ہائے بے چارے کان

اب اگر بچے کو سبق یاد نہیں تو اس میں بے چارے کانوں کا کیا دوش، کانوں نے تو سن کر دیا تھا اس کے سر میں بھس بھرا۔۔۔

barq@email.com

آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ اگر ہمارے کان میں خارش نہ ہوتی اور ہم اسے تسلی سے نہ کُھجاتے اور تکلیف بڑھنے کے بعد ڈاکٹر کے پاس جانے کی غلطی نہ کرتے تو اب بھی پتہ نہ چلتا کہ ہم دو عدد کانوں کے بھی مالک ہیں حالانکہ ہم اس عمر کو آ گئے جب دل کے علاوہ باقی سب کچھ سفید ہو جاتا ہے، دل کے سیاہ رہنے بلکہ مزید سیاہ پڑنے کی بھی وجہ یہ ہے کہ زندگی بھر کی جمع کی ہوئی بری نیتیوں اور تشنہ آرزؤں کا آخری ٹھکانہ اب یہی مقام رہ گیا ہے اور ان سب نے مل کر اپنے ساتھ اس بے چارے کو بھی بجھا دیا۔

یہ دل یہ کالا دل میرا

کیوں بجھ گیا آوارگی

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ ہمیں احساس تک نہیں ہوا کہ دو عدد کان بھی ہماری ملکیت ہیں اور وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ بے چارے مسکین اور کسمپرس کان صرف اپنے کام سے کام بلکہ کان سے کان رکھے رہے۔ نہ کبھی کچھ مانگا نہ دوسرے اعضاء کی طرح ہم سے اپنی ناز برداریاں کروائیں اور نہ ہی کبھی اُف تک کی

خموشی میں نہاں خون گشتہ لاکھوں آرزؤئیں ہیں

چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا

ان کے مقابلے میں دوسرے اعضاء کو دیکھئے کیا کیا ہم سے کروایا نہیں اور کیا کیا کروا نہیں رہے ہیں، آنکھیں، ناک، منہ، دانت، زبان، ہونٹ، مسوڑے، ہاتھ، پیر، پیٹ ان سب نے عمر بھر اتنا کام نہیں کیا جتنی ہم سے اپنی غلامی اور ناز برداری کروائی، بات بات پر تقاضے قدم قدم پر کام کرنے سے انکار اور ذرا تھکے تو سوئچ آف ۔۔۔ لیکن بے چارے کان؟ انسان کی پیدائش کے ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے یہ بے چارے ڈیوٹی پر لگ جاتے ہیں، اذان اور لوری سے باقاعدہ کام پر لگنے کے بعد نہ کوئی چھٹی نہ آرام، نہ دم لینا

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

سارے عضو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح ڈیوٹی سے آف بھی ہو جاتے ہیں لیکن انسان کسی بھی حالت میں ہو بیٹھا ہو، لیٹا ہو، کھڑا ہو، دوڑ رہا ہو حتیٰ کہ سویا بھی ہو تب بھی ان بے چاروں کی چھٹی نہیں ہوتی

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

صرف ایک عضو دل ایسا ہے جو کانوں کی طرح چھٹی نہیں کرتا لیکن وہ تو بادشاہ ہے سینے کے قلعے میں نہایت محفوظ مقام پر اپنا کام کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لیے بہت بڑا اور بیش از بیش شاہرہ پاتا ہے گرم گرم سرخ چمکتا ہوا خون ایک سکینڈ بھی نہ ملے تو فوراً ہی ایسی چھٹی کر دیتا ہے کہ نہ بانس باقی رہتا ہے اور نہ کوئی بانسری بجتی ہے، لیکن کانوں کے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہوتا اس معاملے میں بے چاروں کی قسمت پولیس کانسٹیبلوں کی طرح ہے۔ سال کے بارہ مہینے، مہینے کے تیس اکتیس دن اور شب و روز کے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہنا اور کچھ نہ کہنا، بے چارے کہیں بھی تو کیسے کہ ان کا نہ منہ ہوتا ہے نہ زبان، اس کے باوجود بھی

کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو


کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے

مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح کسی بھی غلطی کے لیے پولیس کے سپاہیوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح انسانی جسم کے ان دو ھمہ وقت آن ڈیوٹی سپاہیوں کا حال بھی ہوتا ہے غلطی کسی بھی عضو کی ہو گناہ کسی بھی طرح کا ہو کھچائی کانوں ہی کی ہوتی ہے گویا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

جو چاہے سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

کانوں کے ساتھ یہ سوتیلا سلوک روز اول ہی سے چل رہا ہے ماں ہر بچے کے ہر عضو کا خیال رکھتی ہے آنکھوں میں سرمہ ڈالتی ہے حالانکہ یہ شہزادیاں ان دنوں سوتی ہی رہتی ہیں۔ منہ کی ناز برداریاں کی جاتی ہیں۔ ناک پر تو ہر وقت توجہ رہتی ہے حالانکہ یہ ہر وقت بہتی ہی رہتی ہے۔ کانوں کا تو یہ بھی نہیں پوچھا جاتا ہے کہ اس کے تو کان بھی لگے ہوئے ہیں یا بے چارے موجود بھی ہیں یا کوئی بلی چوہا کھا گئے، ان دنوں میں اگر ماں باپ یا کسی شریر بھائی بہن کو بچے سے پیار جتانا ہوتا ہے تو دونوں کانوں سے پکڑ کر جھلایا جاتا ہے اور پھر اسکول میں تو ۔۔۔ مت پوچھ کہ دل پر کیا گزری،

اب اگر بچے کو سبق یاد نہیں تو اس میں بے چارے کانوں کا کیا دوش، کانوں نے تو سن کر دیا تھا اس کے سر میں بھس بھرا ہے تو کان کیا کریں۔ لیکن نہیں استاد کا نشانہ تو سیدھا کانوں پر رہتا ہے۔ بات بات پر کھچائی بات بات جھانپڑ، اب اگر بچے کو مرغا بنانا مقصود ہوتا ہے تو بے شک بنا لیجیے لیکن دنیا میں ایسا کون سا مرغا ہوتا ہے جو اپنے کان پکڑے رہتا ہے لیکن یہاں بھی سزا کانوں ہی کو ملتی ہے، نشانہ کوئی بھی ہو یعنی کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ والی بات ہوتی ہے

آسماں بار امانت نہ تو انست کشید

قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند

کھچائی مروڑائی پکڑائی اور پٹائی کی حد تک تو پھر بھی ٹھیک ہے بے چارے کان اسے پاکستانی عوام کی طرح اپنا مقدر سمجھ کر سہتے رہتے ہیں، کر بھی کیا سکتے ہیں... قہر درویش جان درویش ... ویسے کان کم از کم اتنے سے تو پاکستانی عوام کے مقابلے میں اچھے ہیں کہ بے چاروں کے ہاتھ پیر نہیں ہیں، کرنا چاہیں بھی تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن پاکستانی عوام ہاتھوں پیروں کے ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتے ہاتھ زیادہ سے زیادہ خواص کے لیے کماتے ہیں یا ان کو سلام کرتے ہیں کچھ زیادہ ہی عضہ آیا تو ماتھا پیٹ لیا یا کسی کے آگے جوڑ دیے یا پھیلا دیے پیروں سے بھاگ تو سکتے ہیں لیکن کہاں؟

وہاں بھی زیادہ سے زیادہ کسی کنٹینر یا کسی کشتی لانچ یا کسی ملک کی سرحد پر موت منتظر ہوتی ہے، المیہ صرف یہ نہیں کہ بچپن میں کان کھنیچے جاتے ہیں اور دوسروں کے گناہ کی سزائیں ملتی ہیں بلکہ یہ سلسلہ موت تک چلتا رہتا ہے بڑا ہونے پر ان کی کھچائی کا سلسلہ تو تھوڑا سا کم ہو جاتا ہے، لیکن دوسری سزائیں شروع ہو جاتی ہیں انتہائی بھدی کریہہ اور ناپسندیدہ آوازیں ان کو سننا پڑتی ہیں انسان کسی بھی عضو کے کسی بھی عمل سے کوئی سزا پائے گالیاں کوسنے اور بڑی بڑی باتیں کانوں ہی کو پڑتی ہیں

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

لیکن بات اس پر کہاں ختم ہوتی ہے آگے تو باقاعدہ ان بے چاروں کی تا حیات سزائیں شروع ہو جاتی ہیں کہیں کوئی تقریب ہو جلسہ ہو مشاعرہ ہو شادی ہو غمی ہو انسان ان کو ساتھ لے جاتا ہے وہاں جو کچھ نعمتیں ہوتی ہیں وہ تو دوسروں کے نصیب میں ہوتی ہیں آنکھیں طرح طرح کے خوب صورت چہرے خوب صورت نظارے اور تماشے دیکھتی ہیں منہ طرح طرح کی نعمتیں کھاتا ہے ناک دنیا جہاں کی خوشبوئیں سونگھتی ہیں اور کانوں کے نصیب میں ہر قسم کی خرافات سننا لکھا ہوتا ہے۔

سب سے زیادہ بری حالت وہاں ہوتی ہے جب کسی مشاعرے جلسے یا تقریب میں آنکھیں بھی ڈیوٹی آف ہو جاتی ہیں منہ بھی بند ہو جاتا ہے ہاتھ پیر بھی محو استراحت ہو جاتے ہیں لیکن یہ بدنصیب کان تو بڑوں مقالوں اور شعروں کی زد میں رہتے ہیں اور جب سے یہ لاؤڈ اسپیکر آیا ہے تب سے تو جیسے انتہاء ہو گئی ہے انسان گھر میں لیٹ کر سارے اعضا کو چھٹی دے دیتا ہے لیکن کان بیک وقت دس دس لاؤڈ اسپیکروں کے نشانے پر رہتے ہیں اور ان کی کریہہ آوازیں ان میں گھسنے کے لیے یوں گتھم گتھا ہوتی ہیں جیسے کان نہ ہو سینماؤں کے ٹکٹ گھر کی کھڑکیاں ہو۔

ان سب پر مستزاد اگر کانوں کی بدقسمتی سے ان کا مالک شادی بھی کر ڈالے اور اس چیز کو گھر لے آئے جو صرف آواز ہی آواز ہوتی ہے اور شوہر کے کان کھانے کا جدی پشتی تجربہ رکھتی ہیں، کانوں کی حالت زار مظلومیت اور بے بسی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اور تو اور مچھر جیسی چھوٹی مخلوق بھی انھیں للکارتی رہتی ہیں، باقاعدہ اعلان کر کے حملہ آور ہوتی ہیں میزائلوں کی طرح پڑتی ہیں اور کبھی کبھی تو گھس بیٹھیئے بھی بن جاتی ہیں، ہائے بے چارے کان۔
Load Next Story