کیپ ٹاؤن شہر نہیں آخری وارننگ ہے
دنیا کے کئی ارب پتیوں نے یہاں املاک خریدی ہوئی ہیں۔
RAWALPINDI:
اس بار سردیوں اور بہار میں بارشیں معمول سے چالیس فیصد کم ہوئی ہیں۔لہذا دو بڑے ڈیموں ( تربیلا اور منگلا ) کی جھیلیں بھی آدھی بھری ہوئی ہیں۔چنانچہ اس کا اثر ربیع کی بوائی اور فصل پر بھی پڑ رہا ہے اور پھر یہ اثر ہر طرح کی مارکیٹنگ بھول بھلئیوں سے ہوتا جیب کے راستے ہمارے کچن تک پہنچے گا اور پھر میڈیا میں نایابی ، کمیابی ، ناقص سرکاری پالیسی وغیرہ وغیرہ کی چیختی دھاڑتی ہیڈ لائنز بنیں گی۔
کمر توڑ مہنگائی کا روائیتی مرثیہ پڑھا جائے گا۔یہ بھی پانچ سو اکیسویں بار کہا جائے گا کہ تربیلا اور منگلا میں جس تیزی سے مٹی بھر رہی ہے اس کے بعد اتنی ہی گنجائش کے کم ازکم تین ڈیموں کی ہنگامی ضرورت ہے تاکہ ہر سال اکیس ارب روپے مالیت کا جو پانی کھیت کے بجائے براہِ راست سمندر پی جاتا ہے اس کا اوپائے ہو سکے۔لہذا سیاسی اتفاقِ رائے سے کچھ کیا جائے اور جلد کیا جائے۔
کچھ سیاسی ماحولیاتی گرو دو سو بتیسویں بار یہ بھی بتائیں گے کہ بھارت ہمارے حصے کا پانی روک رہا ہے اور آبی کمیشن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔کچھ خالص ماحولیاتی ماہرین چار سو انچاسویں بار یہ مشورے بھی دیں گے کہ جو پانی دستیاب ہے اسے کیسے کفائیت شعاری سے استعمال کر کے اتنی ہی زرعی پیداوار حاصل ہو سکتی ہے جتنی اندھا دھند پانی ضائع کر کے مل رہی ہے۔
درجن بھر اقتصادی ماہرین کسی ٹاک شو میں اڑتیسویں بار یہ بھی بتائیں گے کہ پاکستان میں پانی کی قیمت دیگر ممالک کے مقابلے میں کتنی کم ہے۔اگر ہمیں نئے آبی منصوبوں کو ترقی دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچنا ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت آبی وسائل کے عاقلانہ استعمال کی حکمتِ عملی اختیار کرنی ہے تو پھر گیس اور بجلی کی طرح پانی کے بھی نجی اور کمرشل ریٹ مقرر کر کے '' جو جتنا پانی استعمال کرے اتنا پیسہ دے '' کے فارمولے پر چلنا ہوگا۔تب ہی لوگوں میں عقل اور خزانے میں پیسہ آئے گا۔
اس برس بھی مارننگ شوز میں بتایا جائے گا کہ کیسے ہم اپنے گھروں میں ٹونٹی کھلی نہ چھوڑیں تو اتنے لیٹر پانی روزانہ بچایا جا سکتا ہے جو کسی اور ضرورت مند کے کام آئے گا۔کوئی ٹیکنالوجسٹ ایک سو انیسویں مرتبہ آئے گا اور بتائے گا کہ کس طرح استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کر کے پھر سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور کون سا تقطیری آلہ کتنے میں دستیاب ہے جسے اگر آپ کچن کے نل پر فٹ کردیں تو آپ کو اس کے ذریعے جراثیم سے پاک صحت مند پانی بہت سستے میں مل سکتا ہے۔
خشک سالی کا بحران کچھ اور زیادہ ہوا تو آپ کو بڑے شہروں میں کچھ مقامات پر نمازِ استسقا کی تصاویر بھی اخبار اور ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کو ملیں گی۔ ممکن ہے کہ صوبائی اطلاعاتی محکمے یہ اشتہار بھی ایک آدھ ہفتے کے لیے چلوا دیں کہ پانی کے استعمال میں کفایت شعاری آپ کا قومی فریضہ ہے۔
اور پھر جون جولائی میں مون سون آئے گا۔ہو سکتا ہے پہلے کی طرح اتنا پانی آ جائے کہ اس بار بھی سنبھالا نہ جا سکے۔آخر سال میں صرف دس روز کے لیے پانی جمع کرنے کی گنجائش رکھنے والے قومی ذخائر مزید کتنے لاکھ کیوسک پانی سنبھال سکتے ہیں۔چنانچہ اس بار آنے والا سیلاب بھی سمندر خوشی خوشی جذب کر لے گا اور پھر اس پر شکر ادا کیا جائے گا کہ چلو پانی کی سطح تو نیچی ہوئی۔اور پھر الیکشن کا طوفانِ بدتمیزی شروع ہوجائے گا۔ لوگ باگ سب آبی مصائب بھول بھال کر زندہ باد مردہ باد کی دھما چوکڑی میں لگ جائیں گے۔تو یہ ہے ہماری وفاقی ، صوبائی اور قومی واٹر مینجمنٹ پالیسی۔
مگر میں اتنی طویل تقریرِ دل پذیر کے ذریعے آخر کہنا کیا چاہ رہا ہوں۔ کچھ نہیں کہنا چاہ رہا۔بس ایک کہانی سنانا چاہ رہا ہوں۔
کیپ ٹاؤن کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔اس کا شمار براعظم افریقہ کے متمول ترین شہروں میں ہوتا ہے۔جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ اسی شہر میں قائم ہے۔دنیا کے کئی ارب پتیوں نے یہاں املاک خریدی ہوئی ہیں۔نیلا بحر اوقیانوس مٹیالے بحرِ ہند سے کیپ ٹاؤن کے کناروں پر ہی گلے ملتا ہے۔
پینتالیس لاکھ آبادی ہر جدید اور خوشحال شہر کی طرح دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ خادم اور مخدوم۔ جو مخدوم ہیں وہ بہت ہی مخدوم ہیں۔سب کے رنگ صاف اور تمتماتے ہوئے۔ زندگی کا محور بڑے بڑے سوئمنگ پولز والے ولاز ، سایہ دار گلیاں، تازہ ماڈل کی گاڑیاں، فارم ہاؤسز ، کارپوریٹ بزنس اور پارٹیاں۔ شہر کے اسی فیصد آبی وسائل بیس فیصد مخدوموں کے زیرِ استعمال ہیں اور باقی اسی فیصد خدام کو بیس فیصد پانی میسر ہے۔
دس برس پہلے کچھ پاگل ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ بڑھتی آبادی ، اوور ڈویلپمنٹ ( اس کا اردو ترجمہ میں نہیں کر سکتا ) اور ماحولیاتی تبدیلی جلد ہی کیپ ٹاؤن کو ناقابلِ رہائش بنا دے گی۔ظاہر ہے یہ وارننگ سن کر سب ہنس پڑے ہوں گے۔
اب سے تین برس پہلے تک کیپ ٹاؤن کشل منگل تھا۔شہر کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے گرد و نواح میں چھ ڈیموں کے ذخائر میں ہر وقت پچیس ارب گیلن پانی جمع رہتا تھا۔امرا کو ہر ہفتے سوئمنگ پول میں پانی بدل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔کتوں کو بھی روزانہ دو بار پھواری غسل دینا معمول تھا۔کار تو ظاہر ہے روزانہ دھلتی ہی ہے ، باغ کو مالی پانی نہیں دے گا تو مالی کی ضرورت کیا۔
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ خشک سالی آ گئی ، آبی ذخائر بھرنے والے پہاڑی، نیم پہاڑی اور میدانی نالوں کی زبانیں نکل آئیں۔دھیرے دھیرے پچھلے برس اگست سے آبی قلت کیپ ٹاؤن کے ہر طبقے کو چبھنے لگی۔دسمبر تک یہ آبی ایمرجنسی میں بدل گئی اور آج حالت یوں ہے کہ کیپ ٹاؤن کا حلق تر رکھنے والے چھ بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح چوبیس فیصد رہ گئی۔جب یہ دس فیصد پر پہنچ جائے گی تو پانی عملاً کیچڑ کی شکل میں ہی دستیاب ہوگا۔
چنانچہ آبی مارشل لا نافذ کرنا پڑ گیا ہے۔جن آبی ذخائر اور نالوں میں فی الحال رمق بھر پانی موجود ہے وہاں آبی لوٹ مار، ڈکیتی ، پانی کی چھینا جھپٹی اور چوری روکنے کے لیے مقامی پولیس کا اینٹی واٹر کرائم پٹرول متحرک ہے۔غربا کو پانی کی فراہمی کے لیے دو سو ہنگامی آبی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں سے پچاس لیٹر روزانہ فی کنبہ راشن حاصل کیا جا سکتا ہے ( یہ پانی آٹھ منٹ تک باتھ شاور سے گرنے والے پانی کے برابر ہے )۔
سوئمنگ پول ، باغبانی اور گاڑیوں کی دھلائی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔فائیو اسٹار ریسٹورنٹس پیپر کراکری استعمال کر رہے ہیں۔اچھے ہوٹلوں میں دو منٹ بعد شاور خود بخود بند ہو جاتا ہے۔یہ بحران مزید سنگین جولائی تک ہوگا جب پہلے ہفتے میں ڈے زیرو آ جائے گا۔ڈے زیرو کا مطلب ہے استعمالی پانی کی نایابی۔حکومت ابھی سے ڈے زیرو سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔
کیپ ٹاؤن دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بننے والا ہے۔ اس کے پیچھے ایک سو انیس اور شہر کھڑے ہیں۔ان میں بھارت کا آئی ٹی کیپٹل بنگلور اور پاکستان کا کراچی ، لاہور اور کوئٹہ بھی شامل ہے۔آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں۔ سنبھلنے کی مہلت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
مگر جس ریاست میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر زہر کا پیالہ بن گئی ، جہاں کراچی کو پانی فراہم کرنے والی کلری جھیل کو ہالیجی سے میٹھا پانی فراہم کرنے والی نال کو آلودہ پانی لے جانے والی نہر ( ایل بی او ڈی ) نے کاٹ ڈالا ، جہاں کوئٹہ کی ہنا جھیل سوکھے پاپڑ میں بدل گئی ، جہاں دریاؤں اور سمندر کے ساحل کو خام کچرے اور صنعتی فضلے کا کوڑا گھر بنا کر اجتماعی ریپ ہو رہا ہے ، زہریلے پانی سے سبزیاں اگا کے انھیں فارم فریش سمجھ کے ہم اپنے بچوں کے پیٹ میں اتار رہے ہوں ، میرے اپنے شہر رحیم یار خان میں زیرِ زمین پانی میں سنکھیا کی مقدار اتنی بڑھ گئی ہو کہ اب غریب لوگ نہروں سے پینے کے لیے پانی چرا رہے ہیں وہاں کیپ ٹاؤن کیا بیچتا ہے۔
حالات جس طرف جا رہے ہوں اور ان کی سنگینی کا جس قدر احساس ہے اور اس احساس کو مٹانے کے لیے جس طرح ہر فورم پر بس بتایا جا رہا ہے۔اس کے بعد وہ وقت دور نہیں جب کسی عدالت کا ازخود نوٹس تیرانے کے لیے بھی صاف چھوڑ گدلا پانی میسر ہو۔
وضو کو مانگ کر پانی خجل نہ کر اے میر
وہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
اس بار سردیوں اور بہار میں بارشیں معمول سے چالیس فیصد کم ہوئی ہیں۔لہذا دو بڑے ڈیموں ( تربیلا اور منگلا ) کی جھیلیں بھی آدھی بھری ہوئی ہیں۔چنانچہ اس کا اثر ربیع کی بوائی اور فصل پر بھی پڑ رہا ہے اور پھر یہ اثر ہر طرح کی مارکیٹنگ بھول بھلئیوں سے ہوتا جیب کے راستے ہمارے کچن تک پہنچے گا اور پھر میڈیا میں نایابی ، کمیابی ، ناقص سرکاری پالیسی وغیرہ وغیرہ کی چیختی دھاڑتی ہیڈ لائنز بنیں گی۔
کمر توڑ مہنگائی کا روائیتی مرثیہ پڑھا جائے گا۔یہ بھی پانچ سو اکیسویں بار کہا جائے گا کہ تربیلا اور منگلا میں جس تیزی سے مٹی بھر رہی ہے اس کے بعد اتنی ہی گنجائش کے کم ازکم تین ڈیموں کی ہنگامی ضرورت ہے تاکہ ہر سال اکیس ارب روپے مالیت کا جو پانی کھیت کے بجائے براہِ راست سمندر پی جاتا ہے اس کا اوپائے ہو سکے۔لہذا سیاسی اتفاقِ رائے سے کچھ کیا جائے اور جلد کیا جائے۔
کچھ سیاسی ماحولیاتی گرو دو سو بتیسویں بار یہ بھی بتائیں گے کہ بھارت ہمارے حصے کا پانی روک رہا ہے اور آبی کمیشن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔کچھ خالص ماحولیاتی ماہرین چار سو انچاسویں بار یہ مشورے بھی دیں گے کہ جو پانی دستیاب ہے اسے کیسے کفائیت شعاری سے استعمال کر کے اتنی ہی زرعی پیداوار حاصل ہو سکتی ہے جتنی اندھا دھند پانی ضائع کر کے مل رہی ہے۔
درجن بھر اقتصادی ماہرین کسی ٹاک شو میں اڑتیسویں بار یہ بھی بتائیں گے کہ پاکستان میں پانی کی قیمت دیگر ممالک کے مقابلے میں کتنی کم ہے۔اگر ہمیں نئے آبی منصوبوں کو ترقی دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچنا ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت آبی وسائل کے عاقلانہ استعمال کی حکمتِ عملی اختیار کرنی ہے تو پھر گیس اور بجلی کی طرح پانی کے بھی نجی اور کمرشل ریٹ مقرر کر کے '' جو جتنا پانی استعمال کرے اتنا پیسہ دے '' کے فارمولے پر چلنا ہوگا۔تب ہی لوگوں میں عقل اور خزانے میں پیسہ آئے گا۔
اس برس بھی مارننگ شوز میں بتایا جائے گا کہ کیسے ہم اپنے گھروں میں ٹونٹی کھلی نہ چھوڑیں تو اتنے لیٹر پانی روزانہ بچایا جا سکتا ہے جو کسی اور ضرورت مند کے کام آئے گا۔کوئی ٹیکنالوجسٹ ایک سو انیسویں مرتبہ آئے گا اور بتائے گا کہ کس طرح استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کر کے پھر سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور کون سا تقطیری آلہ کتنے میں دستیاب ہے جسے اگر آپ کچن کے نل پر فٹ کردیں تو آپ کو اس کے ذریعے جراثیم سے پاک صحت مند پانی بہت سستے میں مل سکتا ہے۔
خشک سالی کا بحران کچھ اور زیادہ ہوا تو آپ کو بڑے شہروں میں کچھ مقامات پر نمازِ استسقا کی تصاویر بھی اخبار اور ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کو ملیں گی۔ ممکن ہے کہ صوبائی اطلاعاتی محکمے یہ اشتہار بھی ایک آدھ ہفتے کے لیے چلوا دیں کہ پانی کے استعمال میں کفایت شعاری آپ کا قومی فریضہ ہے۔
اور پھر جون جولائی میں مون سون آئے گا۔ہو سکتا ہے پہلے کی طرح اتنا پانی آ جائے کہ اس بار بھی سنبھالا نہ جا سکے۔آخر سال میں صرف دس روز کے لیے پانی جمع کرنے کی گنجائش رکھنے والے قومی ذخائر مزید کتنے لاکھ کیوسک پانی سنبھال سکتے ہیں۔چنانچہ اس بار آنے والا سیلاب بھی سمندر خوشی خوشی جذب کر لے گا اور پھر اس پر شکر ادا کیا جائے گا کہ چلو پانی کی سطح تو نیچی ہوئی۔اور پھر الیکشن کا طوفانِ بدتمیزی شروع ہوجائے گا۔ لوگ باگ سب آبی مصائب بھول بھال کر زندہ باد مردہ باد کی دھما چوکڑی میں لگ جائیں گے۔تو یہ ہے ہماری وفاقی ، صوبائی اور قومی واٹر مینجمنٹ پالیسی۔
مگر میں اتنی طویل تقریرِ دل پذیر کے ذریعے آخر کہنا کیا چاہ رہا ہوں۔ کچھ نہیں کہنا چاہ رہا۔بس ایک کہانی سنانا چاہ رہا ہوں۔
کیپ ٹاؤن کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔اس کا شمار براعظم افریقہ کے متمول ترین شہروں میں ہوتا ہے۔جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ اسی شہر میں قائم ہے۔دنیا کے کئی ارب پتیوں نے یہاں املاک خریدی ہوئی ہیں۔نیلا بحر اوقیانوس مٹیالے بحرِ ہند سے کیپ ٹاؤن کے کناروں پر ہی گلے ملتا ہے۔
پینتالیس لاکھ آبادی ہر جدید اور خوشحال شہر کی طرح دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ خادم اور مخدوم۔ جو مخدوم ہیں وہ بہت ہی مخدوم ہیں۔سب کے رنگ صاف اور تمتماتے ہوئے۔ زندگی کا محور بڑے بڑے سوئمنگ پولز والے ولاز ، سایہ دار گلیاں، تازہ ماڈل کی گاڑیاں، فارم ہاؤسز ، کارپوریٹ بزنس اور پارٹیاں۔ شہر کے اسی فیصد آبی وسائل بیس فیصد مخدوموں کے زیرِ استعمال ہیں اور باقی اسی فیصد خدام کو بیس فیصد پانی میسر ہے۔
دس برس پہلے کچھ پاگل ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ بڑھتی آبادی ، اوور ڈویلپمنٹ ( اس کا اردو ترجمہ میں نہیں کر سکتا ) اور ماحولیاتی تبدیلی جلد ہی کیپ ٹاؤن کو ناقابلِ رہائش بنا دے گی۔ظاہر ہے یہ وارننگ سن کر سب ہنس پڑے ہوں گے۔
اب سے تین برس پہلے تک کیپ ٹاؤن کشل منگل تھا۔شہر کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے گرد و نواح میں چھ ڈیموں کے ذخائر میں ہر وقت پچیس ارب گیلن پانی جمع رہتا تھا۔امرا کو ہر ہفتے سوئمنگ پول میں پانی بدل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔کتوں کو بھی روزانہ دو بار پھواری غسل دینا معمول تھا۔کار تو ظاہر ہے روزانہ دھلتی ہی ہے ، باغ کو مالی پانی نہیں دے گا تو مالی کی ضرورت کیا۔
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ خشک سالی آ گئی ، آبی ذخائر بھرنے والے پہاڑی، نیم پہاڑی اور میدانی نالوں کی زبانیں نکل آئیں۔دھیرے دھیرے پچھلے برس اگست سے آبی قلت کیپ ٹاؤن کے ہر طبقے کو چبھنے لگی۔دسمبر تک یہ آبی ایمرجنسی میں بدل گئی اور آج حالت یوں ہے کہ کیپ ٹاؤن کا حلق تر رکھنے والے چھ بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح چوبیس فیصد رہ گئی۔جب یہ دس فیصد پر پہنچ جائے گی تو پانی عملاً کیچڑ کی شکل میں ہی دستیاب ہوگا۔
چنانچہ آبی مارشل لا نافذ کرنا پڑ گیا ہے۔جن آبی ذخائر اور نالوں میں فی الحال رمق بھر پانی موجود ہے وہاں آبی لوٹ مار، ڈکیتی ، پانی کی چھینا جھپٹی اور چوری روکنے کے لیے مقامی پولیس کا اینٹی واٹر کرائم پٹرول متحرک ہے۔غربا کو پانی کی فراہمی کے لیے دو سو ہنگامی آبی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں سے پچاس لیٹر روزانہ فی کنبہ راشن حاصل کیا جا سکتا ہے ( یہ پانی آٹھ منٹ تک باتھ شاور سے گرنے والے پانی کے برابر ہے )۔
سوئمنگ پول ، باغبانی اور گاڑیوں کی دھلائی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔فائیو اسٹار ریسٹورنٹس پیپر کراکری استعمال کر رہے ہیں۔اچھے ہوٹلوں میں دو منٹ بعد شاور خود بخود بند ہو جاتا ہے۔یہ بحران مزید سنگین جولائی تک ہوگا جب پہلے ہفتے میں ڈے زیرو آ جائے گا۔ڈے زیرو کا مطلب ہے استعمالی پانی کی نایابی۔حکومت ابھی سے ڈے زیرو سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔
کیپ ٹاؤن دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بننے والا ہے۔ اس کے پیچھے ایک سو انیس اور شہر کھڑے ہیں۔ان میں بھارت کا آئی ٹی کیپٹل بنگلور اور پاکستان کا کراچی ، لاہور اور کوئٹہ بھی شامل ہے۔آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں۔ سنبھلنے کی مہلت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
مگر جس ریاست میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر زہر کا پیالہ بن گئی ، جہاں کراچی کو پانی فراہم کرنے والی کلری جھیل کو ہالیجی سے میٹھا پانی فراہم کرنے والی نال کو آلودہ پانی لے جانے والی نہر ( ایل بی او ڈی ) نے کاٹ ڈالا ، جہاں کوئٹہ کی ہنا جھیل سوکھے پاپڑ میں بدل گئی ، جہاں دریاؤں اور سمندر کے ساحل کو خام کچرے اور صنعتی فضلے کا کوڑا گھر بنا کر اجتماعی ریپ ہو رہا ہے ، زہریلے پانی سے سبزیاں اگا کے انھیں فارم فریش سمجھ کے ہم اپنے بچوں کے پیٹ میں اتار رہے ہوں ، میرے اپنے شہر رحیم یار خان میں زیرِ زمین پانی میں سنکھیا کی مقدار اتنی بڑھ گئی ہو کہ اب غریب لوگ نہروں سے پینے کے لیے پانی چرا رہے ہیں وہاں کیپ ٹاؤن کیا بیچتا ہے۔
حالات جس طرف جا رہے ہوں اور ان کی سنگینی کا جس قدر احساس ہے اور اس احساس کو مٹانے کے لیے جس طرح ہر فورم پر بس بتایا جا رہا ہے۔اس کے بعد وہ وقت دور نہیں جب کسی عدالت کا ازخود نوٹس تیرانے کے لیے بھی صاف چھوڑ گدلا پانی میسر ہو۔
وضو کو مانگ کر پانی خجل نہ کر اے میر
وہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)