ادب میں انفرادیت کا کیا مطلب ہے

ادب، سماج اور تہذیب کے حوالے سے انفرادیت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

ادب، سماج اور تہذیب کے حوالے سے انفرادیت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

یوں تو یہ ایک سادہ سا سوال ہے، لیکن اس کا جواب اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اس لفظ کے عصری اطلاقات سے واقف ہوں۔

الفاظ چوںکہ اپنے ساتھ کسی شے، کام یا صورتِ حال کا ایک تصور رکھتے ہیں، اس لیے اُن کے معنی کے ذریعے ہم اُس تصور کا اثبات کرتے ہیں۔ کسی لفظ کے عقب میں جو بھی تصور پایا جاتا ہے، وہ دراصل کسی سماج اور اُس کی تہذیب کے اصل الاصول اور نظامِ اقدار سے ماخوذ ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ اپنی جگہ خود ایک سماج اور اُس کی تہذیب کے کسی رویے کا مظہر ہوتا ہے۔ خیر، اس وقت ہمیں لفظ و معنی کے تہذیب سے رشتے پر بات نہیں کرنی، بلکہ ہمیں تو انفرادیت پر کچھ غور کرنا ہے اور اس کے لیے ادب کا دائرہ پیشِ نظر ہے۔ اب چوںکہ ادیب شاعر جنگل میں بیٹھ کر کام کرسکتا ہے اور نہ ہی ادب خلا میں تخلیق ہوسکتا ہے، بلکہ ضروری ہے کہ وہ اپنے سماج اور اپنے زمانے کے ساتھ گہرا اور سچا رشتہ رکھتا ہو، تاکہ اُس کے زندہ تجربات کے معانی ادب کی جمالیات کے توسط سے دریافت کرسکے۔ اس لیے ہم ادب اور اس میں رُونما ہونے والے رویوں کے معانی ایک زمانے اور اُس کی تہذیب کی نسبت سے متعین کرتے ہیں۔

اب رہی بات زمانے کی تو زمانہ اپنے مزاج سے بھی پہچا جانا جاتا ہے۔ اس مزاج کا اظہار سماجی رویوں، سیاسی عوامل، تہذیبی قدروں اور ادب و فن کے طرزِاحساس اور اسالیب میں ہوتا ہے۔ ہمارے عہد کا مزاج عجیب ہے۔ ایک طرف یہ اختصاص پسندی پر اصرار کرتا ہے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ افراد، ادارے اور اُن کی کارکردگی سب کو اُن کی جداگانہ خصوصیت کے حوالے سے شناخت کیا جائے۔

اختصاص پسندی سے یہ توقع کی جاتی ہے اور بجا طور پر کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے فرد کا انفرادی جوہر نمایاں ہوکر سامنے آئے گا اور اپنی قوتِ کار کا اظہار درجۂ کمال میں کرے گا۔ فی الحال ہم اس مسئلے سے کوئی بحث نہیں کرتے کہ اختصاص پسندی کے رویے نے انسانی معاشروں میں انفرادی جوہر کو نمایاں ہونے کا موقع زیادہ فراہم کیا یا پھر survival of the fittest ایسے جنگل کے قانون کو۔ اس لیے کہ یہ ایک طویل اور تفصیل طلب بحث ہے۔ سرِدست ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ اختصاص پسندی کا اس جدید عہد کے انسانی سماج پر تمام تر اثر مثبت ہی رہا ہے، اس لیے ہمیں اسے اپنے عہد کا ایک اثباتی رویہ باور کرنا چاہیے۔

اب دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے عہد کے مزاج کی تشکیل میں گلوبلائزیشن بھی نہایت اہم اور بڑا کردار ادا کررہی ہے۔ عالم گیریت کے اس تصور کو آج ساری دنیا ہی تقریباً قبول کرچکی ہے۔ اب ہم سب ایک عالمی گاؤں میں رہتے ہیں جہاں جغرافیائی حدود کی طنابیں کھینچ کر زمینی فاصلے اس طرح سمیٹ دیے گئے ہیں کہ افراد ایک ہی طرح کے کارپوریٹ طرزِحیات کے ساتھ جی رہے ہیں۔ سات سمندر پار رہنے والے اب اسمارٹ فون اور کمپیوٹر اسکرین کے طفیل صبح و شام ہمارے گھر آنگن میں کھیلتے ہیں۔

سماجی سیاسی خبریں ہوں یا نئے نئے فیشن یا پھر نت نئے کھانے سب کچھ یہاں سے وہاں پلک جھپکتے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اب ہر چیز ہر جگہ قبولیت یا پذیرائی بھی حاصل کرلیتی ہے۔ پہلے معاشرے اور افراد کسی بھی چیز کو اختیار کرنے سے قبل اس امر پر غور ضرور کرتے تھے کہ آیا وہ اُن کے سماج میں قابلِ قبول بھی ہوسکتی ہے کہ نہیں۔ فرد ہو یا سماج کوئی بھی اپنے مزاج اور اقدار سے بے پروا ہونے پر بے دھڑک آمادہ نہیں ہوسکتا تھا۔

آج صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج فرد اور سماج جسے دیکھیے ایک ایسی ''آزادی'' کا ''اسیر'' ہے کہ جس میں اُس کی انفرادی شناخت سلب ہوکر رہ گئی ہے۔ خوردونوش اور بودوباش سے لے کر تصورِحیات و اقدار تک دیکھ لیجیے، دنیا کی آج ایک بڑی آبادی ایک ہی رنگ و مزاج کی حامل نظر آتی ہے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف اختصاص اور انفرادیت پر اصرار اور دوسری طرف گلوبل ولیج میں بڑھتی ہوئی یک رنگی اور یکسانیت- یعنی دو متضاد رویوں کا چلن ہمارے زمانے میں ہے۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہے ہمارے عہد کا مزاج۔ خیر، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے اس کے تمام ممکنہ پہلوؤں سے دیکھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اِس کے بارے میں کچھ نتائج مرتب کیے جائیں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں ہم اپنے تہذیبی ردِعمل کا اظہار کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک الگ دفتر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے، فی الحال ہم اسے ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔

ادب میں انفرادی جوہر بڑی قابلِ قدر چیز ہوتا ہے۔ یہی وہ شے ہے جو کسی تخلیق کار کے نمو کی رفتار اور اُس کی صلاحیتِ کار کے امتیاز کو واضح کرتی ہے۔ اُس کے تخلیقی نقوش کو گہرائی عطا کرتی ہے اور اُس کے فن میں معنویت کی متعدد سطحیں قائم کرتی ہے۔ یوں ایک تخلیق کار کے امتیازی نشانات نمایاں ہوتے ہیں اور معاصر تخلیقی تناظر میں اُس کی پہچان کا دائرہ الگ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس پہچان میں اسلوب، آہنگ، موضوع، طرزِاحساس، زاویۂ نگاہ اور قوتِ بیاں جیسے عناصر کا اپنا اپنا حصہ ہوسکتا ہے۔ کہیں اسلوب یا آہنگ نمایاں ہوسکتا اور باقی عناصر زیریں سطح پر اور کہیں طرزِاحساس یا زاویۂ نگاہ۔ ظاہر ہے، اس کا انحصار تخلیق کار کی داخلی کیمیا یا اُس کی شخصیت کے بنیادی داعیے پر ہوگا۔ اسی لیے ادب یا کسی بھی تخلیقی اظہار کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے ہمیں اُس کے اندر اترنا پڑتا ہے۔ سطح پر رہ کر اس کی جامع تفہیم ممکن نہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی عمومی طریقہ یا فارمولا ہمارے کام آسکتا ہے۔

ادب، سماج اور تہذیب کے حوالے سے انفرادیت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں اخلاقیات اور جمالیات کے دو بنیادی تصورات سے بالعموم بحث کی گئی ہے۔ اب تو خیر، یہ موضوع اور اس کے مباحث ازکار رفتہ سمجھے جاتے ہیں، لیکن ایک زمانے میں یہ ادب و نقد کی بحث میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ افلاطون اور ارسطو سے لے کر ڈیکارٹ، کانٹ سے لے کر ہوبز اور جان لاک تک اور اُدھر کنفیوشس اور ایڈمنڈ بروک سے لے کر وٹگن اسٹین تک اس باب میں کتنے ہی دفتر فلسفہ و ادب کی تاریخ کا سرمایہ ہیں۔ بیس ویں صدی میں ایلیٹ نے اس موضوع پر سماج اور انفرادی جوہر کے باہمی رشتے اور ایک دوسرے پر ان کے اثر کے ضمن میں جو بحث کی ہے، اس کی گونج ہمارے یہاں بھی خوب سنائی دی۔

بہرحال، اپنے تہذیبی، فکری اور ادبی تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی تخلیقی فن پارے یا تخلیق کار کی قدر و قیمت کا دارومدار صرف اُس کی انفرادیت پر نہیں ہوتا، بلکہ اُس نظامِ معنی پر ہوتا ہے جو اس کے سماج اور تہذیب کے تصورِحقیقت سے تشکیل پاتا ہے۔ تخلیق کار کی انفرادیت جس حد تک خود کو اپنی تہذیب کی اقدار اور مظاہر سے جوڑ پاتی ہے، اسی قدر وسعت اور کشادگی اُس میں پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی نسبت سے اس کی معنویت کا دائرہ بھی بڑا ہوجاتا ہے۔ چناںچہ پھر دریا بہ حباب اندر کی کیفیت اور موج میں نظارۂ بحر پیدا ہوجاتا ہے۔

اگر تخلیقی انفرادیت اپنی تہذیبی کلیت سے مربوط نہ ہو پائے تو اُس میں معنی کی مختلف سطحیں پیدا نہیں ہوتیں اور نہ ہی اسے ہمہ جہت حقائق کو بیان کرنے کی سکت میسر آتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا انفرادیت پسند شاعر غالب ہے۔ انفرادی جوہر کا اظہار مختلف سطحوں پر اُس کے یہاں ملتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ اپنی انفرادیت پر شدومد سے مصر بھی نظر آتا ہے۔ تاہم وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ تھا کہ فن کار کی انفرادیت اُس کی تہذیبی کلیت سے الگ ہوکر بڑی اور گہری معنویت کی حامل نہیں رہتی، اور یہ کہ وہ اپنے کل سے مل کر نابود نہیں ہوتی، بلکہ ایک بڑی حقیقت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اُس نے کہا تھا:


عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا

اسی طرح انفرادی جوہر کی نہایت اعلیٰ مثال اقبال بھی ہے، لیکن یہاں بھی ہمیں انفرادیت پرستی کا وہ رویہ نظر نہیں آتا ہے جس کا مقصد اپنے اجتماع یا کلیت سے کٹ کر خود مکتفی ہوجاتا ہو۔ لہٰذا اقبال نے بھی اس حقیقت کا اظہار صاف لفظوں میں کیا ہے:

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

اپنے عہد کے مسائل پر اگر ہم غور کریں تو اس حوالے سے ایک اچھی خاصی فہرست مرتب ہوسکتی ہے۔ اب مثلاً یہی دیکھ لیجیے کہ آج اکثر تخلیق کار ادیب شاعر اس بات سے کوئی سروکار رکھتے دکھائی نہیں دیتے کہ بڑی حقیقت خواہ اُس کی نوعیت انفرادی ہی کیوں نہ ہو، ہمیشہ سے ایک سے زیادہ سطحوں پر اپنا اظہار کرتی ہے، یعنی فرد کے سیاق میں بھی اور سماجی تناظر میں بھی۔ اسی لیے وہ ہمیں فرد اور سماج بہ یک وقت دونوں کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

علاوہ ازیں اس کے توسط سے ہمیں فرد کے اجتماعیت سے مربوط ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اصل میں کسی فن پارے میں اُس وقت تک اس نوع کے اظہار کی راہ ہموار نہیں ہوتی جب تک فن کار کی انفرادیت اس کے سماج کی اجتماعیت سے اپنا رشتہ استوار نہیں کرتی۔ یہ عمل چاہے فرد کے ظاہر میں کم ہو یا بالکل نظر نہ آئے، لیکن داخلی سطح پر بہرحال پوری طرح واقع ہوتا ہے۔ بڑے فن کار کی شناخت کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ اُس کی نمو کے مراحل اور انفرادی نشانات ایک بڑے کُل میں یا اُس کے تہذیبی اور اجتماعی تناظر میں زیادہ روشن اور نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انفرادیت جب اجتماعیت سے جڑتی ہے تو اُس کا جوہر معدوم نہیں ہوتا، بلکہ صیقل ہوتا ہے، اسی لیے اُس کی آب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ چناںچہ اُس کی چھوٹ دُور تک پڑتی دکھائی دیتی ہے۔

عہدِجدید میں اختصاص پسندی نے انفرادیت پرستی کا راستہ کھولنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج کے ادیب شاعر اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت سے قطعِ نظر کرتے ہوئے اپنی قبولیت اور بقا کا سامان انفرادیت پرستی کے ذریعے کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ وہ نہ تو یہ دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اُن کا داخلی جوہر کیا تقاضا رکھتا ہے اور نہ ہی انھیں اس سے غرض ہے کہ تہذیبی قوت اور اجتماعی شعور اُن کے انفرادی جوہر کو کیا کمک فراہم کرسکتے ہیں۔ اپنی انفرادیت کا لوہا منوانے کے لیے وہ صرف خارجی عناصر سے رجوع کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ آج شاعری میں ہمیں ردیف، الفاظ، تراکیب کا کھیل زیادہ نظر آتا ہے یا اُدھر افسانے میں کرداروں کی اٹھا پٹخ، زبان کی بازی گری اور بیان کی غرابت کا تماشا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سارا ظاہری دکھاوا اس یقین سے تخلیقی تجربے کا حصہ بنانے کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے تخلیق کار کی انفرادی شان نمایاں ہورہی ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک حد تک یہ سب خارجی عناصر کسی فن کار کے کام تو بے شک آسکتے ہیں، لیکن ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب وہ اپنی داخلی کیمیا اور اجتماعی تہذیبی شعور کو ہم آہنگ کرکے معنی کے اُس منطقے میں داخل ہوتا ہے جہاں تفریق کی تہ سے بھی تطبیق برآمد ہوتی ہے۔ اس مقام پر فن کار کو روحِ عصر کا لحن میسر آتا ہے۔ وہ اپنے وجود سے اوپر اٹھ کر اپنی اجتماعی سماجی روح کا حصہ بن جاتا ہے۔ یوں ایک بڑے کُل میں داخل ہوکر اُس کی اثرپذیری کا دائرہ بہت کشادہ ہوجاتا ہے۔

آج کا ادیب شاعر اپنی انفرادیت پرستی کے لیے جتنے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، اتنا ہی کم مایہ اور بے اثر ہوتا جارہا ہے۔ مستثنیات سے قطعِ نظر، آپ آج کے بیش تر شاعروں کو پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ اکتا دینے والی یک رنگی اور مایوس کُن خودنگری کا شکار ہیں۔ حد یہ ہے کہ اُن کے انفرادی شعور اور ذاتی احساس کی سطح میڈیوکرٹی کے بھی نچلے درجے پر ہے۔ اس کے برعکس آپ اپنی کلاسیکی شاعری کا ذخیرہ ذرا سامنے رکھ لیجیے۔ کلاسیکی عہد کے اساتذہ کے یہاں دیکھیے ایک جیسی زمینوں میں غزلیں ملیں گی، لیکن لہجے الگ پہچانے جائیں گے۔ اصل میں ان کے لہجے کا الگ سے پہچانا جانا اُن کی فن کارانہ انفرادیت کا غماز ہے، لیکن یہ انفرادیت داخلی کیمیا کی ہے، خارجی سہاروں سے حاصل نہیں کی گئی۔ اس لیے اجتماعی تناظر میں بھی اس کا رنگ زائل نہیں ہوتا، بلکہ اپنی الگ چمک کے ساتھ ابھرتا ہے۔

اسی طرح آج ہمیں اپنے فکشن میں بھی کوفت کی حد کو پہنچے ہوئے مخصوص طریقوں کا استعمال عام نظر آتا ہے۔ اب چوںکہ ہر آدمی اپنی انفرادیت کو منوانے کی خواہش میں مبتلا ہے، اس لیے سب ایک ہی طرح کی ہڑبونگ کا شکار نظر آتے ہیں۔ پہلے ہمارے یہاں ادیب شاعر کا یہ مسئلہ نہیں تھا کہ وہ اپنی انفرادیت کا جھنڈا اٹھائے نظر آئے، بلکہ وہ سب کے بیچ رہنے اور سب جیسا ہونے میں ہی اپنی بقا کا سامان دیکھتا تھا۔ اسی لیے میر صاحب نے کہا تھا:

گو مرے شعر ہیں خواص پسند

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

یعنی فن کار کی سماجی relevance بجائے خود بڑائی کا ایک حوالہ تھی۔ اس لیے اُس کی توجہ خارجی عناصر کو برتنے پر کم اور اپنے اندر سے سراغِ زندگی پانے کی آرزو پر زیادہ مرکوز رہتی تھی اور اس سراغ کو عام کرنا ہی وہ اصل کام سمجھتا تھا۔ وہ اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ تھا کہ اُس کا انفرادی جوہر اجتماعی شعور کی سان سے بھی صیقل ہوتا ہے۔

عام آدمی اگر آج ادب و شعر سے دُور ہورہا ہے تو اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ اُسے یہاں وابستگی کی قوت اپنی طرف نہیں کھینچ رہی ہے۔ وہ الفاظ و اظہار کے اس معاملے سے خود کو اس طرح ہم رشتہ نہیں کر پارہا ہے کہ اس تجربے میں شریک ہوسکے اور اسے اپنی دھڑکنوں میں محسوس کرسکے۔ اسی وجہ سے وہ ادب و شعر سے بے گانہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ ادب ہمارے معاشرے میں تہذیبی قدروں کو قائم رکھنے اور سماجی یا اجتماعی طرزِاحساس کو زندہ رکھنے میں کردار ادا کرے تو ایسا اُس وقت ممکن ہے جب ہمارا ادب اس الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے طوفانی بہاؤ میں اپنی جگہ مضبوطی سے جمی ہوئی چٹان کی طرح ہو۔ اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ادیب شاعر انفرادیت پرستی کی مریضانہ کیفیت سے خود کو نکال کر اجتماعی تہذیبی قدروں اور حقیقی سماجی شعور سے ہم کنار ہوکر اپنے جوہر کا اظہار کریں۔
Load Next Story