فلمی عروج کی یادگار ’’رائل پارک‘‘ کے کئی دفاتر بند
250سے 300فلمی دفاتر سے ہرہفتہ 6سے8فلموں کی نمائش ہوتی رہی ، بچے کھچے فلمی دفاتر کا وجود بھی ختم ہونے کاخطرہ.
ISLAMABAD:
پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ پر بات کی جائے تو رائل پارک کی تاریخی حیثیت اور فلم کے لیے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
رائل پارک 1940ء سے 1945ء کے دور میں وجود میں آیا۔ اس دور میں بھارتی فلموں کی نمائش کے لیے جو فلم تقسیم کار ادارے بنے۔ ان میں میاں رفیع اختر کا سپرآرٹ پروڈکشنز ، اے کے جان کا بلال پروڈکشن ، ایورنیو پکچرز ، ملک ٹاکیز اور قاضی خورشید الحسن کا انڈیا فلم بیورو شامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اس جگہ کو مستقل طور پر فلم منڈی کا درجہ دیدیا گیا۔ بھارتی ہدایتکار محبوب علی بھی 1948ء میں رائل پارک کا دورہ کرچکے ہیں جبکہ پاکستان فلم انڈسٹری کے عروج کے دورمیں یہاں کئی وفاقی و صوبائی وزراء اہم سیاسی ثقافتی شخصیات مختلف اوقات میں آچکی ہیں۔
ابتداء میں یہاں سے لاتعداد بھارتی فلمیں ریلیز کی گئیں جن میں ''آن''، ''انمول گھڑی''، ''مغل اعظم''، ''جگنو''،''کالی گھٹا''، ''آوارہ''، ''آہ''، ''انداز''، ''منگول'' وغیرہ شامل ہیں۔ 60ء کی دہائی میں رائل پارک میں فلم کا کاروبار عروج پر تھا اس وقت یہاں 250سے 300فلمی دفاتر موجود تھے جن کے ذریعہ ہر ہفتہ باقاعدگی سے 6سے 8فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دوسرے شہروں سے آنیوالے نمائش کنندگان اور سینما مالکان کے باعث ہر وقت میلہ کا سماں لگا رہتا تھا۔
سنیئر فنکار رضا میر، سریش، اوم پرکاش، سلیم رضا، ایم اسماعیل، امرناتھ، ایم اجمل ، عزیز کاشمیری ، ایم جے رانا ، ساون ، سدھیر ، مظہر شاہ ، علائو الدین وغیرہ اکثر شام کے اوقات میں یہاں موجود ہوا کرتے تھے۔ یہاں کی مشہور عمارات میں کلیان مینشن، خٹک منزل ، الفضل بلڈنگ ، بلال بلڈنگ ، مسعود مینشن، رضیہ مینشن، درانی مینشن، ثریا مینشن، گابا بلڈنگ، گیتا بھون بلڈنگ وغیرہ شامل تھیں جن میں سے اکثر کا وجود ختم ہوچکا ہے یا ان میں توڑ پھوڑ کرکے وہاں پرنٹنگ پریس لگا دیے گئے ہیں ۔
جن فنکاروںنے رائل پارک میں دفاتربنائے ان میں مظہر شاہ ، نجم الحسن، سلمیٰ ممتاز، فاضل بٹ، سدھیر، اعجاز درانی، سنگیتا، یوسف خان، عنایت حسین بھٹی، رنگیلا، خلیفہ نذیر ، بدرمنیر، عمر شریف اور اسکے علاوہ معروف فلمسازو ہدایتکار، فلمساز سیدعطاء اللہ شاہ ہاشمی ، میاں فرزند علی ، چوہدری سلیم سرور جوڑا، جمشید ظفر، محمد سرور بھٹی، اسلم ڈار، یونس ملک ، چوہدری عارف، اسلم ناتھا، سیٹھ سلیم اشرفی، پرویز ملک ، نذرالاسلام ، سیدنور، عزیز جہانگیری، نعیم خان، سلیم خان، جلال الدین خٹک سمیت دیگر کئی اہم لوگوں کے دفاتر موجود تھے ۔
واضح رہے کہ آج رائل پارک میں فلمی خریدار ہیں اور نہ کوئی ایسی گہما گہمی ہے کہ اسے ماضی جیسا تخلیقی مرکز تسلیم کیا جائے۔ خدشہ ہے کہ کچھ عرصہ میں بچے کھچے فلمی دفاتر کا وجود بھی ختم ہوجائے گا اور نئی نسل اسے محض پرنٹنگ مارکیٹ کے طور پر یاد رکھ سکے گی ۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوںکی جانب سے اس تاریخی مقام کو محفوظ کرنے کے لیے اگرتوجہ نہ دی گئی تواس کا قصہ کتابوں میں ہی مل پائے گا۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ پر بات کی جائے تو رائل پارک کی تاریخی حیثیت اور فلم کے لیے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
رائل پارک 1940ء سے 1945ء کے دور میں وجود میں آیا۔ اس دور میں بھارتی فلموں کی نمائش کے لیے جو فلم تقسیم کار ادارے بنے۔ ان میں میاں رفیع اختر کا سپرآرٹ پروڈکشنز ، اے کے جان کا بلال پروڈکشن ، ایورنیو پکچرز ، ملک ٹاکیز اور قاضی خورشید الحسن کا انڈیا فلم بیورو شامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اس جگہ کو مستقل طور پر فلم منڈی کا درجہ دیدیا گیا۔ بھارتی ہدایتکار محبوب علی بھی 1948ء میں رائل پارک کا دورہ کرچکے ہیں جبکہ پاکستان فلم انڈسٹری کے عروج کے دورمیں یہاں کئی وفاقی و صوبائی وزراء اہم سیاسی ثقافتی شخصیات مختلف اوقات میں آچکی ہیں۔
ابتداء میں یہاں سے لاتعداد بھارتی فلمیں ریلیز کی گئیں جن میں ''آن''، ''انمول گھڑی''، ''مغل اعظم''، ''جگنو''،''کالی گھٹا''، ''آوارہ''، ''آہ''، ''انداز''، ''منگول'' وغیرہ شامل ہیں۔ 60ء کی دہائی میں رائل پارک میں فلم کا کاروبار عروج پر تھا اس وقت یہاں 250سے 300فلمی دفاتر موجود تھے جن کے ذریعہ ہر ہفتہ باقاعدگی سے 6سے 8فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دوسرے شہروں سے آنیوالے نمائش کنندگان اور سینما مالکان کے باعث ہر وقت میلہ کا سماں لگا رہتا تھا۔
سنیئر فنکار رضا میر، سریش، اوم پرکاش، سلیم رضا، ایم اسماعیل، امرناتھ، ایم اجمل ، عزیز کاشمیری ، ایم جے رانا ، ساون ، سدھیر ، مظہر شاہ ، علائو الدین وغیرہ اکثر شام کے اوقات میں یہاں موجود ہوا کرتے تھے۔ یہاں کی مشہور عمارات میں کلیان مینشن، خٹک منزل ، الفضل بلڈنگ ، بلال بلڈنگ ، مسعود مینشن، رضیہ مینشن، درانی مینشن، ثریا مینشن، گابا بلڈنگ، گیتا بھون بلڈنگ وغیرہ شامل تھیں جن میں سے اکثر کا وجود ختم ہوچکا ہے یا ان میں توڑ پھوڑ کرکے وہاں پرنٹنگ پریس لگا دیے گئے ہیں ۔
جن فنکاروںنے رائل پارک میں دفاتربنائے ان میں مظہر شاہ ، نجم الحسن، سلمیٰ ممتاز، فاضل بٹ، سدھیر، اعجاز درانی، سنگیتا، یوسف خان، عنایت حسین بھٹی، رنگیلا، خلیفہ نذیر ، بدرمنیر، عمر شریف اور اسکے علاوہ معروف فلمسازو ہدایتکار، فلمساز سیدعطاء اللہ شاہ ہاشمی ، میاں فرزند علی ، چوہدری سلیم سرور جوڑا، جمشید ظفر، محمد سرور بھٹی، اسلم ڈار، یونس ملک ، چوہدری عارف، اسلم ناتھا، سیٹھ سلیم اشرفی، پرویز ملک ، نذرالاسلام ، سیدنور، عزیز جہانگیری، نعیم خان، سلیم خان، جلال الدین خٹک سمیت دیگر کئی اہم لوگوں کے دفاتر موجود تھے ۔
واضح رہے کہ آج رائل پارک میں فلمی خریدار ہیں اور نہ کوئی ایسی گہما گہمی ہے کہ اسے ماضی جیسا تخلیقی مرکز تسلیم کیا جائے۔ خدشہ ہے کہ کچھ عرصہ میں بچے کھچے فلمی دفاتر کا وجود بھی ختم ہوجائے گا اور نئی نسل اسے محض پرنٹنگ مارکیٹ کے طور پر یاد رکھ سکے گی ۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوںکی جانب سے اس تاریخی مقام کو محفوظ کرنے کے لیے اگرتوجہ نہ دی گئی تواس کا قصہ کتابوں میں ہی مل پائے گا۔