ٹی بی جان لیوا مگر قابل علاج مرض
پاکستان میں سالانہ پانچ لاکھ نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔
ٹی بی ( Tuberculosis ) ایک متعدی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماری ہے۔
ٹی بی ( Tuberculosis ) کو سل اور تپ دق بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک متعدی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماری ہے۔ یہ جسم کے کسی بھی حصے میں ہوسکتی ہے مگر عموماً پھیپھڑوں کو نشانہ بناتی ہے۔ بلغم زدہ کھانسی ٹی بی کی خاص نشانی ہے۔ شدید صورت میں کھانسی کے ساتھ خون بھی آتا ہے۔
ٹی بی کا مریض جب کھانستا یا چھینکتا ہے تو لعاب کے ننھے ننھے قطروں کے ساتھ جراثیم فضا میں شامل ہوجاتے ہیں جو اسی ماحول میں سانس لینے والے دوسرے افراد کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور انھیں اس خطرناک مرض میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
ٹی بی قابل علاج ہے۔ اگر وقت پر علاج معالجہ شروع کردیا جائے تو مریض شفایاب ہوجاتا ہے۔ تاہم تاخیر کی صورت میں مرض شدت اختیار کرجاتا ہے اور شفایابی کے امکانات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ٹی بی کے جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد ضروری نہیں کہ یہ انسان کو بیمار کردیں۔ یہ جسم کے اندر خاموش یا خوابیدہ حالت میں بھی رہ سکتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں اسے Latent TB کہا جاتا ہے۔ ٹی بی کی اس قسم میں مبتلا افراد خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں کوئی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ جب یہ جراثیم بیدار یعنی فعال ہوجائیں تو پھر وہ فرد ٹی بی کا شکار ہوجاتا ہے۔
ٹی بی کے جراثیم کسی انسان کے جسم میں برسوں تک خوابیدہ حالت میں موجود رہ سکتے ہیں۔ جب اس فرد کا مناعتی نظام یعنی امیون سسٹم کمزور ہوجائے تو پھر یہ فعال ہوجاتے ہیں، یعنی انھیں' کُھلی چھوٹ' مل جاتی ہے اور یہ جسم کے جس حصے کو چاہے نشانہ بناسکتے ہیں مگر پھیپھڑے ان کا خصوصی ہدف ہوتے ہیں۔
ٹی بی کا آسان ہدف
کچھ لوگوں کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں:
٭ شیرخوار اور چار سال سے کم عمر کے بچے
٭ جو لوگ گذشتہ دو سال میں ٹی بی کا شکار رہ چکے ہوں
٭ ایچ آئی وی سے متأثرہ افراد
٭ وہ لوگ جن کا جسمانی دفاعی نظام ذیابیطس، گردوں کے ناکارہ ہوجانے یا کسی اور وجہ سے کمزور پڑگیا ہو
٭ ٹی بی کے مریضوں کے قریب رہنے والے افراد
٭ ٹی بی کے علاج کے مراکز میں کام کرنے والے افراد
علامات
ٹی بی کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جسم کا کون سا حصہ متأثر ہوا ہے۔ عموماً ٹی بی کے جراثیم پھیپھڑوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسے پلمونری ٹیوبرکلوسس کہا جاتا ہے۔ ایکسٹرا پلمونری ٹیوبرکلوسس ٹی بی کی وہ شکل ہے جب پھیپھڑوں کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ اس سے متأثر ہوتا ہے۔ تاہم ٹی بی کی یہ دونوں اقسام بہ یک وقت بھی پائی جاسکتی ہیں۔ ٹی بی کی عمومی علامات میں بخار، جسم پر کپکپی طاری ہونا، سوتے ہوئے پسینے میں ڈوب جانا، بھوک کا ختم ہوجانا، وزن میں کمی، اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انگلیوں کے ناخنوں کے اطراف سوجن بھی ہوسکتی ہے۔
پلمونری ٹیوبرکلوسس کی علامات
ٹی بی کے جراثیم فعال ہوجانے کے بعد 90 فی صد کیسز میں پھیپھڑوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ سینے میں تکلیف اور کھانسی کا مسلسل اور طویل وقت تک ہونا اور بلغم آنا پھیپھڑوں کی ٹی بی کی علامات ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ ایک چوتھائی مریضوں میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ بعض اوقات کھانسی کے ساتھ آنے والے بلغم میں خون کی آمیزش بھی ہوسکتی ہے۔ بہت کم کیسز میں خون کا زیادہ مقدار میں اخراج بھی ہوسکتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب انفیکشن پھیپھڑوں کو خون پہنچانے والی مرکزی شریان تک پہنچ جائے۔
ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس کی علامات
ٹی بی کے 15 سے 20 فی صد کیسز میں انفیکشن پھیپھڑوں کے علاوہ دوسرے جسمانی اعضا کو نشانہ بناتا ہے۔ ٹی بی کی اس قسم میںکمزور مناعتی نظام کے حامل بالغ افراد اور چھوٹے بچے مبتلا ہوتے ہیں۔ ایچ آئی وی کے شکار مریضوں کو خاص طور سے ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس لاحق ہوتی ہے۔ ایچ آئی وی سے متأثرہ افراد میں ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس کی شرح 50 فی صد ہے۔ ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس زیادہ تر پھیپھڑے کی بیرونی جھلی، مرکزی عصبی نظام، نظام سیالہ ( لمفیٹک سسٹم ) ، تناسلی و بولی نظام، ہڈیوں اور جوڑوں کو ہدف بناتی ہے۔
ٹی بی کی ایک قسم Drug resistant TB کہلاتی ہے۔ اگر ٹی بی کے مریض پر دوائیں اثر نہ کررہی ہوں تو پھر کہا جاتا ہے کہ اسے ڈرگ ریزسسٹنٹ ٹی بی ہوگئی ہے۔ ٹی بی کے جراثیم پر ادویہ کا اثر نہ ہونے کی دو اہم وجوہ ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ متأثرہ فرد جب دوا مقررہ مقدار اور تعداد میں اور باقاعدگی سے نہ کھا رہا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس فرد کو ٹی بی جس مریض سے منتقل ہوئی ہے اسے ڈرگ ریزسسٹنٹ ٹی بی لاحق ہو۔
اگر کوئی شخص اس قسم میں مبتلا ہے تو پھر ڈاکٹر کے لیے اس کی ادویہ تبدیل کرنا ضروری ہے۔ عموماً بار بار ادویہ تبدیل کرکے دیکھا جاتا ہے کون سی دوا اسے فائدہ پہنچاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ادویہ سے حساسیت کا ٹیسٹ کروالینا بے حد مفید ہوتا ہے۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ ایک فرد میں کن ادویہ کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔
تشخیص
ظاہری علامات کی بنیاد پر ٹی بی کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دیگر امراض کی علامات بھی ٹی بی کی علامات کے مشابہ ہوتی ہیں۔ ٹی بی کی حتمی تشخیص بیکٹیریا کی موجودگی کے یقینی شواہد مل جانے کے بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔ ٹی بی کے کچھ ٹیسٹ براہ راست بیکٹیریا کی موجودگی کی نشان دہی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ٹیسٹ جیسے ایکسرے وغیرہ ممکنہ مریض پر بیکٹیریا کے اثر کا مشاہدہ کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
علاج
ایک دور میں ٹی بی لاعلاج مرض تھا، اور متأثرہ شخص خون تھوکتے تھوکتے موت کے منھ میں چلا جاتا تھا۔ پھر آنے والے برسوں میں ٹی بی کے علاج کے لیے ادویہ تیار کرلی گئیں۔ اب ٹی بی کے علاج میں بیس سے زائد ادویہ استعمال ہوتی ہیں۔ ماضی میں ٹی بی کے علاج کا دورانیہ کم از کم ایک سال ہوتا تھا، تاہم اب چھے ماہ کے علاج سے اس بیماری سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دوائیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اس پورے عرصے کے دوران باقاعدگی سے کھائی جائیں۔
مریض کو دوائیں مرض کی موجودہ کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز کی جاتی ہیں۔ کچھ دواؤں کے شدید ضمنی اثرات یا سائیڈافیکٹس مشاہدے میں آئے ہیں، اس لیے انھیں طویل عرصے تک کھانا مریض کے لیے بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے ٹی بی کے علاج کے لیے نئی ادویہ کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
بچاؤ
ٹی بی سے بچاؤ کے ممکنہ اقدامات میں سب سے ضروری اس کے جراثیم کو ایک سے دوسرے فرد تک پہنچنے سے روکنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹی بی سے متأثرہ افراد کو تلاش کرکے ان کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ ٹی بی سے بچاؤ کی ویکسین بھی موجود ہے جو بی سی جی کہلاتی ہے، مگر یہ صرف بچوں کو لگائی جاتی ہے، بالغ افراد میں یہ مؤثر نہیں ہوتی۔
اگر کسی گھر میں کوئی فرد ٹی بی سے متأثر ہو تو اس کے کھانے پینے کے برتن ، تولیہ اور استعمال کی دوسری چیزیں الگ کردینی چاہییں۔ علاوہ ازیں مریض اور اہل خانہ کو فیس ماسک کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ ٹی بی کے جراثیم صحت مند افراد میں منتقل نہ ہوسکیں۔
ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکنے میں عوامی آگہی مہمات بے حد ضروری ہیں۔ ان مہمات کے ذریعے لوگوں کو ٹی بی سے متعلق تمام معلومات فراہم کی جائیں اور بتایا جائے کہ یہ مرض لاعلاج نہیں ہے، چناں چہ ٹی بی سے متأثرہ افراد بلاخوف و خطر اسپتال یا مرکز علاج میں آ کر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
پاکستان میں ٹی بی کی صورت حال
پاکستان ٹی بی سے سب سے زیادہ متأثرہ ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے پانچ لاکھ دس ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ ان میں پندرہ ہزار مریض Drug resistant TB کے ہوتے ہیں۔ ٹی بی کی ایک قسم multidrug-resistant TB ( MDR-TB) ہوتی ہے۔ اس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بحیرۂ روم کے مشرقی حصے میں واقع ممالک میں ٹی بی کے مریضوں کی مجموعی تعداد کا 61 فی صد پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں تپ دق اموات کا بڑا سبب ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹی بی سے لڑتے ہوئے سالانہ کم از کم ستّر ہزار پاکستانی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
پاکستان میں ٹی بی کے پھیلاؤ کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ بڑی آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے۔ دیہی آبادی کا وسیع حصہ پس ماندہ ہے۔ تعلیم نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے دیہات میں رہنے والے لوگ علاج معالجے سے بے پروائی برتتے ہیں۔ قریبی شہروں میں واقع اسپتال کا رُخ وہ طبیعت زیادہ بگڑ جانے ہی پر کرتے ہیں۔
دیہاتیوں کے علاوہ قصبوں اور شہروں کے رہائشیوں کی بڑی تعداد میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ کھانسی یا بخار وغیرہ ہو تو عام طور پر میڈیکل اسٹورز سے دوائیں خرید کر خود ہی علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ طبیعت بہتر نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابتدا میں کھانسی اور بخار ہی کی دوائیں دیتے رہتے ہیں۔ ٹی بی کے ٹیسٹ کی نوبت آتے آتے کئی ہفتے اور بعض اوقات کئی ماہ گزر جاتے ہیں۔ یوں ٹی بی کی تشخیص میں تاخیر ہوجاتی ہے۔
تشخیص کے بعد ٹی بی کا مؤثر علاج شرو ع ہونے میں بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ بالخصوص متذکرہ بالا دو اقسام کی ٹی بی کی تشخیص اور پھر متعلقہ ادویہ کی تجویز کا مرحلہ آتے آتے مرض پھیل چکا ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ فالو اپ کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے۔ مریضوں سے رابطہ نہیں رکھا جاتا کہ وہ دوا پابندی سے لے رہے ہیں یا نہیں۔ پاکستان میں نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام فعال ہے، اس کے باوجود ٹی بی کے حوالے سے صورت حال خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرض پر قابو پانے کے لیے جامع اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ٹی بی ( Tuberculosis ) کو سل اور تپ دق بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک متعدی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماری ہے۔ یہ جسم کے کسی بھی حصے میں ہوسکتی ہے مگر عموماً پھیپھڑوں کو نشانہ بناتی ہے۔ بلغم زدہ کھانسی ٹی بی کی خاص نشانی ہے۔ شدید صورت میں کھانسی کے ساتھ خون بھی آتا ہے۔
ٹی بی کا مریض جب کھانستا یا چھینکتا ہے تو لعاب کے ننھے ننھے قطروں کے ساتھ جراثیم فضا میں شامل ہوجاتے ہیں جو اسی ماحول میں سانس لینے والے دوسرے افراد کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور انھیں اس خطرناک مرض میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
ٹی بی قابل علاج ہے۔ اگر وقت پر علاج معالجہ شروع کردیا جائے تو مریض شفایاب ہوجاتا ہے۔ تاہم تاخیر کی صورت میں مرض شدت اختیار کرجاتا ہے اور شفایابی کے امکانات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ٹی بی کے جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد ضروری نہیں کہ یہ انسان کو بیمار کردیں۔ یہ جسم کے اندر خاموش یا خوابیدہ حالت میں بھی رہ سکتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں اسے Latent TB کہا جاتا ہے۔ ٹی بی کی اس قسم میں مبتلا افراد خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں کوئی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ جب یہ جراثیم بیدار یعنی فعال ہوجائیں تو پھر وہ فرد ٹی بی کا شکار ہوجاتا ہے۔
ٹی بی کے جراثیم کسی انسان کے جسم میں برسوں تک خوابیدہ حالت میں موجود رہ سکتے ہیں۔ جب اس فرد کا مناعتی نظام یعنی امیون سسٹم کمزور ہوجائے تو پھر یہ فعال ہوجاتے ہیں، یعنی انھیں' کُھلی چھوٹ' مل جاتی ہے اور یہ جسم کے جس حصے کو چاہے نشانہ بناسکتے ہیں مگر پھیپھڑے ان کا خصوصی ہدف ہوتے ہیں۔
ٹی بی کا آسان ہدف
کچھ لوگوں کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں:
٭ شیرخوار اور چار سال سے کم عمر کے بچے
٭ جو لوگ گذشتہ دو سال میں ٹی بی کا شکار رہ چکے ہوں
٭ ایچ آئی وی سے متأثرہ افراد
٭ وہ لوگ جن کا جسمانی دفاعی نظام ذیابیطس، گردوں کے ناکارہ ہوجانے یا کسی اور وجہ سے کمزور پڑگیا ہو
٭ ٹی بی کے مریضوں کے قریب رہنے والے افراد
٭ ٹی بی کے علاج کے مراکز میں کام کرنے والے افراد
علامات
ٹی بی کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جسم کا کون سا حصہ متأثر ہوا ہے۔ عموماً ٹی بی کے جراثیم پھیپھڑوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسے پلمونری ٹیوبرکلوسس کہا جاتا ہے۔ ایکسٹرا پلمونری ٹیوبرکلوسس ٹی بی کی وہ شکل ہے جب پھیپھڑوں کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ اس سے متأثر ہوتا ہے۔ تاہم ٹی بی کی یہ دونوں اقسام بہ یک وقت بھی پائی جاسکتی ہیں۔ ٹی بی کی عمومی علامات میں بخار، جسم پر کپکپی طاری ہونا، سوتے ہوئے پسینے میں ڈوب جانا، بھوک کا ختم ہوجانا، وزن میں کمی، اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انگلیوں کے ناخنوں کے اطراف سوجن بھی ہوسکتی ہے۔
پلمونری ٹیوبرکلوسس کی علامات
ٹی بی کے جراثیم فعال ہوجانے کے بعد 90 فی صد کیسز میں پھیپھڑوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ سینے میں تکلیف اور کھانسی کا مسلسل اور طویل وقت تک ہونا اور بلغم آنا پھیپھڑوں کی ٹی بی کی علامات ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ ایک چوتھائی مریضوں میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ بعض اوقات کھانسی کے ساتھ آنے والے بلغم میں خون کی آمیزش بھی ہوسکتی ہے۔ بہت کم کیسز میں خون کا زیادہ مقدار میں اخراج بھی ہوسکتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب انفیکشن پھیپھڑوں کو خون پہنچانے والی مرکزی شریان تک پہنچ جائے۔
ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس کی علامات
ٹی بی کے 15 سے 20 فی صد کیسز میں انفیکشن پھیپھڑوں کے علاوہ دوسرے جسمانی اعضا کو نشانہ بناتا ہے۔ ٹی بی کی اس قسم میںکمزور مناعتی نظام کے حامل بالغ افراد اور چھوٹے بچے مبتلا ہوتے ہیں۔ ایچ آئی وی کے شکار مریضوں کو خاص طور سے ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس لاحق ہوتی ہے۔ ایچ آئی وی سے متأثرہ افراد میں ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس کی شرح 50 فی صد ہے۔ ایکسٹراپلمونری ٹیوبرکلوسس زیادہ تر پھیپھڑے کی بیرونی جھلی، مرکزی عصبی نظام، نظام سیالہ ( لمفیٹک سسٹم ) ، تناسلی و بولی نظام، ہڈیوں اور جوڑوں کو ہدف بناتی ہے۔
ٹی بی کی ایک قسم Drug resistant TB کہلاتی ہے۔ اگر ٹی بی کے مریض پر دوائیں اثر نہ کررہی ہوں تو پھر کہا جاتا ہے کہ اسے ڈرگ ریزسسٹنٹ ٹی بی ہوگئی ہے۔ ٹی بی کے جراثیم پر ادویہ کا اثر نہ ہونے کی دو اہم وجوہ ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ متأثرہ فرد جب دوا مقررہ مقدار اور تعداد میں اور باقاعدگی سے نہ کھا رہا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس فرد کو ٹی بی جس مریض سے منتقل ہوئی ہے اسے ڈرگ ریزسسٹنٹ ٹی بی لاحق ہو۔
اگر کوئی شخص اس قسم میں مبتلا ہے تو پھر ڈاکٹر کے لیے اس کی ادویہ تبدیل کرنا ضروری ہے۔ عموماً بار بار ادویہ تبدیل کرکے دیکھا جاتا ہے کون سی دوا اسے فائدہ پہنچاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ادویہ سے حساسیت کا ٹیسٹ کروالینا بے حد مفید ہوتا ہے۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ ایک فرد میں کن ادویہ کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔
تشخیص
ظاہری علامات کی بنیاد پر ٹی بی کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دیگر امراض کی علامات بھی ٹی بی کی علامات کے مشابہ ہوتی ہیں۔ ٹی بی کی حتمی تشخیص بیکٹیریا کی موجودگی کے یقینی شواہد مل جانے کے بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔ ٹی بی کے کچھ ٹیسٹ براہ راست بیکٹیریا کی موجودگی کی نشان دہی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ٹیسٹ جیسے ایکسرے وغیرہ ممکنہ مریض پر بیکٹیریا کے اثر کا مشاہدہ کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
علاج
ایک دور میں ٹی بی لاعلاج مرض تھا، اور متأثرہ شخص خون تھوکتے تھوکتے موت کے منھ میں چلا جاتا تھا۔ پھر آنے والے برسوں میں ٹی بی کے علاج کے لیے ادویہ تیار کرلی گئیں۔ اب ٹی بی کے علاج میں بیس سے زائد ادویہ استعمال ہوتی ہیں۔ ماضی میں ٹی بی کے علاج کا دورانیہ کم از کم ایک سال ہوتا تھا، تاہم اب چھے ماہ کے علاج سے اس بیماری سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دوائیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اس پورے عرصے کے دوران باقاعدگی سے کھائی جائیں۔
مریض کو دوائیں مرض کی موجودہ کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز کی جاتی ہیں۔ کچھ دواؤں کے شدید ضمنی اثرات یا سائیڈافیکٹس مشاہدے میں آئے ہیں، اس لیے انھیں طویل عرصے تک کھانا مریض کے لیے بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے ٹی بی کے علاج کے لیے نئی ادویہ کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
بچاؤ
ٹی بی سے بچاؤ کے ممکنہ اقدامات میں سب سے ضروری اس کے جراثیم کو ایک سے دوسرے فرد تک پہنچنے سے روکنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹی بی سے متأثرہ افراد کو تلاش کرکے ان کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ ٹی بی سے بچاؤ کی ویکسین بھی موجود ہے جو بی سی جی کہلاتی ہے، مگر یہ صرف بچوں کو لگائی جاتی ہے، بالغ افراد میں یہ مؤثر نہیں ہوتی۔
اگر کسی گھر میں کوئی فرد ٹی بی سے متأثر ہو تو اس کے کھانے پینے کے برتن ، تولیہ اور استعمال کی دوسری چیزیں الگ کردینی چاہییں۔ علاوہ ازیں مریض اور اہل خانہ کو فیس ماسک کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ ٹی بی کے جراثیم صحت مند افراد میں منتقل نہ ہوسکیں۔
ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکنے میں عوامی آگہی مہمات بے حد ضروری ہیں۔ ان مہمات کے ذریعے لوگوں کو ٹی بی سے متعلق تمام معلومات فراہم کی جائیں اور بتایا جائے کہ یہ مرض لاعلاج نہیں ہے، چناں چہ ٹی بی سے متأثرہ افراد بلاخوف و خطر اسپتال یا مرکز علاج میں آ کر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
پاکستان میں ٹی بی کی صورت حال
پاکستان ٹی بی سے سب سے زیادہ متأثرہ ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے پانچ لاکھ دس ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ ان میں پندرہ ہزار مریض Drug resistant TB کے ہوتے ہیں۔ ٹی بی کی ایک قسم multidrug-resistant TB ( MDR-TB) ہوتی ہے۔ اس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بحیرۂ روم کے مشرقی حصے میں واقع ممالک میں ٹی بی کے مریضوں کی مجموعی تعداد کا 61 فی صد پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں تپ دق اموات کا بڑا سبب ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹی بی سے لڑتے ہوئے سالانہ کم از کم ستّر ہزار پاکستانی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
پاکستان میں ٹی بی کے پھیلاؤ کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ بڑی آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے۔ دیہی آبادی کا وسیع حصہ پس ماندہ ہے۔ تعلیم نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے دیہات میں رہنے والے لوگ علاج معالجے سے بے پروائی برتتے ہیں۔ قریبی شہروں میں واقع اسپتال کا رُخ وہ طبیعت زیادہ بگڑ جانے ہی پر کرتے ہیں۔
دیہاتیوں کے علاوہ قصبوں اور شہروں کے رہائشیوں کی بڑی تعداد میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ کھانسی یا بخار وغیرہ ہو تو عام طور پر میڈیکل اسٹورز سے دوائیں خرید کر خود ہی علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ طبیعت بہتر نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابتدا میں کھانسی اور بخار ہی کی دوائیں دیتے رہتے ہیں۔ ٹی بی کے ٹیسٹ کی نوبت آتے آتے کئی ہفتے اور بعض اوقات کئی ماہ گزر جاتے ہیں۔ یوں ٹی بی کی تشخیص میں تاخیر ہوجاتی ہے۔
تشخیص کے بعد ٹی بی کا مؤثر علاج شرو ع ہونے میں بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ بالخصوص متذکرہ بالا دو اقسام کی ٹی بی کی تشخیص اور پھر متعلقہ ادویہ کی تجویز کا مرحلہ آتے آتے مرض پھیل چکا ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ فالو اپ کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے۔ مریضوں سے رابطہ نہیں رکھا جاتا کہ وہ دوا پابندی سے لے رہے ہیں یا نہیں۔ پاکستان میں نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام فعال ہے، اس کے باوجود ٹی بی کے حوالے سے صورت حال خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرض پر قابو پانے کے لیے جامع اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔