ہر بات پہ رونا آئے

کینیڈا منتقلی سے پہلے وہ یہاں کافی عرصہ زیر علاج رہی اور اب وہاں اس کا علاج ہو رہا ہے۔

کوئی 30 سال قبل، جب ہم لیاقت آباد نمبر 2 میں سپر مارکیٹ کے پیچھے واقع بندوق والی گلی میں رہتے تھے، اسکولوں کی تعطیلات میں نواب شاہ سے آپا بچوں کوکراچی گھمانے لائی تھیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ساجدہ، جو اب ساجدہ ارسلان ہے اورکینیڈا میں رہتی ہے، اس وقت کوئی آٹھ دس سال کی رہی ہوگی۔ وہ اور میرا بڑا بیٹا مسعود ہم عمر ہیں، مجھے ان دونوں کا بچپن میں، جب انھیں ابھی چلنا بھی نہیں آتا تھا، یکساں طریقے سے ایک گھٹنا موڑکر بیٹھے بیٹھے کرالنگ کرنا ابھی تک یاد ہے۔

اس عجیب مماثلت پر سب لوگ حیرت کیا کرتے تھے کیونکہ عام طور پر اس عمر میں بچے ہاتھوں اورگھٹنوں کی مدد سے کرالنگ کرتے ہیں ۔ساجدہ نے تعلیم نوابشاہ ہی میں حاصل کی اور پیپلزگرلز میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر بطور ڈاکٹر فارغ تحصیل ہوئی۔ اس کی شادی فیصل آباد کے برکی خاندان میں ہوئی جس میں بھائی جان اور میں اس کے وکیل اورگواہ بنے تھے۔

آپا اس شادی کے لیے بڑی مشکل سے راضی ہوئی تھیں کیونکہ وہ اپنی چہیتی بیٹی کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ساجدہ کی شادی وہیں کہیں نوابشاہ یا آس پاس میں ہو۔ ساجدہ کے بڑے بھائی اعجاز احمد چیمہ بھی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ڈاکٹر تھے اور نواب شاہ میں پریکٹس کرتے تھے۔

اْن دنوں پیش آنے والا ایک واقعہ بھلائے نہیں بھولتا، میں سگریٹ نوشی کا عادی تھا جب کہ ساجدہ بیٹی کو اس سے سخت چڑ تھی۔ وہ اکثر مجھے اسے ترک کرنے کے لیے کہا کرتی اور میں اچھا اچھا کہہ کر ٹال دیا کرتا۔ انھیں گھمانے لے جانے کے لیے میں نے ایک روز چھٹی کی، ساجدہ سے پوچھا کہاں جانا ہے تو بولی کہیں نہیں، میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی،کراچی گھومنے آئی ہو اورکہتی ہو کہیں نہیں جانا۔ بولی آپ میری بات جو نہیں مانتے، میں نے پوچھا کونسی بات تو اس نے پھرسگریٹ نوشی ترک کرنے کی ضد شروع کر دی۔ میں نے کہا اچھا بابا چھوڑ دوں گا، فی الحال یہ بتاؤ کہاں کہاں گھومنے جانا ہے۔

میرا جواب سن کر اس نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے ساتھ آئی ہوئی اس کی باقی تینوں بہنیں فرزانہ، ریحانہ اور روزینہ جو چلنے کے لیے تیار بیٹھی تھیں، ساجدہ کے منہ پھلانے کی وجہ سے پریشان ہوگئیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اسے چھوڑ کر جانے سے تو رہے۔ میں نے اسے منانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی کہ میں جب تک اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر سگریٹ نوشی ترک کرنے کا وعدہ نہیں کروںگا، وہ نہ صرف گھومنے نہیں جائے گی بلکہ کھانا بھی نہیں کھائے گی۔

یک نہ شد دو شد، اب اس نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز میں ایک اور مطالبے کا اضافہ کر دیا تھا۔ آپا نے بھی ساجدہ کو منانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن سب بے سود، تنگ آکرآپا نے نوابشاہ واپس چلنے کی دھمکی دی مگر ساجدہ پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ آپا کو اس کی ضد کا پتہ تھا سو انھوں نے مجھے اس روز کا پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا اور بولیں کل ول چلیں گے، آج رہنے دو۔

گھر بیٹھ کر بور ہونے کے بجائے میں دفتر چلا گیا، ساجدہ سوگئی تھی اس لیے اس سے بات بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا، میرا خیال تھا اٹھ کرکھا لے گی لیکن رات دو بجے کے قریب جب میں گھر لوٹا تو پتہ چلا ساجدہ نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا، گویا اس نے دو وقت کا فاقہ کیا تھا، میں یہ سن کر پریشان ہوگیا اور ساری رات سو نہیں سکا، نہ ہی کھانا کھایا گیا۔ صبح ناشتہ کرنے بیٹھے تو ساجدہ الگ ہوکر بیٹھ گئی، بولی وہ ناشتہ نہیں کرے گی، آپا نے ڈانٹا تو لگی رونے اور بسورنے۔ میں نے پھر منانے کی کوشش کی اور سر پرائزگفٹ کا لالچ دیا لیکن اس نے صاف انکارکر دیا اور بولی جب تک میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کا قسم کھا کر وعدہ نہیں کروں گا وہ ہماری کوئی بات نہیں مانے گی۔


میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ کئی سال پرانی عادت چھوٹتے چھوٹتے ہی چھوٹے گی، میں وعدہ کرتا ہوں کہ پہلے مرحلے میں سگریٹ پینا کم کردوں گا اور بتدریج بالکل چھوڑ دوں گا، لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوا۔

بالآخر مجھے ہی ہتھیار ڈالنا پڑے اور میں نے اس سے وعدہ کرلیا کہ میں آج اوراسی وقت سگریٹ نوشی ترک کررہا ہوں اور اب کبھی نہیں پیوں گا۔ اتنا سننا تھا کہ ساجدہ بیٹی اچھل کرکھڑی ہوگئی اور میرے گلے لگ گئی۔ اسے اتنا خوش دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ پھر ہم نے دو تین دن خوب سیر تفریح کی، بچیوں نے سمندر میں کشتی کی سیرکوخصوصاً بہت انجوائے کیا اور خوب گھوم پھرکر یہ لوگ واپس نواب شاہ چلے گئے۔ میں نے بھی اپنی گڑیا سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کی پوری کوشش کی اور اگلے آٹھ سال سگریٹ کو چھوا تک نہیں۔

اس دوران ساجدہ پہلے میٹرک اور پھر انٹر پاس کرکے میڈیکل کالج میں داخلہ لے چکی تھی تاہم اپنی کزنز (میری بیٹیوں خصوصاً عائشہ) سے اس کی خط وکتابت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ عائشہ اسے خط لکھتی تو پوسٹ کرنے کے لیے مجھے ہی دیتی، لفافے پر پتہ لکھتے وقت میں ہمیشہ اس کے نام کے ساتھ وڈ بی ڈاکٹر (ہونے والی ڈاکٹر) لکھتا تھا کیونکہ وہ دْھن کی پکی تھی اور مجھے یقین تھا کہ وہ ڈاکٹر بن کر ہی نکلے گی۔

اللہ نے اسے کامیابی عطا کی اور وہ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر بن گئی، مجھے اس کی جتنی خوشی ہوئی وہ میں بیان نہیں کرسکتا اور اسے مبارکباد دینے بطور خاص نوابشاہ گیا۔ شادی کے بعد وہ فیصل آباد منتقل ہوگئی تو ہماری آپا بہت اداس رہنے لگیں، میں انھیں سمجھاتا کہ فیصل آباد کون سا دور ہے، چند گھنٹوں ہی کی مسافت پر تو ہے،آنا جانا لگا رہے گا۔ آخر انھیں صبر آ ہی گیا، ساجدہ فیصل آباد میں اپنی ساس سسر کے ساتھ رہتی تھی جب کہ اس کے دوسرے سارے سسرالی رشتے دار کینیڈا میں جا بسے تھے۔ اس نے کچھ عرصہ اپنے چیسٹ اسپیشلسٹ سسر کے ساتھ انھی کے کلینک میں پریکٹس کی اور پھر سرکاری نوکری اختیار کر لی۔

اللہ تعالیٰ نے اسے دو پھول سے بچے بھی عطا کیے جو اب ماشاء اللہ جوان ہوچکے ہیں اور زیر تعلیم ہیں۔ دوران ملازمت وہ کسی کورس کے سلسلے میں کراچی آئی تو شادمان ٹاؤن، نارتھ کراچی میں ہمارے پاس ہی ٹھہری تھی، تب اس کے دونوں بچے چھوٹے تھے، میں زرغام کو نقلی پٹھان کہتا تو وہ مچل کرکہتا وہ اصلی پٹھان ہے، فیصل آباد آ کر کسی سے بھی پوچھ لوں اور الٹا مجھے نقلی پٹھان کہتا۔

پھر پہلے ساجدہ کے ساس، سسر اور پھر ان دونوں میاں بیوی کوکینیڈا کی شہریت مل گئی اور یہ سب بھی وہاں منتقل ہوگئے، میں آپا کوکہتا کہ دیکھیں دانا، پانی انسان کوکہاں کہاں لے جاتا ہے ، کہاں تو وہ ساجدہ کی شادی فیصل آباد میں کرنے کے خلاف تھیں اورکہاں وہ سات سمندر پارکینیڈا میں جا بسی ہے اور وہ بے بسی کے اظہارکے طور پر آنکھیں بند کر کے کہتیں بس یہ تو نصیبوں کی بات ہے، دعا کرو وہ جہاں بھی رہے بچوں کے ساتھ خوش رہے۔ ان کے کینیڈا منتقل ہونے سے پہلے میری ساجدہ سے اسلام آباد میں مختصر ملاقات ہوئی تھی جہاں میں اپنی بھابی کی تجہیز وتکفین میں شریک ہونے گیا تھا اور وہ تعزیت کے لیے آئی تھی۔

پھر خبر ملی کہ ننھے زرغام کا ایک گردہ کینسر سے متاثر تھا، اس کا علاج ہوا اور اللہ کے فضل وکرم سے وہ مکمل صحتیاب ہوگیا۔ ہم سب بہت خوش تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ کیا پتہ تھا کہ ایک اور بری خبر ملنے والی ہے، اچانک ساجدہ کی علالت کی خبر ملی، ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق خود اس کے جسم میں بھی کینسر کی علامات پائی گئی تھیں۔

کینیڈا منتقلی سے پہلے وہ یہاں کافی عرصہ زیر علاج رہی اور اب وہاں اس کا علاج ہو رہا ہے، فون اور ویڈیو لنک پر اس سے آپا، بھائی بہنوں اور ہمارا رابطہ رہتا ہے، سب اس کی جلد صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں، اللہ اسے شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور بچوں کے سر پر اس کا سایہ سلامت رکھے، میں ہر نماز میں اللہ سے اس کی صحتیابی کے لیے دعا مانگتا اور تنہائی میں اپنی پیاری بھانجی کی ایک ایک بات یادکرکے آنسو بہاتا ہوں۔
Load Next Story