ناصر کاظمی
ناصرکاظمی کی غزلیں ملک کے تمام ادبی رسالوں میں چھپنے لگی تھیں۔
ستمبرکی ایک خوبصورت صبح تھی۔ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں ادیب اور شاعر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اے حمید بھی تھے۔ اتنے میں ایک دبلا پتلا، سانولے رنگ کا نوجوان آیا اور آکر اے حمید کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ ناصر کاظمی تھے۔ انھوں نے اے حمید کی طرف دیکھا اور کہا، تم اے حمید ہو ناں؟ اے حمید نے جب جواب دیا، ہاں تو ناصرکاظمی نے اس کی گردن میں بازو ڈال کر اسے اپنے قریب کرلیا اور کہنے لگے، ''یار تم بہت خوبصورت لکھتے ہو۔''
یہ اے حمید کی ناصر کاظمی سے دوستی کی ابتدا تھی۔ اے حمید لکھتے ہیں ''یہ پاکستان کے شروع شروع کا زمانہ تھا۔ ناصر کاظمی کوکرشن نگر میں ایک متروکہ مکان الاٹ ہوا تھا جہاں ابھی بجلی نہیں آئی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں میز پر موم بتی جلاکر پڑھتا اور غزلیں لکھتا تھا۔ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ہم ہر روز پاک ٹی ہاؤس آتے اور پھر وقفے وقفے سے سارا دن وہاں بیٹھے رہتے۔''
اے حمید اور ناصر کی دوستی وقت کے ساتھ گہری ہوتی گئی۔ اس دوران میں ناصرکاظمی کی غزلیں ملک کے تمام ادبی رسالوں میں چھپنے لگی تھیں۔ انھیں مشاعروں میں بھی بلایا جاتا تھا۔ بڑی داد ملتی تھی۔ اے حمید لکھتے ہیں ''ناصر کاظمی اپنے خاص دوستوں کے سوا کسی کو شعر نہیں سناتا تھا بلکہ مشاعروں میں بھی وہ کم سے کم اورکسی حد تک بے دلی سے شعر پڑھتا تھا جیسے اسے یقین تھا کہ اس کے شعر کو سمجھنے والے یہاں بہت کم لوگ بیٹھے ہیں۔ مجھے وہ اپنی تازہ غزل ضرور سنا دیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی رومانوی شاعر تھا اور میں بھی نثر نگاروں میں واحد رومانیت پرور افسانہ نگار تھا۔
ایک روز پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے ناصر کاظمی نے اے حمید کو وہ غزل سنائی جو بعد میں بہت مشہور ہوئی۔ اس غزل کا مقطع تھا:
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
اس غزل نے اے حمید کو بہت متاثر کیا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے سارا منظر آگیا۔ اے حمید کہتے ہیں کہ ناصرکاظمی کے کئی شعر ایسے ہیں جنھوں نے ان سے پورے کے پورے افسانے لکھوائے ۔ان میں یہ شعر بھی شامل ہے۔
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
پھر ناصرکاظمی کی شادی ہوگئی ۔ اسے ایسی بیوی ملی جو انتہائی سلیقہ شعار، ایثار پیشہ، صبروتحمل کی دیوی اور اس سے محبت کرنے والی تھی ۔ اے حمید لکھتے ہیں کہ '' اس نے ناصرکاظمی جیسے بکھرے ہوئے آدمی کو سارے کا سارا سمیٹ کر سنبھال لیا اور ناصر کی زندگی میں واضح طور پر ایک قاعدہ اور سلیقہ نظر آنے لگا۔ یوں بھی ناصرکاظمی کا مزاج روایتی شاعروں کی طرح نہیں تھا۔ وہ لاابالی اور دنیا کے تکلفات سے بے نیاز ضرور تھا لیکن ہر وقت ہوش میں رہتا تھا اور اپنی تمام دنیاوی ذمے داریاں پوری طرح نبھاتا تھا۔''
اے حمید جن دنوں اخبار''آفاق'' میں کام کررہے تھے، انتظار حسین اورعلی سفیان آفاقی وہاں پہلے تھے۔ اے حمید کی انتظار حسین سے بھی بڑی دوستی تھی، پھر ناصرکاظمی بھی ''آفاق'' کے عملے میں شامل ہوگئے۔ اے حمید اور ناصرکاظمی ایک ہی شفٹ میں کام کرتے تھے۔ یوں ان کا بڑا ساتھ رہتا تھا۔ انھی دنوں صدر ایوب کی طرف سے جشن جمہوریت منایا گیا۔ اس جشن میں شرکت کے لیے لاہور سے جو ادیب اور شاعر ڈھاکا گئے ان میں اے حمید اور ناصرکاظمی بھی شامل تھے۔ اے حمید نے مشرقی پاکستان کے اس سفرکی دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ یہیں ناصرکاظمی نے انھیں اپنی وہ غزل سنائی جس کا مقطع یہ ہے:
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھرکے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اداس کرکے مجھے
ڈھاکہ سے واپس آکر ناصرکاظمی نے کئی غزلوں میں مشرقی بنگال کے درختوں، دریاؤں اور ماہی گیروں کا ذکرکیا۔ انھوں نے اپنے اس سفر پر ایک مثنوی بھی لکھنی شروع کردی جو مکمل نہ ہوسکی۔ اے حمید لکھتے ہیں ''اپنی زندگی کے آخری ایام میں ناصرکاظمی جب میو اسپتال میں زیر علاج تھا تو اس نے سقوط ڈھاکہ پر ایک بڑی درد ناک نظم لکھی تھی۔ میں اور انتظار حسین اس سے ملنے اسپتال گئے تو اس نے ہمیں اپنی اس نظم کے کچھ اشعار سنائے تھے۔''
پھر یہ ہوا کہ پاک ٹی ہاؤس میں ادیبوں اور شاعروں کی محفلیں بکھرگئیں۔ ایک ایک کرکے سب پاک ٹی ہاؤس سے اٹھتے چلے گئے۔ اے حمید بھی ناصرکاظمی سے دوسرے ادیبوں کی طرح جدا ہوجاتے لیکن خوش قسمتی سے ناصرکاظمی ریڈیو پاکستان، لاہورکے اسٹاف میں شامل ہوگئے جہاں اے حمید پہلے سے شامل تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پرانی عمارت سے نکل کر اپنی نئی عمارت میں آچکا تھا۔ اے حمید لکھتے ہیں ''سردیوں کے دن تھے۔ میں اپنے وائلن نواز دوست اصغر حسین اچھی کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن کے سرسبز پلاٹ میں پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھا تھا۔ ہم چائے پی چکے تھے، سگریٹ سلگائے پھولوں اور موسیقی کی باتیں کر رہے تھے کہ میں نے ناصرکاظمی کو ریڈیو اسٹیشن کے گیٹ سے اندر آتے دیکھا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ناصر کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی۔ اس نے نسواری رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا، سگریٹ ہاتھ میں تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا مگر وہ اپنی خاص محویت کے عالم میں چلا آرہا تھا۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ جب وہ بڑے درخت کے قریب آیا تو میں نے اسے آواز دی۔ ناصر نے رک کر میری طرف دیکھا۔ وہ مسکراتا ہوا سبزے کے پلاٹ میں آگیا۔ میں آگے بڑھ کر ناصر سے گلے ملا۔ وہ بڑا خوش تھا، کہنے لگا۔
''اے حمید! میں بھی تمہارے پاس آگیا ہوں۔''
اب اے حمید کی اپنے عزیز دوست سے روز ملاقات ہونے لگی۔ عام طور پر وہ صبح دس گیارہ بجے آجاتا اور شام تک رہتا۔ ناصر کاظمی نے لاہور ریڈیو سے ''ایوان غزل'' کے عنوان سے تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا، یہ غزل کی پوری تاریخ تھی۔ تب اے حمید کو معلوم ہوا کہ ناصرکاظمی نثر بھی بڑے کمال کی لکھتا ہے۔
پھر ناصرکاظمی کی صحت آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہوئی۔ اے حمید بناتے ہیں کہ اس کی وجہ چائے کی کثرت تھی جس سے انھیں معدے میں جلن کی شکایت بڑھی۔ وہ لکھتے ہیں ''ریڈیو کی کینٹین سے بہت چائے آتی۔ وہ ہر دوست کے لیے چائے کے ساتھ فرنچ ٹوسٹ بھی منگاتا۔ چائے کا دور تو ہر وقت چلتا رہتا۔ ایک بار میں نے اسے زیادہ چائے پینے سے منع کیا تو وہ ہنس کر بولا۔ '' اے حمید! پینے کی یہی تو ایک چیز رہ گئی ہے۔''
ایک دن ناصرکاظمی ریڈیو اسٹیشن نہیں آئے۔ پھر جب چھٹی کی درخواست آئی تو اے حمید کو فکر ہوئی۔ وہ دوپہرکو ریڈیو کی گاڑی پکڑ کر ناصر کے گھر پہنچ گئے۔ ناصر اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹے تھے انھیں دیکھ کر مسکرائے، اے حمید نے پوچھا، کیا حال ہے بھائی؟ ناصرکاظمی پلنگ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، کہنے لگے ''بس میاں وہی السر تنگ کرتا ہے، خیر کوئی بات نہیں۔ میں بھی اس کا مقابلہ کروں گا۔''
ناصر کاظمی اپنے مرض سے مقابلہ کرتے رہے لیکن جب مرض کا دوبارہ حملہ ہوا تو میو اسپتال میں داخل کردیے گئے ۔ ان کے دوست ان کو دیکھنے جاتے اوران کی دلجوئی کرتے۔ پھر ایک دن اے حمید نے اسٹاف آرٹسٹوں کی یونین کا اجلاس بلایا۔ وہ یونین کے صدر تھے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ناصرکاظمی کا علاج سرکاری طور پر ہونا چاہیے۔ اے حمید نے ادیبوں اور شاعروں کو جمع کیا اور یہ سب ایک جلوس کی شکل میں میو اسپتال روانہ ہوئے۔ جلوس میں ڈاکٹر عبادت بریلوی، سجاد رضوی، سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، قتیل شفائی، وقارعظیم، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، کشور ناہید اور دوسرے احباب شامل تھے۔ ان سب نے اسپتال پہنچ کر ناصر کاظمی کی عیادت کی۔ جلوس کا اچھا اثر ہوا اور اسی روز پنجاب کی حکومت کی طرف سے اعلان ہوگیا کہ ناصر کاظمی کا علاج سرکاری خرچ پر ہوگا۔
اے حمید لکھتے ہیں ''پھر یہ ساری کارروائی سرخ فیتے کی نذر ہوگئی اور ناصرکاظمی کو اپنے علاج کا خرچ اور سارے بل خود ہی ادا کرنے پڑے۔''
ناصر کاظمی کو علاج سے کچھ فائدہ ہونے لگا تھا کہ طبیعت پھر بگڑگئی اور اس دنیا سے اور اپنے دوستوں سے رخصت ہوگئے۔ رہے نام اللہ کا۔
یہ اے حمید کی ناصر کاظمی سے دوستی کی ابتدا تھی۔ اے حمید لکھتے ہیں ''یہ پاکستان کے شروع شروع کا زمانہ تھا۔ ناصر کاظمی کوکرشن نگر میں ایک متروکہ مکان الاٹ ہوا تھا جہاں ابھی بجلی نہیں آئی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں میز پر موم بتی جلاکر پڑھتا اور غزلیں لکھتا تھا۔ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ہم ہر روز پاک ٹی ہاؤس آتے اور پھر وقفے وقفے سے سارا دن وہاں بیٹھے رہتے۔''
اے حمید اور ناصر کی دوستی وقت کے ساتھ گہری ہوتی گئی۔ اس دوران میں ناصرکاظمی کی غزلیں ملک کے تمام ادبی رسالوں میں چھپنے لگی تھیں۔ انھیں مشاعروں میں بھی بلایا جاتا تھا۔ بڑی داد ملتی تھی۔ اے حمید لکھتے ہیں ''ناصر کاظمی اپنے خاص دوستوں کے سوا کسی کو شعر نہیں سناتا تھا بلکہ مشاعروں میں بھی وہ کم سے کم اورکسی حد تک بے دلی سے شعر پڑھتا تھا جیسے اسے یقین تھا کہ اس کے شعر کو سمجھنے والے یہاں بہت کم لوگ بیٹھے ہیں۔ مجھے وہ اپنی تازہ غزل ضرور سنا دیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی رومانوی شاعر تھا اور میں بھی نثر نگاروں میں واحد رومانیت پرور افسانہ نگار تھا۔
ایک روز پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے ناصر کاظمی نے اے حمید کو وہ غزل سنائی جو بعد میں بہت مشہور ہوئی۔ اس غزل کا مقطع تھا:
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
اس غزل نے اے حمید کو بہت متاثر کیا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے سارا منظر آگیا۔ اے حمید کہتے ہیں کہ ناصرکاظمی کے کئی شعر ایسے ہیں جنھوں نے ان سے پورے کے پورے افسانے لکھوائے ۔ان میں یہ شعر بھی شامل ہے۔
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
پھر ناصرکاظمی کی شادی ہوگئی ۔ اسے ایسی بیوی ملی جو انتہائی سلیقہ شعار، ایثار پیشہ، صبروتحمل کی دیوی اور اس سے محبت کرنے والی تھی ۔ اے حمید لکھتے ہیں کہ '' اس نے ناصرکاظمی جیسے بکھرے ہوئے آدمی کو سارے کا سارا سمیٹ کر سنبھال لیا اور ناصر کی زندگی میں واضح طور پر ایک قاعدہ اور سلیقہ نظر آنے لگا۔ یوں بھی ناصرکاظمی کا مزاج روایتی شاعروں کی طرح نہیں تھا۔ وہ لاابالی اور دنیا کے تکلفات سے بے نیاز ضرور تھا لیکن ہر وقت ہوش میں رہتا تھا اور اپنی تمام دنیاوی ذمے داریاں پوری طرح نبھاتا تھا۔''
اے حمید جن دنوں اخبار''آفاق'' میں کام کررہے تھے، انتظار حسین اورعلی سفیان آفاقی وہاں پہلے تھے۔ اے حمید کی انتظار حسین سے بھی بڑی دوستی تھی، پھر ناصرکاظمی بھی ''آفاق'' کے عملے میں شامل ہوگئے۔ اے حمید اور ناصرکاظمی ایک ہی شفٹ میں کام کرتے تھے۔ یوں ان کا بڑا ساتھ رہتا تھا۔ انھی دنوں صدر ایوب کی طرف سے جشن جمہوریت منایا گیا۔ اس جشن میں شرکت کے لیے لاہور سے جو ادیب اور شاعر ڈھاکا گئے ان میں اے حمید اور ناصرکاظمی بھی شامل تھے۔ اے حمید نے مشرقی پاکستان کے اس سفرکی دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ یہیں ناصرکاظمی نے انھیں اپنی وہ غزل سنائی جس کا مقطع یہ ہے:
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھرکے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اداس کرکے مجھے
ڈھاکہ سے واپس آکر ناصرکاظمی نے کئی غزلوں میں مشرقی بنگال کے درختوں، دریاؤں اور ماہی گیروں کا ذکرکیا۔ انھوں نے اپنے اس سفر پر ایک مثنوی بھی لکھنی شروع کردی جو مکمل نہ ہوسکی۔ اے حمید لکھتے ہیں ''اپنی زندگی کے آخری ایام میں ناصرکاظمی جب میو اسپتال میں زیر علاج تھا تو اس نے سقوط ڈھاکہ پر ایک بڑی درد ناک نظم لکھی تھی۔ میں اور انتظار حسین اس سے ملنے اسپتال گئے تو اس نے ہمیں اپنی اس نظم کے کچھ اشعار سنائے تھے۔''
پھر یہ ہوا کہ پاک ٹی ہاؤس میں ادیبوں اور شاعروں کی محفلیں بکھرگئیں۔ ایک ایک کرکے سب پاک ٹی ہاؤس سے اٹھتے چلے گئے۔ اے حمید بھی ناصرکاظمی سے دوسرے ادیبوں کی طرح جدا ہوجاتے لیکن خوش قسمتی سے ناصرکاظمی ریڈیو پاکستان، لاہورکے اسٹاف میں شامل ہوگئے جہاں اے حمید پہلے سے شامل تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پرانی عمارت سے نکل کر اپنی نئی عمارت میں آچکا تھا۔ اے حمید لکھتے ہیں ''سردیوں کے دن تھے۔ میں اپنے وائلن نواز دوست اصغر حسین اچھی کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن کے سرسبز پلاٹ میں پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھا تھا۔ ہم چائے پی چکے تھے، سگریٹ سلگائے پھولوں اور موسیقی کی باتیں کر رہے تھے کہ میں نے ناصرکاظمی کو ریڈیو اسٹیشن کے گیٹ سے اندر آتے دیکھا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ناصر کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی۔ اس نے نسواری رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا، سگریٹ ہاتھ میں تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا مگر وہ اپنی خاص محویت کے عالم میں چلا آرہا تھا۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ جب وہ بڑے درخت کے قریب آیا تو میں نے اسے آواز دی۔ ناصر نے رک کر میری طرف دیکھا۔ وہ مسکراتا ہوا سبزے کے پلاٹ میں آگیا۔ میں آگے بڑھ کر ناصر سے گلے ملا۔ وہ بڑا خوش تھا، کہنے لگا۔
''اے حمید! میں بھی تمہارے پاس آگیا ہوں۔''
اب اے حمید کی اپنے عزیز دوست سے روز ملاقات ہونے لگی۔ عام طور پر وہ صبح دس گیارہ بجے آجاتا اور شام تک رہتا۔ ناصر کاظمی نے لاہور ریڈیو سے ''ایوان غزل'' کے عنوان سے تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا، یہ غزل کی پوری تاریخ تھی۔ تب اے حمید کو معلوم ہوا کہ ناصرکاظمی نثر بھی بڑے کمال کی لکھتا ہے۔
پھر ناصرکاظمی کی صحت آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہوئی۔ اے حمید بناتے ہیں کہ اس کی وجہ چائے کی کثرت تھی جس سے انھیں معدے میں جلن کی شکایت بڑھی۔ وہ لکھتے ہیں ''ریڈیو کی کینٹین سے بہت چائے آتی۔ وہ ہر دوست کے لیے چائے کے ساتھ فرنچ ٹوسٹ بھی منگاتا۔ چائے کا دور تو ہر وقت چلتا رہتا۔ ایک بار میں نے اسے زیادہ چائے پینے سے منع کیا تو وہ ہنس کر بولا۔ '' اے حمید! پینے کی یہی تو ایک چیز رہ گئی ہے۔''
ایک دن ناصرکاظمی ریڈیو اسٹیشن نہیں آئے۔ پھر جب چھٹی کی درخواست آئی تو اے حمید کو فکر ہوئی۔ وہ دوپہرکو ریڈیو کی گاڑی پکڑ کر ناصر کے گھر پہنچ گئے۔ ناصر اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹے تھے انھیں دیکھ کر مسکرائے، اے حمید نے پوچھا، کیا حال ہے بھائی؟ ناصرکاظمی پلنگ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، کہنے لگے ''بس میاں وہی السر تنگ کرتا ہے، خیر کوئی بات نہیں۔ میں بھی اس کا مقابلہ کروں گا۔''
ناصر کاظمی اپنے مرض سے مقابلہ کرتے رہے لیکن جب مرض کا دوبارہ حملہ ہوا تو میو اسپتال میں داخل کردیے گئے ۔ ان کے دوست ان کو دیکھنے جاتے اوران کی دلجوئی کرتے۔ پھر ایک دن اے حمید نے اسٹاف آرٹسٹوں کی یونین کا اجلاس بلایا۔ وہ یونین کے صدر تھے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ناصرکاظمی کا علاج سرکاری طور پر ہونا چاہیے۔ اے حمید نے ادیبوں اور شاعروں کو جمع کیا اور یہ سب ایک جلوس کی شکل میں میو اسپتال روانہ ہوئے۔ جلوس میں ڈاکٹر عبادت بریلوی، سجاد رضوی، سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، قتیل شفائی، وقارعظیم، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، کشور ناہید اور دوسرے احباب شامل تھے۔ ان سب نے اسپتال پہنچ کر ناصر کاظمی کی عیادت کی۔ جلوس کا اچھا اثر ہوا اور اسی روز پنجاب کی حکومت کی طرف سے اعلان ہوگیا کہ ناصر کاظمی کا علاج سرکاری خرچ پر ہوگا۔
اے حمید لکھتے ہیں ''پھر یہ ساری کارروائی سرخ فیتے کی نذر ہوگئی اور ناصرکاظمی کو اپنے علاج کا خرچ اور سارے بل خود ہی ادا کرنے پڑے۔''
ناصر کاظمی کو علاج سے کچھ فائدہ ہونے لگا تھا کہ طبیعت پھر بگڑگئی اور اس دنیا سے اور اپنے دوستوں سے رخصت ہوگئے۔ رہے نام اللہ کا۔