اصحاب الکہف کے غار میں
اصحاب کہف کی داستان پہلی بار ساروغ (عراق کا پرانا نام) کے بشپ جیکب (یعقوب) نے 521ء میں لکھی تھی
اصحاب الکہف کا غار عمان شہر کے مضافات میں واقع ہے' میں نے اتوار کے دن اصحاب کہف کے غار پر حاضری دی' میں نے وہاں کیا دیکھا ہم اس طرف آنے سے پہلے اصحاب الکہف کا پس منظر دیکھیں گے۔
اصحاب الکہف رومی بادشاہ ٹروجان کے دور کے لوگ تھے' ٹروجان بت پرست تھا' یہ 48ء سے لے کر 117ء تک بادشاہ رہا' ٹروجان کے دور میں عیسائیت پھیل رہی تھی' شہر کے سات نوجوانوں نے عیسائیت قبول کی اور یہ لوگوں کو بت پرستی سے روکنے لگے' بادشاہ کو پتہ چلا' اس نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا' یہ لوگ دارالحکومت سے بھاگے' پہاڑوں میں پہنچے' مناسب سے غار کا تعین کیا اور یہ غار میں سو گئے' ان کے ساتھ ان کا کتا بھی تھا' کتے نے بھی آنکھیں موند لیں۔
یہ لوگ اگلے دن جاگے تو انھیں بھوک محسوس ہوئی' انھوں نے ایک ساتھی کو چند سکے دے کر کھانا لانے کے لیے قریبی بستی بھجوادیا' وہ شہر پہنچا' نانبائی سے کھانا لیا' سکے پیش کیے اور نانبائی نے اسے پکڑ لیا' تفتیش ہوئی' پتہ چلا اس نے قدیم زمانے کا لباس پہن رکھا ہے اور اس کے سکے تین سو سال پرانے ہیں' مزید تحقیق ہوئی' معلوم ہوا یہ لوگ غار میں تین سو سال سوئے رہے تھے' بادشاہ کو اطلاع ہوئی' وہ اپنی کابینہ کے ساتھ غار میں پہنچا' باقی اصحاب سے ملاقات ہوئی۔
ثابت ہوگیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معجزے سے تین سو سال گہری نیند میں پڑے رہے' اس دوران پورا علاقہ مشرف بہ عیسائیت ہو چکا تھا' یہ لوگ جس معاشرے کو بت پرست چھوڑ کر سوئے تھے اس میں اب ہر جگہ چرچ بن چکے تھے' بادشاہ نے انھیں شہر تشریف لانے کی دعوت دی لیکن حضرات نے انکار کر دیا' وہ اسی غار میں مقیم رہے' طبعی زندگی پوری کی اور انتقال فرما گئے۔
بادشاہ نے ان کی وصیت کے مطابق انھیں اسی غار میں دفن کر دیا اور غار کے اوپر عبادت گاہ بنا دی' ماہرین کے مطابق یہ 250ء کا واقعہ ہے' قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں اس واقعے کا تفصیل سے ذکر فرمایا' قرآن مجید نے ان حضرات کو اصحاب الکہف والرقیم قرار دیا اور ان کے غار کی تین نشانیاں بیان کیں' یہ غار ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں سورج دائیں جانب سے جھکتا ہوا طلوع ہوتا ہے اور بائیں جانب سے کترا کر غروب ہوتا ہے' اصحاب الکہف غار کے کشادہ حصے میں سوئے ہوئے تھے اور اس غار کے اوپر ایک عبادت گاہ (مسجد) ہے۔
قرآن مجید نے ان حضرات کی تعداد بیان نہیں کی' آئمہ کرام کا خیال ہے یہ لوگ تین' پانچ یا سات تھے' عیسائی محققین ان کی تعداد سات بیان کرتے ہیں اور اس مناسبت سے انھیں ''سیون سلیپرز'' کہتے ہیں' قرآن مجید نے انھیں رقیم کا باسی بھی قرار دیا تھا' محققین کا خیال ہے رقیم پیٹرا کا قدیم نام تھا' یہ لوگ پیٹرا سے بھاگ کر عمان پہنچے تاہم عمان سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر رجیب نام کی ایک بستی موجود ہے۔
محققین کا خیال ہے یہ رقیم کا بگڑا ہوا نام ہے اور یہ لوگ رجیب سے یہاں آئے تھے' غار کے دائیں بائیں موجود آبادی کو بھی رقیم کہا جاتا ہے لیکن یہ وہی رقیم ہے جس کا نام قرآن مجید نے تحریر کیا یا پھر یہ رجیب تھا یا پھر یہ پیٹرا تھا اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ دنیا میں اصحاب کہف کے بے شمار غار ہیں' ایک غار ترکی کے شہر افسس (Ephesus) میں بھی موجود ہے' یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے' اس میں حضرت مریم ؑ کا گھر بھی موجود ہے۔
حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰ ؑکے بعد سینٹ جان کے ساتھ افسس تشریف لے آئی تھیں' آپؑ نے زندگی کا بڑا حصہ اس شہرمیں گزارا تھا' آپؑ کے دور میں یہ پورا علاقہ عیسائی ہو گیا' لوگوں کا خیال ہے اصحاب الکہف کا واقعہ افسس میں پیش آیا' وہاں غار بھی موجود ہے' ایک غار شام میں بھی واقع ہے اور تیونس اور الجیریا میں بھی ایسے غار ہیں لیکن ہم اگر قرآن مجید کی نشانیوں کی بنیاد پر دیکھیں تو اردن کا غار زیادہ حقیقی محسوس ہوتا ہے' یہ احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی فرمایا تھا' یہ غار ایلا (خلیج عقبہ) کے قریب واقع ہے' قرآن مجید نے غار کی نشانی بیان کی اس میں ہوا اور روشنی آتی تھی لیکن دھوپ نہیں آتی تھی' دھوپ نہ آنے کی وجہ سے اصحاب الکہف کے اجسام نیند کے دوران خراب ہونے سے بچ گئے' اگر ان کے جسموں پر براہ راست دھوپ پڑتی رہتی تو وہ سوکھ جاتے۔
احادیث اور قرآن مجید نے اس کے اوپر عبادت گاہ کا ذکر بھی کیا اور غار کے دروازے کے دونوں اطراف ستونوں کا حوالہ بھی دیا' یہ ساری نشانیاں اردن کے غار میں موجود ہیں چنانچہ یہ زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتا ہے' قرآن مجید نے اصحاب کہف کے کتے کا ذکر بھی کیا' اس غار سے کتے کے جبڑے کی ہڈی بھی دریافت ہوئی' یہ بھی بطور سند پیش کی جاتی ہے تاہم صرف اور صرف اللہ بہتر جانتا ہے۔
ہم اتوار تین مارچ کی صبح اصحاب الکہف کے غار میں پہنچ گئے' کھنڈرات کے درمیان ایک دروازہ تھا' دروازے کے اندر دو سیڑھیاں تھیں اور یہ سیڑھیاں دو ہال نما کمروں میں کھلتی تھیں' پہلا ہال ڈیوڑھی نما تھا' ڈیوڑھی کے دائیں اور بائیں قبروں کے دو سیٹ تھے' یہ اصحاب الکہف کے مزارات تھے' ایک مزار میں درمیانے سائز کا سوراخ تھا' سوراخ پر شیشہ لگا تھا' ہم نے موبائل فون کی لائٹ آن کی تو قبر کے اندر ہڈیاں نظر آئیں یہ اصحاب الکہف کی ہڈیاں تھیں۔
گائیڈ کے مطابق پرانے علاقے میں اجتماعی قبریں بنائی جاتی تھیں چنانچہ ان قبروں میں زیادہ لوگوں کی ہڈیاں ہیں' یہ غار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں بھی موجود تھا' تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے تھے اور لوگ دعا کے لیے بھی یہاں رکتے تھے' سلطان صلاح الدین ایوبی بھی یہاں آئے تھے' انھوں نے غار کی چھت پر پچی کاری کرائی تھی' پچی کاری کے آثار آج تک موجود ہیں۔
قبروں سے آگے دو سیڑھیاں چڑھ کر ایک دوسرا ہال تھا' یہ وہ جگہ تھی جہاں اصحاب کہف تین سو سال تک سوئے رہے تھے' عرب کا سال قمری کیلنڈر پر مشتمل ہوتا ہے چنانچہ ہم اگر اس زمانے کو شمسی سال میں کنورٹ کرکے دیکھیں تو یہ زمانہ 309 سال بنیں گے' ہال کے دائیں ہاتھ پتھر کی ایک انگیٹھی تھی' یہ انگیٹھی یقینا سردیوں کے موسم میں غار کو گرم رکھنے کے کام آتی ہو گی' میں ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا' میرے سامنے غار کا دہانہ تھا۔
قرآن مجید کے عین مطابق غار میں روشنی آ رہی تھی لیکن دھوپ اندر داخل نہیں ہو رہی تھی' غار کا درجہ حرارت بھی باہر سے مختلف تھا' یہ درجہ حرارت' روشنی اور دھوپ کا اندر داخل نہ ہونا وہ نشانیاں تھیں جن کا قرآن مجید نے ذکر فرمایا' اصحاب کہف کے اجسام تین سو سال تک دھوپ سے بھی محفوظ رہے اور وہ نیند کے دوران کروٹیں بھی بدلتے رہے۔
اصحاب کہف کی داستان پہلی بار ساروغ (عراق کا پرانا نام) کے بشپ جیکب (یعقوب) نے 521ء میں لکھی تھی' اس نے ''سیون سلیپرز'' کا سارا قصہ بیان کیا' قریش مکہ نے اپنے دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ بن ابومحیط مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجے' دونوں آدمیوں نے یہودی علماء سے پوچھا ''ہم محمدﷺ کا امتحان لینا چاہتے ہیں' آپ ہماری رہنمائی کریں'' یہودیوں نے ان کوبتایا ' آپ محمدﷺ سے یہ تین سوال پوچھو' ایک' اگلے زمانے کے ان نوجوانوں (اصحاب الکہف) کا کیا قصہ تھا؟
دو' وہ کون تھا جس نے پوری دنیا کا چکر لگایا' جو مشرق اور مغرب سے ہو کر آیا اور تیسرا سوال' روح کی ماہیت کیا ہے (بعض علماء کے مطابق تیسرا سوال حضرت موسیٰ ؑاور خضر علیہ السلام کے متعلق تھا' قرآن کے مطالعے سے بھی یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے) یہودی علماء نے کہا اگر محمدﷺ بتا دیں تو انھیں نبی مان کر ان کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکیں تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو چنانچہ یہ آپؐ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کیے۔
آپؐ نے انھیں جواب دیا میں کل ان کا جواب دوں گا' نبی اکرمؐ کا خیال تھا جبرائیل علیہ السلام تشریف لائیں گے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یاپھر اللہ تعالیٰ کل تک بذریعہ وحی مطلع فرمادیں گے لیکن پندرہ دن گزر گئے'وحی نازل نہ ہوئی'اہل مکہ خوش ہوگئے' آپؐ غمزدہ ہو گئے۔
15دن بعد جبرائیل علیہ السلام سورۃ الکہف کی آیات لے کرآگئے جن میں تینوں سوالوں کے جواب تھے اور آپؐ کو انشاء اللہ کہنے کی ہدایت بھی فرمائی یوںآپؐ نے اصحاب الکہف کی وہ تمام تفاصیل بھی بیان فرما دیں جو بشپ جیکب کی تحریر میں موجود تھیں اور نہ ہی عیسائی ان سے واقف تھے یوں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ؐ کی سچائی کی تصدیق فرما دی۔ اصحاب کہف کا یہ غار سلطان صلاح الدین ایوبی کے بعد گم ہو گیا' یہ 1961ء میں دوبارہ ظاہر ہوا' کھدائیاں ہوئیں اور یہ عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
میں سیڑھیوں پر بیٹھا تھا اور وقت کی کتاب میرے سامنے کھلی پڑی تھی' وہ لوگ کہاں سے بھاگ کر کہاں آئے' اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان پر گہری نیند طاری فرمائی' وہ کس طرح دوبارہ بیدار ہوئے' وہ کس طرح شہر گئے' لوگوں نے کس طرح ان کے ہاتھ چومے' انھوں نے کس طرح طبعی زندگی پوری کی' وہ کس طرح دوبارہ فوت ہوئے۔
یہ غار کس طرح بار بار انسانی آنکھوں سے اوجھل ہوتا اور ظاہر ہوتا رہا اور میں کس طرح ہزاروں میل کا سفر طے کر کے اللہ تعالیٰ کے ان متبرک بندوں کی زیارت کے لیے یہاں پہنچا' وقت کے سارے صفحے چند سیکنڈ میں میری نظروں کے سامنے سے گزر گئے' میں نے دل ہی دل میں دہرایا ''اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے'' توبہ کی' شکر ادا کیا اور اٹھ کر باہر آ گیا' باہر سورج اپنی پوری حدت کے ساتھ چمک رہا تھا۔
اصحاب الکہف رومی بادشاہ ٹروجان کے دور کے لوگ تھے' ٹروجان بت پرست تھا' یہ 48ء سے لے کر 117ء تک بادشاہ رہا' ٹروجان کے دور میں عیسائیت پھیل رہی تھی' شہر کے سات نوجوانوں نے عیسائیت قبول کی اور یہ لوگوں کو بت پرستی سے روکنے لگے' بادشاہ کو پتہ چلا' اس نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا' یہ لوگ دارالحکومت سے بھاگے' پہاڑوں میں پہنچے' مناسب سے غار کا تعین کیا اور یہ غار میں سو گئے' ان کے ساتھ ان کا کتا بھی تھا' کتے نے بھی آنکھیں موند لیں۔
یہ لوگ اگلے دن جاگے تو انھیں بھوک محسوس ہوئی' انھوں نے ایک ساتھی کو چند سکے دے کر کھانا لانے کے لیے قریبی بستی بھجوادیا' وہ شہر پہنچا' نانبائی سے کھانا لیا' سکے پیش کیے اور نانبائی نے اسے پکڑ لیا' تفتیش ہوئی' پتہ چلا اس نے قدیم زمانے کا لباس پہن رکھا ہے اور اس کے سکے تین سو سال پرانے ہیں' مزید تحقیق ہوئی' معلوم ہوا یہ لوگ غار میں تین سو سال سوئے رہے تھے' بادشاہ کو اطلاع ہوئی' وہ اپنی کابینہ کے ساتھ غار میں پہنچا' باقی اصحاب سے ملاقات ہوئی۔
ثابت ہوگیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معجزے سے تین سو سال گہری نیند میں پڑے رہے' اس دوران پورا علاقہ مشرف بہ عیسائیت ہو چکا تھا' یہ لوگ جس معاشرے کو بت پرست چھوڑ کر سوئے تھے اس میں اب ہر جگہ چرچ بن چکے تھے' بادشاہ نے انھیں شہر تشریف لانے کی دعوت دی لیکن حضرات نے انکار کر دیا' وہ اسی غار میں مقیم رہے' طبعی زندگی پوری کی اور انتقال فرما گئے۔
بادشاہ نے ان کی وصیت کے مطابق انھیں اسی غار میں دفن کر دیا اور غار کے اوپر عبادت گاہ بنا دی' ماہرین کے مطابق یہ 250ء کا واقعہ ہے' قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں اس واقعے کا تفصیل سے ذکر فرمایا' قرآن مجید نے ان حضرات کو اصحاب الکہف والرقیم قرار دیا اور ان کے غار کی تین نشانیاں بیان کیں' یہ غار ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں سورج دائیں جانب سے جھکتا ہوا طلوع ہوتا ہے اور بائیں جانب سے کترا کر غروب ہوتا ہے' اصحاب الکہف غار کے کشادہ حصے میں سوئے ہوئے تھے اور اس غار کے اوپر ایک عبادت گاہ (مسجد) ہے۔
قرآن مجید نے ان حضرات کی تعداد بیان نہیں کی' آئمہ کرام کا خیال ہے یہ لوگ تین' پانچ یا سات تھے' عیسائی محققین ان کی تعداد سات بیان کرتے ہیں اور اس مناسبت سے انھیں ''سیون سلیپرز'' کہتے ہیں' قرآن مجید نے انھیں رقیم کا باسی بھی قرار دیا تھا' محققین کا خیال ہے رقیم پیٹرا کا قدیم نام تھا' یہ لوگ پیٹرا سے بھاگ کر عمان پہنچے تاہم عمان سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر رجیب نام کی ایک بستی موجود ہے۔
محققین کا خیال ہے یہ رقیم کا بگڑا ہوا نام ہے اور یہ لوگ رجیب سے یہاں آئے تھے' غار کے دائیں بائیں موجود آبادی کو بھی رقیم کہا جاتا ہے لیکن یہ وہی رقیم ہے جس کا نام قرآن مجید نے تحریر کیا یا پھر یہ رجیب تھا یا پھر یہ پیٹرا تھا اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ دنیا میں اصحاب کہف کے بے شمار غار ہیں' ایک غار ترکی کے شہر افسس (Ephesus) میں بھی موجود ہے' یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے' اس میں حضرت مریم ؑ کا گھر بھی موجود ہے۔
حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰ ؑکے بعد سینٹ جان کے ساتھ افسس تشریف لے آئی تھیں' آپؑ نے زندگی کا بڑا حصہ اس شہرمیں گزارا تھا' آپؑ کے دور میں یہ پورا علاقہ عیسائی ہو گیا' لوگوں کا خیال ہے اصحاب الکہف کا واقعہ افسس میں پیش آیا' وہاں غار بھی موجود ہے' ایک غار شام میں بھی واقع ہے اور تیونس اور الجیریا میں بھی ایسے غار ہیں لیکن ہم اگر قرآن مجید کی نشانیوں کی بنیاد پر دیکھیں تو اردن کا غار زیادہ حقیقی محسوس ہوتا ہے' یہ احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی فرمایا تھا' یہ غار ایلا (خلیج عقبہ) کے قریب واقع ہے' قرآن مجید نے غار کی نشانی بیان کی اس میں ہوا اور روشنی آتی تھی لیکن دھوپ نہیں آتی تھی' دھوپ نہ آنے کی وجہ سے اصحاب الکہف کے اجسام نیند کے دوران خراب ہونے سے بچ گئے' اگر ان کے جسموں پر براہ راست دھوپ پڑتی رہتی تو وہ سوکھ جاتے۔
احادیث اور قرآن مجید نے اس کے اوپر عبادت گاہ کا ذکر بھی کیا اور غار کے دروازے کے دونوں اطراف ستونوں کا حوالہ بھی دیا' یہ ساری نشانیاں اردن کے غار میں موجود ہیں چنانچہ یہ زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتا ہے' قرآن مجید نے اصحاب کہف کے کتے کا ذکر بھی کیا' اس غار سے کتے کے جبڑے کی ہڈی بھی دریافت ہوئی' یہ بھی بطور سند پیش کی جاتی ہے تاہم صرف اور صرف اللہ بہتر جانتا ہے۔
ہم اتوار تین مارچ کی صبح اصحاب الکہف کے غار میں پہنچ گئے' کھنڈرات کے درمیان ایک دروازہ تھا' دروازے کے اندر دو سیڑھیاں تھیں اور یہ سیڑھیاں دو ہال نما کمروں میں کھلتی تھیں' پہلا ہال ڈیوڑھی نما تھا' ڈیوڑھی کے دائیں اور بائیں قبروں کے دو سیٹ تھے' یہ اصحاب الکہف کے مزارات تھے' ایک مزار میں درمیانے سائز کا سوراخ تھا' سوراخ پر شیشہ لگا تھا' ہم نے موبائل فون کی لائٹ آن کی تو قبر کے اندر ہڈیاں نظر آئیں یہ اصحاب الکہف کی ہڈیاں تھیں۔
گائیڈ کے مطابق پرانے علاقے میں اجتماعی قبریں بنائی جاتی تھیں چنانچہ ان قبروں میں زیادہ لوگوں کی ہڈیاں ہیں' یہ غار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں بھی موجود تھا' تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے تھے اور لوگ دعا کے لیے بھی یہاں رکتے تھے' سلطان صلاح الدین ایوبی بھی یہاں آئے تھے' انھوں نے غار کی چھت پر پچی کاری کرائی تھی' پچی کاری کے آثار آج تک موجود ہیں۔
قبروں سے آگے دو سیڑھیاں چڑھ کر ایک دوسرا ہال تھا' یہ وہ جگہ تھی جہاں اصحاب کہف تین سو سال تک سوئے رہے تھے' عرب کا سال قمری کیلنڈر پر مشتمل ہوتا ہے چنانچہ ہم اگر اس زمانے کو شمسی سال میں کنورٹ کرکے دیکھیں تو یہ زمانہ 309 سال بنیں گے' ہال کے دائیں ہاتھ پتھر کی ایک انگیٹھی تھی' یہ انگیٹھی یقینا سردیوں کے موسم میں غار کو گرم رکھنے کے کام آتی ہو گی' میں ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا' میرے سامنے غار کا دہانہ تھا۔
قرآن مجید کے عین مطابق غار میں روشنی آ رہی تھی لیکن دھوپ اندر داخل نہیں ہو رہی تھی' غار کا درجہ حرارت بھی باہر سے مختلف تھا' یہ درجہ حرارت' روشنی اور دھوپ کا اندر داخل نہ ہونا وہ نشانیاں تھیں جن کا قرآن مجید نے ذکر فرمایا' اصحاب کہف کے اجسام تین سو سال تک دھوپ سے بھی محفوظ رہے اور وہ نیند کے دوران کروٹیں بھی بدلتے رہے۔
اصحاب کہف کی داستان پہلی بار ساروغ (عراق کا پرانا نام) کے بشپ جیکب (یعقوب) نے 521ء میں لکھی تھی' اس نے ''سیون سلیپرز'' کا سارا قصہ بیان کیا' قریش مکہ نے اپنے دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ بن ابومحیط مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجے' دونوں آدمیوں نے یہودی علماء سے پوچھا ''ہم محمدﷺ کا امتحان لینا چاہتے ہیں' آپ ہماری رہنمائی کریں'' یہودیوں نے ان کوبتایا ' آپ محمدﷺ سے یہ تین سوال پوچھو' ایک' اگلے زمانے کے ان نوجوانوں (اصحاب الکہف) کا کیا قصہ تھا؟
دو' وہ کون تھا جس نے پوری دنیا کا چکر لگایا' جو مشرق اور مغرب سے ہو کر آیا اور تیسرا سوال' روح کی ماہیت کیا ہے (بعض علماء کے مطابق تیسرا سوال حضرت موسیٰ ؑاور خضر علیہ السلام کے متعلق تھا' قرآن کے مطالعے سے بھی یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے) یہودی علماء نے کہا اگر محمدﷺ بتا دیں تو انھیں نبی مان کر ان کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکیں تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو چنانچہ یہ آپؐ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کیے۔
آپؐ نے انھیں جواب دیا میں کل ان کا جواب دوں گا' نبی اکرمؐ کا خیال تھا جبرائیل علیہ السلام تشریف لائیں گے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یاپھر اللہ تعالیٰ کل تک بذریعہ وحی مطلع فرمادیں گے لیکن پندرہ دن گزر گئے'وحی نازل نہ ہوئی'اہل مکہ خوش ہوگئے' آپؐ غمزدہ ہو گئے۔
15دن بعد جبرائیل علیہ السلام سورۃ الکہف کی آیات لے کرآگئے جن میں تینوں سوالوں کے جواب تھے اور آپؐ کو انشاء اللہ کہنے کی ہدایت بھی فرمائی یوںآپؐ نے اصحاب الکہف کی وہ تمام تفاصیل بھی بیان فرما دیں جو بشپ جیکب کی تحریر میں موجود تھیں اور نہ ہی عیسائی ان سے واقف تھے یوں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ؐ کی سچائی کی تصدیق فرما دی۔ اصحاب کہف کا یہ غار سلطان صلاح الدین ایوبی کے بعد گم ہو گیا' یہ 1961ء میں دوبارہ ظاہر ہوا' کھدائیاں ہوئیں اور یہ عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
میں سیڑھیوں پر بیٹھا تھا اور وقت کی کتاب میرے سامنے کھلی پڑی تھی' وہ لوگ کہاں سے بھاگ کر کہاں آئے' اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان پر گہری نیند طاری فرمائی' وہ کس طرح دوبارہ بیدار ہوئے' وہ کس طرح شہر گئے' لوگوں نے کس طرح ان کے ہاتھ چومے' انھوں نے کس طرح طبعی زندگی پوری کی' وہ کس طرح دوبارہ فوت ہوئے۔
یہ غار کس طرح بار بار انسانی آنکھوں سے اوجھل ہوتا اور ظاہر ہوتا رہا اور میں کس طرح ہزاروں میل کا سفر طے کر کے اللہ تعالیٰ کے ان متبرک بندوں کی زیارت کے لیے یہاں پہنچا' وقت کے سارے صفحے چند سیکنڈ میں میری نظروں کے سامنے سے گزر گئے' میں نے دل ہی دل میں دہرایا ''اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے'' توبہ کی' شکر ادا کیا اور اٹھ کر باہر آ گیا' باہر سورج اپنی پوری حدت کے ساتھ چمک رہا تھا۔