متبادل طرز تنفس
خون میں پچیس فیصد خالص آکسیجن شامل ہوتی ہے۔ یہ آکسیجن معدے کیلیے ایندھن اورخون کیلیے تقطیر (صفائی) کا کام دیتی ہے۔
ISLAMABAD:
قدرت نے ہونٹ بولنے، چومنے اور چکھنے کے لیے بنائے ہیں اور ناک سونگھنے اور سانس لینے کے لیے۔ سانس کی قدرتی گزرگاہ ناک کے سوراخ ہیں۔ منہ کے ذریعے جو سانس لیا جاتا ہے اس میں ''روح حیات'' کی کارکردگی بہت حد تک دب جاتی ہے۔ جو لوگ ناک کے بجائے منہ سے سانس لیتے ہیں وہ اکثر مریض اور مضمحل رہتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ ناک کے سوراخوں سے سانس لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہر شخص محسوس کرسکتا ہے جب نزلے زکام کے سبب ناک بند ہوجاتی ہے تو منہ سے سانس لینے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ دم گھٹ رہا ہے۔ بلکہ بسا اوقات خود نزلہ، زکام، کھانسی اور سینے کے بعض امراض صرف اس لیے شدید ہوجاتے ہیں کہ مریض ناک کی گزر گاہ تنفس کو پوری طرح استعمال نہیں کرسکا۔ بعض لوگوں کا منہ سوتے میں کھل جاتا ہے، وہ رات بھر ہونٹوں سے سانس لیتے رہتے ہیں، یہ طریقہ بھی صحت کے لیے مضر ہے۔ ناک کے اندر جو بال پائے جاتے ہیں وہ ہوا کے لیے چھلنی کا کام دیتے ہیں۔ ناک کے ذریعے سانس لینے میں ہوا چھن کر پہنچتی ہے اور ناپاک مادے کو باہر ہی روک لیتی ہے۔ چھینکیں اس وقت آتی ہیں جب ہوا کے ذریعے کوئی ناگوار چیز ناک میں داخل ہوجاتی ہے۔
چھینکیں آنے کا عمل قوت شامہ اور آلہ تنفس کا دفاعی عمل ہے جو پھیپھڑوں کو بہت نقصان رساں اجزا سے محفوظ رکھتا ہے۔ نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت میں سانس کا جو طریقہ تجویز کیا جاتا ہے، اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہونٹ بند کرکے ناک کے سوراخوں سے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچا جائے، سینے میں روک لیا جائے اور جتنی دیر میں سانس اندر روکا تھا (مثلاً پانچ سیکنڈ) اتنی ہی دیر میں ناک کے سوراخوں سے خارج کردیا جائے (یعنی پانچ سیکنڈ)۔ سانس اسی حد تک روکا جائے جس حد تک دم گھٹے، جونہی دم گھٹنے لگے سانس کو نرمی اور آہستگی کے ساتھ سینے سے خارج کردیا جائے۔ جس قدر گہری سانس کھینچی جائے گی، روح حیات کی اتنی ہی مقدار پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل ہوجائے گی۔
خون میں پچیس فیصد خالص آکسیجن شامل ہوتی ہے۔ یہ آکسیجن معدے کے لیے ایندھن اور خون کے لیے تقطیر (صفائی) کا کام دیتی ہے۔ سانس کی مشق کھلی ہوا میں کی جائے تو اس کے فوائد میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ مشق شمال رویہ بیٹھ کر سینے، سر اور پشت کو ایک سیدھ میں کرکے (یعنی پیٹھ جھکی ہوئی اور سینہ نکلا ہوا نہ ہو) سکون و اطمینان کے عالم میں کرنی چاہیے۔ اگر پیٹ بھرا ہوا ہو تو ہرگز سانس کی مشق نہ کریں، مشق تنفس اس وقت فائدہ دے گی، جب معدہ خالی ہو۔ سانس کی مشقوں میں نشست کا طریقہ آرام دہ ہونا چاہیے، آلتی پالتی مار کر بیٹھنا بھی مناسب ہے۔ ان مشقوں میں کمر سینے پشت اور گردن کو ایک سیدھ میں رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے میں مخفی قوت دبی پڑی یا سانپ کی شکل میں کنڈلی مارے بیٹھی ہے (جسے کنڈالنی شکتی بھی کہا جاتا ہے) وہ اس طریق نشست سے بہ آسانی بیدار ہوجاتی ہے۔
ریڑھ کی ہڈی میں دو رگیں ہیں، بائیں جانب والی رگ ماہتابی کہلاتی ہے اور دائیں والی آفتابی۔ ماہتابی اور آفتابی رگوں کے درمیان ''رگ لطیف'' واقع ہے۔ سانس کے علاوہ تنظیم خیال، مسلسل فکر اور ارتکاز توجہ کے عملیات کے ذریعے بھی رفتہ رفتہ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے کے اعصابی مرکز میں مخفی قوت جاگتی اور ''رگ لطیف'' کے ذریعے دماغ کی طرف چڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔ کنڈالنی شکتی سے متعلق تفصیلی بحث آئندہ کسی کالم میں پیش کریں گے۔
نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت کی دوسری اہم مشق متبادل طرز تنفس ہے۔ قدرتی نشست میں بیٹھ کر، گردن اور پشت و سر کو ایک سیدھ میں کر لیجیے اور داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کو ناک کے داہنے سوراخ پر رکھ کر بائیں سوراخ سے سانس اندر کھینچیے۔ بائیں سوراخ سے سانس اندر کھینچ کر داہنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی (چھنگلی) اور اس کے برابر والی انگلی یعنی چوتھی انگلی سے ناک کا بایاں نتھنا بند کر لیجیے، سانس کو سینے میں روک لیں۔ اس کے بعد داہنے سوراخ سے انگوٹھا ہٹا کر سانس خارج کر دیجیے، پھر اسی نتھنے (داہنے سوراخ) سے سانس اندر کھینچیں، داہنے انگوٹھے سے بند کرکے سانس سینے میں روک لیں اور بائیں سوراخ سے داہنے ہاتھ کی چوتھی اور پانچویں انگلی (چھنگلی) ہٹا کر سانس خارج کر دیجیے۔
یہ ایک چکر ہوا، پھر دم لے کر دوسرا چکر کیجیے۔ متبادل طرزِ تنفس تکنیک اور طریقے کو پوری طرح ذہن نشین کرلیں۔ اس مشق میں بائیں ہاتھ کا قطعاً استعمال نہیں کیا جاتا صرف داہنے ہاتھ کی چوتھی پانچویں انگلی اور انگوٹھے سے کام لیا جاتا ہے۔ سانس کھینچنے، روکنے اور نکالنے کا تناسب 2:4:1 ہے، مطلب یہ کہ اگر پانچ سیکنڈ میں سانس اندر کھینچیں تو بیس سیکنڈ تک سینے میں روکیں اور دس سیکنڈ میں خارج کریں، اسی طرح اگر دس سیکنڈ میں سانس اندر کھینچیں تو 40 سیکنڈ تک روکیں اور بیس سیکنڈ میں خارج کریں یعنی سانس کھینچنے میں جتنا وقفہ صرف ہوتا ہے اس کا چار گنا وقفہ سانس کو اندر روکنے میں صرف ہو اور دگنا وقفہ سانس کے اخراج میں۔ متبادل طرز تنفس کی کامیاب مشق وہ ہے جس میں سانس اندر کھینچنے کا وقفہ 60 سیکنڈ (ایک منٹ)، اندر روکنے کی مدت ڈھائی سو سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت 120 سیکنڈ ہو۔ (لیکن اس نہج پر پہنچنے میں طلبا کو ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے، ابتدائی دنوں میں یہ تناسب قائم نہیں کیا جاسکتا)۔
اس مشق کے فوائد پر کتاب 'لے سانس بھی آہستہ' میں رئیس امروہوی مرحوم لکھتے ہیں ''جب میں نے مشق متبادل طرز تنفس کے فوائد بیان کرنے کی کوشش کی تو ایسا لگا کہ لفظوں کا قحط پڑگیا۔ واقعی میرے پاس وہ الفاظ موجود نہیں جن کے ذریعے اس مشق (بلکہ ان مشقوں) کی گہرائیوں اور معجز نمائیوں کو بیان کرسکوں۔ لیکن یہ مشقیں کسی حال میں ازخود نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ نو مشقی کے سبب دل و دماغ اور اعصابی نظام کو سخت نقصان پہنچ جانے کا امکان موجود ہے۔ صرف ایک تجربہ کار شخص کی رہنمائی میں نصاب و تنظیم شخصیت کی مشقیں کی جاتی اور کی جاسکتی ہیں۔''
سانس کی ان بیش بہا فوائد سے مزین مشقوں کے ذریعے انسان اپنی خوابیدہ اور مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرسکتا ہے، ہم نہیں جانتے دنیا میں ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو ان مخفی علوم کے ماہر ہیں لیکن کروڑوں نفوس کے درمیان علم کے یہ سرچشمے کہاں پوشیدہ ہیں ہماری ظاہری آنکھ انھیں پہچاننے سے قاصر ہے۔ ان نادر لوگوں سے متعلق رئیس امروہوی لکھتے ہیں ''میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اس عمل کے ماہرین اپنی قوتوں کو اس طرح چھپاتے ہیں جس طرح شیش ناگ اپنے من کو! نہ وہ جابجا خارق العادات صلاحیتوں کا مظاہرہ پسند کرتے ہیں، کیونکہ ان مخفی قوتوں کے اندھا دھند استعمال کے نتائج ہمیشہ تباہ کن نکلے ہیں۔''
ہوسکتا ہے ہمارے اطراف بھی کچھ ایسے ماہر موجود ہوں، ان لوگوں سے یہی کہوں گا کہ بے شک اپنی صلاحیتوں کا بے جا مظاہرہ نہ کریں لیکن اپنے علوم سے عوام کو مستفید کریں تاکہ خلق خدا بھی ان صلاحیتوں کا فائدہ حاصل کرسکے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کیجیے،
www.facebook.com/shayan.tamseel)
قدرت نے ہونٹ بولنے، چومنے اور چکھنے کے لیے بنائے ہیں اور ناک سونگھنے اور سانس لینے کے لیے۔ سانس کی قدرتی گزرگاہ ناک کے سوراخ ہیں۔ منہ کے ذریعے جو سانس لیا جاتا ہے اس میں ''روح حیات'' کی کارکردگی بہت حد تک دب جاتی ہے۔ جو لوگ ناک کے بجائے منہ سے سانس لیتے ہیں وہ اکثر مریض اور مضمحل رہتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ ناک کے سوراخوں سے سانس لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہر شخص محسوس کرسکتا ہے جب نزلے زکام کے سبب ناک بند ہوجاتی ہے تو منہ سے سانس لینے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ دم گھٹ رہا ہے۔ بلکہ بسا اوقات خود نزلہ، زکام، کھانسی اور سینے کے بعض امراض صرف اس لیے شدید ہوجاتے ہیں کہ مریض ناک کی گزر گاہ تنفس کو پوری طرح استعمال نہیں کرسکا۔ بعض لوگوں کا منہ سوتے میں کھل جاتا ہے، وہ رات بھر ہونٹوں سے سانس لیتے رہتے ہیں، یہ طریقہ بھی صحت کے لیے مضر ہے۔ ناک کے اندر جو بال پائے جاتے ہیں وہ ہوا کے لیے چھلنی کا کام دیتے ہیں۔ ناک کے ذریعے سانس لینے میں ہوا چھن کر پہنچتی ہے اور ناپاک مادے کو باہر ہی روک لیتی ہے۔ چھینکیں اس وقت آتی ہیں جب ہوا کے ذریعے کوئی ناگوار چیز ناک میں داخل ہوجاتی ہے۔
چھینکیں آنے کا عمل قوت شامہ اور آلہ تنفس کا دفاعی عمل ہے جو پھیپھڑوں کو بہت نقصان رساں اجزا سے محفوظ رکھتا ہے۔ نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت میں سانس کا جو طریقہ تجویز کیا جاتا ہے، اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہونٹ بند کرکے ناک کے سوراخوں سے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچا جائے، سینے میں روک لیا جائے اور جتنی دیر میں سانس اندر روکا تھا (مثلاً پانچ سیکنڈ) اتنی ہی دیر میں ناک کے سوراخوں سے خارج کردیا جائے (یعنی پانچ سیکنڈ)۔ سانس اسی حد تک روکا جائے جس حد تک دم گھٹے، جونہی دم گھٹنے لگے سانس کو نرمی اور آہستگی کے ساتھ سینے سے خارج کردیا جائے۔ جس قدر گہری سانس کھینچی جائے گی، روح حیات کی اتنی ہی مقدار پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل ہوجائے گی۔
خون میں پچیس فیصد خالص آکسیجن شامل ہوتی ہے۔ یہ آکسیجن معدے کے لیے ایندھن اور خون کے لیے تقطیر (صفائی) کا کام دیتی ہے۔ سانس کی مشق کھلی ہوا میں کی جائے تو اس کے فوائد میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ مشق شمال رویہ بیٹھ کر سینے، سر اور پشت کو ایک سیدھ میں کرکے (یعنی پیٹھ جھکی ہوئی اور سینہ نکلا ہوا نہ ہو) سکون و اطمینان کے عالم میں کرنی چاہیے۔ اگر پیٹ بھرا ہوا ہو تو ہرگز سانس کی مشق نہ کریں، مشق تنفس اس وقت فائدہ دے گی، جب معدہ خالی ہو۔ سانس کی مشقوں میں نشست کا طریقہ آرام دہ ہونا چاہیے، آلتی پالتی مار کر بیٹھنا بھی مناسب ہے۔ ان مشقوں میں کمر سینے پشت اور گردن کو ایک سیدھ میں رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے میں مخفی قوت دبی پڑی یا سانپ کی شکل میں کنڈلی مارے بیٹھی ہے (جسے کنڈالنی شکتی بھی کہا جاتا ہے) وہ اس طریق نشست سے بہ آسانی بیدار ہوجاتی ہے۔
ریڑھ کی ہڈی میں دو رگیں ہیں، بائیں جانب والی رگ ماہتابی کہلاتی ہے اور دائیں والی آفتابی۔ ماہتابی اور آفتابی رگوں کے درمیان ''رگ لطیف'' واقع ہے۔ سانس کے علاوہ تنظیم خیال، مسلسل فکر اور ارتکاز توجہ کے عملیات کے ذریعے بھی رفتہ رفتہ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے کے اعصابی مرکز میں مخفی قوت جاگتی اور ''رگ لطیف'' کے ذریعے دماغ کی طرف چڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔ کنڈالنی شکتی سے متعلق تفصیلی بحث آئندہ کسی کالم میں پیش کریں گے۔
نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت کی دوسری اہم مشق متبادل طرز تنفس ہے۔ قدرتی نشست میں بیٹھ کر، گردن اور پشت و سر کو ایک سیدھ میں کر لیجیے اور داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کو ناک کے داہنے سوراخ پر رکھ کر بائیں سوراخ سے سانس اندر کھینچیے۔ بائیں سوراخ سے سانس اندر کھینچ کر داہنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی (چھنگلی) اور اس کے برابر والی انگلی یعنی چوتھی انگلی سے ناک کا بایاں نتھنا بند کر لیجیے، سانس کو سینے میں روک لیں۔ اس کے بعد داہنے سوراخ سے انگوٹھا ہٹا کر سانس خارج کر دیجیے، پھر اسی نتھنے (داہنے سوراخ) سے سانس اندر کھینچیں، داہنے انگوٹھے سے بند کرکے سانس سینے میں روک لیں اور بائیں سوراخ سے داہنے ہاتھ کی چوتھی اور پانچویں انگلی (چھنگلی) ہٹا کر سانس خارج کر دیجیے۔
یہ ایک چکر ہوا، پھر دم لے کر دوسرا چکر کیجیے۔ متبادل طرزِ تنفس تکنیک اور طریقے کو پوری طرح ذہن نشین کرلیں۔ اس مشق میں بائیں ہاتھ کا قطعاً استعمال نہیں کیا جاتا صرف داہنے ہاتھ کی چوتھی پانچویں انگلی اور انگوٹھے سے کام لیا جاتا ہے۔ سانس کھینچنے، روکنے اور نکالنے کا تناسب 2:4:1 ہے، مطلب یہ کہ اگر پانچ سیکنڈ میں سانس اندر کھینچیں تو بیس سیکنڈ تک سینے میں روکیں اور دس سیکنڈ میں خارج کریں، اسی طرح اگر دس سیکنڈ میں سانس اندر کھینچیں تو 40 سیکنڈ تک روکیں اور بیس سیکنڈ میں خارج کریں یعنی سانس کھینچنے میں جتنا وقفہ صرف ہوتا ہے اس کا چار گنا وقفہ سانس کو اندر روکنے میں صرف ہو اور دگنا وقفہ سانس کے اخراج میں۔ متبادل طرز تنفس کی کامیاب مشق وہ ہے جس میں سانس اندر کھینچنے کا وقفہ 60 سیکنڈ (ایک منٹ)، اندر روکنے کی مدت ڈھائی سو سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت 120 سیکنڈ ہو۔ (لیکن اس نہج پر پہنچنے میں طلبا کو ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے، ابتدائی دنوں میں یہ تناسب قائم نہیں کیا جاسکتا)۔
اس مشق کے فوائد پر کتاب 'لے سانس بھی آہستہ' میں رئیس امروہوی مرحوم لکھتے ہیں ''جب میں نے مشق متبادل طرز تنفس کے فوائد بیان کرنے کی کوشش کی تو ایسا لگا کہ لفظوں کا قحط پڑگیا۔ واقعی میرے پاس وہ الفاظ موجود نہیں جن کے ذریعے اس مشق (بلکہ ان مشقوں) کی گہرائیوں اور معجز نمائیوں کو بیان کرسکوں۔ لیکن یہ مشقیں کسی حال میں ازخود نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ نو مشقی کے سبب دل و دماغ اور اعصابی نظام کو سخت نقصان پہنچ جانے کا امکان موجود ہے۔ صرف ایک تجربہ کار شخص کی رہنمائی میں نصاب و تنظیم شخصیت کی مشقیں کی جاتی اور کی جاسکتی ہیں۔''
سانس کی ان بیش بہا فوائد سے مزین مشقوں کے ذریعے انسان اپنی خوابیدہ اور مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرسکتا ہے، ہم نہیں جانتے دنیا میں ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو ان مخفی علوم کے ماہر ہیں لیکن کروڑوں نفوس کے درمیان علم کے یہ سرچشمے کہاں پوشیدہ ہیں ہماری ظاہری آنکھ انھیں پہچاننے سے قاصر ہے۔ ان نادر لوگوں سے متعلق رئیس امروہوی لکھتے ہیں ''میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اس عمل کے ماہرین اپنی قوتوں کو اس طرح چھپاتے ہیں جس طرح شیش ناگ اپنے من کو! نہ وہ جابجا خارق العادات صلاحیتوں کا مظاہرہ پسند کرتے ہیں، کیونکہ ان مخفی قوتوں کے اندھا دھند استعمال کے نتائج ہمیشہ تباہ کن نکلے ہیں۔''
ہوسکتا ہے ہمارے اطراف بھی کچھ ایسے ماہر موجود ہوں، ان لوگوں سے یہی کہوں گا کہ بے شک اپنی صلاحیتوں کا بے جا مظاہرہ نہ کریں لیکن اپنے علوم سے عوام کو مستفید کریں تاکہ خلق خدا بھی ان صلاحیتوں کا فائدہ حاصل کرسکے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کیجیے،
www.facebook.com/shayan.tamseel)