’’آمریت کی بدروح‘‘
ہر خاص و عام پاکستانی کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین وہ دستاویز ہے جو پاکستان کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کی۔۔۔
نکولو میکاولی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ''پرنس'' میں لکھا کہ حکمران کا کوئی نظریہ یا عقیدہ نہیں ہوتا بلکہ اُس کو محض حکمرانی سے غرض ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک مذہب کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی عوام کی کوئی وقعت۔ اسی لیے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے کوئی بھی قانون بنایا جا سکتا ہے اور اس کو ضرورت پڑنے پر کسی بھی نظریے یا عقیدے کا نقاب پہنا کر نافذ کر دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پر مسلط ہوئے آمر انھی سفاکانہ اصولوں کی منہ بولتی تصویر ثابت ہوئے۔ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے آج تک تقریباً نصف عرصہ سے زائد وقت آمروں نے حکمرانی کی۔
عوام اور عوامی نمایندوں کو قابو کرنے کے لیے ملک کے متفقہ آئین میں اتنی ترامیم ہوئیں کہ اصل آئین اور ترمیم شدہ آئین میں اتنا فرق ہے جتنا ایک شعر اور اس کی تشریح میں ہوتا ہے۔ ملک میں انتخابات کی آمد آمد ہے اور آئین کے مطابق ہی جمہوری عمل جاری رہے گا مگر کینیڈا سے آئے قادری صاحب نے آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی اہمیت اس قدر تواتر کے ساتھ بیان کی کہ اکثر تو اس پر ایمان لے آئے۔ قادری صاحب کی '' نیت'' کے بارے میں سپریم کورٹ ان کی دائر کردہ اپیل کو مسترد کر کے پہلے ہی سند جاری کر چکی ہے اس لیے اس پر مزید روشنی ڈالنا بے سود ہے۔
ہر خاص و عام پاکستانی کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین وہ دستاویز ہے جو پاکستان کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی کی روشنی میں پاکستان میں مروجہ تمام ریاستی قوانین، ضابطے اور اصول بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ اس دستاویز کی زبان قانونی اور تکنیکی ہے، اس وجہ سے عام پاکستانی کے لیے ناقابل فہم ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس دستاویز پر ہمارے آمر حکمران اور ان آمروں کے زیر اثر جمہوری نمایندے جو شب خون مارتے رہے ہیں وہ عام آدمی سے ہمیشہ مخفی ہی رہا۔ وطن عزیز میں قانون توڑنے والا مجرم جب کہ اپنی منشاء کے مطابق قانون بدل دینے والے کو فوجی آمر کہا جاتا ہے۔
2 مارچ 1985 کو جاری کردہ صدارتی حکم نامے نے 1973ء کے آئین کی شکل ہی مسخ کر دی اور پھر نومبر 1985 میں جونیجو صاحب کی پارلیمینٹ سے اسے منظور کروا کر مستقل آئین کا حصہ بنا دیا۔ خاص طور پر پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلقہ آرٹیکل کو کچھ اس طرح تبدیل کر دیا کہ وہ عوامی نمایندوں کی گردن پر تلوار بن کر لٹکنے لگا۔ اور یہ تلوار آمر حکمران کے ہاتھ میں تھما دی گئی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ آئینی ترامیم عوامی نمایندوں کی تخلیق کردہ نہیں تھیں بلکہ ضیاء الحق مرحوم اس کے موجد تھے۔ بہرحال جونیجو صاحب کی پارلیمنٹ نے ربڑ اسٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کو آئین کا حصہ بنا دیا۔ یعنی یہ 1985 کی تمام آئینی ترامیم حقیقتاً ایک آمر کے ذہن کی اختراع تھیں نہ کہ پاکستانی عوام کی خواہشات پر مبنی تھیں۔
مزید یہ کہ کیا 1985ء کی اسمبلی کو خالصتاً عوامی مینڈیٹ حاصل تھا؟ اور کیا ان نمایندگان کے اسمبلی میں آنے میں اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی '' فن کاری'' بھی شامل تھی؟۔ اصغر خان کیس میں اعلیٰ عدلیہ کا حالیہ فیصلہ1990کے انتخابات میں کی گئی چند فوجی افسران کی مداخلت کی توثیق کرتا ہے۔ حالانکہ1990 ء میں1985ء کی طرح کوئی باوردی ڈکٹیٹر ملک عزیز پر مسلط نہ تھا۔ بہرحال جہاں ضیاء الحق جیسا آمر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر چھایا ہو تو ان کے زیر سایہ انتخابات اور اس کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کس قدر عوامی نمایندہ ہوگی؟ یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
اس فوجی آمر نے عوام کے مذہبی احساسات کو جانچتے ہوئے بڑی ذہانت سے62 اور 63 نامی ترامیم کو یوں مذہبی لبادہ پہنایا کہ گویا وہ دین کی خدمت کر رہا تھا مگر در حقیقت وہ قانون سازی'(62(d,e,f,g) کے ذریعے ایسا معیار مقرر کرنا چاہتا تھا جو قطعاً واضح نہ ہو۔ اور اس مبہم قانون کو اپنی پسند کے مطابق کسی کے بھی خلاف استعمال کر سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 63(g) میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ عدلیہ اور فوج کے تقدس کو ایک ہی پائیدان پر لا کھڑا کیا، اس طرح فوجی آمر نے اپنی اور اس وقت کی عدلیہ کی کارگزاریوں پر ہمیشہ کے لیے عوام اور ان کے نمایندوں کی جانب سے کی جانیوالی ممکنہ تنقید کو خاموش کر ا دیا۔ آج کے عوام کے لیے یہ بات سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ مروجہ آئین وقانون کی اصلاح کے لیے آئین کی شقوں سے اختلاف رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرنا ان کا بنیادی حق ہونے کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کے ارتقائی عمل کا لازمی جزو بھی ہے۔
اسی طرح جنرل ضیاالحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنرل(ر) پرویز مشرف نے2003ء میں اپنی زیر اثر پارلیمنٹ سے اپنی خود ساختہ شقوں کو سترہویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط جیسی بے شمار تبدیلیاں آئین کا حصہ بن گئیں۔ اس بار پھر آمر کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ اس سے گریجویٹ اسمبلی کے ذریعے پاکستان کے قانون سازوں کا علمی معیار بلند کرنا مقصود ہے۔ درحقیقت اس کا مقصد اسمبلی کو چند مخالفین کی دسترس سے باہر کرنا اور پاکستانی عوام جن کی اکثریت ناخواندہ ہے، انھیں اپنے حقیقی نمایندوں سے محروم کرنا تھا۔ خود ہی سوچئے کہ2002میں پاکستان کی شرح خواندگی تقریباً 50فیصد یعنی کہ آدھی عوام ناخواندہ تھی مگر ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے صرف گریجویٹ نمایندے ہی منتخب کر سکتے ہیں۔
ان آمروں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا رکن ہونے کی اہلیت کے بارے میں تواتر سے جو ترامیم کیں انھوں نے '' الیکشن'' کو محض ''سلیکشن'' بنا کر رکھ دیا۔ اگر قوانین اور ضابطوں نے سیاسی امیدواروں کی چھانٹی کرنی ہے تو پھر ووٹ کس مرض کی دوا ہے ؟ اس طرح کی مصنوعی قانونی شرائط عوامی رائے اور قانون سازی کے ادارے یعنی پارلیمنٹ کے درمیان دیوار بن جاتی ہیں۔ نتیجتاً عوامی نمایندوں اور عوام کے درمیان ایسا خلاء اور تضاد جنم لیتا ہے جو معاشرے میں منافقت کی بنیاد بنتا ہے۔
ہم بنیادی طور پر مذہبی قوم ہیں۔88ء سے97ء تک اور2008ء سے 2013ء تک جمہوری پارلیمنٹ 62 اور63 میں ترمیم کرنے کی کوشش محض اس وجہ سے نہیں کر سکیں کیونکہ اول تو وہ جمہوری طور پر مضبوط نہیں تھیں اور دوئم یہ کہ ان میں سے کوئی بھی پارلیمنٹ ہماری مذہبی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو شجر ممنوعہ تصور کرتی تھیں۔ اسی طرح63(g) میں فوج اور عدلیہ کے تقدس سے متعلق آرٹیکلز موجود ہونے کی وجہ سے ایک کمزور پارلیمنٹ انتخابی امیدوار کی اہلیت سے متعلق آئینی ترمیم میں ردوبدل کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
نتیجتاً آج کے انتخابی منظر نامے میں62 اور 63 کے سائے تلے''عوام کے ملازمین'' (جو شاید خود اس مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے) کے سامنے اہلیت سے متعلق انٹرویو میں''عوامی نمایندے'' اپنی تضحیک کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل ہمارے عوامی نمایندے اپنی بزدلی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ناجانے یہ لوگ ٹیپو سلطان کا وہ قول کیوں بھول چکے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اس کے علاوہ مذہی اسکالرز بھی اپنی ڈھائی اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے رہے۔ اور جمہوری حکومت کی اس شدومد کے ساتھ رہنمائی نہیں کی جیسا کہ ان کا فرض تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آج کے تناظر میں ایک ڈکٹیٹر (پرویز مشرف) کے بنائے گئے غیر منطقی اور غیر مساوی گریجویٹ ہونے کے قانون کی پاسداری نہ کرنے کے جرم میں عوامی نمایندے آج ایک اور آمر(ضیاالحق) کے بنائے گئے قانون یعنی ترمیم شدہ آرٹیکل62 اور 63 کی زد میں آکر نااہلی کا سامنا کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔آمریت کے عفریت اور نظریہ ضرورت کو بقول سپریم کورٹ ہم دفن تو کر چکے ہیں مگر ناجانے کب ہم آمریت کی اس بدروح سے پیچھا چھڑوا پائیں گے؟۔
عوام اور عوامی نمایندوں کو قابو کرنے کے لیے ملک کے متفقہ آئین میں اتنی ترامیم ہوئیں کہ اصل آئین اور ترمیم شدہ آئین میں اتنا فرق ہے جتنا ایک شعر اور اس کی تشریح میں ہوتا ہے۔ ملک میں انتخابات کی آمد آمد ہے اور آئین کے مطابق ہی جمہوری عمل جاری رہے گا مگر کینیڈا سے آئے قادری صاحب نے آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی اہمیت اس قدر تواتر کے ساتھ بیان کی کہ اکثر تو اس پر ایمان لے آئے۔ قادری صاحب کی '' نیت'' کے بارے میں سپریم کورٹ ان کی دائر کردہ اپیل کو مسترد کر کے پہلے ہی سند جاری کر چکی ہے اس لیے اس پر مزید روشنی ڈالنا بے سود ہے۔
ہر خاص و عام پاکستانی کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین وہ دستاویز ہے جو پاکستان کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی کی روشنی میں پاکستان میں مروجہ تمام ریاستی قوانین، ضابطے اور اصول بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ اس دستاویز کی زبان قانونی اور تکنیکی ہے، اس وجہ سے عام پاکستانی کے لیے ناقابل فہم ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس دستاویز پر ہمارے آمر حکمران اور ان آمروں کے زیر اثر جمہوری نمایندے جو شب خون مارتے رہے ہیں وہ عام آدمی سے ہمیشہ مخفی ہی رہا۔ وطن عزیز میں قانون توڑنے والا مجرم جب کہ اپنی منشاء کے مطابق قانون بدل دینے والے کو فوجی آمر کہا جاتا ہے۔
2 مارچ 1985 کو جاری کردہ صدارتی حکم نامے نے 1973ء کے آئین کی شکل ہی مسخ کر دی اور پھر نومبر 1985 میں جونیجو صاحب کی پارلیمینٹ سے اسے منظور کروا کر مستقل آئین کا حصہ بنا دیا۔ خاص طور پر پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلقہ آرٹیکل کو کچھ اس طرح تبدیل کر دیا کہ وہ عوامی نمایندوں کی گردن پر تلوار بن کر لٹکنے لگا۔ اور یہ تلوار آمر حکمران کے ہاتھ میں تھما دی گئی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ آئینی ترامیم عوامی نمایندوں کی تخلیق کردہ نہیں تھیں بلکہ ضیاء الحق مرحوم اس کے موجد تھے۔ بہرحال جونیجو صاحب کی پارلیمنٹ نے ربڑ اسٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کو آئین کا حصہ بنا دیا۔ یعنی یہ 1985 کی تمام آئینی ترامیم حقیقتاً ایک آمر کے ذہن کی اختراع تھیں نہ کہ پاکستانی عوام کی خواہشات پر مبنی تھیں۔
مزید یہ کہ کیا 1985ء کی اسمبلی کو خالصتاً عوامی مینڈیٹ حاصل تھا؟ اور کیا ان نمایندگان کے اسمبلی میں آنے میں اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی '' فن کاری'' بھی شامل تھی؟۔ اصغر خان کیس میں اعلیٰ عدلیہ کا حالیہ فیصلہ1990کے انتخابات میں کی گئی چند فوجی افسران کی مداخلت کی توثیق کرتا ہے۔ حالانکہ1990 ء میں1985ء کی طرح کوئی باوردی ڈکٹیٹر ملک عزیز پر مسلط نہ تھا۔ بہرحال جہاں ضیاء الحق جیسا آمر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر چھایا ہو تو ان کے زیر سایہ انتخابات اور اس کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کس قدر عوامی نمایندہ ہوگی؟ یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
اس فوجی آمر نے عوام کے مذہبی احساسات کو جانچتے ہوئے بڑی ذہانت سے62 اور 63 نامی ترامیم کو یوں مذہبی لبادہ پہنایا کہ گویا وہ دین کی خدمت کر رہا تھا مگر در حقیقت وہ قانون سازی'(62(d,e,f,g) کے ذریعے ایسا معیار مقرر کرنا چاہتا تھا جو قطعاً واضح نہ ہو۔ اور اس مبہم قانون کو اپنی پسند کے مطابق کسی کے بھی خلاف استعمال کر سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 63(g) میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ عدلیہ اور فوج کے تقدس کو ایک ہی پائیدان پر لا کھڑا کیا، اس طرح فوجی آمر نے اپنی اور اس وقت کی عدلیہ کی کارگزاریوں پر ہمیشہ کے لیے عوام اور ان کے نمایندوں کی جانب سے کی جانیوالی ممکنہ تنقید کو خاموش کر ا دیا۔ آج کے عوام کے لیے یہ بات سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ مروجہ آئین وقانون کی اصلاح کے لیے آئین کی شقوں سے اختلاف رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرنا ان کا بنیادی حق ہونے کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کے ارتقائی عمل کا لازمی جزو بھی ہے۔
اسی طرح جنرل ضیاالحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنرل(ر) پرویز مشرف نے2003ء میں اپنی زیر اثر پارلیمنٹ سے اپنی خود ساختہ شقوں کو سترہویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط جیسی بے شمار تبدیلیاں آئین کا حصہ بن گئیں۔ اس بار پھر آمر کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ اس سے گریجویٹ اسمبلی کے ذریعے پاکستان کے قانون سازوں کا علمی معیار بلند کرنا مقصود ہے۔ درحقیقت اس کا مقصد اسمبلی کو چند مخالفین کی دسترس سے باہر کرنا اور پاکستانی عوام جن کی اکثریت ناخواندہ ہے، انھیں اپنے حقیقی نمایندوں سے محروم کرنا تھا۔ خود ہی سوچئے کہ2002میں پاکستان کی شرح خواندگی تقریباً 50فیصد یعنی کہ آدھی عوام ناخواندہ تھی مگر ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے صرف گریجویٹ نمایندے ہی منتخب کر سکتے ہیں۔
ان آمروں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا رکن ہونے کی اہلیت کے بارے میں تواتر سے جو ترامیم کیں انھوں نے '' الیکشن'' کو محض ''سلیکشن'' بنا کر رکھ دیا۔ اگر قوانین اور ضابطوں نے سیاسی امیدواروں کی چھانٹی کرنی ہے تو پھر ووٹ کس مرض کی دوا ہے ؟ اس طرح کی مصنوعی قانونی شرائط عوامی رائے اور قانون سازی کے ادارے یعنی پارلیمنٹ کے درمیان دیوار بن جاتی ہیں۔ نتیجتاً عوامی نمایندوں اور عوام کے درمیان ایسا خلاء اور تضاد جنم لیتا ہے جو معاشرے میں منافقت کی بنیاد بنتا ہے۔
ہم بنیادی طور پر مذہبی قوم ہیں۔88ء سے97ء تک اور2008ء سے 2013ء تک جمہوری پارلیمنٹ 62 اور63 میں ترمیم کرنے کی کوشش محض اس وجہ سے نہیں کر سکیں کیونکہ اول تو وہ جمہوری طور پر مضبوط نہیں تھیں اور دوئم یہ کہ ان میں سے کوئی بھی پارلیمنٹ ہماری مذہبی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو شجر ممنوعہ تصور کرتی تھیں۔ اسی طرح63(g) میں فوج اور عدلیہ کے تقدس سے متعلق آرٹیکلز موجود ہونے کی وجہ سے ایک کمزور پارلیمنٹ انتخابی امیدوار کی اہلیت سے متعلق آئینی ترمیم میں ردوبدل کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
نتیجتاً آج کے انتخابی منظر نامے میں62 اور 63 کے سائے تلے''عوام کے ملازمین'' (جو شاید خود اس مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے) کے سامنے اہلیت سے متعلق انٹرویو میں''عوامی نمایندے'' اپنی تضحیک کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل ہمارے عوامی نمایندے اپنی بزدلی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ناجانے یہ لوگ ٹیپو سلطان کا وہ قول کیوں بھول چکے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اس کے علاوہ مذہی اسکالرز بھی اپنی ڈھائی اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے رہے۔ اور جمہوری حکومت کی اس شدومد کے ساتھ رہنمائی نہیں کی جیسا کہ ان کا فرض تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آج کے تناظر میں ایک ڈکٹیٹر (پرویز مشرف) کے بنائے گئے غیر منطقی اور غیر مساوی گریجویٹ ہونے کے قانون کی پاسداری نہ کرنے کے جرم میں عوامی نمایندے آج ایک اور آمر(ضیاالحق) کے بنائے گئے قانون یعنی ترمیم شدہ آرٹیکل62 اور 63 کی زد میں آکر نااہلی کا سامنا کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔آمریت کے عفریت اور نظریہ ضرورت کو بقول سپریم کورٹ ہم دفن تو کر چکے ہیں مگر ناجانے کب ہم آمریت کی اس بدروح سے پیچھا چھڑوا پائیں گے؟۔