ووٹرز کے اختیار کی ضرورت

ووٹروں کی اکثریت عام انتخابات میں ووٹ نہیں دیتی کیوں کہ انھیں پتہ ہے کہ سب ایک جیسے ہیں اور امیدواروں کو اپنے ووٹر۔۔۔

اخباری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پہلی بار 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے نئے بیلٹ پیپر میں ووٹرز کو تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا اختیار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔اس سلسلے میں اگر الیکشن کمیشن نگراں حکومت سے آرڈیننس جاری کرانے میں کامیاب ہو جاتا تو یہ ملک کی انتخابی تاریخ کا ایک اہم اور مثبت فیصلہ ہوتا کہ جس کے ذریعے ووٹر کو یہ اختیار دیا جاتا کہ وہ اپنے علاقے سے کھڑے ہونے والے تمام کے تمام امیدواروں کو پسند نہیں کرتا اور انھیں اپنے ووٹ کے قابل نہیں سمجھتا تو انھیں مسترد کردے۔

اگر اس سلسلے میں آرڈیننس جاری ہوجاتا تو ووٹر کے اس اختیار کے دور رس نتائج برآمد ہوتے اور انتخابات میں حصہ لینے والے بھی محتاط رہتے اور انھیں اپنے ووٹرز کی طرف سے انھیں مسترد کیے جانے کا خوف لاحق ہوتا۔فی الوقت الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کو موخر کر دیا ہے۔ 2008 کے انتخابات تک ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے سال بہ سال ان میں عوام کی دلچسپی کم ہوتی رہی جو اصل میں عوام کا انتخابات پر عدم اعتماد تھا اور اسی وجہ سے عوام انتخابات سے لاتعلق ہوتے رہے اور یہ شکایت عام ہوتی رہی کہ عوام الیکشن والے روز اپنے گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے رہے اور ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن جانے کے بجائے انھوں نے گھر سے نہ نکلنا بہتر سمجھا اور انھیں بس اس بات سے دلچسپی رہی کہ کون جیتا کون ہارا۔ کون سی پارٹی حکومت بنائے گی اور کون حکمران ہوگا۔

1970 کے انتخابات سے 2008 تک جتنے انتخابات ہوئے راقم نے پہلے ایک رپورٹر کی حیثیت سے 1990 میں شکار پور سے کراچی منتقل ہونے کے بعد ایک صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے انھیں قریب سے دیکھا اور اندرون سندھ اور کراچی کے انتخابات کو بالکل مختلف پایا اور ایسے انتخابات سے عوام کی دلچسپی اور عدم دلچسپی کو بھی محسوس کیا۔

یہ شکایت بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں عام ہے کہ منتخب ہوجانے کے بعد عوام سے ووٹ لے کر صوبائی اور وفاقی ایوانوں میں حلف اٹھانے کے ہمارے عوامی نمایندے عوام سے دور ہوجاتے ہیں۔ ان عوامی نمایندوں میں جو وزیر بن جائے وہ پروٹوکول کے جواز کے باعث اپنے ووٹروں سے کٹ جاتا ہے اور اس کے ووٹروں کو خود ہی اس کی وزارت کے دفتر آکر صاحب سے ملاقات کے لیے خوار ہونا پڑتا ہے اور بمشکل ہی ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ اگر ملاقات بھی ہوجائے تو عام ووٹر کو تو وزیر پہچانتا نہیں اور اس کی درخواست پر روایتی نوٹ لگا دیتا ہے جس سے ووٹر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور وہ خاموش ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔


ارکان اسمبلی کا یہ حال ہے کہ منتخب ہونے کے بعد ان کا اپنے آبائی حلقوں میں دل نہیں لگتا اور وہ شاذ ونادر ہی مہینوں بعد اپنے حلقہ انتخاب میں مل پاتے ہیں۔ اکثر انتخابات میں وہی بڑے لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کے کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد میں اپنے گھر اور کاروبار ہیں ان بڑے لوگوں کی زمینیں اور جاگیریں ان کے آبائی حلقوں میں ضرور ہیں مگر وہ منتخب ہوجانے کے بعد اکثر باہر ہی رہتے ہیں اور ان کے ووٹروں کو ان سے کسی کام کے سلسلے میں ملنے کے لیے بڑے شہروں ہی میں جانا پڑتا ہے۔ ووٹر نے عام انتخاب کے موقعے پر بس ووٹ دینا ہوتا ہے اور انتخابات کے موقعے پر امیدوار اپنے حلقہ انتخاب سے ضرور ملتے ہیں اور ان کا اخلاق دیکھنے کے لائق ہوتا ہے اور انتخاب جیتنے کے بعد ان کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے۔

ووٹروں کی اکثریت عام انتخابات میں ووٹ نہیں دیتی کیوں کہ انھیں پتہ ہے کہ سب ایک جیسے ہیں اور امیدواروں کو اپنے ووٹر صرف الیکشن میں یاد آتے ہیں۔ اندرون سندھ امیدوار اپنے حامیوں کے ساتھ شہروں کے بازاروں میں آتے ہیں اور ایک ایک دکان پر جاکر بڑی خوش اخلاقی سے ملتے ہیں اور کسی جاننے والے کسی دکان پر کچھ دیر بیٹھ بھی جاتے ہیں اور ان کے ساتھ موجود ہجوم ان کی پبلسٹی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور عام شخص کو بھی اپنے ان رہنمائوں سے ہاتھ ملانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں انتخابی مہم کے دوران امیدوار اپنے جاننے والوں کے پاس منعقدہ اجتماع میں جاتے ہیں اور دیہی ووٹروں سے مل لیتے ہیں اور ان کے شکوے بھی سن لیتے تھے تو ووٹر کچھ مطمئن ہوجاتا تھا۔

کراچی آنے کے 23 سالوں میں یوں تومتعدد انتخابات دیکھے مگر کبھی اپنے امیدوار کی شکل نہیں دیکھی۔ پڑھے لکھے لوگوں کو تو اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے والوں کے ناموں کا پتہ چل ہی جاتا ہے مگر ان پڑھ لوگوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اسے کسے ووٹ دینا ہے۔ ان امیدواروں کی پارٹیوں کے جلسے ضرور ہوتے ہیں مگر ان جلسوں میں ان پارٹیوں سے قربت رکھنے والے ہی شریک ہوتے ہیں عام ووٹر تو وہاں نہیں جاتا اسے صرف یہ پتہ ہوتا ہے کہ اس نے کس پارٹی کے انتخابی نشان پر مہر لگانی ہے۔ بہت سے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اگر ووٹ دینے نہ بھی گئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اس کا ووٹ کوئی اور ڈال دے گا اور جیتنے والے نے تو جیت ہی جانا ہے اور جس بھی امیدوار کی سیاسی پارٹی مضبوط ہوگی وہی کامیاب ہوگا ۔

11 مئی کے عام انتخابات کے لیے میڈیا کے ذریعے عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ وہ گھروں میں نہ بیٹھے رہیں اور ووٹ دینے کے لیے گھر سے ضرور نکلیں۔ سوال یہ ہے کہ اب تک منتخب ہونے والوں نے عام ووٹر کو دیا ہی کیا ہے کہ وہ اس کے لیے گھر سے نکلے۔ دھوپ میں کھڑا رہ کر بیلٹ پیپر لے اور پھر کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دے جو نہ اسے جانتا ہے نہ ووٹر نے اس کی شکل ہی دیکھی ہوتی ہے۔ ووٹر نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے امیدوار کو ووٹ دے دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا مگر صرف یہ جانتا ہے کہ یہ انتخابی نشان کس پارٹی کا ہے۔

عام انتخابات میں ووٹروں کی عدم دلچسپی اور ووٹ تقسیم ہوجانے سے ایسے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر ووٹروں کو امیدوار کو مسترد کرنے کا اختیار مل جائے تو کچھ تبدیلی ضرور آئے گی اور لوگ یہ سوچ کر ہی ووٹ دینے نکلیں گے کہ چلو کوئی پارٹی اور امیدوار پسند نہ آیا تو بیلٹ پیپر کے خالی خانے میں ہی مہر لگا کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کردیں گے اور دل کی بھڑاس نکال لیں گے اور امیدوار کو بھی خوف ہوگا کہ کہیں اس کے 51 فیصد ووٹر اسے مسترد نہ کردیں اسی طرح سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کو اپنے ووٹرز سے ملتے رہنے اور دور نہ رہنے کا خیال آہی جائے گا۔لیکن اب الیکشن کمیشن نے بعض قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر خالی خانہ شامل کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے شاید آیندہ انتخابات میں یہ فیصلہ ہو جائے۔
Load Next Story