جان نازک سی روگ بہتیرے
پاکستانی خواتین کو درپیش صحت کے مسائل۔
ISLAMABAD:
''تمغہ امتیاز''
دنیا میں جب بھی کسی ایسی چیز کی مثال دینی ہوتی ہے جو بہت سی دیگر چیزوں کی بنیاد ہوتو عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ ان تمام چیزوں کی یہ ماں ہے۔ وطن یا ملک کو بھی اسی اعتبار سے ماں یا مادرِوطن کہا جاتا ہے۔
یوں جب خصوصاً یورپ تاریک دور سے نکلا تو اس نے معاشرے کی ترقی اور قومی ترقی اور استحکام میں خواتین کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیا، نیپولین نے انیسویں صدی کے آغاز پر جب فرانسیسی قوم سے یہ کہا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمھیں ایک عظیم قوم بنادوں گا تو وہ اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف تھا کہ مضبوط اور طاقت ور فوج کے لیے، اعلیٰ صلاحیتوں کے ماہرین اور سائنس دانوں کے لیے بھی بنیاد طور پر ہر شخص کا صحت مند ہونا نہایت ضروری ہے، کیوںکہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہی ہوتا ہے، اور فرد کے صحت مند ہونے کی لازمی اور بنیادی شرط ماں کا تن درست ہونا ہے۔
یوں اہل مغرب نے تاریک دور سے نکلتے ہی اپنے معاشرے میں خواتین کی صحت پر خصوصی توجہ دی، اسی طرح جاپان کے حوالے سے روایت ہے کہ پوری دنیا میں تاریخ پیدائش اس دن کی ہو تی ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے مگر اہل جاپان کی یہ روایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش اس دن سے شمار کرتے ہیں جب شکم مادر میں بچے کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور عموماً جا پانی بچوں کی تاریخ پیدائش بچے کے پیدا ہونے سے 9 ماہ قبل کی ہوتی ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جاپانی 'جو اپنے بچوں کا بے حد خیال رکھتے ہیں' کہ وہ نہ صرف نئی نسل ہوتی ہے بلکہ بچے جاپانی قوم کا مستقبل بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کی ماں سب سے اہم ہوتی ہے۔ یوں وہ سب سے پہلے اپنی خواتین کی صحت اور صحت سے متعلق تعلیم یعنی ہیلتھ ایجو کیشن پر توجہ دیتے ہیں۔
اب آئیے اپنے پیارے ملک پاکستان کی طرف جس کو اللہ تعالیٰ نے جاپان کے مقا بلے میں کئی گنا زیادہ وسائل عطا کیے ہیں، اگر صحت اور ہیلتھ ایجوکیشن سے اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی صحت کے مسائل کے اعتبار سے دیکھیں تو تو بدقسمتی سے ہم دنیا میں اقوام متحدہ کے کُل اراکین میں بالکل ہی آخر پر ہیں جیسے پولیو، پاکستان اس بیماری کا شکار دو ملکوں میں سے ایک ہے، جب کہ 2016 ء ایک سروے کے مطابق پاکستان مجموعی طور پر صحت کے شعبے میں سہولتوں کے لحاظ سے دنیا کے 189 ملکوں میں سے144 ویں نمبر پر ہے۔2017 ء کی مردم شماری اپنے دس سالہ مقررہ شیڈول سے نو سال کی تاخیر سے ہوئی تھی ۔
اس کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 207774520 ہے جو 32205111 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ یہ آبادی 1998 ء میں 132352 279 تھی یعنی صرف 19 برسوں میں ہماری آبادی میں 57 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ آبادی صنفی اعتبار سے تقریباً برابر ہے یا خواتین کی آبادی مردوں کے مقا بلے میں کچھ زیادہ ہے۔ اس آبادی کا36.4 فی صد یعنی کُل 77580000 شہری آبادی پر مشتمل ہے، جب کہ 63.6 فی صد یعنی کُل 132194520افراد دیہی علاقوں میں آباد ہیں، صوبائی یا علاقائی سطح پر اس کی تقسیم یوں ہے کہ خیبر پختونخواہ کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق 30523371 تھی، جو ملک کی کُل آبادی کا چودہ اعشاریہ انہتر فی صد ہے۔
قبائلی علاقوں کی آبادی5001676 ہے جو کل آبادی کا 2.41 فی صد ہے۔ سندھ کی آبادی47886051 ہے جس کا ملکی تناسب 23,04 فی صد ہے پنجاب کی آبادی 110012442 ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا 52.95 فی صد ہے۔ بلوچستان کی آبادی12344408 ہے اور اس کا تناسب ملک کی کل آبادی میں 5.94 فی صد بنتا ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 2006572 ہے جو کل آبادی کا0.97 فی صد ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک جانب شہری اور دیہی اعتبار ے سے خصوصاً خواتین کے لیے صحت کی سہولتوں کا معیار اور حصول مختلف ہے وہاں صوبوں کے لحاظ سے بھی بہت فرق پایا جاتا ہے۔ اگر صوبائی حوالے سے دیکھیں تو پنجاب موجود صورت حال کی بنیاد پر قدرے بہتر اور بلوچستان بہت پست ہے۔ پھر خواتین کی صحت کے شعبوں میں ایک جانب ہمارے مجموعی قومی ثقافتی، تہذیبی، رویے اور علاقائی رجحانات بھی خصوصاً ہیلتھ ایجو کیشن میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں غربت اور امارت کی تفریق بھی ایک بہت بڑی تفریق ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں غربت کی شرح 51 فی صد تک بتائی جارہی ہے اور اس غربت کو ناپنے کا ایک پیمانہ 2 امریکی ڈالر یومیہ آمدنی کا ہے۔ یعنی اس وقت ہمارے ملک میں جس کی آمدنی 225 روپے روزانہ سے کم ہے وہ غریب تسلیم کیا جاتاہے۔ یوں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جس کی یومیہ آمدنی اتنی کم ہو وہ کس طرح صحت کی معیاری سہولت حاصل کرسکتا ہے جب کہ سرکاری شعبے میں صحت کی جو سہولتیں موجود ہیں ایک طرف تو ان پر عوام کا اعتماد نہیں دوئم یہ سہولتیں کم اور سہولت حاصل کرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔
28 ستمبر2016 ء گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد 1167 ، ڈسپنسریاں 5695، بنیادی صحت مراکز کی تعداد
5464، زچہ بچہ کے مراکز 733 دیہی صحت مراکز 675، ٹی بی سینٹر339 اور ان میں بستروں کی کل تعداد 118869 ہے، جب کہ اسی گیلپ سروے کے مطابق ہمارے ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹر وں کی تعداد 184711 ، ڈینٹسٹوں کی تعداد 16652 نرسوں کی تعداد، 94766، دائیوں کی تعداد 34668 ہے اور ہیلتھ ورکرز کی تعداد16488 ہے، واضح رہے کہ ہمارے ملک میں سالانہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.40 فی صد ہے۔ یوں ہمارے ہاں سالانہ آبادی میں 4000000 افراد سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یوں ایک جانب موجودہ آبادی کے لیے خصوصاً خواتین کے لیے صحت کی سہولتیں مہیا کرنا ہے تو ساتھ ہی سالانہ چالیس لاکھ افراد کے لیے بھی اضافی سہولتیں فراہم کرنی ہوں گی۔
پاکستان میں خواتین اینیما کی بیماری ہے جس کو ماہرین بیماری سے زیادہ ہیلتھ ایجوکیشن کی کمی کہتے ہیںکیوںکہ یہ خون میں فولاد کمی کی وجہ سے ہوتی ہے ہمارے ہاں خون کی کمی کی شرح 81 فی صد تک ہے ان 81 فی صد میں سے تقریباً سات فی صد خواتین تو اس قدر خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں کہ ان چلنا پھرنا عام طور پر کا م کرنا مشکل بل کہ اکثر اوقات ناممکن ہوجاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں کیوںکہ ہیلتھ ایجوکیشن کی کمی ہے اور مجموعی طور پر خواتین کی نصف تعداد ناخواندہ ہے اس لیے ان کی اکثریت کو ایک طویل عرصے تک اس کی سمجھ ہی نہیں آتی اور خصوصاً دیہی علاقوں کے لوگ اس کو جادو ٹونا سمجھتے ہیں اور طویل عرصے کے بعد ایسی خواتین کی صحت کا ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا ہے۔
اگر ہماری خواتین کو غذائیت کے بارے میں پورا علم ہو تو ان کو ایسی صورت حا ل کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں جب بھی غذا اور غذائیت کی بات ہوتی ہے تو اس سے عام لوگ تو کیا بعض اوقات پڑھے لکھے افراد بھی اس سے مراد بھاری خوراکیں مثلاً گوشت، میوے خالص گھی، مکھن، وغیرہ ہی لیتے ہیں، حالاںکہ روغن اور چربی والی خوراک خون کی کمی کو پورا نہیں کرتی، جب کہ بہت سی سبزیاں ترکاریاں دودھ، انڈے اور پھل ایسے ہیں جن کے متواتر استعمال سے خو ن کی کمی دور ہوتی ہے اور اگر صحت کے حوالے سے معلومات اور ایجوکیشن ہو تو ہم شروع ہی سے متوازن غذائیت کی خوراک استعمال کرکے خون کی کمی کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں، جو آج ہمارے ہاں خواتین کی صحت کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
خون کے حوالے ہی سے زچہ بچہ کے لیے تھیلیسمیا کے بارے میں بھی اگر والدین شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کے خون کے ٹیسٹ کروالیں تو اس مسئلے اور ایسے ہی کئی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ یہی خو ن کی کمی ہے جس کی کمی وجہ سے نہ صرف دوران حمل بلکہ زچگی کے وقت بھی عورت کو بہت سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے اور پھر اسی کے اثرات بچے کی صحت پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق اس وقت ہمارے ہاں نوجوانوں میں بلند فشار خون کا تناسب 18 فی صد ہے، جوانوں میں یعنی 45 سال تک کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر کا تناسب 33 فی صد ہے۔ اسی طرح اب ہمارے ہاں شوگر یعنی ذیابیطس کی شرح 26 فی صد ہے اور 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں ہر تیسرا شخص مرد اور عورت ان بیماریوں کا شکار ہے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ دونوں بیماریاں ساتھ لاحق ہیں ان دونوں بیماریوں کا ایسا کوئی علاج نہیں کہ جن سے یہ دونوں بیماریاں جڑ سے ختم ہوجائیں۔ یوں ان کو لاعلاج بیماریاں قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ دونوں بیماریاں ایسی ہیں کہ جن پر پوری طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
خواتین کے لیے یہ بیماریاں زیادہ خطرناک اس لیے ہیں کہ اس سے دوران حمل اور خصوصا زچگی کے وقت بہت سےمسائل پیدا ہوجاتے ہیں شوگر کو بعض لوگ بیماریوں کی ماں کہتے ہیں اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے شوگر کو آج کل شدت کے اعتبار سے دو درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے ٹائپ ٹو زیادہ خطرناک نہیں ہوتی کہ عموماً یہ 45 سال کی عمر کے بعد لاحق ہوتی اور اگر احتیا ط پرہیز، اور باقاعدگی سے علاج نہ کیا جا ئے تو یہ بڑھتی ہے جب کہ ٹائپ ون اکثر موروثی ہوتی ہے اور اکثر پیدائشی ہوتی ہے اور اس کے لیے عموماً ڈاکٹر انسولین کا استعمال کرواتے ہیں۔
ایسی خواتین کوعلاج، احتیاط اور پرہیز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جب دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے وقت ان بیماریوں کا کنٹرول میں رہنا اہم ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سی خواتین تو ایسی ہیں جن کو یہ بیماریاں برسوں سے لاحق ہیں مگر ان کو اس خبر ہی نہیں کیوںکہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایک جا نب تو عام لوگ سالانہ طبی معائنہ نہیں کرواتے پھر ڈاکٹروں میں سے بھی بہت سے ڈاکٹر ایسے ہیں جو بیماریوں مریضوں کے آنے پر ان کا بلڈ پریشر چیک نہیں کرتے شوگر ٹیسٹ نہیں کرواتے یہ سب ہیلتھ ایجوکیشن کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ شعور کا فقدان ناخواندگی کے ساتھ ساتھ اگر ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں میں بھی یہ رجحانات ہوں کہ وہ اپنی صحت اور اپنے خاندان کی صحت کی جانب تو جہ نہ دیں تو پھر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک تعلق خواتین کا ہے تو وہ خواتین جو بارآوری کی عمر، یعنی 15 سال تا 49 سال، میں ہیں تو ہیلتھ ایجوکیشن کے ذریعے اس عمر کی خواتین کی اکثریت کو ان دو بیماریوں یعنی ہائی بلڈ پریشر اور شوگر سے بچایا جا سکتا ہے اور یوں ہم اپنی آئندہ نسل کو صحت مند اور توانا بنا سکتے ہیں اور جہاں تک تعلق ان خواتین کا ہے جو زیادہ عمر کی ہیں ان کو علاج، احتیاط اور پرہیز کی بنیادوں سے شوگر اور بلڈ پریشر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ایڈز ایک ایسی موذی بیماری ہے جس میں انسانی جسم کی قوت مدافعت ختم ہوجاتی ہے بلکہ مدافعت کا نظام تباہ ہوجا ہے اور ایسے شخص کو اگر کوئی بھی بیماری ہوجائے تو وہ بھی تقریباً لاعلاج ہوجاتی ہے۔ اس مرض کا شکار اگر خواتین ہوتی ہیں تو اس کے ذمے دار مرد ہیں جن کی وجہ سے یہ بیماری گھروں میں اور گھریلو خواتین میں آتی ہے۔ پھر جہاں تک تعلق تپ دق یا ٹی بی کا ہے تو ہمارے ملک میں سالانہ ہر ایک لاکھ افراد میں سے270 افراد ٹی بی کا شکار ہیں یوں اس وقت ملک میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 5400 کے قریب اور ان میں بھی اٖضافہ ہورہا ہے۔ ٹی بی کا شکار بھی ہمارے ہاں خواتین زیادہ ہوتی ہیں کیوں کہ ہر اس گھر میں جہاں کوئی شخص ٹی بی کے مرض کا شکار ہے اس کی تیمارداری کے فرائض عورت ہی ادا کرتی اور ان میں سے بیشتر کو اپنی حفاظت کا شعور نہیں۔
اسی طرح اب ہمارے ہاں کینسر کے مرض میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کینسر اگرچہ مختلف اقسام کا ہے لیکن خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح زیادہ ہورہی ہے۔ اس وقت دنیا میں سالانہ بریسٹ کینسر کی مریض خواتین کی تعداد تیرا لاکھ اسی ہزار ہے۔ یہ بیماری بھی پہلے مغربی ملکوں میں زیادہ تھی مگر اب یہ مغربی ملکوں کے مقابلے میں ہمارے جیسے ملکوں میں کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں اب سالانہ 83000 خواتین بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوری ہیں، اور بیشتر اس بیماری میں مبتلا ہوکر کئی کئی مہینے کی اذیت اٹھا کر موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ کینسر کا منہگا علاج ہے جو عام خواتین یا ان کے اہل خانہ برادشت نہیں کرسکتے اور سرکاری اسپتالوں میں یا رفاعی اور فلاحی کینسر کے اسپتالوں میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ تمام مریض وہاں علاج کراسکیں۔ پھر جن کے پاس علاج کی طاقت ہے ان کے ہاں ہیلتھ ایجوکیشن اور شعور کی کمی ہے کہ ان کی اکثریت کو اس وقت بریسٹ کینسر کا پتا چلتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ایک ریسرچ کہ مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے والی 77 فی صد خواتین پچاس سال کی عمر سے زیادہ کی ہوتی ہیں۔
یوں اگر پچاس سال سے زیادہ عمر کی خواتین احتیاطاً ایک بار پہلے ہی سے ٹیسٹ کروالیں تو ابتدائی طور پر ہی اس بیماری کی پکڑ ہونے پر اس کا علاج آسان اور قدرے سستا ہوجاتا ہے۔ اسی کے ساتھ اگر بچوں والی خواتین کا جائزہ لیا جائے تو تو اب تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ خواتین جو اپنے بچوں اپنا دودھ پلاتی ہیں، یعنی بریسٹ فیڈنگ کرواتی ہیں، ان کی اکثریت بریسٹ کینسر سے محفوظ رہتی ہے۔ اپنا دودھ پلا نے سے خواتین اور بھی چند بیماریوں سے بچنے رہنے کے علاوہ یوں بھی صحت کے لحاظ سے بہتر رہتی ہیں کہ دو ڈھائی سال تک جو مائیں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہیں وہ اس وقت تک کم ازکم ڈھائی تین سا ل تک دوبارہ ماں بنے سے محفوظ رہتی ہیں، جو خواتین کی صحت کے اعتبار سے بہت مفید ہے۔
ہمارے معاشرتی رویوں میں بھی ہیلتھ ایجو کیشن کی بنیاد پر اب تبدیلی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کی خواتین میں بارآوری کی عمر15 سا سے49 سال ہے اورآج بھی ہمارے خصوصاً دیہات میں 13 سال کی عمر میں بھی بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے اور اوسطاً ایک عورت اپنی بارآوری کی عمر میں پانچ بچے جنم دیتی ہے۔ وہ خواتین جن کی چھوٹی عمر میں شادی ہوتی ہے وہ نہ صر ف زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں بلکہ ان کے ہاں حمل کے ضائع ہونے کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ایسی خواتین جن کے حمل ضائع ہوں ان کی اوسط زندگی کم ہوجاتی ہے اور اسی طرح ان کے بچے بچیاں بھی کم زور اور کم وزن پید ہو تے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہمارے ہاں معیاری وزن سے کم میں پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب 31.5 فی صد ہے، جب کہ پندرہ سال اور اس سے کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کا تناسب 6.7 فی صد ہے۔ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام اگرچہ سرکاری سطح پر کی جارہی ہے، مگر 6.7 فی صد شرح کا رحجان اب بھی خطرناک ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں کوئی لڑکی یا لڑکا ذہنی طور پر سمجھ دار نہیں ہوتا اور جہاں تک لڑکیوں کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں کی ذہنی نشوونما پر ویسے ہی کم توجہ دی جاتی ہے۔
جسمانی طور پر بھی کم عمر لڑکیاں وہ بچے کی پیدائش کے لحاظ سے کم زور ہوتی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ابھی لڑکپن کی عمر سے آگے نہیں بڑھی ہوتی ہیں تو ان کو اگر اس چھوٹی عمر میں ماں بنادیا جائے تو وہ ماں کے منصب کے اعتبار سے تقاضے پورے نہیں کرسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں فی ہزار نومولود بچوں میں سے 52 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں، 31.5 فی صد بچے معیاری وزن سے کم پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں تک ماؤں کا تعلق ہے تو ہر سال دورانِ حمل ایک لاکھ ماؤں میں سے 260 مائیں اب بھی ہلاک ہورہی ہیں۔
صحت کے حوالے سے مردوں اور عورتوں کے لحاظ سے خواتین کی اہمیت یوں زیادہ ہے کہ وہ بچے جنم دیتی ہیں، انسانی نسل کو آگے بڑھاتی ہیں اور اس اعتبار سے وہ صحت کے شعبے میں کم ازکم چالیس فی صد زیادہ حصے کی حق دار ہیں، مگر ہمارے ان کو مجموعی طور پر مردوں کے مقابلے میں مجموعی صحت کے لحاظ سے نظرانداز کیا جاتا ہے اور صحت کی جملہ اور موجودہ سہولتوں میں بھی چالیس فی صد کم حصہ دیا جاتا ہے۔ پورے پاکستان میں شہری دیہی بنیاد پر طبقاتی تقسیم کے لحاظ سے اور مختلف صوبوں میں وسائل کی تقسیم اور ایسے دیگر مسائل کے اعتبار سے صحت کے شعبے میں خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔
مثلاً بلوچستان کی کل آبادی تو12344408 ہے جو ملک کی کل آبادی کا صرف 5.94 فی صد ہے، مگر اس کا رقبہ ملک کے کل رقبے 796096 مربع کلومیٹر میں سے 347190 مربع کلومیٹر یعنی ملک کے کُل رقبے کا تقریباً 43 فی صد ہے اور بلوچستان میں آواران اور خاران ایسے اضلاع ہیں جہاں آبادی کی گنجانیت بیس سے بائیس افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ راستے دشوار ہیں اور علاقے کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں بھی خواتین کو مشکل ہی سے معیاری طبی سہولتیں میسر ہیں۔ یوں خصوصاً جب ڈلیوری کا وقت ہوتا ہے تو اکثر تاخیر ہوجاتی ہے۔ پہلی تاخیر خود اہل خانہ کرتے ہیں۔ پھر سواری کے بندوبست میں دیر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اسپتال پہنچنے میں اور اسپتال پہنچنے کے بعد وہاں پر لیبر روم لے جانے میں۔ عموماً تربیت یافتہ لیڈی ڈاکٹر کو گھر سے بلوانے میں تاخیر ہوجاتی ہے اور یوں بعض اوقات ماں جان سے چلی جاتی ہے۔
اسی طرح اب گنجا ن آباد شہروں میں مسائل ہیں کہ لیڈی ڈاکٹر، تربیت یافتہ ہیلتھ وزیٹریا تجربہ کار اور تربیت یافتہ دائی کو ڈلیوری کے لیے گھر بلوایا جائے تو اس کے گھر پہنچنے میں ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اور بعض اوقات زچہ کو اسپتال لے جانے کے دوران ٹریفک کے جام ہونے یا پھر اسپتالوں زیادہ رش ہونے اور عملے کی کمی اور دیگر سہولتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم خواتین کو اہمیت دیں اور ہیلتھ ایجوکیشن کے اعتبار سے باشعور ہونے کا ثبوت دیں تو ہو نا تو یہ چاہیے کہ زچہ کے بارے میں حمل کے معلوم ہوتے ہی ہر مہینے تربیت یافتہ ڈاکٹر سے معائنہ کرواتے رہیں تو ہم پہلے سے ہر طرح سے تیار ہوں گے۔ اب جہاں تک حکومت کی جانب سے زچہ بچہ کے لحاظ سے سہولتوں کے مہیا کیے جانے کا تعلق ہے تو اس وقت زچہ کا تحفظ صرف 60.9 فی صد کو میسر ہے اور یہ بھی اعدادوشمار اور عددی طور پر موجود سہولتوں کی بنیاد پر ہے، لیکن اگر انسانی رویے ہم دردانہ نہ ہوں، مسیحائی کا جذبہ موجود نہ ہوتو پھر صحت کی سہولتوں کے ہونے سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا اور ہمارے ہاں اس کا اظہار عوام کی اکثریت برملا کرتی ہے۔
اس وقت ملک میں 184711 رجسٹرڈ ڈاکٹر 94766، نرسیں، 34668 دائیاں اور 16488 ہیلتھ ورکرز موجود ہیں، جو صرف زچہ بچہ کے مسائل پر تو جہ نہیں دے رہے، بلکہ تمام مریضوں کا علاج اور دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ امراض قلب، بلڈپریشر، شوگر، نمونیہ، ہپاٹائیٹس اے اور بی، جو اب مجموعی طور پر 12فی صد تک پہنچ رہا ہے، ملیریا، پیٹ اور معدے کی بیماریوں، سانس اور سینے کی بیماریوں اور سینے کے شدید انفیکشن میں بھی نہ صرف خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں زیادہ بلکہ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہونے والی خواتین کو گھر یلو طور پر اور کمیونٹی کی سطح پر بھی نظرانداز کیا جاتا ہے ، جب کہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری 20 کروڑ سے زیادہ کی کل آبادی میں اب خواتین کی تعداد زیادہ ہورہی ہے اور اس کے مقابلے میں ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے اور خصوصاً لیڈی ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے۔
یہاں یہ حقائق بھی عجیب ہیں کہ اس وقت ہمارے ہاں تو ڈاکٹروں کی کمی ہے، مگر امریکا میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا جائزہ لیں تو مزید ہزاروں بہترین ڈاکٹر ملک سے باہر کام کررہے ہیں۔ لیڈی ڈاکٹروں کے حوالے سے بھی دل چسپ صورت حال یہ ہے کہ کھاتے پیتے گھرانوں کی اکثر لڑکیاں ایف ایس سی کرنے کے بعد ایم بی بی ایس کرلیتی ہیں اور پھر ان کی کم ازکم 20 فی صد تعداد شادی کے بعد ملازمت یا ڈاکٹری کے شعبے کو ہمیشہ کے لیے تر ک کردیتی ہے۔
''تمغہ امتیاز''
دنیا میں جب بھی کسی ایسی چیز کی مثال دینی ہوتی ہے جو بہت سی دیگر چیزوں کی بنیاد ہوتو عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ ان تمام چیزوں کی یہ ماں ہے۔ وطن یا ملک کو بھی اسی اعتبار سے ماں یا مادرِوطن کہا جاتا ہے۔
یوں جب خصوصاً یورپ تاریک دور سے نکلا تو اس نے معاشرے کی ترقی اور قومی ترقی اور استحکام میں خواتین کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیا، نیپولین نے انیسویں صدی کے آغاز پر جب فرانسیسی قوم سے یہ کہا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمھیں ایک عظیم قوم بنادوں گا تو وہ اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف تھا کہ مضبوط اور طاقت ور فوج کے لیے، اعلیٰ صلاحیتوں کے ماہرین اور سائنس دانوں کے لیے بھی بنیاد طور پر ہر شخص کا صحت مند ہونا نہایت ضروری ہے، کیوںکہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہی ہوتا ہے، اور فرد کے صحت مند ہونے کی لازمی اور بنیادی شرط ماں کا تن درست ہونا ہے۔
یوں اہل مغرب نے تاریک دور سے نکلتے ہی اپنے معاشرے میں خواتین کی صحت پر خصوصی توجہ دی، اسی طرح جاپان کے حوالے سے روایت ہے کہ پوری دنیا میں تاریخ پیدائش اس دن کی ہو تی ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے مگر اہل جاپان کی یہ روایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش اس دن سے شمار کرتے ہیں جب شکم مادر میں بچے کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور عموماً جا پانی بچوں کی تاریخ پیدائش بچے کے پیدا ہونے سے 9 ماہ قبل کی ہوتی ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جاپانی 'جو اپنے بچوں کا بے حد خیال رکھتے ہیں' کہ وہ نہ صرف نئی نسل ہوتی ہے بلکہ بچے جاپانی قوم کا مستقبل بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کی ماں سب سے اہم ہوتی ہے۔ یوں وہ سب سے پہلے اپنی خواتین کی صحت اور صحت سے متعلق تعلیم یعنی ہیلتھ ایجو کیشن پر توجہ دیتے ہیں۔
اب آئیے اپنے پیارے ملک پاکستان کی طرف جس کو اللہ تعالیٰ نے جاپان کے مقا بلے میں کئی گنا زیادہ وسائل عطا کیے ہیں، اگر صحت اور ہیلتھ ایجوکیشن سے اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی صحت کے مسائل کے اعتبار سے دیکھیں تو تو بدقسمتی سے ہم دنیا میں اقوام متحدہ کے کُل اراکین میں بالکل ہی آخر پر ہیں جیسے پولیو، پاکستان اس بیماری کا شکار دو ملکوں میں سے ایک ہے، جب کہ 2016 ء ایک سروے کے مطابق پاکستان مجموعی طور پر صحت کے شعبے میں سہولتوں کے لحاظ سے دنیا کے 189 ملکوں میں سے144 ویں نمبر پر ہے۔2017 ء کی مردم شماری اپنے دس سالہ مقررہ شیڈول سے نو سال کی تاخیر سے ہوئی تھی ۔
اس کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 207774520 ہے جو 32205111 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ یہ آبادی 1998 ء میں 132352 279 تھی یعنی صرف 19 برسوں میں ہماری آبادی میں 57 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ آبادی صنفی اعتبار سے تقریباً برابر ہے یا خواتین کی آبادی مردوں کے مقا بلے میں کچھ زیادہ ہے۔ اس آبادی کا36.4 فی صد یعنی کُل 77580000 شہری آبادی پر مشتمل ہے، جب کہ 63.6 فی صد یعنی کُل 132194520افراد دیہی علاقوں میں آباد ہیں، صوبائی یا علاقائی سطح پر اس کی تقسیم یوں ہے کہ خیبر پختونخواہ کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق 30523371 تھی، جو ملک کی کُل آبادی کا چودہ اعشاریہ انہتر فی صد ہے۔
قبائلی علاقوں کی آبادی5001676 ہے جو کل آبادی کا 2.41 فی صد ہے۔ سندھ کی آبادی47886051 ہے جس کا ملکی تناسب 23,04 فی صد ہے پنجاب کی آبادی 110012442 ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا 52.95 فی صد ہے۔ بلوچستان کی آبادی12344408 ہے اور اس کا تناسب ملک کی کل آبادی میں 5.94 فی صد بنتا ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 2006572 ہے جو کل آبادی کا0.97 فی صد ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک جانب شہری اور دیہی اعتبار ے سے خصوصاً خواتین کے لیے صحت کی سہولتوں کا معیار اور حصول مختلف ہے وہاں صوبوں کے لحاظ سے بھی بہت فرق پایا جاتا ہے۔ اگر صوبائی حوالے سے دیکھیں تو پنجاب موجود صورت حال کی بنیاد پر قدرے بہتر اور بلوچستان بہت پست ہے۔ پھر خواتین کی صحت کے شعبوں میں ایک جانب ہمارے مجموعی قومی ثقافتی، تہذیبی، رویے اور علاقائی رجحانات بھی خصوصاً ہیلتھ ایجو کیشن میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں غربت اور امارت کی تفریق بھی ایک بہت بڑی تفریق ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں غربت کی شرح 51 فی صد تک بتائی جارہی ہے اور اس غربت کو ناپنے کا ایک پیمانہ 2 امریکی ڈالر یومیہ آمدنی کا ہے۔ یعنی اس وقت ہمارے ملک میں جس کی آمدنی 225 روپے روزانہ سے کم ہے وہ غریب تسلیم کیا جاتاہے۔ یوں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جس کی یومیہ آمدنی اتنی کم ہو وہ کس طرح صحت کی معیاری سہولت حاصل کرسکتا ہے جب کہ سرکاری شعبے میں صحت کی جو سہولتیں موجود ہیں ایک طرف تو ان پر عوام کا اعتماد نہیں دوئم یہ سہولتیں کم اور سہولت حاصل کرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔
28 ستمبر2016 ء گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد 1167 ، ڈسپنسریاں 5695، بنیادی صحت مراکز کی تعداد
5464، زچہ بچہ کے مراکز 733 دیہی صحت مراکز 675، ٹی بی سینٹر339 اور ان میں بستروں کی کل تعداد 118869 ہے، جب کہ اسی گیلپ سروے کے مطابق ہمارے ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹر وں کی تعداد 184711 ، ڈینٹسٹوں کی تعداد 16652 نرسوں کی تعداد، 94766، دائیوں کی تعداد 34668 ہے اور ہیلتھ ورکرز کی تعداد16488 ہے، واضح رہے کہ ہمارے ملک میں سالانہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.40 فی صد ہے۔ یوں ہمارے ہاں سالانہ آبادی میں 4000000 افراد سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یوں ایک جانب موجودہ آبادی کے لیے خصوصاً خواتین کے لیے صحت کی سہولتیں مہیا کرنا ہے تو ساتھ ہی سالانہ چالیس لاکھ افراد کے لیے بھی اضافی سہولتیں فراہم کرنی ہوں گی۔
پاکستان میں خواتین اینیما کی بیماری ہے جس کو ماہرین بیماری سے زیادہ ہیلتھ ایجوکیشن کی کمی کہتے ہیںکیوںکہ یہ خون میں فولاد کمی کی وجہ سے ہوتی ہے ہمارے ہاں خون کی کمی کی شرح 81 فی صد تک ہے ان 81 فی صد میں سے تقریباً سات فی صد خواتین تو اس قدر خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں کہ ان چلنا پھرنا عام طور پر کا م کرنا مشکل بل کہ اکثر اوقات ناممکن ہوجاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں کیوںکہ ہیلتھ ایجوکیشن کی کمی ہے اور مجموعی طور پر خواتین کی نصف تعداد ناخواندہ ہے اس لیے ان کی اکثریت کو ایک طویل عرصے تک اس کی سمجھ ہی نہیں آتی اور خصوصاً دیہی علاقوں کے لوگ اس کو جادو ٹونا سمجھتے ہیں اور طویل عرصے کے بعد ایسی خواتین کی صحت کا ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا ہے۔
اگر ہماری خواتین کو غذائیت کے بارے میں پورا علم ہو تو ان کو ایسی صورت حا ل کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں جب بھی غذا اور غذائیت کی بات ہوتی ہے تو اس سے عام لوگ تو کیا بعض اوقات پڑھے لکھے افراد بھی اس سے مراد بھاری خوراکیں مثلاً گوشت، میوے خالص گھی، مکھن، وغیرہ ہی لیتے ہیں، حالاںکہ روغن اور چربی والی خوراک خون کی کمی کو پورا نہیں کرتی، جب کہ بہت سی سبزیاں ترکاریاں دودھ، انڈے اور پھل ایسے ہیں جن کے متواتر استعمال سے خو ن کی کمی دور ہوتی ہے اور اگر صحت کے حوالے سے معلومات اور ایجوکیشن ہو تو ہم شروع ہی سے متوازن غذائیت کی خوراک استعمال کرکے خون کی کمی کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں، جو آج ہمارے ہاں خواتین کی صحت کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
خون کے حوالے ہی سے زچہ بچہ کے لیے تھیلیسمیا کے بارے میں بھی اگر والدین شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کے خون کے ٹیسٹ کروالیں تو اس مسئلے اور ایسے ہی کئی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ یہی خو ن کی کمی ہے جس کی کمی وجہ سے نہ صرف دوران حمل بلکہ زچگی کے وقت بھی عورت کو بہت سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے اور پھر اسی کے اثرات بچے کی صحت پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق اس وقت ہمارے ہاں نوجوانوں میں بلند فشار خون کا تناسب 18 فی صد ہے، جوانوں میں یعنی 45 سال تک کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر کا تناسب 33 فی صد ہے۔ اسی طرح اب ہمارے ہاں شوگر یعنی ذیابیطس کی شرح 26 فی صد ہے اور 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں ہر تیسرا شخص مرد اور عورت ان بیماریوں کا شکار ہے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ دونوں بیماریاں ساتھ لاحق ہیں ان دونوں بیماریوں کا ایسا کوئی علاج نہیں کہ جن سے یہ دونوں بیماریاں جڑ سے ختم ہوجائیں۔ یوں ان کو لاعلاج بیماریاں قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ دونوں بیماریاں ایسی ہیں کہ جن پر پوری طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
خواتین کے لیے یہ بیماریاں زیادہ خطرناک اس لیے ہیں کہ اس سے دوران حمل اور خصوصا زچگی کے وقت بہت سےمسائل پیدا ہوجاتے ہیں شوگر کو بعض لوگ بیماریوں کی ماں کہتے ہیں اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے شوگر کو آج کل شدت کے اعتبار سے دو درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے ٹائپ ٹو زیادہ خطرناک نہیں ہوتی کہ عموماً یہ 45 سال کی عمر کے بعد لاحق ہوتی اور اگر احتیا ط پرہیز، اور باقاعدگی سے علاج نہ کیا جا ئے تو یہ بڑھتی ہے جب کہ ٹائپ ون اکثر موروثی ہوتی ہے اور اکثر پیدائشی ہوتی ہے اور اس کے لیے عموماً ڈاکٹر انسولین کا استعمال کرواتے ہیں۔
ایسی خواتین کوعلاج، احتیاط اور پرہیز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جب دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے وقت ان بیماریوں کا کنٹرول میں رہنا اہم ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سی خواتین تو ایسی ہیں جن کو یہ بیماریاں برسوں سے لاحق ہیں مگر ان کو اس خبر ہی نہیں کیوںکہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایک جا نب تو عام لوگ سالانہ طبی معائنہ نہیں کرواتے پھر ڈاکٹروں میں سے بھی بہت سے ڈاکٹر ایسے ہیں جو بیماریوں مریضوں کے آنے پر ان کا بلڈ پریشر چیک نہیں کرتے شوگر ٹیسٹ نہیں کرواتے یہ سب ہیلتھ ایجوکیشن کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ شعور کا فقدان ناخواندگی کے ساتھ ساتھ اگر ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں میں بھی یہ رجحانات ہوں کہ وہ اپنی صحت اور اپنے خاندان کی صحت کی جانب تو جہ نہ دیں تو پھر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک تعلق خواتین کا ہے تو وہ خواتین جو بارآوری کی عمر، یعنی 15 سال تا 49 سال، میں ہیں تو ہیلتھ ایجوکیشن کے ذریعے اس عمر کی خواتین کی اکثریت کو ان دو بیماریوں یعنی ہائی بلڈ پریشر اور شوگر سے بچایا جا سکتا ہے اور یوں ہم اپنی آئندہ نسل کو صحت مند اور توانا بنا سکتے ہیں اور جہاں تک تعلق ان خواتین کا ہے جو زیادہ عمر کی ہیں ان کو علاج، احتیاط اور پرہیز کی بنیادوں سے شوگر اور بلڈ پریشر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ایڈز ایک ایسی موذی بیماری ہے جس میں انسانی جسم کی قوت مدافعت ختم ہوجاتی ہے بلکہ مدافعت کا نظام تباہ ہوجا ہے اور ایسے شخص کو اگر کوئی بھی بیماری ہوجائے تو وہ بھی تقریباً لاعلاج ہوجاتی ہے۔ اس مرض کا شکار اگر خواتین ہوتی ہیں تو اس کے ذمے دار مرد ہیں جن کی وجہ سے یہ بیماری گھروں میں اور گھریلو خواتین میں آتی ہے۔ پھر جہاں تک تعلق تپ دق یا ٹی بی کا ہے تو ہمارے ملک میں سالانہ ہر ایک لاکھ افراد میں سے270 افراد ٹی بی کا شکار ہیں یوں اس وقت ملک میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 5400 کے قریب اور ان میں بھی اٖضافہ ہورہا ہے۔ ٹی بی کا شکار بھی ہمارے ہاں خواتین زیادہ ہوتی ہیں کیوں کہ ہر اس گھر میں جہاں کوئی شخص ٹی بی کے مرض کا شکار ہے اس کی تیمارداری کے فرائض عورت ہی ادا کرتی اور ان میں سے بیشتر کو اپنی حفاظت کا شعور نہیں۔
اسی طرح اب ہمارے ہاں کینسر کے مرض میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کینسر اگرچہ مختلف اقسام کا ہے لیکن خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح زیادہ ہورہی ہے۔ اس وقت دنیا میں سالانہ بریسٹ کینسر کی مریض خواتین کی تعداد تیرا لاکھ اسی ہزار ہے۔ یہ بیماری بھی پہلے مغربی ملکوں میں زیادہ تھی مگر اب یہ مغربی ملکوں کے مقابلے میں ہمارے جیسے ملکوں میں کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں اب سالانہ 83000 خواتین بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوری ہیں، اور بیشتر اس بیماری میں مبتلا ہوکر کئی کئی مہینے کی اذیت اٹھا کر موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ کینسر کا منہگا علاج ہے جو عام خواتین یا ان کے اہل خانہ برادشت نہیں کرسکتے اور سرکاری اسپتالوں میں یا رفاعی اور فلاحی کینسر کے اسپتالوں میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ تمام مریض وہاں علاج کراسکیں۔ پھر جن کے پاس علاج کی طاقت ہے ان کے ہاں ہیلتھ ایجوکیشن اور شعور کی کمی ہے کہ ان کی اکثریت کو اس وقت بریسٹ کینسر کا پتا چلتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ایک ریسرچ کہ مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے والی 77 فی صد خواتین پچاس سال کی عمر سے زیادہ کی ہوتی ہیں۔
یوں اگر پچاس سال سے زیادہ عمر کی خواتین احتیاطاً ایک بار پہلے ہی سے ٹیسٹ کروالیں تو ابتدائی طور پر ہی اس بیماری کی پکڑ ہونے پر اس کا علاج آسان اور قدرے سستا ہوجاتا ہے۔ اسی کے ساتھ اگر بچوں والی خواتین کا جائزہ لیا جائے تو تو اب تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ خواتین جو اپنے بچوں اپنا دودھ پلاتی ہیں، یعنی بریسٹ فیڈنگ کرواتی ہیں، ان کی اکثریت بریسٹ کینسر سے محفوظ رہتی ہے۔ اپنا دودھ پلا نے سے خواتین اور بھی چند بیماریوں سے بچنے رہنے کے علاوہ یوں بھی صحت کے لحاظ سے بہتر رہتی ہیں کہ دو ڈھائی سال تک جو مائیں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہیں وہ اس وقت تک کم ازکم ڈھائی تین سا ل تک دوبارہ ماں بنے سے محفوظ رہتی ہیں، جو خواتین کی صحت کے اعتبار سے بہت مفید ہے۔
ہمارے معاشرتی رویوں میں بھی ہیلتھ ایجو کیشن کی بنیاد پر اب تبدیلی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کی خواتین میں بارآوری کی عمر15 سا سے49 سال ہے اورآج بھی ہمارے خصوصاً دیہات میں 13 سال کی عمر میں بھی بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے اور اوسطاً ایک عورت اپنی بارآوری کی عمر میں پانچ بچے جنم دیتی ہے۔ وہ خواتین جن کی چھوٹی عمر میں شادی ہوتی ہے وہ نہ صر ف زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں بلکہ ان کے ہاں حمل کے ضائع ہونے کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ایسی خواتین جن کے حمل ضائع ہوں ان کی اوسط زندگی کم ہوجاتی ہے اور اسی طرح ان کے بچے بچیاں بھی کم زور اور کم وزن پید ہو تے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہمارے ہاں معیاری وزن سے کم میں پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب 31.5 فی صد ہے، جب کہ پندرہ سال اور اس سے کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کا تناسب 6.7 فی صد ہے۔ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام اگرچہ سرکاری سطح پر کی جارہی ہے، مگر 6.7 فی صد شرح کا رحجان اب بھی خطرناک ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں کوئی لڑکی یا لڑکا ذہنی طور پر سمجھ دار نہیں ہوتا اور جہاں تک لڑکیوں کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں کی ذہنی نشوونما پر ویسے ہی کم توجہ دی جاتی ہے۔
جسمانی طور پر بھی کم عمر لڑکیاں وہ بچے کی پیدائش کے لحاظ سے کم زور ہوتی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ابھی لڑکپن کی عمر سے آگے نہیں بڑھی ہوتی ہیں تو ان کو اگر اس چھوٹی عمر میں ماں بنادیا جائے تو وہ ماں کے منصب کے اعتبار سے تقاضے پورے نہیں کرسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں فی ہزار نومولود بچوں میں سے 52 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں، 31.5 فی صد بچے معیاری وزن سے کم پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں تک ماؤں کا تعلق ہے تو ہر سال دورانِ حمل ایک لاکھ ماؤں میں سے 260 مائیں اب بھی ہلاک ہورہی ہیں۔
صحت کے حوالے سے مردوں اور عورتوں کے لحاظ سے خواتین کی اہمیت یوں زیادہ ہے کہ وہ بچے جنم دیتی ہیں، انسانی نسل کو آگے بڑھاتی ہیں اور اس اعتبار سے وہ صحت کے شعبے میں کم ازکم چالیس فی صد زیادہ حصے کی حق دار ہیں، مگر ہمارے ان کو مجموعی طور پر مردوں کے مقابلے میں مجموعی صحت کے لحاظ سے نظرانداز کیا جاتا ہے اور صحت کی جملہ اور موجودہ سہولتوں میں بھی چالیس فی صد کم حصہ دیا جاتا ہے۔ پورے پاکستان میں شہری دیہی بنیاد پر طبقاتی تقسیم کے لحاظ سے اور مختلف صوبوں میں وسائل کی تقسیم اور ایسے دیگر مسائل کے اعتبار سے صحت کے شعبے میں خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔
مثلاً بلوچستان کی کل آبادی تو12344408 ہے جو ملک کی کل آبادی کا صرف 5.94 فی صد ہے، مگر اس کا رقبہ ملک کے کل رقبے 796096 مربع کلومیٹر میں سے 347190 مربع کلومیٹر یعنی ملک کے کُل رقبے کا تقریباً 43 فی صد ہے اور بلوچستان میں آواران اور خاران ایسے اضلاع ہیں جہاں آبادی کی گنجانیت بیس سے بائیس افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ راستے دشوار ہیں اور علاقے کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں بھی خواتین کو مشکل ہی سے معیاری طبی سہولتیں میسر ہیں۔ یوں خصوصاً جب ڈلیوری کا وقت ہوتا ہے تو اکثر تاخیر ہوجاتی ہے۔ پہلی تاخیر خود اہل خانہ کرتے ہیں۔ پھر سواری کے بندوبست میں دیر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اسپتال پہنچنے میں اور اسپتال پہنچنے کے بعد وہاں پر لیبر روم لے جانے میں۔ عموماً تربیت یافتہ لیڈی ڈاکٹر کو گھر سے بلوانے میں تاخیر ہوجاتی ہے اور یوں بعض اوقات ماں جان سے چلی جاتی ہے۔
اسی طرح اب گنجا ن آباد شہروں میں مسائل ہیں کہ لیڈی ڈاکٹر، تربیت یافتہ ہیلتھ وزیٹریا تجربہ کار اور تربیت یافتہ دائی کو ڈلیوری کے لیے گھر بلوایا جائے تو اس کے گھر پہنچنے میں ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اور بعض اوقات زچہ کو اسپتال لے جانے کے دوران ٹریفک کے جام ہونے یا پھر اسپتالوں زیادہ رش ہونے اور عملے کی کمی اور دیگر سہولتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم خواتین کو اہمیت دیں اور ہیلتھ ایجوکیشن کے اعتبار سے باشعور ہونے کا ثبوت دیں تو ہو نا تو یہ چاہیے کہ زچہ کے بارے میں حمل کے معلوم ہوتے ہی ہر مہینے تربیت یافتہ ڈاکٹر سے معائنہ کرواتے رہیں تو ہم پہلے سے ہر طرح سے تیار ہوں گے۔ اب جہاں تک حکومت کی جانب سے زچہ بچہ کے لحاظ سے سہولتوں کے مہیا کیے جانے کا تعلق ہے تو اس وقت زچہ کا تحفظ صرف 60.9 فی صد کو میسر ہے اور یہ بھی اعدادوشمار اور عددی طور پر موجود سہولتوں کی بنیاد پر ہے، لیکن اگر انسانی رویے ہم دردانہ نہ ہوں، مسیحائی کا جذبہ موجود نہ ہوتو پھر صحت کی سہولتوں کے ہونے سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا اور ہمارے ہاں اس کا اظہار عوام کی اکثریت برملا کرتی ہے۔
اس وقت ملک میں 184711 رجسٹرڈ ڈاکٹر 94766، نرسیں، 34668 دائیاں اور 16488 ہیلتھ ورکرز موجود ہیں، جو صرف زچہ بچہ کے مسائل پر تو جہ نہیں دے رہے، بلکہ تمام مریضوں کا علاج اور دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ امراض قلب، بلڈپریشر، شوگر، نمونیہ، ہپاٹائیٹس اے اور بی، جو اب مجموعی طور پر 12فی صد تک پہنچ رہا ہے، ملیریا، پیٹ اور معدے کی بیماریوں، سانس اور سینے کی بیماریوں اور سینے کے شدید انفیکشن میں بھی نہ صرف خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں زیادہ بلکہ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہونے والی خواتین کو گھر یلو طور پر اور کمیونٹی کی سطح پر بھی نظرانداز کیا جاتا ہے ، جب کہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری 20 کروڑ سے زیادہ کی کل آبادی میں اب خواتین کی تعداد زیادہ ہورہی ہے اور اس کے مقابلے میں ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے اور خصوصاً لیڈی ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے۔
یہاں یہ حقائق بھی عجیب ہیں کہ اس وقت ہمارے ہاں تو ڈاکٹروں کی کمی ہے، مگر امریکا میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا جائزہ لیں تو مزید ہزاروں بہترین ڈاکٹر ملک سے باہر کام کررہے ہیں۔ لیڈی ڈاکٹروں کے حوالے سے بھی دل چسپ صورت حال یہ ہے کہ کھاتے پیتے گھرانوں کی اکثر لڑکیاں ایف ایس سی کرنے کے بعد ایم بی بی ایس کرلیتی ہیں اور پھر ان کی کم ازکم 20 فی صد تعداد شادی کے بعد ملازمت یا ڈاکٹری کے شعبے کو ہمیشہ کے لیے تر ک کردیتی ہے۔