گداگری امت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ

زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ گداگری کے لیے بھی جدید ذرائع کا استعمال شروع ہوگیا ہے۔

زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ گداگری کے لیے بھی جدید ذرائع کا استعمال شروع ہوگیا ہے۔ فوٹو: فائل

KHYBER AGENCY/ISLAMABAD:
ایک اخباری سروے کے مطابق پوری دنیا میں جو لوگ گداگری کرتے ہیں اور بھیک پر اپنی زندگی گزارتے ہیں، ان میں پچیس فی صد تعداد مسلمانوں کی ہے، یعنی ہر چار بھکاریوں میں سے ایک مسلمان ہوتا ہے۔

یہ نہایت افسوس اور شرم کی بات ہے کہ جس امت کے پیغمبر نے تعلیم دی ہو کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، گداگری کے لیے وہ امت مشہور ہوجائے، یہ بات بہت کڑوی ہے، لیکن سچائی پر مبنی ہے۔

آج کل ہماری مساجد، مذہبی مقامات اور دینی اجتماعات کی ایک پہچان گداگروں کا اژدحام اور ایک خاص لَے اور دھن میں ان کی طرف سے سوالیہ کلمات کی تکرار بھی ہے، ان میں بعض کے اندر الحاح کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے اور آپ کے لیے ان کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا دشوار ہوتا ہے، بعض کی جرأتِ رندانہ بھی قابل دید ہوتی ہے، اگر آپ نے انہیں بھیک نہیں دی یا بھیک کی مطلوبہ مقدار نہیں دی، تو ان کی خشمگیں نگاہ کو سہے بغیر چارہ نہیں، کچھ ایسے فرزانے بھی ہیں جو آپ کو دوچار صلواتیں سنانے سے بھی نہیں چوکتے، وہ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ ناواقف آپ کو ان کا مقروض سمجھ بیٹھے۔

مذہبی مقامات کے علاوہ سیاحتی مقامات، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ اور ٹریفک سگنل کی جگہیں جہاں گاڑیوں کے رکنے کی نوبت آتی رہتی ہے، اس گروہ کے پسندیدہ اور مستجاب مقامات ہیں۔ اس لیے یہاں ان کی وافر تعداد نہ صرف یہ کہ آموجود ہوتی ہے، بل کہ کمالِ اخلاص اور کمالِ استقامت کے ساتھ صبح کی پَو پھٹنے سے لے کر رات گئے تک اپنے محاذ پر ڈٹی رہتی ہے۔

پولیس والوں کا محصول اور گاہے ڈنڈوں کے ذریعے ان کی تنبیہ اور دینے والوں کی ڈانٹ ڈپٹ ان کو نہ ملول خاطر کرتی ہے اور نہ ان کے پائے استقامت میں کوئی تزلزل آنے دیتی ہے، اس لحاظ سے ثابت قدمی میں وہ ایک نمونے کا درجہ رکھتے ہیں۔

یہ گداگر بھی انواع و اقسام کے ہیں، کچھ صحت مند و توانا، کچھ واقعی مریض اور زیادہ تر مصنوعی مریض، مریض اور معذور عام طور پر بے کار شمار کیے جاتے ہیں، لیکن اس میدان میں وہ نہایت کارآمد اور مفید ہیں، اسی لیے بہت سے صحت مند بھکاری نابینا اور معذور فقیروں کا تعاون حاصل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے پتھر دلوں کو موم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، ان میں بچے بھی ہیں، جوان بھی اور بوڑھے بھی، مرد بھی ہیں اور خواتین بھی، کم سن لڑکیاں بھی جوان لڑکیاں اور سن رسیدہ عورتیں بھی گداگری کے اس پیشے میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔

ایسے گروہ بھی پکڑے گئے ہیں جو دیہاتوں اور دور دراز علاقوں سے بچوں کو پکڑ کر لاتے ہیں اور انہیں کسی قدر معذور بناکر ان سے گداگری کراتے ہیں۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ گداگری کے لیے بھی جدید ذرائع کا استعمال شروع ہوگیا ہے، چناں چہ بعض فقراء انٹرنیٹ کی مدد سے عالمی سطح پر اپنی رسائی کو وسیع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گداگروں کا یہ گروہ اس کو ایک آسان اور سہولت بخش ذریعۂ معاش تصور کرتا ہے۔ اور وہ کثیر رقم روزانہ جمع کرلیتے ہیں۔ خاص مواقع جیسے رمضان المبارک اور عید وغیرہ میں تو اس میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ اس پیشے سے دست بردار ہونے کو کسی طور تیار نہیں ہیں۔

اگر آپ انہیں کام کرنے کو کہیں یا خود اپنے یہاں کام کرنے کی دعوت دیں تو وہ ایسا منہ بنائیں گے کہ گویا آپ نے ان کی بے عزتی کی ہے۔ غرض وہ اپنے پیشے پر قانع بھی ہیں اور مطمئن بھی اور انہیں اس پر نہ کوئی حجاب ہے اور نہ عار! اس بات سے مزید دکھ ہوتا ہے کہ ان میں بہت ہی قابل لحاظ تعداد ہمارے مسلمان بھائیوں کی ہے اور جس امت کو سب سے بڑھ کر غناء اور استغناء کی تعلیم دی گئی ہے، وہی اس اخلاقی بیماری میں پیش پیش ہے۔

اسلام سے پہلے بعض مذاہب میں مذہبی لوگوں کے لیے کسب ِمعاش کی اجازت نہیں تھی اور ان کا گزر اوقات اسی طرح ہوتا تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے دست ِسوال دراز کریں اور لوگوں کی نذر و نیاز پر زندگی گزاریں۔

ہندوؤں کے یہاں برہمن کے حقوق میں یہ بات شامل تھی کہ لوگ اسے دان کیا کریں۔ بدھشٹوں کے یہاں مذہبی راہ نماؤں اور بھگشوؤں کو کسب معاش کی ممانعت ہے اور وہ لوگوں کی دچھنا پر زندگی گزارا کرتے تھے، عیسائیوں کے یہاں جب رہبانیت اور ترکِ دنیا کے فلسفہ نے قبولِ عام حاصل کیا تو نہ صرف مذہبی راہ نما بل کہ عوام میں بھی زاہد قسم کے لوگوں نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ وہ کسب ِمعاش چھوڑ دیں اور لوگوں کے دیے ہوئے پر اپنی زندگی گزاریں۔ لیکن اسلام نے اَوّل روز سے ہی کسب ِمعاش کو ضروری قرار دیا، قرآن نے کہا کہ اللہ کی بندگی سے فارغ ہونے کے بعد کسب ِمعاش کی کوشش کرنی چاہیے اور مال کو فضل الٰہی سے تعبیر کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تجارت فرمائی، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور اکابر صحابہؓ نے تجارت کی، حضرت علیؓ اور بہت سے صحابہؓ نے محنت و مزدوری کر کے اپنی ضروریات پوری کیں اور تلاشِ رزق کی تحسین فرمائی گئی۔

اسلام نے توکل کی تعلیم ضرور دی، لیکن لوگوں نے جو بے عملی اور فرائض سے پہلو تہی کو توکل کا نام دے رکھا تھا، اس کی اصلاح بھی فرمائی۔ اسلام نے بتایا کہ توکل یہ نہیں ہے کہ اسبابِ دُنیا کو ترک کر دیا جائے، بل کہ توکل اسباب کو اختیار کرنے کے بعد نتائج کو اللہ پر چھوڑ دینے کا نام ہے۔ اس لیے کسب ِمعاش توکل کے منافی نہیں۔

گداگری پیدا ہی اس لیے ہوتی ہے کہ انسان کسب ِمعاش کی تگ و دو سے دل چرانے لگے، اس کے سدباب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف کسب ِمعاش کی اہمیت کو واضح فرما کر گداگری کے اصل سبب کو ختم کرنا چاہا۔ اور دوسری طرف گداگری کی مذمت فرمائی اور اسے سختی سے منع کیا۔ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کچھ سوال کیا، آپ نے ان سے فرمایا کہ: تمہارے پاس کیا کچھ سامان ہے؟ انہوں نے کہا میرے پاس تو محض ٹاٹ اور پیالا ہے، آپ نے وہ دونوں چیزیں منگوائیں اور ان کی مالیت لگائی، ایک صاحب نے ایک درہم قیمت لگائی، دوسرے شخص نے دو درہم، آپ نے اسے دو درہم میں فروخت کر دیا، پھر ایک درہم میں کلہاڑی کا پھل منگایا اور کلہاڑی بنا کر اس کے حوالے کردیا اور ایک درہم اسے دے کر ارشاد ہوا کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کریں اور کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر لائیں اور فروخت کریں اور ایک ماہ تک پھر کہیں بھیک مانگتے ہوئے نظر نہیں آئیں۔ ان صاحب نے اس ہدایت پر عمل کیا اور ایک ماہ کے بعد اس حال میں تشریف لائے کہ کئی درہم ان کے پاس موجود تھے اور وہ گداگری کو چھوڑ چکے تھے۔ (سنن ابی داؤدؓ)


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''یہ بات کہ تم اپنی پیٹھ پر لکڑی کے گٹھے کاٹ کر لاؤ اور اسے فروخت کرو اس سے بہتر ہے کہ تم لوگوں کے سامنے دست ِسوال پھیلاؤ، وہ چاہیں تو دے دیں، چاہے تو نہیں دیں۔ ''

(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اسعفاف فی المسئلۃ، عن الزبیر بن العوامؓ)

حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ دو شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کچھ طلب کیا۔ آپ نے مشورہ دیا کہ جنگل جاؤ، لکڑی کاٹو اور اسے فروخت کرو، انہوں نے ایسا ہی کیا، پہلے لکڑیاں بیچ کر کھانے کی اشیاء خریدیں، پھر سونا خریدا، پھر سواری کے لیے گدھے خریدے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم میں برکت رکھی ہے۔ (مجمع الزوائد)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے سے صحابہؓ کو اس درجہ منع فرمایا اور اس کی تعلیم دی کہ وہ معمولی چیزیں مانگنے سے بھی احتراز کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کا حال یہ تھا کہ اگر اونٹنی کی لگام نیچے گرجاتی، تو اونٹنی کو بٹھاتے اور خود لگام لیتے، لگام بھی دوسروں سے مانگنے کے روادار نہیں تھے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت ثوبانؓ دونوں کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عہد لیا کہ کسی سے سوال نہ کریں، یہاں تک کہ اگر کوڑا نیچے گرجائے تو وہ بھی دوسرے سے نہ مانگیں۔ (مجمع الزوائد)

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مستغنی ہونے کے باوجود سوال کرے، وہ اپنے لیے جہنم کی چنگاریوں میں اضافہ کر رہا ہے، دریافت کیا گیا: مستغنی ہونے سے کیا مراد ہے؟ ارشاد ہوا : جس کے پاس رات کا کھانا موجود ہو۔ گویا جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا موجود ہو اس کے لیے دست ِسوال دراز کرنا روا نہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ سوال قیامت کے دن صاحب ِسوال کے چہرے پر خراش کی صورت میں ظاہر ہوگا، اب جو چاہے اسے اپنے چہرہ پر باقی رکھے۔ حضرت حبشی بن جنادہؓ کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ جس نے فقر و محتاجی کے بغیر سوال کیا، گویا وہ چنگاری کو کھاتا ہے۔

حضرت ثوبانؓ کی روایت میں ہے کہ پیسہ رکھنے کے باوجود سوال کرنا قیامت کے دن اس کے چہرے پر عیب کی صورت اختیار کر لے گا۔ غور کیجیے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں اگر چہرے پر بدنما دھبا آجائے تو انسان اس کو دور کرنے کے لیے کتنا پریشان ہوتا ہے، آخرت کی دائمی زندگی میں جب اہل جنت خوب صورت ترین شباہت میں ہوں گے، انسان کو اپنے عیب دار اور داغ دار چہرے پر کتنی شرم ساری ہوگی، خاص کر ایسی صورت میں کہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ رنگ و نور کی اس بستی میں کوئی شخص اتفاقی اور پیدائشی طور پر بدصورت نہیں ہے، بل کہ اس کی بدصورتی اس کی بداعمالیوں کا عکس ہے، کتنا عجیب ہے کہ بننے سنورنے والا انسان اس دائمی بدروئی اور بدصورتی کے بارے میں فکر مند نہ ہو!

گداگری، فقر و احتیاج کا نتیجہ نہیں، بل کہ اس کا اصل سبب تن آسانی و سہل انگاری اور مفت خوری و بطن پروری کی خُو ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نے حیا اور غیرت کی چادر کو تار تار کر دیا ہے۔ اگر انسان میں قوتِ ارادی اور خود داری ہو اور اپنی عزت و آبرو عزیز ہو، تو وہ دوسروں کے سامنے دست ِسوال نہیں پھیلا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو عفیف و آبرو مند رکھنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے عفیف رکھتے ہیں اور جو مستغنی رہنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے استغنا عطا فرماتے ہیں۔ (مجمع الزوائد بہ حوالہ مسند احمد)

خود داری کے اسی مزاج کو باقی رکھنے کے لیے اسلام نے زکوٰۃ کا اجتماعی نظام قائم کیا کہ لوگ بیت المال میں زکوٰۃ جمع کریں اور بیت المال ضرورت مندوں سے حسب ِضرورت تعاون کرے، کیوں کہ سرکاری ادارہ سے کوئی مدد حاصل کرنے کی صورت میں انسان کا جذبہ خود داری ختم نہیں ہوتا اور حجاب و حیاء کی کیفیت باقی رہتی ہے۔

جب انسان ایک دوسرے سے سوال کرنے لگتا ہے تو پہلے زبان کھولے نہیں کھلتی، دل پر پتھر رکھ کر اپنا مطلب بتاتا ہے، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ نہ تو آنکھوں میں خجالت کی کیفیت باقی رہتی ہے، نہ زبان کو اظہارِ مدعا میں کوئی جھجھک باقی رہتی ہے اور نہ ہاتھ کو لوگوں کے سامنے دراز ہونے میں کوئی عار!

کسی بھی قوم کے لیے یہ بات نہایت شرم ناک ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے جو قوم کے مستقبل ہوتے ہیں، جوان مرد و عورت جن میں محنت اور تگ و دو کی صلاحیت ہوتی ہے، جو قوم کا اثاثہ اور اس کے ہاتھ پاؤں ہیں، ان میں بے عملی اور بے ضمیری پیدا ہوجائے، اس سے زیادہ قابل افسوس بات اور کیا ہوسکتی ہے!

گداگری کے سدباب کے لیے مثبت اور منفی اقدامات کی ضرورت ہے، مثبت اقدام یہ ہے کہ ایسے بچوں کو تعلیم میں لگایا جائے، بہت سے سرکاری و غیرسرکاری ادارے ہیں جہاں بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام ہے، انہیں ایسے اداروں میں پہنچایا جائے، جو خواتین اور مرد کام کرنے کے لائق ہیں انہیں مزدوری پر لگایا جائے، آج کل مزدوروں کی کھپت بہت زیادہ ہے، اصل دشواری تعلیم یافتہ بے روزگاروں کے لیے ہے اور گداگری کے پیشے میں زیادہ تر ناخواندہ اور ان پڑھ لوگ ہیں، انہیں محنت مزدوری پر آمادہ کیا جاسکتا ہے، جو لوگ واقعی جسمانی اعتبار سے معذور ہوں ان کے لیے اقامت گاہیں قائم کی جائیں، یا گورنمنٹ کی طرف سے بنے ہوئے رفاہی اداروں تک ان کو پہنچایا جائے۔

منفی اقدام سے مراد یہ ہے کہ گداگری کی حوصلہ شکنی کی جائے، مسجدوں اور درگاہوں کے ذمے داران انہیں وہاں بیٹھنے اور بھیک مانگنے سے روکیں، مذہبی اجتماعات، جمعہ و عیدین کے مواقع پر بھی انہیں بھیک مانگنے سے منع کیا جائے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جائے، ان کو بھیک نہ دی جائے، یہ بھیک مانگیں تو کام کرنے کی ترغیب دی جائے، اس طرح ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور یہ باعزت طریقہ پر کمانے کے عادی ہوں گے۔

بہت سے لوگ جمعہ وغیرہ میں کھلے پیسے لے کر آتے ہیں اور روپیہ دو روپیہ ہر فقیر کو دیتے چلے آتے ہیں، بہ ظاہر یہ کارِ خیر ہے، لیکن بالواسطہ یہ اپنی قوم کے ایک گروہ کو گداگری کا عادی بنانا ہے، اس لیے اس سے اجتناب ہی قوم کے مفاد میں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ ایک طرف آپ نے بھیک مانگنے والوں کو دینے سے انکار کردیا اور دوسری طرف انہیں محنت و مزدوری کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب بھی دی اور اس کی تدبیر بھی فرمائی، اگر ہم اپنی قوم کو اس لعنت سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان میں یہ مزاج پیدا کرنا ہوگا کہ وہ اپنے گاڑھے پسینے کوبہا کر کمائیں اور آدھے پیٹ کھائیں، لیکن دوسروں کے سامنے سوال کے ہاتھ پھیلا کر بے آبروئی کا راستہ اختیار نہ کریں۔
Load Next Story