پہلے قومی ترانے سے آخری قومی ترانے تک
اکثر لوگوں کا گمان یہی ہوگا کہ پاک سرزمین کا قومی ترانہ آزادی کے پہلے روز سے پڑھا جاتا ہوگا، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے
قومی پرچم ہو یا قومی ترانہ، یہ ملک کے قومی وقار اور عظمتوں کا نشان ہو تے ہیں۔ جس طرح دنیا بھر میں مختلف ملکوں کے پرچم اور ترانوں کی عزت و تکریم میں قومی ترانے کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی قومی پرچم اور ترانے کو عوام اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز اور اہم جان کر اس کی عزت و تکریم میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ جب قومی پرچم بلند کیا جاتا ہے یا قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے تو ہم سب اس کے تقدس کی خاطر احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اب جہاں تک پاکستان کے قومی ترانے کا تعلق ہے تو شاید اس بارے میں اکثر لوگوں کا گمان یہی ہوگا کہ شاید پاک سرزمین کا قومی ترانہ آزادی کے پہلے روز سے پڑھا جاتا ہوگا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ ایک ہندو شاعر پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جو کہ ڈسٹرکٹ پنجاب ایسٹ انڈیا میں عیسیٰ خیل میانوالی میں 1918 میں پیدا ہوئے نے تحریر کیا تھا۔ اور اس ترانے کے بول ''ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک، روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک'' کو وطن کی آزادی کے بعد 14 اگست 1947 کو لاہور ریڈیو اسٹیشن سے قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ نشر کیا گیا۔
یہ ترانہ بہت عرصے تک رائج بھی رہا۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جو لاہور کے علاقے کرشن نگر سے ملحقہ رام نگر میں قیام پاکستان سے پہلے تک آباد تھے۔ جب پورا علاقہ جو کہ 60 ہزار ہندو خاندانوں پر مشتمل تھا، سب کے چھوڑ جانے کے بعد انہوں نے بھی اس علاقے سے ہجرت کی۔ وہ معروف اردو شاعر تھے، خصوصی طور پر اقبالیات پر ایک اتھارٹی تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سبب انہیں اقبال میموریل ٹرسٹ کا صدر بھی مقرر کیا گیا، جبکہ اردو کی ترقی کے حوالے سے 1969 سے لے کر 1993 تک صدر بھی رہے۔ اپنی آخری عمر میں وہ بھارت چلے گئے جہاں 2004 میں راجیو گاندھی انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ، دہلی سے وابستہ ہو گئے تھے۔ 24جولائی 2004 کو پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھنے والے شاعر نے اس دنیا سے کوچ کر لیا۔
پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے لکھے گئے قومی ترا نے پر حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ایوارڈ اور اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اس ترا نے کے بعد کچھ عرصے تک علامہ اقبال کی نظم ''سارے جہاں سے اچھا، ہندوستان ہمارا'' کو بھی بطور ترانہ استعمال کیا گیا، مگر مخالفتوں کے سبب یہ ترانا زیادہ عرصے چل نہیں سکا۔ اسی دوران احمد غلام علی چھاگلہ جو 31 مئی 1902 میں غلام علی چھاگلہ (صدر میونسپلٹی کراچی 1921-1922) کے گھر پیدا ہو ئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی، نے 1949 میں پاک سر زمین شاد باد کی دھن تیار کی۔
جالندھر بھارت میں جنوری 1900 میں ایک حافظِ قرآن شمس الدین کے گھر پیدا ہونے والے حفیظ جالندھری نے اس دھن پر 1952 میں پورا ترانہ لکھا جس کے بعد ''پاک سرزمین شاد باد'' ہمارا قومی ترانہ بن گیا۔ اس ترانے کو سب سے پہلے 1954 میں 11 گلوکاروں نے پڑھا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آراء، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انوار ظہیر اور اختر وارثی شامل ہیں۔ ایک طویل عرصے تک اسی ترانے کو نشر کیا جاتا رہا۔
قومی ترانے کے ان خالقوں، جن میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد، احمد غلام علی چھاگلہ اور حفیظ جالندھری کو حکومت پاکستان نے باقاعدہ طور پر اعزازات سے بھی نوازا، جبکہ 1958 میں انہیں ہلال امتیاز اور صدارتی ایوارڈز بھی دیے گئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اب جہاں تک پاکستان کے قومی ترانے کا تعلق ہے تو شاید اس بارے میں اکثر لوگوں کا گمان یہی ہوگا کہ شاید پاک سرزمین کا قومی ترانہ آزادی کے پہلے روز سے پڑھا جاتا ہوگا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ ایک ہندو شاعر پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جو کہ ڈسٹرکٹ پنجاب ایسٹ انڈیا میں عیسیٰ خیل میانوالی میں 1918 میں پیدا ہوئے نے تحریر کیا تھا۔ اور اس ترانے کے بول ''ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک، روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک'' کو وطن کی آزادی کے بعد 14 اگست 1947 کو لاہور ریڈیو اسٹیشن سے قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ نشر کیا گیا۔
یہ ترانہ بہت عرصے تک رائج بھی رہا۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جو لاہور کے علاقے کرشن نگر سے ملحقہ رام نگر میں قیام پاکستان سے پہلے تک آباد تھے۔ جب پورا علاقہ جو کہ 60 ہزار ہندو خاندانوں پر مشتمل تھا، سب کے چھوڑ جانے کے بعد انہوں نے بھی اس علاقے سے ہجرت کی۔ وہ معروف اردو شاعر تھے، خصوصی طور پر اقبالیات پر ایک اتھارٹی تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سبب انہیں اقبال میموریل ٹرسٹ کا صدر بھی مقرر کیا گیا، جبکہ اردو کی ترقی کے حوالے سے 1969 سے لے کر 1993 تک صدر بھی رہے۔ اپنی آخری عمر میں وہ بھارت چلے گئے جہاں 2004 میں راجیو گاندھی انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ، دہلی سے وابستہ ہو گئے تھے۔ 24جولائی 2004 کو پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھنے والے شاعر نے اس دنیا سے کوچ کر لیا۔
پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے لکھے گئے قومی ترا نے پر حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ایوارڈ اور اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اس ترا نے کے بعد کچھ عرصے تک علامہ اقبال کی نظم ''سارے جہاں سے اچھا، ہندوستان ہمارا'' کو بھی بطور ترانہ استعمال کیا گیا، مگر مخالفتوں کے سبب یہ ترانا زیادہ عرصے چل نہیں سکا۔ اسی دوران احمد غلام علی چھاگلہ جو 31 مئی 1902 میں غلام علی چھاگلہ (صدر میونسپلٹی کراچی 1921-1922) کے گھر پیدا ہو ئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی، نے 1949 میں پاک سر زمین شاد باد کی دھن تیار کی۔
جالندھر بھارت میں جنوری 1900 میں ایک حافظِ قرآن شمس الدین کے گھر پیدا ہونے والے حفیظ جالندھری نے اس دھن پر 1952 میں پورا ترانہ لکھا جس کے بعد ''پاک سرزمین شاد باد'' ہمارا قومی ترانہ بن گیا۔ اس ترانے کو سب سے پہلے 1954 میں 11 گلوکاروں نے پڑھا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آراء، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انوار ظہیر اور اختر وارثی شامل ہیں۔ ایک طویل عرصے تک اسی ترانے کو نشر کیا جاتا رہا۔
قومی ترانے کے ان خالقوں، جن میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد، احمد غلام علی چھاگلہ اور حفیظ جالندھری کو حکومت پاکستان نے باقاعدہ طور پر اعزازات سے بھی نوازا، جبکہ 1958 میں انہیں ہلال امتیاز اور صدارتی ایوارڈز بھی دیے گئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔