پنشن کی بینک اکاؤنٹ میں منتقلی 10 سال بعد بھی ممکن نہ ہو سکی
سپریم کورٹ نے مینوئل طریقے کے بجائے شیڈولڈ بینکوں کے ذریعے پنشنرز کے ذاتی اکاؤنٹس میں ادائیگی کا حکم دیا تھا۔
ملک بھر میں پنشنرز کو ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم کے تحت شیڈولڈ بینکوں کے ذریعے پنشن کی ادائیگی کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کو 10 سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود پنشنرز کی اکثریت تاحال اس سہولت سے محروم ہے جس کے باعث پنشنرز کی بڑی تعداد ابھی تک پرانے اور مینوئل طریقے کے تحت ہر ماہ قطار لگا کر پنشن کی رقم وصول کرنے پر مجبور ہے۔
سپریم کورٹ نے 17 ستمبر 2007 کو دیے گئے ایک حکم میں پنشن کی ادائیگی مینوئل طریقے کے بجائے شیڈولڈ بینکوں کے ذریعے براہ راست پنشنرز کے ذاتی اکاؤنٹس کے ذریعے کرنے کا حکم دیا تھا، اس حکم پر عملدرآمد کے آغاز میں ہی تقریباً 7 سال کا عرصہ لگ گیا اور جولائی 2015 سے ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم متعارف کرایا گیا جبکہ 2018 کی پہلی سہ ماہی تک بھی مذکورہ سسٹم پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور پنشنرز کی اکثریت ابھی تک پرانے مینوئل طریقے سے پنشن لے رہی ہے۔
وفاقی اداروں میں مذکورہ سسٹم پر عمل درآمد کی ذمے داری اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) اور سندھ کے سرکاری اداروں کے پنشنرز کے لیے اس سسٹم پر عملدرآمد کا اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ (اے جی سندھ) ذمے دار ہے۔
ذرائع کے مطابق اے جی پی آر کے تحت وفاقی اداروں کے کم از کم 60 فیصد پنشنرز تاحال اس سہولت سے محروم ہیں جبکہ اے جی سندھ کے تحت صوبائی اداروں کے مشکل سے 20سے25 فیصد پنشنرز تاحال مذکورہ سہولت سے مستفید ہوسکے ہیں، سرکاری طور پر اس کے فنی اسباب گردانے جاتے ہیں لیکن غیرسرکاری طور پر مذکورہ سسٹم پر عمل درآمد نہ ہونے کا بڑا سبب متعلقہ افسران کی عدم دلچسپی بتایا جاتا ہے کیونکہ اس سسٹم پر عمل درآمد میں ان کا مالی مفاد نہیں رہتا۔
اے جی سندھ ہو یا اے جی پی آر، دونوں اداروں کے افسران پنشن کے کاغذات بنانے سے لے کر ہر قسم کے سرکاری بل کلیئر کرنے کے لیے کمیشن حاصل کرنے کے لیے مشہور ہیں، 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد کم از کم 17 وفاقی وزارتیں اور ان سے متعلقہ ادارے صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد اے جی سندھ کا دائرہ کار بڑھ گیا جس کے باعث مخصوص مفاد رکھنے والی افسرشاہی کے لیے اے جی پی آر سے زیادہ اے جی سندھ اہمیت اختیار کرگیاہے، ایسے افسران نے اے جی سندھ اور اس سے متعلقہ ضلعی دفاتر میں اپنی تقرریاں کرانا شروع کردیں۔
ذرائع کے مطابق بعض افسران ضلعی اکاؤنٹس آفسز میں تقرریاں کرانے کے لیے بھاری رشوت بھی دیتے ہیں، مجموعی طور پر اس ادارے میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ملازمین کا تناسب برابر ہوتا ہے ۔
سپریم کورٹ نے 17 ستمبر 2007 کو دیے گئے ایک حکم میں پنشن کی ادائیگی مینوئل طریقے کے بجائے شیڈولڈ بینکوں کے ذریعے براہ راست پنشنرز کے ذاتی اکاؤنٹس کے ذریعے کرنے کا حکم دیا تھا، اس حکم پر عملدرآمد کے آغاز میں ہی تقریباً 7 سال کا عرصہ لگ گیا اور جولائی 2015 سے ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم متعارف کرایا گیا جبکہ 2018 کی پہلی سہ ماہی تک بھی مذکورہ سسٹم پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور پنشنرز کی اکثریت ابھی تک پرانے مینوئل طریقے سے پنشن لے رہی ہے۔
وفاقی اداروں میں مذکورہ سسٹم پر عمل درآمد کی ذمے داری اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) اور سندھ کے سرکاری اداروں کے پنشنرز کے لیے اس سسٹم پر عملدرآمد کا اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ (اے جی سندھ) ذمے دار ہے۔
ذرائع کے مطابق اے جی پی آر کے تحت وفاقی اداروں کے کم از کم 60 فیصد پنشنرز تاحال اس سہولت سے محروم ہیں جبکہ اے جی سندھ کے تحت صوبائی اداروں کے مشکل سے 20سے25 فیصد پنشنرز تاحال مذکورہ سہولت سے مستفید ہوسکے ہیں، سرکاری طور پر اس کے فنی اسباب گردانے جاتے ہیں لیکن غیرسرکاری طور پر مذکورہ سسٹم پر عمل درآمد نہ ہونے کا بڑا سبب متعلقہ افسران کی عدم دلچسپی بتایا جاتا ہے کیونکہ اس سسٹم پر عمل درآمد میں ان کا مالی مفاد نہیں رہتا۔
اے جی سندھ ہو یا اے جی پی آر، دونوں اداروں کے افسران پنشن کے کاغذات بنانے سے لے کر ہر قسم کے سرکاری بل کلیئر کرنے کے لیے کمیشن حاصل کرنے کے لیے مشہور ہیں، 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد کم از کم 17 وفاقی وزارتیں اور ان سے متعلقہ ادارے صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد اے جی سندھ کا دائرہ کار بڑھ گیا جس کے باعث مخصوص مفاد رکھنے والی افسرشاہی کے لیے اے جی پی آر سے زیادہ اے جی سندھ اہمیت اختیار کرگیاہے، ایسے افسران نے اے جی سندھ اور اس سے متعلقہ ضلعی دفاتر میں اپنی تقرریاں کرانا شروع کردیں۔
ذرائع کے مطابق بعض افسران ضلعی اکاؤنٹس آفسز میں تقرریاں کرانے کے لیے بھاری رشوت بھی دیتے ہیں، مجموعی طور پر اس ادارے میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ملازمین کا تناسب برابر ہوتا ہے ۔