حقیقت پسندی ومنطقی رویوں کی ضرورت
معاشرہ عورت کو مصلحت پسندی کے نام پر ظلم سہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
معاشرہ اس وقت ترقی کرتا ہے جب وہ انسان دوستی، روا داری اور یکجہتی جیسے اخلاقی رویوں کو فروغ دیتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ذہنی اور صنفی تفریق کی کم گنجائش موجود ہو۔ صحیح معنی میں تعلیم یافتہ معاشرے میں ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ جو ذہنی اور معاشرتی الجھنوں سے نجات پا لیتے ہیں، مگر جن معاشروں میں صنفی تفریق عروج پر ہو، وہاں گھرکا ادارہ منتشر ملتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ہر سال 8,500 عورتیں جسمانی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ یہ گھریلو تشدد نفسیاتی و جسمانی پیچیدگیوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ جس سے ان گھروں میں رہنے والے بچے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر 2010ء سال کے دوران کرمنل لا اورکوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت واضح پالیسی مرتب کی گئی تھی۔ جس کے مطابق ملازمت کی جگہ پر اگر ہراساں کرنے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ادا کیا جائے گا۔
اس طرح کے قوانین کس حد تک خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔ سائبرکرائم و ملازمت کی جگہ ہراساں کرنے کے مختلف مقدمات عدالتوں میں دائر کیے گئے ہیں۔ جن میں اکثر کے حتمی نتائج یا سزا پر عملدرآمد کے عملی مظاہرے منظر عام پر نہیں آئے۔ جس کی ایک وجہ بااثر لوگوں کی مضبوط دفاعی حیثیت بھی ہے۔
علاوہ ازیں دوسرا سب سے بڑا مسئلہ معاشرتی اقدارکا ہے۔ جس کے مطابق گھریلو تشدد ہو یا جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں ، مگر تھانوں میں رجسٹر نہیں ہو پاتے۔ گھریلو تشدد کا شکار ایک خاتون کو جب میں نے قانونی مدد حاصل کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ جس کی وجہ خاندانی رسوائی کا ڈر بتایا گیا۔ معاشرہ عورت کو مصلحت پسندی کے نام پر ظلم سہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
بہت سی عورتوں کے لیے خلع کی درخواست دائرکرنا یا غیر انسانی رویوں پر لب کشائی ناممکن سی بات دکھائی دیتی ہے، کیونکہ روایتی ماحول عورت کو خود مختار فرد کی حیثیت نہیں دیتا۔ اخلاقی قدروں کا یہ دہرا معیار اسے قانونی مدد لینے سے روکتا ہے۔ لہٰذا وہ خاموشی سے ظلم سہنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف عدالتی کارروائی کی طوالت اور وکلا کے بھاری بھرکم معاوضے ان کا حوصلہ توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود عورت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والے قانونی دائرے، معاشرے کو غیر محسوس تبدیلی کی طرف لے کر جا رہے ہیں ۔ جس کا طریقہ کار سست رفتار دکھائی دیتا ہے، کیونکہ بہت سے معاملات میں بروقت نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے ایکسیڈنٹ کے بعد زخمی کو نقصان اٹھانے والوں سے زیادہ پہنچتا ہے با نسبت اس حادثے کے۔ بالکل اسی طرح یہ تمام تر قانونی معاملات تفتیشی مراحل میں باریک بینی اور صحیح تجزیے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور قیاس آرائیوں سے علیحدہ کرنا مشکل مرحلہ ہے۔ لہٰذا ایسے معاملات کی شفاف چھان بین کے لیے مہارت درکار ہے۔ جہاں تک گھریلو تشدد کا سوال ہے تو یہ مسئلہ مشرق اور مغرب میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔
برطانیہ کے جرائم پر مبنی سروے کے مطابق عورتیں مردوں کے مقابلے میں گھریلو تشدد اور غیر انسانی رویوں کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔ جس کے مطابق 2016ء کے دوران 1.2 ملین عورتیں تھیں جب کہ 651,000 مردوں کی تعداد ان کے مقابلے میں پائی گئی۔ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مغربی معاشرے بھی عورت کا استحصال کرتے ہیں۔
یہ ایک گمبھیر مسئلہ ہے جس کا تعلق معاشرتی مزاج اور ثقافتی ڈھانچے سے جڑا ہوا ہے۔ جس کے مطابق بیٹیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں اور لڑکے گاڑیوں و دیگر کھلونوں سے جو لڑکوں کے لیے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ جن میں پستول یا گن بھی شامل ہے۔
غصہ یا جارحیت مردانہ مزاج کی خاصیت سمجھی جاتی ہے اور عورتوں کے لیے مصلحت یا مصالحتی رویے بہتر سمجھے جاتے ہیں ۔ لڑکیاں گھرکا کام کاج کرتی ہیں جیسے کھانا وغیرہ پکانا۔ لڑکوں کوگھرکے کام کاج میں ملوث کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔ آگے چل کر جب میاں بیوی دونوں ملازمت پیشہ ہوتے ہیں تو کام کا زیادہ بوجھ عورت کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ایک ملازمت پیشہ خاتون روزانہ آفس کے علاوہ گھر میں چھ سے سات گھنٹے کام کرتی ہے۔ جس کے مطابق ان کے کام کے اوقات بارہ سے چودہ گھنٹے ہوجاتے ہیں ۔ تمام گھر نوکر افورڈ نہیں کرسکتے، جب کہ ایک گھر میں چھ سے آٹھ افراد پائے جاتے ہیں۔ مشترکہ کنبے کے نظام میں دس سے بارہ لوگ بھی ملتے ہیں ، مگر ان تمام افراد میں کام کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو پاتی۔
کھانا گرم کرنے سے فریج کھول کے خود اشیا لینا بھی بعض گھرانوں میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خاتون ایک ہی وقت میں بچوں کے ساتھ بہت سارے رشتوں کو سنبھالتی ہے۔ حتیٰ کہ بچے تک اپنا کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں خود انحصاری کا بہت بڑا فقدان پایا جاتا ہے۔ بہت سے گھریلو اور معاشرتی مسائل اس سوچ کے اردگرد گھومتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ساؤتھ ایشیا یا یورپ میں ذاتی ذمے داری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ بچے، جوان اور بوڑھے اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ اپنے کافی معاملات خود دیکھتے ہیں۔ ان کی تربیت خود انحصاری کی صلاحیت کو ابھارتے ہوئے کی جاتی ہے۔
صنفی تفریق کی وجہ کام کا بوجھ اور رویوں کا استحصال زیادہ تر عورتوں کے حصے میں آتے ہیں ۔ معاشرے اس وقت صحیح ترقی کرتے ہیں جب مادی ترقی کے ساتھ اخلاقی اور انسانی رویوں کی پاسداری کا خیال رکھا جائے۔ مادی اشیا کی فراہمی، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی جب تک رویوں میں توازن اور اعتدال نہ ہو۔ کام کی منصفانہ تقسیم کے بعد چند بنیادی اصول بھی وضع کیے جانے چاہئیں۔
ذہنی و جسمانی کام کی درجہ بندی بھی بہت ضروری ہے اور حقیقت پسندانہ رویے اپنانے کی ضرورت بھی محسوس کی جاتی رہی ہے۔ ہم روز مرہ زندگی میں کتنا کام کرسکتے ہیں اورکس قدر مادی اشیا کی فراہمی کی جاسکتی ہے۔
اگر اس طرح کے معاملات کو واضح کیا جائے تو گھریلو سطح پر بد مزگی اور تشدد کی نوبت نہیں آئے گی۔ساؤتھ ایشیا کے کچھ ملکوں میں آپ کو گھر سے معاشرتی زندگی تک حقیقت پسندانہ سوچ دکھائی دے گی۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ذہنی ابہام اور دکھاوا ہے۔ جس سے چاہنے کے باوجود چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ ہم زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ سماجی منظوری اور جھوٹی شان کا جواز فراہم کرنے کے لیے گزارتے ہیں۔
عورت کے تحفظ کے لیے جو بھی قانونی حل متعارف کروائے گئے ہیں۔ یقینی طور پر قابل قدر اور دور کی اہم ضرورت ہیں، مگر موجودہ دور میں پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف بچیوں کی پرورش اور ذہنی تربیت کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، تاکہ ان میں خوداعتمادی اور خودانحصاری فروغ پاسکے۔
صنفی تفریق سے ہم اس وقت نجات پاسکتے ہیں جب مرد اور عورت دونوں کو انسانیت، رواداری اور اخلاقی قدروں کی بنیاد پر اہمیت دی جائے گی۔ یہ حقوق کبھی خود سے نہیں ملتے۔ مگر انھیں پانے کے لیے حقیقت پسندانہ سوچ اور منطقی رویے اپنانے پڑتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ہر سال 8,500 عورتیں جسمانی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ یہ گھریلو تشدد نفسیاتی و جسمانی پیچیدگیوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ جس سے ان گھروں میں رہنے والے بچے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر 2010ء سال کے دوران کرمنل لا اورکوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت واضح پالیسی مرتب کی گئی تھی۔ جس کے مطابق ملازمت کی جگہ پر اگر ہراساں کرنے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ادا کیا جائے گا۔
اس طرح کے قوانین کس حد تک خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔ سائبرکرائم و ملازمت کی جگہ ہراساں کرنے کے مختلف مقدمات عدالتوں میں دائر کیے گئے ہیں۔ جن میں اکثر کے حتمی نتائج یا سزا پر عملدرآمد کے عملی مظاہرے منظر عام پر نہیں آئے۔ جس کی ایک وجہ بااثر لوگوں کی مضبوط دفاعی حیثیت بھی ہے۔
علاوہ ازیں دوسرا سب سے بڑا مسئلہ معاشرتی اقدارکا ہے۔ جس کے مطابق گھریلو تشدد ہو یا جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں ، مگر تھانوں میں رجسٹر نہیں ہو پاتے۔ گھریلو تشدد کا شکار ایک خاتون کو جب میں نے قانونی مدد حاصل کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ جس کی وجہ خاندانی رسوائی کا ڈر بتایا گیا۔ معاشرہ عورت کو مصلحت پسندی کے نام پر ظلم سہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
بہت سی عورتوں کے لیے خلع کی درخواست دائرکرنا یا غیر انسانی رویوں پر لب کشائی ناممکن سی بات دکھائی دیتی ہے، کیونکہ روایتی ماحول عورت کو خود مختار فرد کی حیثیت نہیں دیتا۔ اخلاقی قدروں کا یہ دہرا معیار اسے قانونی مدد لینے سے روکتا ہے۔ لہٰذا وہ خاموشی سے ظلم سہنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف عدالتی کارروائی کی طوالت اور وکلا کے بھاری بھرکم معاوضے ان کا حوصلہ توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود عورت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والے قانونی دائرے، معاشرے کو غیر محسوس تبدیلی کی طرف لے کر جا رہے ہیں ۔ جس کا طریقہ کار سست رفتار دکھائی دیتا ہے، کیونکہ بہت سے معاملات میں بروقت نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے ایکسیڈنٹ کے بعد زخمی کو نقصان اٹھانے والوں سے زیادہ پہنچتا ہے با نسبت اس حادثے کے۔ بالکل اسی طرح یہ تمام تر قانونی معاملات تفتیشی مراحل میں باریک بینی اور صحیح تجزیے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور قیاس آرائیوں سے علیحدہ کرنا مشکل مرحلہ ہے۔ لہٰذا ایسے معاملات کی شفاف چھان بین کے لیے مہارت درکار ہے۔ جہاں تک گھریلو تشدد کا سوال ہے تو یہ مسئلہ مشرق اور مغرب میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔
برطانیہ کے جرائم پر مبنی سروے کے مطابق عورتیں مردوں کے مقابلے میں گھریلو تشدد اور غیر انسانی رویوں کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔ جس کے مطابق 2016ء کے دوران 1.2 ملین عورتیں تھیں جب کہ 651,000 مردوں کی تعداد ان کے مقابلے میں پائی گئی۔ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مغربی معاشرے بھی عورت کا استحصال کرتے ہیں۔
یہ ایک گمبھیر مسئلہ ہے جس کا تعلق معاشرتی مزاج اور ثقافتی ڈھانچے سے جڑا ہوا ہے۔ جس کے مطابق بیٹیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں اور لڑکے گاڑیوں و دیگر کھلونوں سے جو لڑکوں کے لیے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ جن میں پستول یا گن بھی شامل ہے۔
غصہ یا جارحیت مردانہ مزاج کی خاصیت سمجھی جاتی ہے اور عورتوں کے لیے مصلحت یا مصالحتی رویے بہتر سمجھے جاتے ہیں ۔ لڑکیاں گھرکا کام کاج کرتی ہیں جیسے کھانا وغیرہ پکانا۔ لڑکوں کوگھرکے کام کاج میں ملوث کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔ آگے چل کر جب میاں بیوی دونوں ملازمت پیشہ ہوتے ہیں تو کام کا زیادہ بوجھ عورت کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ایک ملازمت پیشہ خاتون روزانہ آفس کے علاوہ گھر میں چھ سے سات گھنٹے کام کرتی ہے۔ جس کے مطابق ان کے کام کے اوقات بارہ سے چودہ گھنٹے ہوجاتے ہیں ۔ تمام گھر نوکر افورڈ نہیں کرسکتے، جب کہ ایک گھر میں چھ سے آٹھ افراد پائے جاتے ہیں۔ مشترکہ کنبے کے نظام میں دس سے بارہ لوگ بھی ملتے ہیں ، مگر ان تمام افراد میں کام کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو پاتی۔
کھانا گرم کرنے سے فریج کھول کے خود اشیا لینا بھی بعض گھرانوں میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خاتون ایک ہی وقت میں بچوں کے ساتھ بہت سارے رشتوں کو سنبھالتی ہے۔ حتیٰ کہ بچے تک اپنا کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں خود انحصاری کا بہت بڑا فقدان پایا جاتا ہے۔ بہت سے گھریلو اور معاشرتی مسائل اس سوچ کے اردگرد گھومتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ساؤتھ ایشیا یا یورپ میں ذاتی ذمے داری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ بچے، جوان اور بوڑھے اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ اپنے کافی معاملات خود دیکھتے ہیں۔ ان کی تربیت خود انحصاری کی صلاحیت کو ابھارتے ہوئے کی جاتی ہے۔
صنفی تفریق کی وجہ کام کا بوجھ اور رویوں کا استحصال زیادہ تر عورتوں کے حصے میں آتے ہیں ۔ معاشرے اس وقت صحیح ترقی کرتے ہیں جب مادی ترقی کے ساتھ اخلاقی اور انسانی رویوں کی پاسداری کا خیال رکھا جائے۔ مادی اشیا کی فراہمی، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی جب تک رویوں میں توازن اور اعتدال نہ ہو۔ کام کی منصفانہ تقسیم کے بعد چند بنیادی اصول بھی وضع کیے جانے چاہئیں۔
ذہنی و جسمانی کام کی درجہ بندی بھی بہت ضروری ہے اور حقیقت پسندانہ رویے اپنانے کی ضرورت بھی محسوس کی جاتی رہی ہے۔ ہم روز مرہ زندگی میں کتنا کام کرسکتے ہیں اورکس قدر مادی اشیا کی فراہمی کی جاسکتی ہے۔
اگر اس طرح کے معاملات کو واضح کیا جائے تو گھریلو سطح پر بد مزگی اور تشدد کی نوبت نہیں آئے گی۔ساؤتھ ایشیا کے کچھ ملکوں میں آپ کو گھر سے معاشرتی زندگی تک حقیقت پسندانہ سوچ دکھائی دے گی۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ذہنی ابہام اور دکھاوا ہے۔ جس سے چاہنے کے باوجود چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ ہم زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ سماجی منظوری اور جھوٹی شان کا جواز فراہم کرنے کے لیے گزارتے ہیں۔
عورت کے تحفظ کے لیے جو بھی قانونی حل متعارف کروائے گئے ہیں۔ یقینی طور پر قابل قدر اور دور کی اہم ضرورت ہیں، مگر موجودہ دور میں پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف بچیوں کی پرورش اور ذہنی تربیت کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، تاکہ ان میں خوداعتمادی اور خودانحصاری فروغ پاسکے۔
صنفی تفریق سے ہم اس وقت نجات پاسکتے ہیں جب مرد اور عورت دونوں کو انسانیت، رواداری اور اخلاقی قدروں کی بنیاد پر اہمیت دی جائے گی۔ یہ حقوق کبھی خود سے نہیں ملتے۔ مگر انھیں پانے کے لیے حقیقت پسندانہ سوچ اور منطقی رویے اپنانے پڑتے ہیں۔