کیا پرویز مشرف غداری کے مقدمے کاسامنا کریں گے
ٹرائل پنڈورابکس کھول سکتاہے،کاغذات مستردہونے پرمشرف الیکشن کابائیکاٹ کرسکتے ہیں
سابق صدرجنرل (ر) پرویزمشرف ایک بارپھر مشکل میں پھنس گئے ہیں اوراس بار وہ تمام مقدمات کی ماں سمجھے جانے والے مقدمے آئین کے آرٹیکل 6کے تحت غداری کے مقدمہ کا سامنا کریں گے جس کی سزاموت ہے اور اس جیسے مقدمے کاسامنا کسی فوجی حکمران نے پاکستان کی آزادی سے لے کرآج تک 63 سال میں نہیں کیا۔
سابق آرمی چیف اس مقدمے کا سامنا کرنے کو تیار ہیں لیکن یہ ٹرائل بہت سے پنڈورابکس کھول سکتا ہے۔مشرف اورانکی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ اس وقت شدیددبائو میں ہیں کیونکہ مشرف کے تین میں سے دو حلقوںمیںکاغذات نامزدگی مستردکیے جاچکے ہیں۔ تیسرے حلقے کراچی میں بھی انکے کاغذات پراعتراض کئے گئے ہیں۔یہاں سے بھی اگر ان کے کاغذات نامزدگی مستردکیے گئے تو وہ پہلی اعلٰی شخصیت ہوں گے جوآئندہ الیکشن سے باہرہو جائیںگے۔اس سے پہلے انھوں نے انتخابی مہم بھی معطل کردی ہے لیکن ان کی قانونی ٹیم اس معاملے کودیکھ رہی ہے لیکن وہ شخص جس نے اس ملک پر9سال تک حکومت کی ہے اس وقت غیریقینی صورتحال کاشکارہے۔
جنرل (ر) پرویزمشرف پر 3 نومبر2007 کو ایمرجنسی پلس لگا کرآئین توڑنے کا الزام ہے جس دوران انھوںنے اس وقت کے چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری سمیت اعلی عدالتوں کے ججوں کو نظر بند بھی کیا۔چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 8اپریل کومشرف کے خلاف متعدد درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ سپریم کورٹ کے کئی وکلا کا خیال ہے کہ مشرف کا 3نومبر2007ء کا اقدام ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کامقدمہ چلانے کے لیے ایک فٹ کیس ہے۔جس کی نہ تو پارلیمنٹ نے توثیق کی اور نہ ہی اسے سپریم کورٹ نے تحفظ فراہم کیا۔
اس کے برعکس 12اکتوبر1999ء کے اقدام کو پارلیمنٹ نے بھی تحفظ فراہم کیا اور ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے بھی اس کی منظوری دی۔احمدرضا قصوری کی سربراہی میں جنرل (ر) مشرف کی قانونی ٹیم یقیناًانکے دوسرے ایکشن کے دفاع میں مشکلات کاشکار ہوگی جو پر امید ہیں کہ ان کے لیڈر اپنے اقدام کا دفاع کرلیں گے۔سپریم کورٹ کے بینچ نے اگراس پٹیشن کومنظورکرلیا تو وہ وفاقی حکومت کو ہدایات کو دے سکتی ہے کہ مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیاجائے۔ اب اگراس طرح کا فیصلہ حالیہ دنوں میں آگیا تو یہ دلچسپ ہوگاکہ وفاقی حکومت اس پرکس طرح کے ردعمل کااظہار کرتی ہے۔
کیونکہ سابقہ پی پی حکومت نے عدالتی احکامات کے باوجود ایک اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف اصغرخان کیس میں مقدمہ قائم کرنے سے انکارکردیا تھا۔پاکستان میں سابق جرنیلوں کو سول عدالتوں کے سامنے آئین توڑنے پرغداری جیسے مقدمات کا سامنا کرنے کی روایت اس سے پہلے موجود نہیں ہے۔حتی کہ کسی تھری اسٹارجنرل کوبھی سول عدالت کے سامنے نہیں لایا گیا، مکمل جنرل یا آرمی چیف کی بات ہی اورہے۔تاہم موجودہ سپریم کورٹ نے حالیہ کچھ سالوں میں سابقہ جرنیلوں کے بارے میںخاصے مشکل فیصلے کیے ہیںجن میں سے اہم اصغر خان کیس ہے۔جب سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل(ر)اسد درانی کیخلاف 1990کے الیکشن میںکردار ادا کرنے پرمقدمہ قائم کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ 1990 کے الیکشن میںآئی ایس آئی سے رقوم لینے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کی جائیں۔پیپلز پارٹی کی حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کا ایک بولڈ فیصلہ نہ کرسکی۔ تاہم اس کیس میں اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کے بعد فیصلے پر عملدرآمد کیلئے عدالت کا رخ کرینگے۔سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سابق جرنیلوں پر سول کورٹ میں مقدمہ چلانے کا حکم دیا لیکن آرمی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور وعدہ کیا کہ ان لوگوں کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
جب سے مشرف پاکستان آئے ہیں، وہ خاصی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں، اگر تیسرے حلقے سے بھی انکے کاغذات مسترد ہوئے یہ ممکن ہے کہ انکی پارٹی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردے۔اب جبکہ مشرف اور انکی جماعت کے لبے سیکیورٹی سب سے اہم پریشانی ہے، سپریم کورٹ کے ان پٹیشنزکی سماعت کرنے سے مشرف مجبور ہوسکتے ہیں کہ وہ 3نومبر2007کے اقدام بارے کچھ رازوں سے پردہ اٹھا دیںکہ اورکون کون اس اقدام کے پیچھے تھا۔
جنرل (ر) مشرف، جنھیں سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف اور چوہدری نثارکی سفارش پرآرمی چیف بنایا تھا، اپنے سابق ادارے، جہاں انھوں نے 40 سال تک ملازمت کی،سے سخت مایوس ہیں کہ وہ کئی اہم فیصلوں میں ان کی مددکو نہیں آیا۔اب ان کے حمایتی کہتے ہیںکہ اگرمشرف کا ٹرائل کیاگیا تو وہ بتا دیں گے کہ 12اکتوبر1999اور 3نومبر 2007 کے اقدام کے پیچھے کون کون تھاجبکہ 12اکتوبر 1999کے اقدام کو سپریم کورٹ بھی تحفظ فراہم کرچکی ہے۔اب جب الیکشن ایک ماہ کے فاصلے پرہیں،اگر مشرف کا ٹرائل کیاگیا تویہ اگلی حکومت کیلیے بڑا ایشو ہوگا۔اگراگلی حکومت مسلم لیگ ن کی ہو اور مشرف کا ٹرائل ہو رہا ہو یا وہ جیل میںہوں تو یہ کیسا رہے گا۔اس کے لیے ابھی ایک لمبا راستہ طے کرنا باقی ہے لیکن ملک کے ایک طاقتور سابق حکمران کے برے دن آرہے ہیں۔
سابق آرمی چیف اس مقدمے کا سامنا کرنے کو تیار ہیں لیکن یہ ٹرائل بہت سے پنڈورابکس کھول سکتا ہے۔مشرف اورانکی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ اس وقت شدیددبائو میں ہیں کیونکہ مشرف کے تین میں سے دو حلقوںمیںکاغذات نامزدگی مستردکیے جاچکے ہیں۔ تیسرے حلقے کراچی میں بھی انکے کاغذات پراعتراض کئے گئے ہیں۔یہاں سے بھی اگر ان کے کاغذات نامزدگی مستردکیے گئے تو وہ پہلی اعلٰی شخصیت ہوں گے جوآئندہ الیکشن سے باہرہو جائیںگے۔اس سے پہلے انھوں نے انتخابی مہم بھی معطل کردی ہے لیکن ان کی قانونی ٹیم اس معاملے کودیکھ رہی ہے لیکن وہ شخص جس نے اس ملک پر9سال تک حکومت کی ہے اس وقت غیریقینی صورتحال کاشکارہے۔
جنرل (ر) پرویزمشرف پر 3 نومبر2007 کو ایمرجنسی پلس لگا کرآئین توڑنے کا الزام ہے جس دوران انھوںنے اس وقت کے چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری سمیت اعلی عدالتوں کے ججوں کو نظر بند بھی کیا۔چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 8اپریل کومشرف کے خلاف متعدد درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ سپریم کورٹ کے کئی وکلا کا خیال ہے کہ مشرف کا 3نومبر2007ء کا اقدام ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کامقدمہ چلانے کے لیے ایک فٹ کیس ہے۔جس کی نہ تو پارلیمنٹ نے توثیق کی اور نہ ہی اسے سپریم کورٹ نے تحفظ فراہم کیا۔
اس کے برعکس 12اکتوبر1999ء کے اقدام کو پارلیمنٹ نے بھی تحفظ فراہم کیا اور ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے بھی اس کی منظوری دی۔احمدرضا قصوری کی سربراہی میں جنرل (ر) مشرف کی قانونی ٹیم یقیناًانکے دوسرے ایکشن کے دفاع میں مشکلات کاشکار ہوگی جو پر امید ہیں کہ ان کے لیڈر اپنے اقدام کا دفاع کرلیں گے۔سپریم کورٹ کے بینچ نے اگراس پٹیشن کومنظورکرلیا تو وہ وفاقی حکومت کو ہدایات کو دے سکتی ہے کہ مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیاجائے۔ اب اگراس طرح کا فیصلہ حالیہ دنوں میں آگیا تو یہ دلچسپ ہوگاکہ وفاقی حکومت اس پرکس طرح کے ردعمل کااظہار کرتی ہے۔
کیونکہ سابقہ پی پی حکومت نے عدالتی احکامات کے باوجود ایک اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف اصغرخان کیس میں مقدمہ قائم کرنے سے انکارکردیا تھا۔پاکستان میں سابق جرنیلوں کو سول عدالتوں کے سامنے آئین توڑنے پرغداری جیسے مقدمات کا سامنا کرنے کی روایت اس سے پہلے موجود نہیں ہے۔حتی کہ کسی تھری اسٹارجنرل کوبھی سول عدالت کے سامنے نہیں لایا گیا، مکمل جنرل یا آرمی چیف کی بات ہی اورہے۔تاہم موجودہ سپریم کورٹ نے حالیہ کچھ سالوں میں سابقہ جرنیلوں کے بارے میںخاصے مشکل فیصلے کیے ہیںجن میں سے اہم اصغر خان کیس ہے۔جب سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل(ر)اسد درانی کیخلاف 1990کے الیکشن میںکردار ادا کرنے پرمقدمہ قائم کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ 1990 کے الیکشن میںآئی ایس آئی سے رقوم لینے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کی جائیں۔پیپلز پارٹی کی حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کا ایک بولڈ فیصلہ نہ کرسکی۔ تاہم اس کیس میں اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کے بعد فیصلے پر عملدرآمد کیلئے عدالت کا رخ کرینگے۔سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سابق جرنیلوں پر سول کورٹ میں مقدمہ چلانے کا حکم دیا لیکن آرمی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور وعدہ کیا کہ ان لوگوں کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
جب سے مشرف پاکستان آئے ہیں، وہ خاصی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں، اگر تیسرے حلقے سے بھی انکے کاغذات مسترد ہوئے یہ ممکن ہے کہ انکی پارٹی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردے۔اب جبکہ مشرف اور انکی جماعت کے لبے سیکیورٹی سب سے اہم پریشانی ہے، سپریم کورٹ کے ان پٹیشنزکی سماعت کرنے سے مشرف مجبور ہوسکتے ہیں کہ وہ 3نومبر2007کے اقدام بارے کچھ رازوں سے پردہ اٹھا دیںکہ اورکون کون اس اقدام کے پیچھے تھا۔
جنرل (ر) مشرف، جنھیں سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف اور چوہدری نثارکی سفارش پرآرمی چیف بنایا تھا، اپنے سابق ادارے، جہاں انھوں نے 40 سال تک ملازمت کی،سے سخت مایوس ہیں کہ وہ کئی اہم فیصلوں میں ان کی مددکو نہیں آیا۔اب ان کے حمایتی کہتے ہیںکہ اگرمشرف کا ٹرائل کیاگیا تو وہ بتا دیں گے کہ 12اکتوبر1999اور 3نومبر 2007 کے اقدام کے پیچھے کون کون تھاجبکہ 12اکتوبر 1999کے اقدام کو سپریم کورٹ بھی تحفظ فراہم کرچکی ہے۔اب جب الیکشن ایک ماہ کے فاصلے پرہیں،اگر مشرف کا ٹرائل کیاگیا تویہ اگلی حکومت کیلیے بڑا ایشو ہوگا۔اگراگلی حکومت مسلم لیگ ن کی ہو اور مشرف کا ٹرائل ہو رہا ہو یا وہ جیل میںہوں تو یہ کیسا رہے گا۔اس کے لیے ابھی ایک لمبا راستہ طے کرنا باقی ہے لیکن ملک کے ایک طاقتور سابق حکمران کے برے دن آرہے ہیں۔