جمہوریت پر اعتماد تھا، دو تہائی نے حالات کو 5 سال سے بدتر قرار دیا، 50 فیصد سے کم نے کہا کہ وہ لازمی طور پر ووٹ ڈالیںگے۔
بی بی سی کے مطابق یہ جائزہ ایسی نسل کی تصویر کشی کرتا ہے جو 5 سالہ جمہوری دور سے ذرا بھی خوش نہیں ہیں، حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر نوجوانوں کا اعتماد بہت کم ہے۔ برٹش کونسل کے مطابق قنوطیت تیزی سے پاکستان کی آیندہ نسل کی شخصیت کا حصہ بنتی جارہی ہے۔
30 سال سے کم عمر افراد کے اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں جمہوری حکومت پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور ان کی 50 فیصد سے بھی کم شرح ووٹ ڈالنے کے حق میں ہے۔ اگر نوجوانوں میں جمہوری نظام سے بددلی اور مایوسی کا یہ عالم ہے تو عمر رسیدہ افراد میں بار بار کے تجربات، ناکامیوں، نامرادیوں کی بنا پر انتخابی عمل سے بددلی اور لاتعلقی کی شرح کیا ہوگی، اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔
صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ 25 یا 30 فیصد سے کم ووٹوں کی درجن بھر جماعتوں میں تقسیم، انتخابی اتحاد اور اتحادی اقتدار کی صورت میں قائم ہونے والی حکومت کو حقیقی معنوں میں عوام کی بھرپور نمایندہ حکومت نہیں کہا جاسکتا ہے، عوام کا اعتماد اور شراکت حاصل کرنے کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔