میں نے کیا احتجاج کرنا ہے
اس کے حصول کے لیے یہ سیاسی رہنماؤں کی رکھیل بننے پربھی فخرکرتے ہیں۔
اصغرعلی تبسم ایک برس پہلے میرے لیے بالکل اجنبی سا انسان تھا۔جس ادارے میں کام کررہاہوں،وہاں سے برسوں پہلے ریٹائرڈشدہ آدمی۔ سرکاری ملازم کے لیے ریٹائرمنٹ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ شائد تبسم کے لیے بھی ہو۔مگراس نے کبھی بھی ظاہرنہیں کیا۔اپنی ہی دنیاکا مسافر، اپنے ہی قافلہ کااکیلاشخص۔ایک برس پہلے اصغرمیرے پاس آیا،تواسے کسی قسم کاکوئی کام نہیں تھا۔یعنی میرے دفترسے اس کاکوئی مفادوابستہ نہیں تھا۔کہنے لگاکہ فیصل آبادسے تعلق ہے اورتیس پنتیس برس سرکاری ملازمت کی ہے۔
جاتے ہوئے مجھے کچھ کتابیں دے دیں۔ چار پانچ کتابیں۔بلکہ ان میں نثرکی ایک کتاب توبے حدضخیم تھی۔بتانے لگا،میری شاعری کی کتابیں ہیں،موقع ملے تو پڑھیے گاضرور۔جب سے لکھناشروع کیاہے،ہفتہ میں ایک دوکتابیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔کچھ کادیباچہ پرکھ کر اندازہ ہوجاتاہے کہ اس کتاب کونہیں پڑھناچاہیے۔کچھ کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں۔جب تھوڑی سے فرصت ملے تو ورق گردانی ہوہی جاتی ہے۔اصغرعلی تبسم کی کتابوں کے ساتھ بالکل یہی ہوا۔
دفتر سے واپسی پراپنی چھوٹی سی اسٹڈی کی میز پرکتابیںرکھ دیں اورپھربھول گیا۔ تبسم ایک بڑاانسان ہے، اسلیے پلٹ کرکبھی نہیں پوچھاکہ میری شاعری کیسی لگی۔ ویسے میں اس قابل بھی نہیں ہوں کہ کسی بھی طرح کی شاعری پر بات کرسکوں۔ اپنی کم علمی کااحساس بھی ہے اورملال بھی۔ بہرحال چار پانچ ماہ تک یہ تمام کتابیں انتہائی حفاظت سے کھلے،ٹیبل پرپڑی رہیں۔ نئی نکور۔صاف ستھری۔چنددن پہلے،ویسے ہی اسٹڈی میں آیاتواصغرعلی تبسم کی کتابیں بالکل سامنے دھری تھیں۔ پڑھناشروع کردیا۔پہلی کتاب"آتشِ احساس" تھی۔ کمال شاعری،بے حداعلیٰ شاعری۔ پھر اندازہ ہی نہیں ہوا کہ گھنٹوں گزرچکے ہیں۔
اگلی شام،اس کی دوسری کتاب، "میں نے کیااحتجاج کرناہے"غورسے پڑھی۔ شانداراور پختہ شاعری۔افسوس اس بات کاہواکہ چندماہ گزر گئے اور اس بڑے شاعرسے استفادہ نہیں کرپایا۔ مگر صاحب،اب افسوس کس کس چیزکاکریں۔لگتاہے کہ چند برسوں سے خوشی، غم، افسوس، یاس اوراُمیدکی منزل عبورکرلی ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی جذبہ ہی سانس نہیں لے رہا۔زندگی بلکہ سرکاری غلامی کے بھکھیڑوں اورناانصافی نے ذہن پروہ وہ چرکے لگائے ہیں، کہ خداکی پناہ۔مگرنقصان پہنچانے والے تمام لوگوں کومعاف کردیا۔مجھے تواب بڑے بڑے سرکاری اکابرین بھی مٹی کے گھوڑے نظرآتے ہیں۔ان کااصل دین پیسہ اورصرف پیسہ ہے۔
اس کے حصول کے لیے یہ سیاسی رہنماؤں کی رکھیل بننے پربھی فخرکرتے ہیں۔ابھی تک سرکاری قید میں ہوں۔ریٹائرمنٹ کے بعدچندمعاملات ضرورلکھونگا۔ ضرور،لوگوں کے سامنے سچائی پیش کرونگا۔ جو کرپشن میرے ہم عصروں اورسرکاری درباریوں نے کی ہے وہ اس قدر خوفناک ہے کہ لوگوں کواس کی طغیانی اورجہت کاقطعاًاندازہ نہیں۔عوام کارخ توسیاسی رہنماؤں کی طرف موڑدیا گیا ہے۔اصل جرائم توسرکاری ملازم کرتاہے۔اس معاشی لوٹ مارمیں ہرادارے کے شرفاء شامل ہیں۔خاکی بھی اورنوری بھی۔انسان بھی اورفرشتے بھی۔جنات بھی اورپریاں بھی۔
خیربات اصغرعلی تبسم کی بلندپایہ شاعری کی ہورہی تھی۔ تبسم سے تھوڑی سی دوستی ہوئی تومعلوم ہواکہ اَزحد سفیدپوش انسان ہے۔شہرت اورپیسے سے دوربھاگنے والادیوانہ۔ اورتو اور،اس نے اپنی شاعری کوبھی فروخت کرکے کوئی مقام حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔کسی ادبی گروہ کاحصہ نہیں بنا۔بلکہ یوں کہناچاہیے کہ کبھی بھی ادبی قزاق نہیں بن پایا۔بقول شہرت بخاری کے"اصغرعلی تبسم اُردوکے شعری حلقوں میں اتنے معروف نہیں ہوئے جتناانکوہوناچاہیے تھا۔
پروفیسرسہیل اخترکے ذریعے معلوم ہواکہ نفیس آدمی ہیں۔ضرورنفیس آدمی ہونگے کہ اگرنہ ہوتے توایسے اچھے شعرکیسے تخلیق کرلیتے جیسے انھوں نے کیے ہیں"۔شہرت بخاری کی بات سوفیصددرست ہے۔اصغرعلی تبسم ادبی حلقوں میں قطعاًمعروف نہیں ہوئے۔مگردیکھاجائے تویہی اس کی اصل طاقت ہے۔وہ توسب سے علیحدہ کھڑاہوکراپنے غم کااسیرہوکر،بس لکھے جارہاہے۔ستائش اورنمائش سے ہزاروں نوری برس دور۔ایسے بے غرض لوگ اب صرف اورصرف کہانیوں میں ملتے ہیں۔اصغرعلی تبسم لکھتاہے
جوبھی آیاہے،عجب اس نے قیامت کی ہے
ہم غریبوں سے یہاں کس نے مروت کی ہے
جان اپنی بھی لگے سب کوبچانامشکل
کب یہاں لوگوں نے سچ کہنے کی جرات کی ہے
میں نے اپنے لیے خودہجرکی گھڑیاں چُن لیں
میں نے اُڑتے ہوئے پنچھی سے محبت کی ہے
تیرے گھرمیں توتبسم سداغربت ناچے
تونے کیاسوچ کے سچ کہنے کی جرات کی ہے
اورپڑھیے
حسن کے قرینے ہیں
آرزوکے زینے ہیں
یوں نہ اپنے دل کوچیر
زخم کس نے سینے ہیں
حسن کے خزینے میں
عشق کے دفینے ہیں
خارگُل کی نوکوں پر
بلبلوںکے جینے ہیں
ہم نے جان رکھاہے
ہم نے زہرپینے ہیں
آگے چلیے،
وہ زلف،وہ رخسار،وہ آنچل بھی نہیں ہے
وہ شہرمیں رنگینی ئِ محفل بھی نہیں ہے
کچھ تھاجوبرسنے لگے ہرسمت سے پتھر
اب شہرکاہرشخص توپاگل بھی نہیں ہے
یوں لگتاہے وہ شہرہے بھوتوں کابسیرا
ہاں اتناتوسناٹے میں جنگل بھی نہیں ہے
اے جذبہِ دل!سوچ کے طوفان اُٹھانا
جذبوں کے سمندرکاتوساحل بھی نہیں ہے
تبسم ایک جگہ خوفناک بات لکھتاہے۔"اے خدایا تو نے مجھے کس دورمیں پیداکیا۔میرے بزرگ پاکستان بنانے کی جدوجہدمیں ختم ہوگئے۔ میں نے زندگی بنانے کی جدوجہدمیں ساری عمر گزاردی۔میرے بزرگوں اورمیری تمام جدوجہدکاصلہ کیاہے؟نتیجہ کیاہے؟میری اگلی نسل بھوک اورافلاس کاشکارہے۔
اے خدا!میں کس سے فریادکروں؟میں کس سے احتجاج کروں؟دل تھام کر بتائیے۔کیااصغرعلی تبسم کے لکھے ہوئے فقرے لافانی نہیں۔ کیاان میں درد،غم اوربے بسی کاطوفان اُمڈکرباہرنہیں آرہا۔ کیاوہ یہ نہیں لکھ رہاکہ خدارا،اس ملک میں انصاف کرو۔ معاشی،سماجی،اقتصادی اورفکری انصاف۔کیایہ چنددرج شدہ کلمات ایک نوحہ نہیں ہیں۔مگریہاں کون سنتاہے اور کیوں سنے۔سب اپنے اپنے دل پسندمشاغل کے غلام ہیں۔
تبسم کیا خوب اشعار لکھتا ہے
زخمِ احساس پھرسے پگھلنے کو ہے
دردانگارہ بن کر دہکنے کو ہے
خوف سے سارے طائرہیں سہمے ہوئے
آگ گلشن پہ جیسے برسنے کوہے
ایک اورغزل میں کیاخوب کیفیت ہے
یاں سب ہی سب سے خوفزدہ
یاں سب ہی سب کے دشمن ہیں
جس باغ پہ قابض زاغ وجن
اس باغ میں بلبل کیا بولے
اور مدھر مدھر سے گیتوںس ے
ہرپھول کے کان میں رس گھولے
یاں، ظلم او رخوف کی آتش میں
ہر تتلی کے پر راکھ ہوئے
اورآخرمیں تبسم کیاقیامت ڈھاتاہے۔کیانظم ہے صاحب کیانظم ہے۔
میری تہذیب بھی ہے خطرے میں
میرا ایماں بھی ہوا کمزور!
میری سوچوں پہ بھوک کاپہرا
میرے پاؤں میں حکم کی زنجیر
سرپہ دہشت کی ایک تنی تلوار
میرا ماحول ظلم کی جاگیر
میں توپتلی ہوں ایک مداری کی
میں نے کیا احتجاج کرنا ہے!
جاتے ہوئے مجھے کچھ کتابیں دے دیں۔ چار پانچ کتابیں۔بلکہ ان میں نثرکی ایک کتاب توبے حدضخیم تھی۔بتانے لگا،میری شاعری کی کتابیں ہیں،موقع ملے تو پڑھیے گاضرور۔جب سے لکھناشروع کیاہے،ہفتہ میں ایک دوکتابیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔کچھ کادیباچہ پرکھ کر اندازہ ہوجاتاہے کہ اس کتاب کونہیں پڑھناچاہیے۔کچھ کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں۔جب تھوڑی سے فرصت ملے تو ورق گردانی ہوہی جاتی ہے۔اصغرعلی تبسم کی کتابوں کے ساتھ بالکل یہی ہوا۔
دفتر سے واپسی پراپنی چھوٹی سی اسٹڈی کی میز پرکتابیںرکھ دیں اورپھربھول گیا۔ تبسم ایک بڑاانسان ہے، اسلیے پلٹ کرکبھی نہیں پوچھاکہ میری شاعری کیسی لگی۔ ویسے میں اس قابل بھی نہیں ہوں کہ کسی بھی طرح کی شاعری پر بات کرسکوں۔ اپنی کم علمی کااحساس بھی ہے اورملال بھی۔ بہرحال چار پانچ ماہ تک یہ تمام کتابیں انتہائی حفاظت سے کھلے،ٹیبل پرپڑی رہیں۔ نئی نکور۔صاف ستھری۔چنددن پہلے،ویسے ہی اسٹڈی میں آیاتواصغرعلی تبسم کی کتابیں بالکل سامنے دھری تھیں۔ پڑھناشروع کردیا۔پہلی کتاب"آتشِ احساس" تھی۔ کمال شاعری،بے حداعلیٰ شاعری۔ پھر اندازہ ہی نہیں ہوا کہ گھنٹوں گزرچکے ہیں۔
اگلی شام،اس کی دوسری کتاب، "میں نے کیااحتجاج کرناہے"غورسے پڑھی۔ شانداراور پختہ شاعری۔افسوس اس بات کاہواکہ چندماہ گزر گئے اور اس بڑے شاعرسے استفادہ نہیں کرپایا۔ مگر صاحب،اب افسوس کس کس چیزکاکریں۔لگتاہے کہ چند برسوں سے خوشی، غم، افسوس، یاس اوراُمیدکی منزل عبورکرلی ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی جذبہ ہی سانس نہیں لے رہا۔زندگی بلکہ سرکاری غلامی کے بھکھیڑوں اورناانصافی نے ذہن پروہ وہ چرکے لگائے ہیں، کہ خداکی پناہ۔مگرنقصان پہنچانے والے تمام لوگوں کومعاف کردیا۔مجھے تواب بڑے بڑے سرکاری اکابرین بھی مٹی کے گھوڑے نظرآتے ہیں۔ان کااصل دین پیسہ اورصرف پیسہ ہے۔
اس کے حصول کے لیے یہ سیاسی رہنماؤں کی رکھیل بننے پربھی فخرکرتے ہیں۔ابھی تک سرکاری قید میں ہوں۔ریٹائرمنٹ کے بعدچندمعاملات ضرورلکھونگا۔ ضرور،لوگوں کے سامنے سچائی پیش کرونگا۔ جو کرپشن میرے ہم عصروں اورسرکاری درباریوں نے کی ہے وہ اس قدر خوفناک ہے کہ لوگوں کواس کی طغیانی اورجہت کاقطعاًاندازہ نہیں۔عوام کارخ توسیاسی رہنماؤں کی طرف موڑدیا گیا ہے۔اصل جرائم توسرکاری ملازم کرتاہے۔اس معاشی لوٹ مارمیں ہرادارے کے شرفاء شامل ہیں۔خاکی بھی اورنوری بھی۔انسان بھی اورفرشتے بھی۔جنات بھی اورپریاں بھی۔
خیربات اصغرعلی تبسم کی بلندپایہ شاعری کی ہورہی تھی۔ تبسم سے تھوڑی سی دوستی ہوئی تومعلوم ہواکہ اَزحد سفیدپوش انسان ہے۔شہرت اورپیسے سے دوربھاگنے والادیوانہ۔ اورتو اور،اس نے اپنی شاعری کوبھی فروخت کرکے کوئی مقام حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔کسی ادبی گروہ کاحصہ نہیں بنا۔بلکہ یوں کہناچاہیے کہ کبھی بھی ادبی قزاق نہیں بن پایا۔بقول شہرت بخاری کے"اصغرعلی تبسم اُردوکے شعری حلقوں میں اتنے معروف نہیں ہوئے جتناانکوہوناچاہیے تھا۔
پروفیسرسہیل اخترکے ذریعے معلوم ہواکہ نفیس آدمی ہیں۔ضرورنفیس آدمی ہونگے کہ اگرنہ ہوتے توایسے اچھے شعرکیسے تخلیق کرلیتے جیسے انھوں نے کیے ہیں"۔شہرت بخاری کی بات سوفیصددرست ہے۔اصغرعلی تبسم ادبی حلقوں میں قطعاًمعروف نہیں ہوئے۔مگردیکھاجائے تویہی اس کی اصل طاقت ہے۔وہ توسب سے علیحدہ کھڑاہوکراپنے غم کااسیرہوکر،بس لکھے جارہاہے۔ستائش اورنمائش سے ہزاروں نوری برس دور۔ایسے بے غرض لوگ اب صرف اورصرف کہانیوں میں ملتے ہیں۔اصغرعلی تبسم لکھتاہے
جوبھی آیاہے،عجب اس نے قیامت کی ہے
ہم غریبوں سے یہاں کس نے مروت کی ہے
جان اپنی بھی لگے سب کوبچانامشکل
کب یہاں لوگوں نے سچ کہنے کی جرات کی ہے
میں نے اپنے لیے خودہجرکی گھڑیاں چُن لیں
میں نے اُڑتے ہوئے پنچھی سے محبت کی ہے
تیرے گھرمیں توتبسم سداغربت ناچے
تونے کیاسوچ کے سچ کہنے کی جرات کی ہے
اورپڑھیے
حسن کے قرینے ہیں
آرزوکے زینے ہیں
یوں نہ اپنے دل کوچیر
زخم کس نے سینے ہیں
حسن کے خزینے میں
عشق کے دفینے ہیں
خارگُل کی نوکوں پر
بلبلوںکے جینے ہیں
ہم نے جان رکھاہے
ہم نے زہرپینے ہیں
آگے چلیے،
وہ زلف،وہ رخسار،وہ آنچل بھی نہیں ہے
وہ شہرمیں رنگینی ئِ محفل بھی نہیں ہے
کچھ تھاجوبرسنے لگے ہرسمت سے پتھر
اب شہرکاہرشخص توپاگل بھی نہیں ہے
یوں لگتاہے وہ شہرہے بھوتوں کابسیرا
ہاں اتناتوسناٹے میں جنگل بھی نہیں ہے
اے جذبہِ دل!سوچ کے طوفان اُٹھانا
جذبوں کے سمندرکاتوساحل بھی نہیں ہے
تبسم ایک جگہ خوفناک بات لکھتاہے۔"اے خدایا تو نے مجھے کس دورمیں پیداکیا۔میرے بزرگ پاکستان بنانے کی جدوجہدمیں ختم ہوگئے۔ میں نے زندگی بنانے کی جدوجہدمیں ساری عمر گزاردی۔میرے بزرگوں اورمیری تمام جدوجہدکاصلہ کیاہے؟نتیجہ کیاہے؟میری اگلی نسل بھوک اورافلاس کاشکارہے۔
اے خدا!میں کس سے فریادکروں؟میں کس سے احتجاج کروں؟دل تھام کر بتائیے۔کیااصغرعلی تبسم کے لکھے ہوئے فقرے لافانی نہیں۔ کیاان میں درد،غم اوربے بسی کاطوفان اُمڈکرباہرنہیں آرہا۔ کیاوہ یہ نہیں لکھ رہاکہ خدارا،اس ملک میں انصاف کرو۔ معاشی،سماجی،اقتصادی اورفکری انصاف۔کیایہ چنددرج شدہ کلمات ایک نوحہ نہیں ہیں۔مگریہاں کون سنتاہے اور کیوں سنے۔سب اپنے اپنے دل پسندمشاغل کے غلام ہیں۔
تبسم کیا خوب اشعار لکھتا ہے
زخمِ احساس پھرسے پگھلنے کو ہے
دردانگارہ بن کر دہکنے کو ہے
خوف سے سارے طائرہیں سہمے ہوئے
آگ گلشن پہ جیسے برسنے کوہے
ایک اورغزل میں کیاخوب کیفیت ہے
یاں سب ہی سب سے خوفزدہ
یاں سب ہی سب کے دشمن ہیں
جس باغ پہ قابض زاغ وجن
اس باغ میں بلبل کیا بولے
اور مدھر مدھر سے گیتوںس ے
ہرپھول کے کان میں رس گھولے
یاں، ظلم او رخوف کی آتش میں
ہر تتلی کے پر راکھ ہوئے
اورآخرمیں تبسم کیاقیامت ڈھاتاہے۔کیانظم ہے صاحب کیانظم ہے۔
میری تہذیب بھی ہے خطرے میں
میرا ایماں بھی ہوا کمزور!
میری سوچوں پہ بھوک کاپہرا
میرے پاؤں میں حکم کی زنجیر
سرپہ دہشت کی ایک تنی تلوار
میرا ماحول ظلم کی جاگیر
میں توپتلی ہوں ایک مداری کی
میں نے کیا احتجاج کرنا ہے!