قاضی واجد کوچۂ فن کو اداس کرگیا
قاضی واجد کے کریڈٹ پر ایک ڈرامہ رشتے اور راستے بھی ہے جو حکومت پاکستان اور چین کے اشتراک سے بنایا گیا تھا۔
ہنستے بولتے اور اپنے کرداروں کے رنگ بکھیرتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ دنوں نامور فنکار قاضی واجد بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور کوچۂ فن کو اداس کر گیا۔ قاضی واجد ایک سینئر صداکار اور اسٹیج و ٹی وی کا نامور اداکار ہی نہیں تھا وہ اپنی ذات میں ایک اسکول آف تھاٹ تھا۔ وہ ریڈیو کے سنہرے دور کی کبھی بھلائی نہ جانے والی چاہت بھری شخصیت تھا۔
میری قاضی واجد سے پہلی ملاقات اور پھر شناسائی ریڈیو ہی کے زمانے سے ہوئی تھی اور سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ریڈیو اسٹیج اور ٹی وی سے جڑتے ہوئے ہر شخص کی آنکھوں کا تارا اور سب ہی کی پسندیدہ شخصیت تھا، جب کہ ریڈیو قاضی واجد کا گھر آنگن تھا۔
ریڈیو ہی اس کی زندگی اور اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو کے آرٹسٹوں کی ہر طرف بہار ہوتی تھی اور اس دور میں آنکھیں ریڈیو کے آرٹسٹوں کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہوا کرتی تھیں۔ اس دور میں جب سلیم احمد، امیر خان، افضل صدیقی، ظفر صدیقی، عبدالقیوم، محمود علی سبحانی بایونس، قربان جیلانی اور طلعت حسین کی مقبولیت تھی انھی ناموں میں پھر ایک نام قاضی واجد کا بھی شامل ہوگیا تھا۔
پھر جب قاضی واجد ریڈیو سے اسٹیج اور ٹیلی ویژن کی طرف آیا تو اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت ہر میدان میں اپنی جیت کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا اور ہر وقت منفرد اور اچھوتے کرداروں کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ جتنا بڑا اداکار بنتا گیا اور جتنی شہرت اس کے حصے میں آتی رہی وہ اتنا ہی ملنسار اور دوست نواز ہوتا چلا گیا۔ سادگی اور محبت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ خواجہ معین الدین کے شہرۂ آفاق ڈرامہ ''تعلیم بالغاں'' میں آیا تو اس کی کردار نگاری نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ شوکت صدیقی کا مشہور ناول ''خدا کی بستی'' سیریل جب ٹیلی ویژن سے شروع کی گئی تو اس کی اداکاری کے ناظرین بے چینی سے منتظر رہا کرتے تھے۔
یہ اپنے ہر کردار میں ڈوب جاتا تھا اور اس کے ہر کردار میں حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک فلمی صحافی سے ایک فلم اسکرپٹ رائٹر بنا اور مجھے فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کی کہانی، مکالمے اور گیت لکھنے کا موقع ملا تو میں نے اس فلم کے آرٹسٹوں کو منتخب کرنے میں بھی بڑی دلچسپی لی تھی۔ بطور فلمی صحافی میری فلمی دنیا میں بھی ایک پہچان بن چکی تھی۔
سنگیتا اور ناظم کو ہیروئن اور ہیرو کاسٹ کرنے کے بعد میں نے ہی مذکورہ فلم میں سنتوش رسل، کمال ایرانی کے ساتھ ساتھ پہلی بار معین اختر اور قاضی واجد کو فلم تم سا نہیں دیکھا کی کاسٹ میں شامل کیا تھا۔ سنگیتا اس فلم سے پہلے ڈھاکا کے اداکار فلمساز و ہدایت کار رحمان کی فلم کنگن میں کام کر چکی تھی اور ان دنوں اداکار ناظم ہدایتکار اکبر بنگلوری کی فلم محمد بن قاسم میں کاسٹ کیا گیا تھا۔''تم سا نہیں دیکھا'' ان دوں آرٹسٹوں کی دوسری فلم تھی اور معین اختر اور قاضی واجد کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔
معین اختر اور قاضی واجد دونوں ہی میرے اچھے دوست تھے اور پھر جب سنگیتا چند مہینوں کے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئی تھی اور اس نے لاہور کی فلمی مصروفیات کی وجہ سے کراچی آنے سے انکار کردیا تھا تو پھر فلم تم سا نہیں دیکھا کی بقیہ شوٹنگ ہم نے لاہور کے اے ایم اسٹوڈیو میں کی تھی جہاں کراچی سے ناظم، معین اختر اور قاضی واجد فلم یونٹ کے ساتھ لاہور گئے تھے اور دو ہفتے وہاں شوٹنگ میں مصروف رہے تھے۔
پھر اداکار ناظم کو لاہور میں فلمساز و اداکار رنگیلا کی فلم میں سائیڈ ہیرو کا کردار مل گیا اور معین اختر کے ساتھ قاضی واجد واپس کراچی آگئے تھے۔ ان دونوں آرٹسٹوں کا لاہور کی فلم انڈسٹری سے مزاج میل نہیں کھاتا تھا جب کہ معین اختر کراچی کے فنکشنوں کی جان تھا اور کوئی شام ایسی نہ ہوتی تھی جس میں معین اختر کا کوئی فنکشن نہ ہوتا ہو۔ شادی بیاہ کے فنکشنوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے فنکشنوں کی میزبانی بھی اسی کے حصے میں آتی تھی اور وہ کراچی کے فنکشنوں کا شہزادہ کہلاتا تھا۔
پھر معین اختر کے ساتھ قاضی واجد بھی ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا حصہ بنتا چلا گیا اور یہ دونوں آرٹسٹ پی ٹی وی کی جان اور ٹیلی ویژن کا سرمایا سمجھتے جاتے تھے۔ اسی دوران یہ دونوں آرٹسٹ کراچی اسٹیج کی رونقیں بھی بڑھاتے رہے۔ یہ دونوں آرٹسٹ فن کی دنیا کے منجھے ہوئے کھلاڑی بن گئے تھے۔ یہ اپنے ہر کردار کو فن کے آسمان پر چاندنی کی طرح پھیلادیا کرتے تھے۔
پی ٹی وی کے بعد بہت سے اور چینلز بھی منظر عام پر آگئے تھے قاضی واجد ہر چینل کے ڈراموں میں کاسٹ کیا جانے لگا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قاضی واجد دن میں، رات میں کئی کئی پرائیویٹ چینلز کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتا تھا اور بعض اوقات تو اسے گھر جانے کے لیے بھی مشکل سے فرصت ملا کرتی تھی۔ ہاں ایک بات کی اور وضاحت کرتا چلوں کہ نارتھ ناظم آباد میں جس علی دولت اسکوائر میں میری سکونت تھی ابتدا میں اسی اسکوائر میں قاضی واجد بھی رہتا تھا۔
اسی اپارٹمنٹ میں ریڈیو کی مشہور پروڈیوسر خواجہ بیگم، ریڈیو کا سنگر اور کمپوزر جاوید اختر، ریڈیو پاکستان کراچی کا مشہور اناؤنسر ظہیر احمد خان بھی رہتا تھا۔ ہماری اکثر ملاقاتیں اور عید، بقر عید اور محرم کے دنوں میں اکثر و بیشتر بیٹھکیں بھی رہا کرتی تھیں اور نویں محرم کی رات کو سب مل کر گلی میں حلیم کی دیگیں بھی پکوایا کرتے تھے اور رات بھر کا رت جگا بھی رہا کرتاتھا۔
پھر خواجہ بیگم کا کینسر کے مرض میں انتقال ہوگیا۔ جاوید اختر اور قاضی واجد نے یہاں کے فلیٹس چھوڑ کر اپنے اپنے بڑے گھر لے لیے مگر محرم کی نویں اور دسویں کو پھر سارے فنکار دوست یکجا ہو جایا کرتے تھے اور ان سب دوستوں کو یکجا کرنے میں علی دولت کے جیلانی بھائی کی کاوشوں کا بڑا دخل رہتا تھا۔ میں جب امریکا سے کراچی آیا تو قاضی واجد کے اچانک انتقال کی خبر مجھے سب سے پہلے جیلانی بھائی ہی نے دی تھی اور وہ علی دولت اسکوائر کے جگت بھائی کھلاتے ہیں۔
قاضی واجد کی رحلت نے تمام دوستوں، احباب اور اپنے چاہنے والوں کو اداس کردیا تھا۔ اس نے ڈراموں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اس کے ڈراموں کی تعداد دیگر آرٹسٹوں سے کہیں زیادہ تھی۔ خدا کی بستی ڈرامہ سیریل میں قاضی واجد نے راجا کا کردار کیا تھا جو لافانی کردار بن گیا تھا۔
قاضی واجد کا پہلا ٹی وی ڈرامہ ''ایک ہی راستہ تھا'' پھر قاضی واجد ٹی وی ڈراموں کی ضرورت بنتا چلا گیا اس کے مشہور ڈراموں میں ''کسک، سوتیلی، بے چین، ان کہی، آنگن ٹیڑھا، تنہائیاں، دھوپ کنارے، سنگِ مرمر، یہ کیسی محبت '' کے ساتھ اس کے نام سے اتنے ڈرامے جڑے ہیں کہ اگر سب کا تذکرہ کیا جائے تو میرے کالم کا دامن ہی چھوٹا پڑ جائے گا، قاضی واجد کے اسٹیج ڈراموں میں جو بہت ہی مشہور ڈرامے ہیں ان میں ''مرزا غالب بندر روڈ پر، لال قلعہ سے لالوکھیت اور وادیٔ کشمیر کے نام قابل ذکر اور ناقابل فراموش ہیں۔
قاضی واجد کے کریڈٹ پر ایک ڈرامہ رشتے اور راستے بھی ہے جو حکومت پاکستان اور چین کے اشتراک سے بنایا گیا تھا۔ قاضی واجد کو حکومت کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ قاضی واجد کے ڈرامے انڈیا کی آرٹ سے وابستہ پونا انسٹیٹیوٹ میں نئے آنے والے فنکاروں کی تربیت کے لیے بھی دکھائے جاتے تھے۔
قاضی واجد اچانک زندگی کے ڈرامے سے لے کر موت کے ڈرامے میں کاسٹ کرلیا گیا اور پھر یہ نامور اداکار ستاسی برس کی عمر میں 11 فروری 2018ء کو اس دنیا کے ڈراموں کو خیر باد کہہ کر آخرت کے اسٹیج کی طرف چلا گیا۔ قاضی واجد کا اصلی نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ یہ ہندوستان کے شہرگوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔بلاشبہ قاضی واجد صف اول کا بڑا چہیتا اداکار تھا۔ اس اداکار کا خلا برسوں بعد بھی پورا نہ ہوسکے گا، میرے پاس اب کہنے کے لیے الفاظ بھی دم توڑ رہے ہیں بس اتنا ہی کہوںگا آہ قاضی واجد:
ریڈیو جس کا آنگن سدا سے رہا
قاضی واجد بھی دنیا سے رخصت ہوا
فن کی دنیا کا وہ ایک سرمایا تھا
آہ اِک اور روشن دیا بجھ گیا
میری قاضی واجد سے پہلی ملاقات اور پھر شناسائی ریڈیو ہی کے زمانے سے ہوئی تھی اور سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ریڈیو اسٹیج اور ٹی وی سے جڑتے ہوئے ہر شخص کی آنکھوں کا تارا اور سب ہی کی پسندیدہ شخصیت تھا، جب کہ ریڈیو قاضی واجد کا گھر آنگن تھا۔
ریڈیو ہی اس کی زندگی اور اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو کے آرٹسٹوں کی ہر طرف بہار ہوتی تھی اور اس دور میں آنکھیں ریڈیو کے آرٹسٹوں کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہوا کرتی تھیں۔ اس دور میں جب سلیم احمد، امیر خان، افضل صدیقی، ظفر صدیقی، عبدالقیوم، محمود علی سبحانی بایونس، قربان جیلانی اور طلعت حسین کی مقبولیت تھی انھی ناموں میں پھر ایک نام قاضی واجد کا بھی شامل ہوگیا تھا۔
پھر جب قاضی واجد ریڈیو سے اسٹیج اور ٹیلی ویژن کی طرف آیا تو اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت ہر میدان میں اپنی جیت کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا اور ہر وقت منفرد اور اچھوتے کرداروں کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ جتنا بڑا اداکار بنتا گیا اور جتنی شہرت اس کے حصے میں آتی رہی وہ اتنا ہی ملنسار اور دوست نواز ہوتا چلا گیا۔ سادگی اور محبت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ خواجہ معین الدین کے شہرۂ آفاق ڈرامہ ''تعلیم بالغاں'' میں آیا تو اس کی کردار نگاری نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ شوکت صدیقی کا مشہور ناول ''خدا کی بستی'' سیریل جب ٹیلی ویژن سے شروع کی گئی تو اس کی اداکاری کے ناظرین بے چینی سے منتظر رہا کرتے تھے۔
یہ اپنے ہر کردار میں ڈوب جاتا تھا اور اس کے ہر کردار میں حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک فلمی صحافی سے ایک فلم اسکرپٹ رائٹر بنا اور مجھے فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کی کہانی، مکالمے اور گیت لکھنے کا موقع ملا تو میں نے اس فلم کے آرٹسٹوں کو منتخب کرنے میں بھی بڑی دلچسپی لی تھی۔ بطور فلمی صحافی میری فلمی دنیا میں بھی ایک پہچان بن چکی تھی۔
سنگیتا اور ناظم کو ہیروئن اور ہیرو کاسٹ کرنے کے بعد میں نے ہی مذکورہ فلم میں سنتوش رسل، کمال ایرانی کے ساتھ ساتھ پہلی بار معین اختر اور قاضی واجد کو فلم تم سا نہیں دیکھا کی کاسٹ میں شامل کیا تھا۔ سنگیتا اس فلم سے پہلے ڈھاکا کے اداکار فلمساز و ہدایت کار رحمان کی فلم کنگن میں کام کر چکی تھی اور ان دنوں اداکار ناظم ہدایتکار اکبر بنگلوری کی فلم محمد بن قاسم میں کاسٹ کیا گیا تھا۔''تم سا نہیں دیکھا'' ان دوں آرٹسٹوں کی دوسری فلم تھی اور معین اختر اور قاضی واجد کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔
معین اختر اور قاضی واجد دونوں ہی میرے اچھے دوست تھے اور پھر جب سنگیتا چند مہینوں کے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئی تھی اور اس نے لاہور کی فلمی مصروفیات کی وجہ سے کراچی آنے سے انکار کردیا تھا تو پھر فلم تم سا نہیں دیکھا کی بقیہ شوٹنگ ہم نے لاہور کے اے ایم اسٹوڈیو میں کی تھی جہاں کراچی سے ناظم، معین اختر اور قاضی واجد فلم یونٹ کے ساتھ لاہور گئے تھے اور دو ہفتے وہاں شوٹنگ میں مصروف رہے تھے۔
پھر اداکار ناظم کو لاہور میں فلمساز و اداکار رنگیلا کی فلم میں سائیڈ ہیرو کا کردار مل گیا اور معین اختر کے ساتھ قاضی واجد واپس کراچی آگئے تھے۔ ان دونوں آرٹسٹوں کا لاہور کی فلم انڈسٹری سے مزاج میل نہیں کھاتا تھا جب کہ معین اختر کراچی کے فنکشنوں کی جان تھا اور کوئی شام ایسی نہ ہوتی تھی جس میں معین اختر کا کوئی فنکشن نہ ہوتا ہو۔ شادی بیاہ کے فنکشنوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے فنکشنوں کی میزبانی بھی اسی کے حصے میں آتی تھی اور وہ کراچی کے فنکشنوں کا شہزادہ کہلاتا تھا۔
پھر معین اختر کے ساتھ قاضی واجد بھی ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا حصہ بنتا چلا گیا اور یہ دونوں آرٹسٹ پی ٹی وی کی جان اور ٹیلی ویژن کا سرمایا سمجھتے جاتے تھے۔ اسی دوران یہ دونوں آرٹسٹ کراچی اسٹیج کی رونقیں بھی بڑھاتے رہے۔ یہ دونوں آرٹسٹ فن کی دنیا کے منجھے ہوئے کھلاڑی بن گئے تھے۔ یہ اپنے ہر کردار کو فن کے آسمان پر چاندنی کی طرح پھیلادیا کرتے تھے۔
پی ٹی وی کے بعد بہت سے اور چینلز بھی منظر عام پر آگئے تھے قاضی واجد ہر چینل کے ڈراموں میں کاسٹ کیا جانے لگا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قاضی واجد دن میں، رات میں کئی کئی پرائیویٹ چینلز کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتا تھا اور بعض اوقات تو اسے گھر جانے کے لیے بھی مشکل سے فرصت ملا کرتی تھی۔ ہاں ایک بات کی اور وضاحت کرتا چلوں کہ نارتھ ناظم آباد میں جس علی دولت اسکوائر میں میری سکونت تھی ابتدا میں اسی اسکوائر میں قاضی واجد بھی رہتا تھا۔
اسی اپارٹمنٹ میں ریڈیو کی مشہور پروڈیوسر خواجہ بیگم، ریڈیو کا سنگر اور کمپوزر جاوید اختر، ریڈیو پاکستان کراچی کا مشہور اناؤنسر ظہیر احمد خان بھی رہتا تھا۔ ہماری اکثر ملاقاتیں اور عید، بقر عید اور محرم کے دنوں میں اکثر و بیشتر بیٹھکیں بھی رہا کرتی تھیں اور نویں محرم کی رات کو سب مل کر گلی میں حلیم کی دیگیں بھی پکوایا کرتے تھے اور رات بھر کا رت جگا بھی رہا کرتاتھا۔
پھر خواجہ بیگم کا کینسر کے مرض میں انتقال ہوگیا۔ جاوید اختر اور قاضی واجد نے یہاں کے فلیٹس چھوڑ کر اپنے اپنے بڑے گھر لے لیے مگر محرم کی نویں اور دسویں کو پھر سارے فنکار دوست یکجا ہو جایا کرتے تھے اور ان سب دوستوں کو یکجا کرنے میں علی دولت کے جیلانی بھائی کی کاوشوں کا بڑا دخل رہتا تھا۔ میں جب امریکا سے کراچی آیا تو قاضی واجد کے اچانک انتقال کی خبر مجھے سب سے پہلے جیلانی بھائی ہی نے دی تھی اور وہ علی دولت اسکوائر کے جگت بھائی کھلاتے ہیں۔
قاضی واجد کی رحلت نے تمام دوستوں، احباب اور اپنے چاہنے والوں کو اداس کردیا تھا۔ اس نے ڈراموں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اس کے ڈراموں کی تعداد دیگر آرٹسٹوں سے کہیں زیادہ تھی۔ خدا کی بستی ڈرامہ سیریل میں قاضی واجد نے راجا کا کردار کیا تھا جو لافانی کردار بن گیا تھا۔
قاضی واجد کا پہلا ٹی وی ڈرامہ ''ایک ہی راستہ تھا'' پھر قاضی واجد ٹی وی ڈراموں کی ضرورت بنتا چلا گیا اس کے مشہور ڈراموں میں ''کسک، سوتیلی، بے چین، ان کہی، آنگن ٹیڑھا، تنہائیاں، دھوپ کنارے، سنگِ مرمر، یہ کیسی محبت '' کے ساتھ اس کے نام سے اتنے ڈرامے جڑے ہیں کہ اگر سب کا تذکرہ کیا جائے تو میرے کالم کا دامن ہی چھوٹا پڑ جائے گا، قاضی واجد کے اسٹیج ڈراموں میں جو بہت ہی مشہور ڈرامے ہیں ان میں ''مرزا غالب بندر روڈ پر، لال قلعہ سے لالوکھیت اور وادیٔ کشمیر کے نام قابل ذکر اور ناقابل فراموش ہیں۔
قاضی واجد کے کریڈٹ پر ایک ڈرامہ رشتے اور راستے بھی ہے جو حکومت پاکستان اور چین کے اشتراک سے بنایا گیا تھا۔ قاضی واجد کو حکومت کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ قاضی واجد کے ڈرامے انڈیا کی آرٹ سے وابستہ پونا انسٹیٹیوٹ میں نئے آنے والے فنکاروں کی تربیت کے لیے بھی دکھائے جاتے تھے۔
قاضی واجد اچانک زندگی کے ڈرامے سے لے کر موت کے ڈرامے میں کاسٹ کرلیا گیا اور پھر یہ نامور اداکار ستاسی برس کی عمر میں 11 فروری 2018ء کو اس دنیا کے ڈراموں کو خیر باد کہہ کر آخرت کے اسٹیج کی طرف چلا گیا۔ قاضی واجد کا اصلی نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ یہ ہندوستان کے شہرگوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔بلاشبہ قاضی واجد صف اول کا بڑا چہیتا اداکار تھا۔ اس اداکار کا خلا برسوں بعد بھی پورا نہ ہوسکے گا، میرے پاس اب کہنے کے لیے الفاظ بھی دم توڑ رہے ہیں بس اتنا ہی کہوںگا آہ قاضی واجد:
ریڈیو جس کا آنگن سدا سے رہا
قاضی واجد بھی دنیا سے رخصت ہوا
فن کی دنیا کا وہ ایک سرمایا تھا
آہ اِک اور روشن دیا بجھ گیا