سوال یہ ہے
جو افسران دعائے قنوت اور تیسرا چوتھا کلمہ امیدواروں سے سنانے کو کہہ رہے ہیں کوئی ان سے پوچھے کیا انھیں چھ کے 6۔۔۔
یہ 1979ء کی بات ہے۔ ان دنوں میں جس کالج میں پڑھا رہی تھی، وہاں کی پرنسپل صاحبہ عموماً گیارہ بجے تک کالج آتی تھیں اور آنے کے تھوڑی دیر بعد وہ اپنے آفس میں چائے وغیرہ پینے کے بعد قرآن مجید کے پاروں کی تلاوت شروع کر دیتی تھیں۔ کسی لیکچرر کو، کسی طالبہ کو یا اکاؤنٹ کے حوالے سے کسی کلر ک یا آفس سپرنٹنڈنٹ کو کوئی کام ہوتا تو وہ بار بار جھانک کر واپس آ جاتے کہ ''میڈم ابھی تلاوت کر رہی ہیں'' ہم سب اس صورت حال سے سخت پریشان تھے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو اسے کیسے حل کریں، وہ میٹنگ بھی شاذو نادر ہی کرتی تھیں۔
مختلف کمیٹیوں کی انچارج لیکچررز سارے کام بہ حسن و خوبی کر لیتی تھیں۔ خواہ ایڈمیشن کا مسئلہ ہو یا مختلف فنکشنز کا۔ وہ صرف ڈیوٹی لسٹ نکلوا کر اسٹاف سے دستخط لے لیتی تھیں۔ پھر وہ اپنی کسی نہ کسی بیٹی کو اپنے ساتھ لانے لگیں، خود تو وہ تلاوت کرتی رہتیں اور صاحبزادی تمام انتظامی امور کی نگرانی از خود کرنے لگیں۔ ان کی ہم مسلک دو لیکچررز کو چھوڑ کر صاحبزادی سب کی خبر لینے کے لیے تیار رہتیں۔ کون کب آیا اور کب گیا۔ اساتذہ کی مخبری کے لیے انھوں نے کچھ طالبات کی خدمات بھی حاصل کر لیں۔
سارا اسٹاف اس صورت حال سے پریشان تھا لیکن کوئی بھی اس توہین آمیز رویے کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن میرے علاوہ دو اور لیکچررز نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس صورت حال کا نوٹس لیا جائے۔ ہم تین ویسے ہی اس معاملے میں بدنام تھے کہ ہم غلط بات اور غلط احکامات کی ہمیشہ مذمت کرتے تھے۔ لیکن خدا جانے کس طرح ان کی منظور نظر ٹیچرز کو اس پلان کا پتہ چل گیا۔ پہلے تو انھوں نے فوراً مجھے آفس میں بلایا اور ان کی صاحبزادی نے مجھ سے پوچھا کہ آج میں کتنے بجے کالج آئی تھی؟ میں نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ کس حیثیت میں مجھ سے یہ سوال کر رہی ہیں؟ کیا وہ یہاں کی پرنسپل ہیں؟ میری بات سن کر اس نے زور سے پیپر ویٹ گھمایا اور ماں کی طرف دیکھا۔
انھوں نے چشمہ اتارا اور بولیں۔ ''یہ میری بیٹی ہے''۔ تب میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم سب کو پتہ ہے کہ یہ آپ کی بیٹی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ ایک طالبہ ہے۔ لیکن مجھے یہ بتایئے کہ یہ روز کیوں کالج آتی ہے اور ہم سے سوال کرنے کا اسے کیا حق ہے؟ اس پر وہ بولیں کہ ''میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اس لیے ساتھ لاتی ہوں''۔ میں نے جواب دیا کہ اگر ان کی طبیعت ناساز رہتی ہے تو وہ میڈیکل لے کر آرام کریں۔ تب وہ بے نیازی سے بولیں ''آپ کو پتہ ہے کہ اس بدتمیزی پر میں آپ کی ACR بھی خراب کر سکتی ہوں''۔ میں نے کہا شوق سے کیجیے اور پھر آفس سے باہر نکل آئی۔ پھر میری دونوں دوسری ساتھیوں کو بلایا گیا۔ انھوں نے ان کا سارا حساب صاف کر دیا۔
دونوں نے ان کی بیٹی کو وہ آڑے ہاتھوں لیا کہ اگلے دن سے وہ تو غائب ہو گئی لیکن دوسری بڑی بیٹی آنے لگی اور پورا وقت اسٹاف روم میں بیٹھ کر اساتذہ کی ایک ایک حرکت کی خبر ماں کو دینے لگی۔ ہم نے پھر ہمت کی اور ان کو سمجھایا کہ وہ اسٹاف روم میں ہرگز نہ بیٹھیں کیونکہ وہ ''آئوٹ سائیڈر'' ہیں اور ہماری پرائیویسی متاثر ہوتی ہے، وہ اٹھ تو گئیں لیکن ہمارے لیے بے پناہ مسائل پیدا کر گئیں، ہم نے ٹرانسفر کروانا چاہا تو انھوں نے رکاوٹ ڈالی اور مسلسل ہم تینوں کو تختہ مشق بناتی رہیں، خود ہماری ہی دو ساتھی ان کی اس معاملے میں ہمت افزائی کرتی رہیں۔
اس دوران ''مقامات آہ و فغاں'' تو بے پناہ تھے جو ہم برداشت کرنے پر مجبور تھے پھر انھوں نے یہ کہا کہ ہم تینوں کی سالانہ خفیہ رپورٹ (ACR) خراب تھی، ڈائریکٹوریٹ سے جب ہمیں اس کی کاپی جواب طلبی کے لیے ملی تو انھوں نے جو تین الزامات مجھ پر لگائے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ میں کلاس پر اس طالبہ کو سزا دیتی ہوں جس کے پاس کورس کی کتاب نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ میں کسی طالبہ کو پیریڈ شروع ہونے کے بعد آنے کی اجازت نہیں دیتی، جب تک کہ کوئی ٹھوس وجہ نہ ہو اور سوم یہ کہ میں کالج میں میک اپ کر کے آنے والی طالبات کی لپ اسٹک صاف کروا دیتی ہوں اور یونیفارم کو جدید فیشن کا لباس نہیں بننے دیتی۔
میں بہت پریشان ہو گئی، لیکن جب وہ لیٹر میں نے اپنے والد کو دکھایا تو وہ ہنس پڑے اور بولے کہ فکر مت کرو تمہاری پرنسپل خود یہ ADVERSE ریمارک حذف کریں گی، پھر انھوں نے اس کا جواب لکھ کر مجھے دے دیا اور اگلے دن پرنسپل کی میز پر رکھ دیا باقی دونوں ساتھیوں نے بھی جواب جمع کرا دیے، پانچ پانچ دن کے بعد انھوں نے مجھے آفس میں بلوایا، سیپارہ ایک طرف رکھا اور چائے کا پوچھا پھر آہستہ سے بولیں ''دیکھیں میں آپ کی صلاحیتوں کی معترف ہوں، میں یہ بھی جانتی ہوں کہ لڑکیاں آپ سے ہی پڑھنا چاہتی ہیں اور یہ بھی کہ میگزین، مشاعرے، مباحثے، بیت بازی اور دیگر فنکشن آپ بہت دلچسپی لے کر کرواتی ہیں۔''
میں نے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا تو بولیں ''میں چاہتی ہوں کہ آپ نے جو جواب لکھ کر دیا ہے وہ آپ واپس لے لیں'' ... مگر کیوں...؟ جواب دینا تو میرا حق ہے، آپ کے الزام کے جواب میں، اپنی صفائی تو مجھے دینی ہی ہے... میں نے کہا... اس پر بولیں... ''یہ رائٹنگ تو آپ ہی کی ہے، لیکن یہ ڈرافٹ کس نے بنایا ہے'' ... ''جی... میرے والد نے'' میں نے مختصراً کہا... اور پھر وہ اچانک بولیں ''میں اپنے ریمارکس واپس لے رہی ہوں، آپ اپنا جوابWITHDRAW کر لیجیے'' یہ سارا واقعہ بتانے کا مقصد دراصل یہ تھا کہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی پابند صوم و صلوٰۃ ہے تہجد گزار ہے تو وہ ایک اچھا منتظم بھی ہو... آنے والے الیکشن کے حوالے سے جس طرح مذہبی سوالات کیے جا رہے ہیں ان کا انتظامی امور سے کیا لینا دینا.
سورۂ یاسین بھلا کتنوں کو زبانی یاد ہوگی؟... لمبی سورۃ ہے پھر یہ کہ جو افسران دعائے قنوت اور تیسرا چوتھا کلمہ امیدواروں سے سنانے کو کہہ رہے ہیں کوئی ان سے پوچھے کہ کیا انھیں چھ کے چھ کلمے یاد ہیں، پھر مسلک کی بنیاد پر کلمہ طیبہ تک بدل دیا گیا ہے، اب ایک ریٹرننگ افسر طے کرے گا کہ راجہ جی یا کوئی دوسرا صادق اور امین ہیں یا نہیں...؟ مزے کی بات یہ ہے کہ اویس پٹی سے صرف فجر کی نمازوں کے بارے میں پوچھا گیا جو کوئی بچہ بھی بتا سکتا ہے، جب کہ دعائے قنوت، آیت الکرسی اور سورۃ یاسین دوسرے امیدواروں سے... ریٹرننگ افسر بھی بے وقوف نہیں تھا وہ جانتا تھا کہ کس سے کیا سوال کرنا ہے...؟ آخر الیکشن کے بعد بھی تو اسے نوکری کرنی ہے...!
یہ کیا مذاق ہے...؟ مذہب کو صرف ایک چادر کے طور پر استعمال کرنا کہ اس کے نیچے گندے کپڑے چھپ جائیں کتنا غلیظ رویہ ہے، آئین کی شق62 اور 63 کے تحت اگر واقعی امیدواروں کے کرار کو جانچا جائے تو شاید ہی کوئی اس پر پورا ترتا ہو۔ ظاہر پرستی نے جس طرح دین کو نقصان پہنچایا ہے وہ الم نشرح ہے کسی امیدوار سے اس کے کردار اس کے خیالات، اس کے مینی فیسٹو اس کی جائیداد، عیاشیوں، بے ایمانیوں، رشوت خوری، کرپشن، اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے جیسے سوالات کیوں نہیں کیے گئے، کرپشن کی دلدل میں تیرنے والوں کو ایک سرکاری افسر صادق اور امین ثابت کرے گا؟...
مذہب انسان اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے، دیگر انسانوں سے مذہب کا صرف اتنا تعلق بنتا ہے کہ وہ کسی کے مذہب کی توہین نہ کرے، کسی کی دل آزاری نہ کرے، کسی کو مذہب کی بنیاد پر کسی نا انصافی کا شکار نہ ہونے دے، کسی کو کوئی دعا آتی ہے یا نہیں یہ اتنا اہم نہیں جتنا یہ کہ وہ امیدوار ایک اچھا منتظم اور ایک اچھا حکمران ثابت ہو گا یا نہیں، ججوں اور عماموں کی سیاست بھی لوگوں نے دیکھ لی ہے یہ مذہب کو بھی ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں، کل تک یہ لوگ لائوڈ اسپیکر کو شیطان کا ڈبہ کہتے تھے آج ہر مسجد پہ بارہ بارہ لائوڈ اسپیکر چیخ رہے ہیں، کل تک یہ کیمرے اور ٹیلی ویژن کو بھی شیطانی آلات کہتے تھے.
آج ہر چینل پر یہ میک اپ کروا کر بڑے مزے سے اپنے جلوے بکھیرتے ہیں یہ جب چاہیں پتھر کے صنم پوجنا شروع کر دیتے ہیں اور جب چاہیں مخلص اور سچے رہنمائوں اور سماجی کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، جیسے حکیم محمد سعید اور پروین رحمان کو راستے سے ہٹا دیا گیا...!! سوال یہ ہے کہ ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان منتظم اور سیاست دان بننے کے لیے صرف چند قرآنی آیتوں کا رٹنا کافی ہے...؟
مختلف کمیٹیوں کی انچارج لیکچررز سارے کام بہ حسن و خوبی کر لیتی تھیں۔ خواہ ایڈمیشن کا مسئلہ ہو یا مختلف فنکشنز کا۔ وہ صرف ڈیوٹی لسٹ نکلوا کر اسٹاف سے دستخط لے لیتی تھیں۔ پھر وہ اپنی کسی نہ کسی بیٹی کو اپنے ساتھ لانے لگیں، خود تو وہ تلاوت کرتی رہتیں اور صاحبزادی تمام انتظامی امور کی نگرانی از خود کرنے لگیں۔ ان کی ہم مسلک دو لیکچررز کو چھوڑ کر صاحبزادی سب کی خبر لینے کے لیے تیار رہتیں۔ کون کب آیا اور کب گیا۔ اساتذہ کی مخبری کے لیے انھوں نے کچھ طالبات کی خدمات بھی حاصل کر لیں۔
سارا اسٹاف اس صورت حال سے پریشان تھا لیکن کوئی بھی اس توہین آمیز رویے کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن میرے علاوہ دو اور لیکچررز نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس صورت حال کا نوٹس لیا جائے۔ ہم تین ویسے ہی اس معاملے میں بدنام تھے کہ ہم غلط بات اور غلط احکامات کی ہمیشہ مذمت کرتے تھے۔ لیکن خدا جانے کس طرح ان کی منظور نظر ٹیچرز کو اس پلان کا پتہ چل گیا۔ پہلے تو انھوں نے فوراً مجھے آفس میں بلایا اور ان کی صاحبزادی نے مجھ سے پوچھا کہ آج میں کتنے بجے کالج آئی تھی؟ میں نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ کس حیثیت میں مجھ سے یہ سوال کر رہی ہیں؟ کیا وہ یہاں کی پرنسپل ہیں؟ میری بات سن کر اس نے زور سے پیپر ویٹ گھمایا اور ماں کی طرف دیکھا۔
انھوں نے چشمہ اتارا اور بولیں۔ ''یہ میری بیٹی ہے''۔ تب میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم سب کو پتہ ہے کہ یہ آپ کی بیٹی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ ایک طالبہ ہے۔ لیکن مجھے یہ بتایئے کہ یہ روز کیوں کالج آتی ہے اور ہم سے سوال کرنے کا اسے کیا حق ہے؟ اس پر وہ بولیں کہ ''میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اس لیے ساتھ لاتی ہوں''۔ میں نے جواب دیا کہ اگر ان کی طبیعت ناساز رہتی ہے تو وہ میڈیکل لے کر آرام کریں۔ تب وہ بے نیازی سے بولیں ''آپ کو پتہ ہے کہ اس بدتمیزی پر میں آپ کی ACR بھی خراب کر سکتی ہوں''۔ میں نے کہا شوق سے کیجیے اور پھر آفس سے باہر نکل آئی۔ پھر میری دونوں دوسری ساتھیوں کو بلایا گیا۔ انھوں نے ان کا سارا حساب صاف کر دیا۔
دونوں نے ان کی بیٹی کو وہ آڑے ہاتھوں لیا کہ اگلے دن سے وہ تو غائب ہو گئی لیکن دوسری بڑی بیٹی آنے لگی اور پورا وقت اسٹاف روم میں بیٹھ کر اساتذہ کی ایک ایک حرکت کی خبر ماں کو دینے لگی۔ ہم نے پھر ہمت کی اور ان کو سمجھایا کہ وہ اسٹاف روم میں ہرگز نہ بیٹھیں کیونکہ وہ ''آئوٹ سائیڈر'' ہیں اور ہماری پرائیویسی متاثر ہوتی ہے، وہ اٹھ تو گئیں لیکن ہمارے لیے بے پناہ مسائل پیدا کر گئیں، ہم نے ٹرانسفر کروانا چاہا تو انھوں نے رکاوٹ ڈالی اور مسلسل ہم تینوں کو تختہ مشق بناتی رہیں، خود ہماری ہی دو ساتھی ان کی اس معاملے میں ہمت افزائی کرتی رہیں۔
اس دوران ''مقامات آہ و فغاں'' تو بے پناہ تھے جو ہم برداشت کرنے پر مجبور تھے پھر انھوں نے یہ کہا کہ ہم تینوں کی سالانہ خفیہ رپورٹ (ACR) خراب تھی، ڈائریکٹوریٹ سے جب ہمیں اس کی کاپی جواب طلبی کے لیے ملی تو انھوں نے جو تین الزامات مجھ پر لگائے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ میں کلاس پر اس طالبہ کو سزا دیتی ہوں جس کے پاس کورس کی کتاب نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ میں کسی طالبہ کو پیریڈ شروع ہونے کے بعد آنے کی اجازت نہیں دیتی، جب تک کہ کوئی ٹھوس وجہ نہ ہو اور سوم یہ کہ میں کالج میں میک اپ کر کے آنے والی طالبات کی لپ اسٹک صاف کروا دیتی ہوں اور یونیفارم کو جدید فیشن کا لباس نہیں بننے دیتی۔
میں بہت پریشان ہو گئی، لیکن جب وہ لیٹر میں نے اپنے والد کو دکھایا تو وہ ہنس پڑے اور بولے کہ فکر مت کرو تمہاری پرنسپل خود یہ ADVERSE ریمارک حذف کریں گی، پھر انھوں نے اس کا جواب لکھ کر مجھے دے دیا اور اگلے دن پرنسپل کی میز پر رکھ دیا باقی دونوں ساتھیوں نے بھی جواب جمع کرا دیے، پانچ پانچ دن کے بعد انھوں نے مجھے آفس میں بلوایا، سیپارہ ایک طرف رکھا اور چائے کا پوچھا پھر آہستہ سے بولیں ''دیکھیں میں آپ کی صلاحیتوں کی معترف ہوں، میں یہ بھی جانتی ہوں کہ لڑکیاں آپ سے ہی پڑھنا چاہتی ہیں اور یہ بھی کہ میگزین، مشاعرے، مباحثے، بیت بازی اور دیگر فنکشن آپ بہت دلچسپی لے کر کرواتی ہیں۔''
میں نے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا تو بولیں ''میں چاہتی ہوں کہ آپ نے جو جواب لکھ کر دیا ہے وہ آپ واپس لے لیں'' ... مگر کیوں...؟ جواب دینا تو میرا حق ہے، آپ کے الزام کے جواب میں، اپنی صفائی تو مجھے دینی ہی ہے... میں نے کہا... اس پر بولیں... ''یہ رائٹنگ تو آپ ہی کی ہے، لیکن یہ ڈرافٹ کس نے بنایا ہے'' ... ''جی... میرے والد نے'' میں نے مختصراً کہا... اور پھر وہ اچانک بولیں ''میں اپنے ریمارکس واپس لے رہی ہوں، آپ اپنا جوابWITHDRAW کر لیجیے'' یہ سارا واقعہ بتانے کا مقصد دراصل یہ تھا کہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی پابند صوم و صلوٰۃ ہے تہجد گزار ہے تو وہ ایک اچھا منتظم بھی ہو... آنے والے الیکشن کے حوالے سے جس طرح مذہبی سوالات کیے جا رہے ہیں ان کا انتظامی امور سے کیا لینا دینا.
سورۂ یاسین بھلا کتنوں کو زبانی یاد ہوگی؟... لمبی سورۃ ہے پھر یہ کہ جو افسران دعائے قنوت اور تیسرا چوتھا کلمہ امیدواروں سے سنانے کو کہہ رہے ہیں کوئی ان سے پوچھے کہ کیا انھیں چھ کے چھ کلمے یاد ہیں، پھر مسلک کی بنیاد پر کلمہ طیبہ تک بدل دیا گیا ہے، اب ایک ریٹرننگ افسر طے کرے گا کہ راجہ جی یا کوئی دوسرا صادق اور امین ہیں یا نہیں...؟ مزے کی بات یہ ہے کہ اویس پٹی سے صرف فجر کی نمازوں کے بارے میں پوچھا گیا جو کوئی بچہ بھی بتا سکتا ہے، جب کہ دعائے قنوت، آیت الکرسی اور سورۃ یاسین دوسرے امیدواروں سے... ریٹرننگ افسر بھی بے وقوف نہیں تھا وہ جانتا تھا کہ کس سے کیا سوال کرنا ہے...؟ آخر الیکشن کے بعد بھی تو اسے نوکری کرنی ہے...!
یہ کیا مذاق ہے...؟ مذہب کو صرف ایک چادر کے طور پر استعمال کرنا کہ اس کے نیچے گندے کپڑے چھپ جائیں کتنا غلیظ رویہ ہے، آئین کی شق62 اور 63 کے تحت اگر واقعی امیدواروں کے کرار کو جانچا جائے تو شاید ہی کوئی اس پر پورا ترتا ہو۔ ظاہر پرستی نے جس طرح دین کو نقصان پہنچایا ہے وہ الم نشرح ہے کسی امیدوار سے اس کے کردار اس کے خیالات، اس کے مینی فیسٹو اس کی جائیداد، عیاشیوں، بے ایمانیوں، رشوت خوری، کرپشن، اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے جیسے سوالات کیوں نہیں کیے گئے، کرپشن کی دلدل میں تیرنے والوں کو ایک سرکاری افسر صادق اور امین ثابت کرے گا؟...
مذہب انسان اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے، دیگر انسانوں سے مذہب کا صرف اتنا تعلق بنتا ہے کہ وہ کسی کے مذہب کی توہین نہ کرے، کسی کی دل آزاری نہ کرے، کسی کو مذہب کی بنیاد پر کسی نا انصافی کا شکار نہ ہونے دے، کسی کو کوئی دعا آتی ہے یا نہیں یہ اتنا اہم نہیں جتنا یہ کہ وہ امیدوار ایک اچھا منتظم اور ایک اچھا حکمران ثابت ہو گا یا نہیں، ججوں اور عماموں کی سیاست بھی لوگوں نے دیکھ لی ہے یہ مذہب کو بھی ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں، کل تک یہ لوگ لائوڈ اسپیکر کو شیطان کا ڈبہ کہتے تھے آج ہر مسجد پہ بارہ بارہ لائوڈ اسپیکر چیخ رہے ہیں، کل تک یہ کیمرے اور ٹیلی ویژن کو بھی شیطانی آلات کہتے تھے.
آج ہر چینل پر یہ میک اپ کروا کر بڑے مزے سے اپنے جلوے بکھیرتے ہیں یہ جب چاہیں پتھر کے صنم پوجنا شروع کر دیتے ہیں اور جب چاہیں مخلص اور سچے رہنمائوں اور سماجی کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، جیسے حکیم محمد سعید اور پروین رحمان کو راستے سے ہٹا دیا گیا...!! سوال یہ ہے کہ ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان منتظم اور سیاست دان بننے کے لیے صرف چند قرآنی آیتوں کا رٹنا کافی ہے...؟