سیاسی جھوٹ کی کوئی سزا

انتخابی مہم میں خوب جھوٹ بولا جائے گا جس کی ابتدا ہوچکی۔

اقامہ ظاہر نہ کرنے پر نا اہل کیے جانے والے وزیراعظم نواز شریف تو اپنی معمولی غلطی ظاہر نہ ہونے پر احتجاج کر رہے ہیں۔

ماضی میں قوم کے ساتھ سیاسی افراد نے جو بڑے بڑے جھوٹ بولے اور ملک تک دولخت کرادیا مگر کسی کو کوئی سزا نہیں ملی جس کے بعد اب جھوٹ ملکی سیاست میں کامیابی کے لیے اہم جز بن چکا ہے جس کے بغیر نہ سیاست چل سکتی ہے نہ جلسوں میں سیاست چمک سکتی ہے۔

نواز شریف کا کہناہے کہ میں بہتان اور جھوٹ کی بارش نہیں کرتا اور عمران اور مجھ میں یہی فرق ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی عمران خان سے گلا ہے کہ وہ ان پر بہتان لگاتے ہیں اور میری طرف سے عدالتی کارروائی پر عدالتوں میں آکر ثبوت دینا تو دور کی بات نوٹسوں کا جواب بھی نہیں دیتے۔

واضح رہے کہ شہباز شریف اور دیگر عمران خان کو جھوٹے الزامات پر ہتک عزت کے الزام میں اربوں روپے کے نوٹس دے چکے ہیں مگر عمران خان کے الزامات رکنے میں آرہے ہیں نہ وہ عدالتوں میں اپنی سچائی کے ثبوت پیش کررہے ہیں۔

1970 کے عام انتخابات کے وقت تو ملک میں جنرل یحییٰ کا مارشل لا ملک میں نافذ تھا اور ایک سال قبل ہی جنرل ایوب خان نے ملک کے سیاست دانوں کے مظاہروں سے تنگ آکر اقتدار جنرل یحییٰ کے حوالے کرکے تنہائی اختیار کرلی تھی اور ان کے اقتدار چھوڑنے سے دو سال قبل تاشقند معاہدے کو بنیاد بنا کر وزارت خارجہ چھوڑ کر بعد میں اپنی جماعت پیپلزپارٹی بنالی تھی، بھٹو صاحب تاشقند معاہدے کی وجہ سے اپنے سابق صدر پر متعدد الزامات عاید کرتے تھے اورکہتے تھے کہ وہ معاہدہ تاشقند کی بلی باہر لائیں گے۔

قوم منتظر رہی صدر ایوب اقتدار چھوڑ گئے مگر بھٹو صاحب تاشقند کے تھیلے سے بلی باہر نہیں لائے اور نہ انھوں نے اقتدار میں آکر معاہدہ تاشقند کا کبھی ذکر کیا۔

ملکی سیاست میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کے منشور میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ متعارف کرایا اور غریبوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے قوم کو ''روٹی، کپڑا اور مکان'' دینے کے وعدے پر پنجاب اور سندھ میں کامیابی حاصل کی مگر ملک کے بڑے صوبے مشرقی پاکستان اور دو چھوٹے صوبوں بلوچستان اور سرحد میں عوام نے انھیں مسترد کردیا تھا اور دو صوبوں کی اکثریت پر اقتدار پاکستان کا نہیں مل سکتا تھا اس لیے ''اِدھر ہم اُدھر تم'' کا نعرہ لگا اور جنرل یحییٰ نے اقتدار پر رہنے کے لیے مشرقی پاکستان میں مکمل کامیابی حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا جس کا نتیجہ ملک دولخت ہوجانے کا نکلا اور بقایا پاکستان کا اقتدار پیپلزپارٹی کو ملا۔


پی پی نے پنجاب، سندھ کے بعد سرحد اور بلوچستان کی جمہوری حکومتوں کی جگہ اپنی حکومت بنالی تھی اور پورے ملک میں مکمل مطلق العنان حکومت کے بعد بھی بھٹو 1972 سے 1977 تک اقتدار میں رہنے کے بعد ہی عوام کو روٹی، کپڑا و مکان دے سکے نہ اسلامی سوشلزم کے سنہری خواب سے عوام کی حالت بدلی۔

طویل مارشل لا میں بھٹو پھانسی چڑھ گئے اور پیپلزپارٹی کو زندگی دے گئے اور گیارہ سال بعد 1988 میں جب پیپلزپارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی تو محترمہ بے نظیر اپنے والد کے دیے تمام نعرے بھلا چکی تھیں۔ 1977 کے انتخابات میں بھٹو مخالف 9 جماعتی اتحاد نے نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا اعلان کیا تھا مگر وزیراعظم بھٹو نے انھیں اقتدار سے دور کردیا جس کے نتیجے میں تحریک چلی۔

مارشل لا لگا اور اسلامی جمہوری اتحاد نے 1990 میں کامیابی حاصل کرکے نواز شریف کو وزیراعظم بنواکر ان سے نظام مصطفی کے نفاذ کا مطالبہ کیا جس پر انھوں نے توجہ نہ دی کیونکہ نظام مصطفی کا وعدہ آئی جے آئی کا تھا نواز شریف کا نہیں۔ جس پر آئی جے آئی والے انھیں چھوڑ گئے اور پھر کبھی یہ نعرہ نہ لگ سکا اور آئی جے آئی بھی اپنے انجام پر پہنچ چکا تھا۔

1988 سے 2018 آگیا، ان 30 سالوں میں 3 بار نواز شریف، دو بار بے نظیر بھٹو وزیراعظم رہیں۔ پانچ سال روشن خیال صدر جنرل پرویز کی حکومت رہی جو جمہوری تو نہیں مگر اس میں عوام کو اتنی پریشانیاں نہیں ملیں جتنی 2008 کے بعد سے پی پی اور ن لیگی حکومتوں میں ملیں۔

30 سال میں 21 سال جمہوری حکومتیں رہیں اور جنرل مشرف نے اپنے نو سالہ دور میں 21 سال تک برسر اقتدار رہنے والی مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو جلا وطن ہونے پر مجبور کیا تھا اور دونوں ہی پارٹیوں کے لوگ اقتدار میں رہے اور وہ دونوں پارٹیوں کی حکومتوں پر کرپشن کا الزام لگاتے رہے، انھوں نے کبھی نہیں کہاکہ دونوں پارٹیوں نے عوام سے مسلسل جھوٹ بولا اور عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔

عدلیہ نے دو وزرائے اعظم کو نا اہل کیا مگر دونوں کی سیاسی پارٹیوں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ انھوں نے انتخابات کے موقعے پر جو منشور دیے یا عوام سے کیے وعدے پورے نہ کرکے جھوٹ پہ جھوٹ بولا اس کا کیا ہوگا۔ کیا دونوں پارٹیوں کے سربراہ صادق و امین تھے۔ دونوں نے آئین سے کھلواڑ کیا، من مانے فیصلے اور اقربا پروری کی، عوام کو دھوکا دیا، جس کا انھیں کوئی حق نہیں تھا مگر مسلسل جھوٹ بولا گیا۔

نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے لوڈ شیڈنگ ختم کرکے اپنا وعدہ پورا کردیا مگر ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اب بھی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک اور اندرون ملک بجلی نظام کا دہرا معیار ہے۔ کہیں کہیں اب بھی لوڈ شیڈنگ ہے حکومتی دعوے مکمل سچ نہیں ثابت ہورہے مگر حکمرانوں سے ان کے جھوٹوں پر جواب طلبی نہیں ہورہی۔

سیاسی رہنما روز جھوٹ بول رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں خوب جھوٹ بولا جائے گا جس کی ابتدا ہوچکی مگر سیاسی جھوٹوں کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں تو کیا وہ 63،62 کی پکڑ میں نہیں آسکتے؟
Load Next Story