انسانیت اب بھی باقی ہے
ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد میں ٹنڈو آدم سے کراچی میں داخل ہوچکا تھا۔ تاہم اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کےلیے شہر کی معروف شاہراہ راشد منہاس روڈ پر اترا اور گھر جانے کی عجلت میں اسٹاپ پر کھڑی بس میں بیٹھ گیا، لیکن بس کا دیر تلک اسٹاپ پر کھڑے رہنا میری برداشت سے باہر تھا۔ لہذا اتر کر پیدل چلنے اور راستے سے چنگچی پر سوار ہونے کا فیصلہ کیا۔
کچھ دیر چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ کوئی چنگچی ایسی نہیں جو مجھے میری منزل تک لے جائے۔ اب آخری امید رکشہ سے لگائی اور ایک رکشہ والے سے گھر لے کر چلنے کا کہا۔ موصوف نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ''میں آپ کو گھر سے کچھ فاصلے پہ اتار سکتا ہوں لیکن دروازے پر نہیں، کیونکہ مجھے کہیں اور جانا ہے۔'' یہ سن کر میں نے مجبوراً کرایہ کا پوچھ ہی لیا لیکن یہاں انہونی ہوگئی۔ ڈرائیور نے کہا ''میں آپ کو فلاں جگہ تک چھوڑ دیتا ہوں، بغیر کسی پیسے کے، بھائی بندی میں۔'' مطلب کہ رکشہ ڈرائیور مجھے مفت میں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل تھا لیکن میں پھر بھی بیٹھ گیا اور رکشہ ڈرائیور نے بتائی ہوئی جگہ پر مجھے چھوڑ دیا۔ رکشہ سے اتر کر میں نے پھر کرایہ کا پوچھا لیکن ڈرائیور نے لینے سے انکار کردیا۔
میں نے اصرار کیا جس پر اس نے کہا ''بھائی۔! بس پان کے پیسے دے دو''۔ یہ سن کر میں تعجب میں پڑ گیا اور کچھ پیسے اس کے ہاتھ میں تھما کر چلتا بنا۔ آخر کار میں گھر پہنچ گیا۔
خود کے ساتھ پیش آنے والے اس واقع نے میرے ذہن کو الجھا دیا کہ ایک ایسا دور جس میں ہر شخص ایک دوسرے کی جیبیں کاٹنے میں مصروف ہے، اس دور میں کوئی ایسا شخص بھی ہوسکتا ہے جو کسی کو بھائی بندی میں مفت کا سفر کروا دے۔ بلاشبہ یہ بات ناقابل یقین ہے، کیونکہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس میں غریب کو ایک وقت کی روٹی بھی ٹھیک سے میسر نہیں ہوتی، مگر ایک رکشہ والا جو دن بھر سواری ہی اس غرض سے بٹھاتا ہے کہ آمدنی ہو اور گزر بسر کیا جاسکے، لیکن وہ کسی کو مفت میں لے جانے کی پیشکش کر دے تو یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہو پاتی۔
اس واقعہ سے مجھے فرمان رسولﷺ یاد آگیا کہ ''تم زمین پر رہنے والی مخلوق پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔'' بلاشبہ رکشہ ڈرائیور نے ایسا ہی کیا اور انسانیت کی ایک مثال قائم کی۔ آج معاشرے میں ہر شخص یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ''لوگوں میں انسانیت ہی نہیں، یہ ایسا ہے اور وہ ویسا''۔ لیکن کیا کبھی کہنے والے نے یہ سوچا کہ خود اس میں کتنی انسانیت ہے؟ ہماری حالت تو یہ ہے کہ کوئی ہم سے لفٹ مانگ لے تو ہم اس کے لیے سواری روکنا تک گوارا نہیں کرتے۔ کوئی ادھار پیسے مانگ لے تو ہم بہانے بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اور بالفرض پیسے دے بھی دیں تو اگلے ماہ واپسی کا مطالبہ یا اضافی پیسے مانگ لیتے ہیں۔
درحقیقت ہم کسی کو کچھ دے نہیں سکتے، اور جس کے پاس کچھ ہے تو اس کے پاس دیکھ نہیں سکتے۔ معاشرے میں اگر ہم انسانیت دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے خود میں انسانیت پیدا کرنی ہوگی، اور یہ کام زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر کرنا ہوگا، ورنہ کسی سے انسانیت کی توقع نہ رکھیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔