ایک خواب کے ساتھ ساتھ
خواب کا حسن اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کی حفاظت اور تعظیم کی جائے۔
یوں تو کیلنڈر پر درج ہر دن اپنی جگہ پر ایک دنیا ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کے لیے مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ دن خصوصی اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ یہ وجوہات ذاتی بھی ہو سکتی ہیں اور گروہی' معاشرتی' روایتی یا بین الاقوامی بھی اور اسی طرح سے اس تعلق میں جذبات کی نوعیت بھی مختلف ہو سکتی ہے لیکن ایک دن جو کسی فرد یا قوم کے لیے خوشی کا باعث اور استعارہ ہو سکتا ہے۔
وہ کسی دوسرے کے لیے غم یا پچھتاوے کا آئینہ دار بھی ٹھہر سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی دن دو یا اس سے بھی زیادہ مختلف حوالوں سے خصوصیت اختیار کر جاتے لیکن عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان منتخب اور منفرد دنوں کا تعلق ذاتی سطح پر کسی سال گرہ' رشتے' برسی یا واقعے سے اور اجتماعی سطح پر کسی مذہبی' موسمی یا قومی نوعیت کے تہوار سے ہی ہوتا ہے۔
البتہ گزشتہ کچھ عرصے سے ''عالمی دن'' منانے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ ایک الگ قصہ ہے کہ ان کا تعین وہ لوگ کرتے ہیں جو کہتے تو خود کو اس گلوبل ویلیج کا ایک برابر کا شہری ہیں مگر حقیقت میں یہ More Equal سے بھی کچھ زیادہ ہیں کہ جب چاہیں یہ جنوں اور خرد کے نام اور مقام بدل سکتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اس وقت اس کرہ ارض پر مختلف مخلوقات کے ساتھ جو انسان بس رہے ہیں' ان کی تعداد سات ارب سے اوپر ہو چکی ہے۔ یہ مخلوق مختلف براعظموں' صحراؤں' سمندری جزیروں اور کوہ و بیاباں میں یا تو نسلی طور پر آباد ہے یا تاریخ کے مختلف ادوار میں معاشی' مذہبی یا قدرتی محرکات کی وجہ سے اس میں اضافہ' اختلاط اور فرق پڑتا رہا ہے اور اب یہ صورت حال ہے کہ اقوام متحدہ کے دو سو سے زیادہ باقاعدہ ممبران میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کی تاریخ اور آبادی کا تناسب گزشتہ صرف ایک ہی صدی میں واضح طور پر تبدیل نہ ہوا ہو بلکہ ان میں سے سو سے زیادہ ملک تو ایسے ہیں جو اپنے موجودہ ناموں اور جغرافیے کے ساتھ کہیں تھے ہی نہیں۔ خود ہمارا یہ وطن عزیز بھی 23مارچ 1940 سے قبل کسی زمینی وجود کا حامل نہیں تھا اور دیکھا جائے تو خواب اور نظریے کی شکل میں بھی اس کی عمر نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس روز پیش کی جانے والی قرار داد پاکستان اور تشکیل و قیام پاکستان کے مراحل سے لے کر 14اگست 1947ء تک کے درمیانی سات برسوں میں اتنا کچھ بدل گیا کہ اب وہ خواب ایک حقیقت اور وہ نظریہ ایک ملک بن چکا ہے، بعد کے ستر برسوں میں کیا ہوا اور اب کیا ہو رہا ہے، اس کا تجزیہ اور بحث اپنی جگہ کہ یہ اس تصویر کا وہ عملی رخ ہے جس کا تعلق وقت اور مستقبل سے ہے، سو گزرے ہوئے اٹھہتر یا ستر برس اور یہ لمحہ موجود سب کے سب ایک سطح پر ایک جاری منظر کا حصہ ہیں جس سے اگلے منظر کا حال صرف خدا جانتا ہے اور کم و بیش یہی معاملہ ہر فرد اور قوم کا ہے کہ ان کے خوابوں اور اعمال کی قوت ہی ان کی رفتار' سمت اور ترقی یا زوال کا تعین کرتی ہے۔
23مارچ ایک ایسا علامتی سنگ میل ہے جس سے ملتا جلتا کوئی دن ہر انسانی گروہ' قوم یا ملک کے ساتھ ساتھ نہ صرف موجود اور متحرک رہتا ہے بلکہ ماضی حال اور مستقبل کے اس تین کناروں والے دریا کی موجوں کو آپس میں جوڑتا اور اپنے ساتھ بہائے بھی لیا جاتا ہے جس کا عمومی نام ''زندگی'' ہے۔
میں ذاتی طور پر قومی ترانے کے بعد احمد ندیم قاسمی مرحوم کی اس دعائیہ نظم کو اپنی قوم کے خواب، نظریے اور عمل کا سب سے بڑا اور بہتر استعارہ سمجھتا ہوں جس کا پہلا شعر کچھ یوں ہے کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
کوئی قوم کب' کیوں اور کیسے بنتی ہے اور اس کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ کیسے لیا جانا چاہیے؟ اس پر اہل فکر و نظر کے درمیان جزوی اختلاف ممکن ہے کہ زندگی کسی بے جان اور ہر اعتبار سے مکمل وجود کا نام نہیں۔ کسی قوم اور اس کے افراد کی ترقی کے پیمانوں اور معیارات پر بھی اختلاف ممکن ہے کہ اس کا ایک تعلق دیکھنے والوں کے انداز نظر سے بھی ہوتا ہے مگر لوگوں کو انصاف' عزت' مساوات' تحفظ' ترقی کے مساوی مسائل اور آزادی فکر و نظر کا حق ملے یہ وہ معاملات ہیں جن پر سب کو متفق اور یک زبان ہونا چاہیے کہ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
سو تعبیر خواب پر بحث و مباحثہ ضرور کیجیے مگر خواب کی قیمت پر نہیں، خواب کا حسن اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کی حفاظت اور تعظیم کی جائے۔ اتفاق سے یہ دن میری شادی کی 43ویں سالگرہ کا دن بھی ہے اور اسی کے نواح میں شاعری کا عالمی دن بھی پڑتا ہے، سو آخر میں تقریباً نصف صدی قبل کی لکھی ہوئی ایک نظم کی چند لائنیں اسی خواب کے ساتھ ساتھ۔
مرے وطن' مری ہستی کا منتہا تو ہے
مرے خیال کی ندرت تری جبیں تک ہے
میں مشت خاک سہی' تیرے کارواں کی ہوں
مرے فلک کی بلندی' تری زمیں تک ہے
میں تیری خاک کی آواز بن کے اٹھا ہوں
مری زباں میں اثر دے کہ میری موج صدا
دل و نظر میں تمنا کے پھول مہکائے
مری صدا مرے اہل وطن کی بن جائے
میں سیل شوق کا آغاز بن کے اٹھا ہوں
مرے وطن میں تری خواہشوں کا سایا ہوں
میں ایک شاعر گمنام ہوں' مرے بس میں
مرا وجود تھا سو آج لے کے آیا ہوں
مرے لہو کی سلامی قبول کر لینا
یہ جنس خام سہی رزق پائے باد سہی
مگر یہ دیکھ کہ کس آرزو سے لایا ہوں
وہ کسی دوسرے کے لیے غم یا پچھتاوے کا آئینہ دار بھی ٹھہر سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی دن دو یا اس سے بھی زیادہ مختلف حوالوں سے خصوصیت اختیار کر جاتے لیکن عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان منتخب اور منفرد دنوں کا تعلق ذاتی سطح پر کسی سال گرہ' رشتے' برسی یا واقعے سے اور اجتماعی سطح پر کسی مذہبی' موسمی یا قومی نوعیت کے تہوار سے ہی ہوتا ہے۔
البتہ گزشتہ کچھ عرصے سے ''عالمی دن'' منانے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ ایک الگ قصہ ہے کہ ان کا تعین وہ لوگ کرتے ہیں جو کہتے تو خود کو اس گلوبل ویلیج کا ایک برابر کا شہری ہیں مگر حقیقت میں یہ More Equal سے بھی کچھ زیادہ ہیں کہ جب چاہیں یہ جنوں اور خرد کے نام اور مقام بدل سکتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اس وقت اس کرہ ارض پر مختلف مخلوقات کے ساتھ جو انسان بس رہے ہیں' ان کی تعداد سات ارب سے اوپر ہو چکی ہے۔ یہ مخلوق مختلف براعظموں' صحراؤں' سمندری جزیروں اور کوہ و بیاباں میں یا تو نسلی طور پر آباد ہے یا تاریخ کے مختلف ادوار میں معاشی' مذہبی یا قدرتی محرکات کی وجہ سے اس میں اضافہ' اختلاط اور فرق پڑتا رہا ہے اور اب یہ صورت حال ہے کہ اقوام متحدہ کے دو سو سے زیادہ باقاعدہ ممبران میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کی تاریخ اور آبادی کا تناسب گزشتہ صرف ایک ہی صدی میں واضح طور پر تبدیل نہ ہوا ہو بلکہ ان میں سے سو سے زیادہ ملک تو ایسے ہیں جو اپنے موجودہ ناموں اور جغرافیے کے ساتھ کہیں تھے ہی نہیں۔ خود ہمارا یہ وطن عزیز بھی 23مارچ 1940 سے قبل کسی زمینی وجود کا حامل نہیں تھا اور دیکھا جائے تو خواب اور نظریے کی شکل میں بھی اس کی عمر نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس روز پیش کی جانے والی قرار داد پاکستان اور تشکیل و قیام پاکستان کے مراحل سے لے کر 14اگست 1947ء تک کے درمیانی سات برسوں میں اتنا کچھ بدل گیا کہ اب وہ خواب ایک حقیقت اور وہ نظریہ ایک ملک بن چکا ہے، بعد کے ستر برسوں میں کیا ہوا اور اب کیا ہو رہا ہے، اس کا تجزیہ اور بحث اپنی جگہ کہ یہ اس تصویر کا وہ عملی رخ ہے جس کا تعلق وقت اور مستقبل سے ہے، سو گزرے ہوئے اٹھہتر یا ستر برس اور یہ لمحہ موجود سب کے سب ایک سطح پر ایک جاری منظر کا حصہ ہیں جس سے اگلے منظر کا حال صرف خدا جانتا ہے اور کم و بیش یہی معاملہ ہر فرد اور قوم کا ہے کہ ان کے خوابوں اور اعمال کی قوت ہی ان کی رفتار' سمت اور ترقی یا زوال کا تعین کرتی ہے۔
23مارچ ایک ایسا علامتی سنگ میل ہے جس سے ملتا جلتا کوئی دن ہر انسانی گروہ' قوم یا ملک کے ساتھ ساتھ نہ صرف موجود اور متحرک رہتا ہے بلکہ ماضی حال اور مستقبل کے اس تین کناروں والے دریا کی موجوں کو آپس میں جوڑتا اور اپنے ساتھ بہائے بھی لیا جاتا ہے جس کا عمومی نام ''زندگی'' ہے۔
میں ذاتی طور پر قومی ترانے کے بعد احمد ندیم قاسمی مرحوم کی اس دعائیہ نظم کو اپنی قوم کے خواب، نظریے اور عمل کا سب سے بڑا اور بہتر استعارہ سمجھتا ہوں جس کا پہلا شعر کچھ یوں ہے کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
کوئی قوم کب' کیوں اور کیسے بنتی ہے اور اس کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ کیسے لیا جانا چاہیے؟ اس پر اہل فکر و نظر کے درمیان جزوی اختلاف ممکن ہے کہ زندگی کسی بے جان اور ہر اعتبار سے مکمل وجود کا نام نہیں۔ کسی قوم اور اس کے افراد کی ترقی کے پیمانوں اور معیارات پر بھی اختلاف ممکن ہے کہ اس کا ایک تعلق دیکھنے والوں کے انداز نظر سے بھی ہوتا ہے مگر لوگوں کو انصاف' عزت' مساوات' تحفظ' ترقی کے مساوی مسائل اور آزادی فکر و نظر کا حق ملے یہ وہ معاملات ہیں جن پر سب کو متفق اور یک زبان ہونا چاہیے کہ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
سو تعبیر خواب پر بحث و مباحثہ ضرور کیجیے مگر خواب کی قیمت پر نہیں، خواب کا حسن اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کی حفاظت اور تعظیم کی جائے۔ اتفاق سے یہ دن میری شادی کی 43ویں سالگرہ کا دن بھی ہے اور اسی کے نواح میں شاعری کا عالمی دن بھی پڑتا ہے، سو آخر میں تقریباً نصف صدی قبل کی لکھی ہوئی ایک نظم کی چند لائنیں اسی خواب کے ساتھ ساتھ۔
مرے وطن' مری ہستی کا منتہا تو ہے
مرے خیال کی ندرت تری جبیں تک ہے
میں مشت خاک سہی' تیرے کارواں کی ہوں
مرے فلک کی بلندی' تری زمیں تک ہے
میں تیری خاک کی آواز بن کے اٹھا ہوں
مری زباں میں اثر دے کہ میری موج صدا
دل و نظر میں تمنا کے پھول مہکائے
مری صدا مرے اہل وطن کی بن جائے
میں سیل شوق کا آغاز بن کے اٹھا ہوں
مرے وطن میں تری خواہشوں کا سایا ہوں
میں ایک شاعر گمنام ہوں' مرے بس میں
مرا وجود تھا سو آج لے کے آیا ہوں
مرے لہو کی سلامی قبول کر لینا
یہ جنس خام سہی رزق پائے باد سہی
مگر یہ دیکھ کہ کس آرزو سے لایا ہوں