کوئی ادارہ دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا چیف جسٹس
ریٹرننگ افسر سیاسی قائدین کے غیر قانونی احکام کے اثر میں نہ آئیں، مٹیاری ،ٹنڈو آدم ،سکھر میں خطاب
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے قیام کے بغیر کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں، معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لیے آزاد اور مستند نظام عدل کی ضرورت ہے۔
آج کی عدلیہ پاکستان میں جمہوری نظام کی معاون اور مددگار ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے سیشن کورٹ مٹیاری میں ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداران اور وکلا سے خطاب اور ٹنڈو آدم میں ٹنڈو آدم بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مٹیاری میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ترسیل انصاف کے عمل میںکوئی سمجھوتہ ہوگا نہ ہی کوئی اس کو تاخیر کا شکار ہونے دیا جائے گا۔ دستور پاکستان میں آرٹیکل184اور199 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں، تا کہ اداروں کے اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔ کسی بھی ادارے کو دوسرے ادارے کے معاملات و اختیارات میں مداخلت کی قطعی اجازت نہیں، جج اور وکیل دونوں ہی نظام انصاف کا اہم جزو ہیں، اگر یہ دونوں مل کر کام کریں تو قابل اعتماد اور مضبوط نظام عدل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے ضلعی عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ موجودہ حالات میں عدلیہ اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے اور مقدمات کے جلد تصفیے کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عوام کی تکالیف کا مداوا ہو سکے۔ ججز میرٹ پر فیصلہ کریں تاکہ لوگوں کو یقین ہو کہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ اس ملک میں موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستور ساز اسمبلی کے ممبران کی حیثیت سے دستور پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور تکمیل میں وکلا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا کلیدی تعلق ہے، نہ صرف بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح بلکہ آزادی کی جدوجہد میں شامل دیگر نامور شخصیات کا تعلق بھی اسی شعبے سے تھا۔افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ آزاد عدلیہ، آزاد بار ایسوسی ایشن کی مرہو ن منت ہے۔
آزاد بار ایسوسی ایشن کا قیام بہت مشکل ہوتا ہے۔ انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اراکین بار کی ذمے داریاں بہت اہم ہیں۔حصول انصاف کے لیے عدلیہ سے رجوع کرنے والوں کی مشکلات سے عدلیہ بخوبی واقف ہے، ضلعی عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانا ناگزیر ہے۔ تمام ضلعی عدالتوں میں ججوں کی تعداد کو بڑھایا جائے تا کہ مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ ہو سکے کیونکہ انصاف میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ تقریب سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مشیر عالم، جسٹس خلجی عارف حسین اور ڈسٹرکٹ بار مٹیاری کے صدر علی اکبر شاہ نے بھی خطاب کیا۔ اس سے قبل چیف جسٹس نے سیشن کورٹ کے احاطے میں پودا لگایاجب کہ پولیس کے چاک و چوبند دستے نے انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔
چیف جسٹس سمیت دیگر مہمانوں کو سندھی ٹوپی اور اجرک کے تحائف بھی پیش کیے گئے۔ تقریب میں جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس سرمد جلال عثمانی، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مٹیاری سکندر لاشاری، ڈسٹرکٹ بار مٹیاری کے جنرل سیکریٹری پیرل مجیدانو سمیت دیگر بھی شریک تھے۔ ٹنڈو آدم میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ٹنڈو آدم بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب عہدیداران صدر عبدالحکیم کھوسو، نائب صدر عبداللہ خان، جنرل سیکریٹری الطاف حسین جونیجو، جوائنٹ سیکریٹری امان اللہ خان جدون، خزانچی، راشد حسین شاہ، لائبریرین نور محمد رند سے ان کے عہدوں کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کی عدلیہ پاکستان میں جمہوری نظام کی معاون اور مددگار ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ شب حیدرآباد میںحیدرآباد، ٹنڈو الہیار، جامشورو، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، ریٹرننگ افسران و اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے جوڈیشل افسران پر زور دیاکہ وہ الیکشن کے حوالے سے ملنے والے آئینی مینڈیٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ ایسے نمائندے منتخب ہو کر آئیں جن پر نااہلی کا لیبل نہ ہو۔ ہر شخص کو اپنے نمائندے کو چننے کا اختیار حاصل ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا لازمی ہے کہ امیدوار آئین کے تقاضوں پر پورا اترتاہو۔
آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا کی جانب سے کی جانے والی ہڑتالیں بسااوقات زیرِ التوا مقدمات کی طوالت میں مزید اضافے کاباعث بنتی ہیں، بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنی تجاویز منتخب نمائندوں کے ذریعے متعلقہ حلقوں تک پہنچائی جائیں۔ عدلیہ بطور محافظِ آئین خاص طور پرانتظامی عمل پر عدالتی نظر ِثانی کرنے کا اختیار رکھتی ہے تاکہ وہ اداروں اور افراد کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا جائزہ لے کر اس کی روک تھام کر سکے۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،ریٹرننگ و جوڈیشل افسران سیاسی قائدین کے غیر قانونی احکام کے اثر میں نہ آئیں۔
آج کی عدلیہ پاکستان میں جمہوری نظام کی معاون اور مددگار ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے سیشن کورٹ مٹیاری میں ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداران اور وکلا سے خطاب اور ٹنڈو آدم میں ٹنڈو آدم بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مٹیاری میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ترسیل انصاف کے عمل میںکوئی سمجھوتہ ہوگا نہ ہی کوئی اس کو تاخیر کا شکار ہونے دیا جائے گا۔ دستور پاکستان میں آرٹیکل184اور199 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں، تا کہ اداروں کے اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔ کسی بھی ادارے کو دوسرے ادارے کے معاملات و اختیارات میں مداخلت کی قطعی اجازت نہیں، جج اور وکیل دونوں ہی نظام انصاف کا اہم جزو ہیں، اگر یہ دونوں مل کر کام کریں تو قابل اعتماد اور مضبوط نظام عدل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے ضلعی عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ موجودہ حالات میں عدلیہ اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے اور مقدمات کے جلد تصفیے کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عوام کی تکالیف کا مداوا ہو سکے۔ ججز میرٹ پر فیصلہ کریں تاکہ لوگوں کو یقین ہو کہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ اس ملک میں موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستور ساز اسمبلی کے ممبران کی حیثیت سے دستور پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور تکمیل میں وکلا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا کلیدی تعلق ہے، نہ صرف بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح بلکہ آزادی کی جدوجہد میں شامل دیگر نامور شخصیات کا تعلق بھی اسی شعبے سے تھا۔افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ آزاد عدلیہ، آزاد بار ایسوسی ایشن کی مرہو ن منت ہے۔
آزاد بار ایسوسی ایشن کا قیام بہت مشکل ہوتا ہے۔ انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اراکین بار کی ذمے داریاں بہت اہم ہیں۔حصول انصاف کے لیے عدلیہ سے رجوع کرنے والوں کی مشکلات سے عدلیہ بخوبی واقف ہے، ضلعی عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانا ناگزیر ہے۔ تمام ضلعی عدالتوں میں ججوں کی تعداد کو بڑھایا جائے تا کہ مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ ہو سکے کیونکہ انصاف میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ تقریب سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مشیر عالم، جسٹس خلجی عارف حسین اور ڈسٹرکٹ بار مٹیاری کے صدر علی اکبر شاہ نے بھی خطاب کیا۔ اس سے قبل چیف جسٹس نے سیشن کورٹ کے احاطے میں پودا لگایاجب کہ پولیس کے چاک و چوبند دستے نے انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔
چیف جسٹس سمیت دیگر مہمانوں کو سندھی ٹوپی اور اجرک کے تحائف بھی پیش کیے گئے۔ تقریب میں جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس سرمد جلال عثمانی، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مٹیاری سکندر لاشاری، ڈسٹرکٹ بار مٹیاری کے جنرل سیکریٹری پیرل مجیدانو سمیت دیگر بھی شریک تھے۔ ٹنڈو آدم میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ٹنڈو آدم بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب عہدیداران صدر عبدالحکیم کھوسو، نائب صدر عبداللہ خان، جنرل سیکریٹری الطاف حسین جونیجو، جوائنٹ سیکریٹری امان اللہ خان جدون، خزانچی، راشد حسین شاہ، لائبریرین نور محمد رند سے ان کے عہدوں کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کی عدلیہ پاکستان میں جمہوری نظام کی معاون اور مددگار ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ شب حیدرآباد میںحیدرآباد، ٹنڈو الہیار، جامشورو، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، ریٹرننگ افسران و اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے جوڈیشل افسران پر زور دیاکہ وہ الیکشن کے حوالے سے ملنے والے آئینی مینڈیٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ ایسے نمائندے منتخب ہو کر آئیں جن پر نااہلی کا لیبل نہ ہو۔ ہر شخص کو اپنے نمائندے کو چننے کا اختیار حاصل ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا لازمی ہے کہ امیدوار آئین کے تقاضوں پر پورا اترتاہو۔
آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا کی جانب سے کی جانے والی ہڑتالیں بسااوقات زیرِ التوا مقدمات کی طوالت میں مزید اضافے کاباعث بنتی ہیں، بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنی تجاویز منتخب نمائندوں کے ذریعے متعلقہ حلقوں تک پہنچائی جائیں۔ عدلیہ بطور محافظِ آئین خاص طور پرانتظامی عمل پر عدالتی نظر ِثانی کرنے کا اختیار رکھتی ہے تاکہ وہ اداروں اور افراد کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا جائزہ لے کر اس کی روک تھام کر سکے۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،ریٹرننگ و جوڈیشل افسران سیاسی قائدین کے غیر قانونی احکام کے اثر میں نہ آئیں۔