مظلوموں کا خون
آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والی بربریت نے امت مسلمہ کے دلوں کو پارہ پارہ کردیا اور آنکھوں سے لہو ٹپک رہا ہے۔
LOS ANGELES:
اس نے مجھے خاص طور پر مخاطب کیا اور کہا کہ میری عزیزہ و ہمشیرہ، بات دراصل یہ ہے کہ دوران تعلیم بہت سی احادیث نبوی ﷺ کے ساتھ یہ حدیث بھی میرے قلب میں اترگئی اور جب تک زندہ ہوں روشن الفاظ میرے اطراف میں پھیلنے والے اندھیروں کو ختم کرنے کا باعث بنیں گے۔
آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والی بربریت نے امت مسلمہ کے دلوں کو پارہ پارہ کردیا اور آنکھوں سے لہو ٹپک رہا ہے، معصوم بچوں کو بے یار و مددگار دیکھ کر سر راہ زخموں سے سجی اور خون میں نہائی ہوئی لاشوں نے دل دہلادیے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ پیارے نبی احمد مجتبیٰ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔
اگر جسم کا کوئی ایک عضو زخمی ہوگا اور اس سے درد کی ٹیس اٹھیں گی تو اس تکلیف کو پورا بدن سہنے پر مجبور ہوگا، یہی حال مسلمانوں کا ہے، چوٹ کسی ایک کو لگتی ہے، درد سب کو ہوتا ہے۔ وہ چند ثانیوں کو رکا، بوتل سے پانی نکالا اور اسے اپنے تشنہ لبوں پر لگادیا۔
یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ بہت لمبی مسافت طے کرکے آیا ہو، پانی پینے کے بعد وہ کچھ شانت نظر آرہا تھا، اس نے سرد آہ بھری اور گویا ہوا، پہلے منہ سے آہ نکلی اور پھر قصور کی معصوم ملی ہوئی کلیوں کا نوحہ، وہ رو رہا تھا، اشکبار میں بھی تھی، ویسے بھی ایسے حالات میں میرا اپنا حال اچھا نہیں رہتا ہے۔
دوسروں کے غموں اور تکالیف کی شدت مجھے ہر لمحہ تڑپاتی ہے اور یہ دوسرے بھی دوسرے نہیں ہیں، یہ تو میرے اپنے لوگ ہیں، کلمہ گو اور ہم وطن، بالکل ہمارے جیسے، لیکن میں اور میرا معصوم دل بنی نوع انسان کے دکھوں میں بھی شریک ہوجاتا ہے، اس واسطے کہ ہم سب آدمؑ کی اولاد ہیں، شکل و صورت، احساسات و جذبات ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اور ایک ہی مٹی سے تخلیق ہوئی ہے۔
سوچ کی لہریں تفکرات کی آندھی، ناکامیوں کا طوفان اور موسم بہار کی تازگی، موسموں کی لطافت، سب کے سب دل و دماغ میں یکساں طور پر طلوع اور غروب ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا رنگ پیدائشی طور پر اس وقت سے ہی شامل ہوجاتا ہے جب بچے کی پیدائش کے بعد اذان کی شکل میں اللہ کی وحدانیت کا رس کان میں انڈیل دیا جاتا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی کا اعلان بھی کان سے صاف وشفاف قلب تک پہنچادیا جاتا ہے۔ پھر جب انسانیت کا بیج دل و دماغ کی زمین پر بودیا جائے تو بیج سے کونپل ضرور پھوٹے گی اور پروان چڑھے گی۔ اچھے اور سچے مسلمان کسی کو دانستہ طور پر خزاں کے سپرد نہیں کرتے ہیں۔
اس نے آنسو پونچھے اور میری شکل پر نگاہیں مرکوز کردیں، میں خود کلامی کی دنیا سے باہر آگئی۔ وہ اس بار بلند آواز سے بولا، شاید وہ مجھے داخلی کیفیت سے نکالنا چاہتا تھا، میں بھی چونکی تھی اور اپنی مکمل توجہ اس کی قوت گویائی کی طرف مبذول کردی۔ اس نے کہا، قصور کے واقعے کے بعد یوں لگتا ہے کہ پورے ملک میں بسنے والے درندے اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل آئے ہیں، مجھے تو دکھ اس بات کا بھی ہے حکمرانوں اور ان کے ہم خیال عقیدت مندوں نے ایسے سانحات کا سر بازار سرکس لگایا اور بہروپیوں کے لاشوں پر ہنسنے ہنسانے کا سامان پیدا کیا، لیکن ہنسے وہ خود ہی، پوری قوم نے لعنت ملامت کی۔
شام کے حالات نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی ہے، مسلم، غیر مسلم سب ہی قتل و خون ریزی پر نوحہ کناں ہیں۔ اب وہ ملکی حالات سے نکل کر دنیا میں ہونے والی درندگی کی طرف آگیا تھا، وہ سسکیاں لے رہا تھا، آنکھوں کے نمکین پانی کو اپنی قمیض کی آستین کے کف سے بار بار خشک کررہا تھا۔
میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کو دیکھ کر تڑپ جاتا ہوں، وہ بچے جنھیں ماں کی آغوش میں اور ان کے حلقوم کو دودھ کے شیریں قطروں سے لبریز ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے، وہاں خون کی پتلی سی دھار نکل رہی ہے، ان کے جسم کا ہر حصہ خون میں تر ہے، وہ پوری دنیا کو یاسیت اور حیرت سے دیکھ رہے ہیں، وہ ماں باپ کو بھول چکے ہیں، وہ خون کی ندی میں تیر رہے ہیں، وہ اپنے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں، اے محلوں میں بسنے والو! نرم و گرم گدوں میں سونے والو! نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والو! دیکھو! دشمن نے ہمیں ہمارے جھولوں اور ماں کی لوریوں سے محروم کردیا ہے، ہم جلد ہی موت کی آغوش میں پہنچنے والے ہیں۔ ان حالات میں بھی تم اپنے عشرت کدہ سے نکل کر اس میدان کار زار میں نہیں آؤگے؟ جہاں لاشوں سے میدان پٹ گئے ہیں یہاں ہر طرف موت ہے، کھنڈر ہیں، آہ و بکا اور خون آشام ماضی و حال ہے، مستقبل کو اجل نے نگل لیا ہے اور زندگی روٹھ گئی ہے۔
معصوم بے سہارا، بے بس بچے ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے سنگ ریزوں پر مردہ حالت میں پڑے دنیا کے ان حکمرانوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں اے عاقبت نااندیشو! آج ہم ہیں اس مقام پر کل تم ہوگے۔ تاریخ نے یہی سبق دیا ہے، ظالم کو بھی ایک دن اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں خود بھی گرنا ہوتا ہے۔ قانون قدرت سے کسی کا بچاؤ نہیں، مکافاتِ عمل سے نجات نہیں اور موت کسی کو بخشتی نہیں، مرنے والا نہیں، بلکہ مارنے والا وقت کا چنگیز خان اور ہٹلر کہلاتا ہے۔ زمانہ اس پر ہی تھوکتا ہے اور یہ ذلت قیامت تک اس کا پیچھا کرے گی جس نے تخت و تاج کی خاطر اپنوں کے ہی سینے میں خنجر اتارا ہے اور دنیا کو اپنے اصلی چہرے سے آشنا کردیا۔
یہ دہشت گردی اور جبر کی فضا آج اور کل پروان نہیں چڑھی ہے، بلکہ ایک زمانہ اور کئی عشرے بیتے ہیں جب دنیا دو بڑی طاقتوں کے زیر اثر تھی، وہ بولتے بولتے ایسے خاموش ہوا جیسے چلتی گاڑی کو اچانک بریک لگ گیا ہو، پھر وہ خلاؤں میں گھورنے لگا، جیسے کچھ یاد کررہا ہو، اسی اثنا میں چپڑاسی چائے اور بسکٹ میز پر رکھ گیا، میں نے بسکٹ کی پلیٹ اس کے سامنے بڑھادی لیکن اس نے بسکٹ تو کجا چائے کے کپ کو بھی ہاتھ نہیں لگایا۔ البتہ اس کے لب ہلے اور وہ ایسے بولا جیسے خود کلامی میں مبتلا ہو۔
یہ امریکا اور روس کی چال ہے، ان دونوں نے مسلم ممالک کو اس طرح تقسیم کیا کہ امریکا کے حصے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، اردن وغیرہ آئے اور لیبیا، عراق اور شام پر روس نے اپنے نوکیلے پنجے گاڑنے کی کوشش کی، پھر وہ دیوانہ وار ہنسا، دفتر کے تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے، ایسی صورت حال میں اس نے اپنے آپ کو یک لخت سنبھال لیا اور گمبھیر لہجے میں گویا ہوا۔
میڈم! بات یہ ہے کہ امریکا ساری دنیا، خاص طور پر مسلم ممالک پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتا ہے، اسی مقصد کے لیے اس نے روس کو افغانستان میں افغان مجاہدین کے ذریعے شکست دلوائی اور جب روس دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تو امریکا کی تو مزید چاندی ہوگئی، اسی طرح عراق میں ہتھیاروں کے بہانے داخل ہوا اور اسے برباد کرنے کے بعد تیل کے کنوؤں پر قابض ہوگیا اور اب شام کی باری آگئی ہے۔
یہ بھی کیا اتفاق ہے یا مغرب کی چال کہ روس بشارالاسد کا حامی اور امریکا مخالف۔ اب حالات یہ ہیں کہ امریکا باغی فوج کی حمایت کرتا ہے، اس طرح حکومت کی حامی اور مخالف فوجیں آپس میں ہی برسر پیکار ہیں۔ امریکا اور روس خود بھی شام میں اپنے مخالف کے زیر اثر علاقوں میں بمباری کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔
دونوں صورتوں میں مسلم آبادی اور فوج تباہ و برباد ہورہی ہے، شام کی زمین لہو سے سرخ ہے اور میرا کلیجہ غم سے پھٹا جارہا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر وہ اٹھا اور دفتر کی سیڑھیاں اترگیا۔ میرے ماتحتوں نے پوچھا کون تھا میڈم یہ؟ میری ہی طرح کا ایک غم زدہ قلم کار جس کا قلم خون اگلتا ہے اور یہ خون مظلوموں کا ہے۔
اس نے مجھے خاص طور پر مخاطب کیا اور کہا کہ میری عزیزہ و ہمشیرہ، بات دراصل یہ ہے کہ دوران تعلیم بہت سی احادیث نبوی ﷺ کے ساتھ یہ حدیث بھی میرے قلب میں اترگئی اور جب تک زندہ ہوں روشن الفاظ میرے اطراف میں پھیلنے والے اندھیروں کو ختم کرنے کا باعث بنیں گے۔
آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والی بربریت نے امت مسلمہ کے دلوں کو پارہ پارہ کردیا اور آنکھوں سے لہو ٹپک رہا ہے، معصوم بچوں کو بے یار و مددگار دیکھ کر سر راہ زخموں سے سجی اور خون میں نہائی ہوئی لاشوں نے دل دہلادیے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ پیارے نبی احمد مجتبیٰ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔
اگر جسم کا کوئی ایک عضو زخمی ہوگا اور اس سے درد کی ٹیس اٹھیں گی تو اس تکلیف کو پورا بدن سہنے پر مجبور ہوگا، یہی حال مسلمانوں کا ہے، چوٹ کسی ایک کو لگتی ہے، درد سب کو ہوتا ہے۔ وہ چند ثانیوں کو رکا، بوتل سے پانی نکالا اور اسے اپنے تشنہ لبوں پر لگادیا۔
یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ بہت لمبی مسافت طے کرکے آیا ہو، پانی پینے کے بعد وہ کچھ شانت نظر آرہا تھا، اس نے سرد آہ بھری اور گویا ہوا، پہلے منہ سے آہ نکلی اور پھر قصور کی معصوم ملی ہوئی کلیوں کا نوحہ، وہ رو رہا تھا، اشکبار میں بھی تھی، ویسے بھی ایسے حالات میں میرا اپنا حال اچھا نہیں رہتا ہے۔
دوسروں کے غموں اور تکالیف کی شدت مجھے ہر لمحہ تڑپاتی ہے اور یہ دوسرے بھی دوسرے نہیں ہیں، یہ تو میرے اپنے لوگ ہیں، کلمہ گو اور ہم وطن، بالکل ہمارے جیسے، لیکن میں اور میرا معصوم دل بنی نوع انسان کے دکھوں میں بھی شریک ہوجاتا ہے، اس واسطے کہ ہم سب آدمؑ کی اولاد ہیں، شکل و صورت، احساسات و جذبات ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اور ایک ہی مٹی سے تخلیق ہوئی ہے۔
سوچ کی لہریں تفکرات کی آندھی، ناکامیوں کا طوفان اور موسم بہار کی تازگی، موسموں کی لطافت، سب کے سب دل و دماغ میں یکساں طور پر طلوع اور غروب ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا رنگ پیدائشی طور پر اس وقت سے ہی شامل ہوجاتا ہے جب بچے کی پیدائش کے بعد اذان کی شکل میں اللہ کی وحدانیت کا رس کان میں انڈیل دیا جاتا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی کا اعلان بھی کان سے صاف وشفاف قلب تک پہنچادیا جاتا ہے۔ پھر جب انسانیت کا بیج دل و دماغ کی زمین پر بودیا جائے تو بیج سے کونپل ضرور پھوٹے گی اور پروان چڑھے گی۔ اچھے اور سچے مسلمان کسی کو دانستہ طور پر خزاں کے سپرد نہیں کرتے ہیں۔
اس نے آنسو پونچھے اور میری شکل پر نگاہیں مرکوز کردیں، میں خود کلامی کی دنیا سے باہر آگئی۔ وہ اس بار بلند آواز سے بولا، شاید وہ مجھے داخلی کیفیت سے نکالنا چاہتا تھا، میں بھی چونکی تھی اور اپنی مکمل توجہ اس کی قوت گویائی کی طرف مبذول کردی۔ اس نے کہا، قصور کے واقعے کے بعد یوں لگتا ہے کہ پورے ملک میں بسنے والے درندے اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل آئے ہیں، مجھے تو دکھ اس بات کا بھی ہے حکمرانوں اور ان کے ہم خیال عقیدت مندوں نے ایسے سانحات کا سر بازار سرکس لگایا اور بہروپیوں کے لاشوں پر ہنسنے ہنسانے کا سامان پیدا کیا، لیکن ہنسے وہ خود ہی، پوری قوم نے لعنت ملامت کی۔
شام کے حالات نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی ہے، مسلم، غیر مسلم سب ہی قتل و خون ریزی پر نوحہ کناں ہیں۔ اب وہ ملکی حالات سے نکل کر دنیا میں ہونے والی درندگی کی طرف آگیا تھا، وہ سسکیاں لے رہا تھا، آنکھوں کے نمکین پانی کو اپنی قمیض کی آستین کے کف سے بار بار خشک کررہا تھا۔
میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کو دیکھ کر تڑپ جاتا ہوں، وہ بچے جنھیں ماں کی آغوش میں اور ان کے حلقوم کو دودھ کے شیریں قطروں سے لبریز ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے، وہاں خون کی پتلی سی دھار نکل رہی ہے، ان کے جسم کا ہر حصہ خون میں تر ہے، وہ پوری دنیا کو یاسیت اور حیرت سے دیکھ رہے ہیں، وہ ماں باپ کو بھول چکے ہیں، وہ خون کی ندی میں تیر رہے ہیں، وہ اپنے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں، اے محلوں میں بسنے والو! نرم و گرم گدوں میں سونے والو! نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والو! دیکھو! دشمن نے ہمیں ہمارے جھولوں اور ماں کی لوریوں سے محروم کردیا ہے، ہم جلد ہی موت کی آغوش میں پہنچنے والے ہیں۔ ان حالات میں بھی تم اپنے عشرت کدہ سے نکل کر اس میدان کار زار میں نہیں آؤگے؟ جہاں لاشوں سے میدان پٹ گئے ہیں یہاں ہر طرف موت ہے، کھنڈر ہیں، آہ و بکا اور خون آشام ماضی و حال ہے، مستقبل کو اجل نے نگل لیا ہے اور زندگی روٹھ گئی ہے۔
معصوم بے سہارا، بے بس بچے ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے سنگ ریزوں پر مردہ حالت میں پڑے دنیا کے ان حکمرانوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں اے عاقبت نااندیشو! آج ہم ہیں اس مقام پر کل تم ہوگے۔ تاریخ نے یہی سبق دیا ہے، ظالم کو بھی ایک دن اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں خود بھی گرنا ہوتا ہے۔ قانون قدرت سے کسی کا بچاؤ نہیں، مکافاتِ عمل سے نجات نہیں اور موت کسی کو بخشتی نہیں، مرنے والا نہیں، بلکہ مارنے والا وقت کا چنگیز خان اور ہٹلر کہلاتا ہے۔ زمانہ اس پر ہی تھوکتا ہے اور یہ ذلت قیامت تک اس کا پیچھا کرے گی جس نے تخت و تاج کی خاطر اپنوں کے ہی سینے میں خنجر اتارا ہے اور دنیا کو اپنے اصلی چہرے سے آشنا کردیا۔
یہ دہشت گردی اور جبر کی فضا آج اور کل پروان نہیں چڑھی ہے، بلکہ ایک زمانہ اور کئی عشرے بیتے ہیں جب دنیا دو بڑی طاقتوں کے زیر اثر تھی، وہ بولتے بولتے ایسے خاموش ہوا جیسے چلتی گاڑی کو اچانک بریک لگ گیا ہو، پھر وہ خلاؤں میں گھورنے لگا، جیسے کچھ یاد کررہا ہو، اسی اثنا میں چپڑاسی چائے اور بسکٹ میز پر رکھ گیا، میں نے بسکٹ کی پلیٹ اس کے سامنے بڑھادی لیکن اس نے بسکٹ تو کجا چائے کے کپ کو بھی ہاتھ نہیں لگایا۔ البتہ اس کے لب ہلے اور وہ ایسے بولا جیسے خود کلامی میں مبتلا ہو۔
یہ امریکا اور روس کی چال ہے، ان دونوں نے مسلم ممالک کو اس طرح تقسیم کیا کہ امریکا کے حصے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، اردن وغیرہ آئے اور لیبیا، عراق اور شام پر روس نے اپنے نوکیلے پنجے گاڑنے کی کوشش کی، پھر وہ دیوانہ وار ہنسا، دفتر کے تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے، ایسی صورت حال میں اس نے اپنے آپ کو یک لخت سنبھال لیا اور گمبھیر لہجے میں گویا ہوا۔
میڈم! بات یہ ہے کہ امریکا ساری دنیا، خاص طور پر مسلم ممالک پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتا ہے، اسی مقصد کے لیے اس نے روس کو افغانستان میں افغان مجاہدین کے ذریعے شکست دلوائی اور جب روس دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تو امریکا کی تو مزید چاندی ہوگئی، اسی طرح عراق میں ہتھیاروں کے بہانے داخل ہوا اور اسے برباد کرنے کے بعد تیل کے کنوؤں پر قابض ہوگیا اور اب شام کی باری آگئی ہے۔
یہ بھی کیا اتفاق ہے یا مغرب کی چال کہ روس بشارالاسد کا حامی اور امریکا مخالف۔ اب حالات یہ ہیں کہ امریکا باغی فوج کی حمایت کرتا ہے، اس طرح حکومت کی حامی اور مخالف فوجیں آپس میں ہی برسر پیکار ہیں۔ امریکا اور روس خود بھی شام میں اپنے مخالف کے زیر اثر علاقوں میں بمباری کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔
دونوں صورتوں میں مسلم آبادی اور فوج تباہ و برباد ہورہی ہے، شام کی زمین لہو سے سرخ ہے اور میرا کلیجہ غم سے پھٹا جارہا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر وہ اٹھا اور دفتر کی سیڑھیاں اترگیا۔ میرے ماتحتوں نے پوچھا کون تھا میڈم یہ؟ میری ہی طرح کا ایک غم زدہ قلم کار جس کا قلم خون اگلتا ہے اور یہ خون مظلوموں کا ہے۔