گیت اور گیتا کا شاعر احمد عمر شریف
احمد عمر شریف نے شعر وادب کی دنیا میں ایک منفرد مقام بنا لیا تھا۔
QUETTA:
اس بار جب میں امریکا سے پاکستان آیا تو ایک طویل عرصے کے بعد کراچی میں اپنے ایک دیرینہ دوست اور منفرد لہجے کے شاعر احمد عمر شریف سے بھی ملاقات رہی وہ مجھے بہت ہی بدلا ہوا نظر آیا۔ مجھے یوں لگا کہ میں کسی خانقاہ کے ایک سجادہ نشین سے مل رہا ہوں۔
سرکے سفید بالوں کے ساتھ باریش شخص مسکراتے ہوئے اپنے گھر میں مجھے خوش آمدید کہہ رہا تھا اور میں آج کے اس نورانی چہرے والے احمد عمر شریف میں کل کے نوجوان، خوبرو اور لہک لہک کر اشعار پڑھنے والے احمد عمر شریف کو تلاش کر رہا تھا جب ہم دونوں ہی بڑے شوخ وشنگ تھے اور شعر و ادب کی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
احمد عمر شریف ایک بھرپور رومان پرست شاعر تھا۔ ہم دونوں کا ایک اور بے تکلف دوست مشہور غزل اور کلاسیکل سنگر استاد امیر احمد خان بھی تھا اور ہم تینوں اکثروبیشتر شعری نشستوں کے ساتھ ساتھ موسیقی کی محفلوں میں بھی جی جان سے شرکت کیا کرتے تھے۔
مجھے پھر وہ زمانہ بھی یاد آگیا جب میں نے کراچی کی ایک فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' لکھی تھی اور جب فلم کی کاسٹ کا انتخاب کیا گیا تھا تو سنگیتا، ناظم، سنتوش، قاضی واجد اور معین اختر کے ساتھ اس خوش شکل نوجوان شاعر احمد عمر شریف کو بھی فلم کی کاسٹ میں شامل کیا تھا کہ یہ نوجوان شاعر ریڈیو کا ایک اچھا صدا کار بھی تھا اور اسے اداکاری سے بھی شغف تھا۔ فلم تعطل کا شکار ہوگئی اور یہ بلیک اینڈ وائٹ فلم جب ریلیز ہوئی تھی تو رنگین فلموں کا دور آچکا تھا اور فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ اس طرح احمد عمر شریف دوبارہ سے شعر و ادب سے ہی جڑتا چلا گیا۔
احمد عمر شریف نے پھر اپنی تمام تر توجہ شاعری ہی کی طرف مبذول کردی تھی۔ میں کراچی چھوڑ کر لاہور چلا گیا تھا اور پھر احمد عمر شریف کے حلقہ یاراں میں نصیر ترابی، حسن اکبرکمال، عبید اللہ علیم، رضی حیدر، عقیل لاری، اشتیاق طالب، نیئر سوز، پرویز بشیر، عابد رضوی، نسیم درانی اور تاجدار عادل شامل ہوتے چلے گئے۔ ابھی میں ماضی کے دریچوں میں گم تھا کہ احمد عمر شریف نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ''یونس ہمدم! واپس آجاؤ مجھے پتہ ہے تم مجھے آج کی بجائے کل میں تلاش کر رہے ہو۔ کل کی یادیں جو چاندنی کی طرح تھیں اب وہ دھواں دھواں ہوچکی ہیں پھر وہ خود ہی کہنے لگا:
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
میں نے اسے پھر کچھ یاد دلاتے ہوئے کہا۔ ''یاد کرو ان راستوں کو جن پر ہم میلوں پیدل چلا کرتے تھے۔ شاعری کے ساتھ لطیفے بازی بھی ہوا کرتی تھی۔'' پھر استاد امیر احمد خان ریڈیو پروڈیوسر بن کر کراچی چھوڑ کر اسلام آباد چلا گیا تھا اور میں نے لاہور کی فلم انڈسٹری کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ بارہ برس لاہور میں گزارے اور پھر کراچی آیا تو امریکا جانے کی تیاری ہوچکی تھی۔ احمد عمر شریف نے شعر وادب کی دنیا میں ایک منفرد مقام بنا لیا تھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب میری اس سے ملاقات رہی تو اس نے ماضی کی سنہری یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یونس ہمدم وہ دور محبت، خلوص اور ملنساری کا دور تھا۔
اس دور میں بے پناہ انسیت تھی ایک دوسرے کی عزت و وقار کا ہر پل احساس رہتا تھا، مگر پھر وقت ایسا بدلا کہ لوگ ہی بدلتے چلے گئے منافقت، انا اور بے حسی کے زہر نے اپنوں کو بھی اپنوں سے بیگانہ کردیا۔ پھر احمد عمر شریف نے بڑے دکھ سے کہا بہت عرصے کے بعد میں تم جیسے پیار بھرے دیرینہ دوست سے ملا ہوں تو دل میں خوشی وانبساط کی آبشار سی پھوٹ پڑی ہے۔ اسی دوران احمد عمر شریف نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ''گیت اور گیتا'' پیش کیا اس کے جواب میں اسے بھی میں نے اپنا شعری مجموعہ ''اجنبی آشنا'' دیا اور اس طرح پھر آج کے ادب اور کل کے ادب و آداب کے شعر و شاعری کی باتیں شروع ہوگئیں۔
ساتھ ہی ساتھ ریڈیو کے زمانے کی پرانی یادیں بھی تازہ ہوتی رہیں۔ یہ ایک بھرپور اور یادگار ملاقات رہی تھی۔ رات کو میں نے احمد عمر شریف کی کتاب ''گیت اور گیتا'' کا مطالعہ کیا تو میں اس کتاب کو پڑھتا چلا گیا۔ شاعری کی ایک عجیب دنیا اس میں رچی بسی تھی رات گئے تک میں نے یہ ساری کتاب ایک نشست میں پڑھ ڈالی تھی اور یہی بات اس کتاب کی کشش کی دلیل بنی اس سے پہلے کہ میں گیت گیتا کے کچھ اشعار قارئین کی نذر کروں میں احمد عمر شریف کی شخصیت اور ان کی ابتدائی زندگی کا تذکرہ کروں گا۔
احمد عمر شریف ہندوستان کی ریاست راجستھان کی ایک بستی ٹونک میں پیدا ہوئے، اس بستی میں نذر باغ کے نام سے اس کے آباؤ اجداد کی ایک حویلی بھی تھی کسی زمانے میں جس کی بڑی آن بان تھی مگر تقسیم ہندوستان کے بعد ہجرت جب اس کے خاندان کا مقدر بنی تو پھر سب کچھ الٹ پلٹ ہوکے رہ گیا تھا اور پاکستان آنے کے بعد لالو کھیت کراچی (لیاقت آباد) کے ایک بہت ہی چھوٹے سے کمرے میں سات افراد کی ایک فیملی پناہ گزین ہوئی تھی۔ حالات ان دنوں انتہائی ابتر تھے جب کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ گھر میں کبھی کبھی فاقوں کی ریل پیل بھی رہتی تھی جو ٹھاٹھ باٹھ احمد عمر شریف کے والدین نے کبھی دیکھے تھے وہ حالات اب خواب و خیال ہوچکے تھے۔ وہ شاندار ماضی احمد عمر شریف کی زندگی سے کوسوں دور تھا۔ خوشحالی اسے میسر نہ ہو سکی تھی۔
حالات نے ایسی کروٹ لی کہ اداسی کی چادریں در و دیوار سے ہٹتی چلی گئیں۔ احمد عمر شریف نے ہمت اور حوصلے کے ساتھ ایک نیا سفر شروع کیا۔ اسی دوران اس کی شادی ریڈیو کی مشہور صدا کارہ پروین سے ہوئی اور عورت کے مقدر سے ایک نئے مقدر نے جنم لیا۔ احمد عمر شریف پھر ایک شاعر سے ایک کاروباری شخص بنتا چلا گیا یہ شاعری سے زیادہ کاروبار سے جڑتا چلا گیا اور اس کا شمار شہر کے اچھے کاروباری لوگوں میں ہونے لگا۔ مگر پھر جب کاروبار کے دریا میں ایک ٹھہراؤ آیا تو احمد عمر شریف پھر سے شعر و ادب کی طرف سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہوگیا اور شعر و شاعری اس کا اوڑھنا بچھونا ہوگیا تھا۔
اس نے اپنے حلقہ احباب سے بھی ناتا توڑ لیا اور کافی دنوں تک گوشہ نشین ہوگیا۔ اور پھر اس گوشہ نشینی کی بدولت اس کا منفرد انداز کا شعری مجموعہ ''گیت اور گیتا'' منظر عام پر آیا۔ کچھ اشعار گیت اور گیتا سے قارئین کی نذر ہیں:
ساری دنیا تھی بند آنکھوں میں
بند آنکھوں سے سب کھلا دیکھا
دل کے اس بے کنار صحرا میں
دور تک ایک نقشِ پا دیکھا
......
ہم تو ایک پتنگ ہیں بھیا
جس کو پیا اڑائیں
ابھریں ڈوبیں غوطے کھا کر
اک دن پھر کٹ جائیں
سارے ناتے کچے پکے
دیکھتے ہم رہ جائیں
احمد عمر شریف کی شاعری کا یہ رنگ بھی ملاحظہ ہو جس کی خوبصورت جھلک گیت اور گیتا ہی کا حصہ ہے:
سرمہ آنکھیں' ہونٹ اور لالی
مایا رنگ کے جھاگ
مایا جھاگ کی پچکاری سے
داس عمر تو بھاگ
بھاگ یہاں سے بھاگ رے کملے
مڑ کر' سرپٹ' سیدھے بھاگ
گرتے پڑتے ماٹی نیچے
پتلی بن کر جاگ
جس طرح بن باس کی اساس ہر سچے شاعر کی پیاس رہی ہے، اسی طرح احمد عمر شریف کو بھی اس پیاس کا شدت سے سامنا رہا ہے اور ذیل کی یہ نظم اس پیاس کی غمازی کرتی ہے:
جگ جیون کی پریت کو تج کر
باندھی تجھ سے آس پریتم
خالی من کی ہے کوٹھریا
اب تو آجا پاس
کیسے کٹے بِن بانس
احمد عمر شریف کی کتاب گیت اور گیتا کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے احمد عمر شریف نے زندگی کی سچائیوں کو اپنی روح میں سمیٹ رکھا ہے اور یہی بات احمد عمر شریف کو دوسرے شاعروں سے منفرد اور ممتاز رکھتی ہے۔
اس بار جب میں امریکا سے پاکستان آیا تو ایک طویل عرصے کے بعد کراچی میں اپنے ایک دیرینہ دوست اور منفرد لہجے کے شاعر احمد عمر شریف سے بھی ملاقات رہی وہ مجھے بہت ہی بدلا ہوا نظر آیا۔ مجھے یوں لگا کہ میں کسی خانقاہ کے ایک سجادہ نشین سے مل رہا ہوں۔
سرکے سفید بالوں کے ساتھ باریش شخص مسکراتے ہوئے اپنے گھر میں مجھے خوش آمدید کہہ رہا تھا اور میں آج کے اس نورانی چہرے والے احمد عمر شریف میں کل کے نوجوان، خوبرو اور لہک لہک کر اشعار پڑھنے والے احمد عمر شریف کو تلاش کر رہا تھا جب ہم دونوں ہی بڑے شوخ وشنگ تھے اور شعر و ادب کی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
احمد عمر شریف ایک بھرپور رومان پرست شاعر تھا۔ ہم دونوں کا ایک اور بے تکلف دوست مشہور غزل اور کلاسیکل سنگر استاد امیر احمد خان بھی تھا اور ہم تینوں اکثروبیشتر شعری نشستوں کے ساتھ ساتھ موسیقی کی محفلوں میں بھی جی جان سے شرکت کیا کرتے تھے۔
مجھے پھر وہ زمانہ بھی یاد آگیا جب میں نے کراچی کی ایک فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' لکھی تھی اور جب فلم کی کاسٹ کا انتخاب کیا گیا تھا تو سنگیتا، ناظم، سنتوش، قاضی واجد اور معین اختر کے ساتھ اس خوش شکل نوجوان شاعر احمد عمر شریف کو بھی فلم کی کاسٹ میں شامل کیا تھا کہ یہ نوجوان شاعر ریڈیو کا ایک اچھا صدا کار بھی تھا اور اسے اداکاری سے بھی شغف تھا۔ فلم تعطل کا شکار ہوگئی اور یہ بلیک اینڈ وائٹ فلم جب ریلیز ہوئی تھی تو رنگین فلموں کا دور آچکا تھا اور فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ اس طرح احمد عمر شریف دوبارہ سے شعر و ادب سے ہی جڑتا چلا گیا۔
احمد عمر شریف نے پھر اپنی تمام تر توجہ شاعری ہی کی طرف مبذول کردی تھی۔ میں کراچی چھوڑ کر لاہور چلا گیا تھا اور پھر احمد عمر شریف کے حلقہ یاراں میں نصیر ترابی، حسن اکبرکمال، عبید اللہ علیم، رضی حیدر، عقیل لاری، اشتیاق طالب، نیئر سوز، پرویز بشیر، عابد رضوی، نسیم درانی اور تاجدار عادل شامل ہوتے چلے گئے۔ ابھی میں ماضی کے دریچوں میں گم تھا کہ احمد عمر شریف نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ''یونس ہمدم! واپس آجاؤ مجھے پتہ ہے تم مجھے آج کی بجائے کل میں تلاش کر رہے ہو۔ کل کی یادیں جو چاندنی کی طرح تھیں اب وہ دھواں دھواں ہوچکی ہیں پھر وہ خود ہی کہنے لگا:
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
میں نے اسے پھر کچھ یاد دلاتے ہوئے کہا۔ ''یاد کرو ان راستوں کو جن پر ہم میلوں پیدل چلا کرتے تھے۔ شاعری کے ساتھ لطیفے بازی بھی ہوا کرتی تھی۔'' پھر استاد امیر احمد خان ریڈیو پروڈیوسر بن کر کراچی چھوڑ کر اسلام آباد چلا گیا تھا اور میں نے لاہور کی فلم انڈسٹری کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ بارہ برس لاہور میں گزارے اور پھر کراچی آیا تو امریکا جانے کی تیاری ہوچکی تھی۔ احمد عمر شریف نے شعر وادب کی دنیا میں ایک منفرد مقام بنا لیا تھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب میری اس سے ملاقات رہی تو اس نے ماضی کی سنہری یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یونس ہمدم وہ دور محبت، خلوص اور ملنساری کا دور تھا۔
اس دور میں بے پناہ انسیت تھی ایک دوسرے کی عزت و وقار کا ہر پل احساس رہتا تھا، مگر پھر وقت ایسا بدلا کہ لوگ ہی بدلتے چلے گئے منافقت، انا اور بے حسی کے زہر نے اپنوں کو بھی اپنوں سے بیگانہ کردیا۔ پھر احمد عمر شریف نے بڑے دکھ سے کہا بہت عرصے کے بعد میں تم جیسے پیار بھرے دیرینہ دوست سے ملا ہوں تو دل میں خوشی وانبساط کی آبشار سی پھوٹ پڑی ہے۔ اسی دوران احمد عمر شریف نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ''گیت اور گیتا'' پیش کیا اس کے جواب میں اسے بھی میں نے اپنا شعری مجموعہ ''اجنبی آشنا'' دیا اور اس طرح پھر آج کے ادب اور کل کے ادب و آداب کے شعر و شاعری کی باتیں شروع ہوگئیں۔
ساتھ ہی ساتھ ریڈیو کے زمانے کی پرانی یادیں بھی تازہ ہوتی رہیں۔ یہ ایک بھرپور اور یادگار ملاقات رہی تھی۔ رات کو میں نے احمد عمر شریف کی کتاب ''گیت اور گیتا'' کا مطالعہ کیا تو میں اس کتاب کو پڑھتا چلا گیا۔ شاعری کی ایک عجیب دنیا اس میں رچی بسی تھی رات گئے تک میں نے یہ ساری کتاب ایک نشست میں پڑھ ڈالی تھی اور یہی بات اس کتاب کی کشش کی دلیل بنی اس سے پہلے کہ میں گیت گیتا کے کچھ اشعار قارئین کی نذر کروں میں احمد عمر شریف کی شخصیت اور ان کی ابتدائی زندگی کا تذکرہ کروں گا۔
احمد عمر شریف ہندوستان کی ریاست راجستھان کی ایک بستی ٹونک میں پیدا ہوئے، اس بستی میں نذر باغ کے نام سے اس کے آباؤ اجداد کی ایک حویلی بھی تھی کسی زمانے میں جس کی بڑی آن بان تھی مگر تقسیم ہندوستان کے بعد ہجرت جب اس کے خاندان کا مقدر بنی تو پھر سب کچھ الٹ پلٹ ہوکے رہ گیا تھا اور پاکستان آنے کے بعد لالو کھیت کراچی (لیاقت آباد) کے ایک بہت ہی چھوٹے سے کمرے میں سات افراد کی ایک فیملی پناہ گزین ہوئی تھی۔ حالات ان دنوں انتہائی ابتر تھے جب کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ گھر میں کبھی کبھی فاقوں کی ریل پیل بھی رہتی تھی جو ٹھاٹھ باٹھ احمد عمر شریف کے والدین نے کبھی دیکھے تھے وہ حالات اب خواب و خیال ہوچکے تھے۔ وہ شاندار ماضی احمد عمر شریف کی زندگی سے کوسوں دور تھا۔ خوشحالی اسے میسر نہ ہو سکی تھی۔
حالات نے ایسی کروٹ لی کہ اداسی کی چادریں در و دیوار سے ہٹتی چلی گئیں۔ احمد عمر شریف نے ہمت اور حوصلے کے ساتھ ایک نیا سفر شروع کیا۔ اسی دوران اس کی شادی ریڈیو کی مشہور صدا کارہ پروین سے ہوئی اور عورت کے مقدر سے ایک نئے مقدر نے جنم لیا۔ احمد عمر شریف پھر ایک شاعر سے ایک کاروباری شخص بنتا چلا گیا یہ شاعری سے زیادہ کاروبار سے جڑتا چلا گیا اور اس کا شمار شہر کے اچھے کاروباری لوگوں میں ہونے لگا۔ مگر پھر جب کاروبار کے دریا میں ایک ٹھہراؤ آیا تو احمد عمر شریف پھر سے شعر و ادب کی طرف سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہوگیا اور شعر و شاعری اس کا اوڑھنا بچھونا ہوگیا تھا۔
اس نے اپنے حلقہ احباب سے بھی ناتا توڑ لیا اور کافی دنوں تک گوشہ نشین ہوگیا۔ اور پھر اس گوشہ نشینی کی بدولت اس کا منفرد انداز کا شعری مجموعہ ''گیت اور گیتا'' منظر عام پر آیا۔ کچھ اشعار گیت اور گیتا سے قارئین کی نذر ہیں:
ساری دنیا تھی بند آنکھوں میں
بند آنکھوں سے سب کھلا دیکھا
دل کے اس بے کنار صحرا میں
دور تک ایک نقشِ پا دیکھا
......
ہم تو ایک پتنگ ہیں بھیا
جس کو پیا اڑائیں
ابھریں ڈوبیں غوطے کھا کر
اک دن پھر کٹ جائیں
سارے ناتے کچے پکے
دیکھتے ہم رہ جائیں
احمد عمر شریف کی شاعری کا یہ رنگ بھی ملاحظہ ہو جس کی خوبصورت جھلک گیت اور گیتا ہی کا حصہ ہے:
سرمہ آنکھیں' ہونٹ اور لالی
مایا رنگ کے جھاگ
مایا جھاگ کی پچکاری سے
داس عمر تو بھاگ
بھاگ یہاں سے بھاگ رے کملے
مڑ کر' سرپٹ' سیدھے بھاگ
گرتے پڑتے ماٹی نیچے
پتلی بن کر جاگ
جس طرح بن باس کی اساس ہر سچے شاعر کی پیاس رہی ہے، اسی طرح احمد عمر شریف کو بھی اس پیاس کا شدت سے سامنا رہا ہے اور ذیل کی یہ نظم اس پیاس کی غمازی کرتی ہے:
جگ جیون کی پریت کو تج کر
باندھی تجھ سے آس پریتم
خالی من کی ہے کوٹھریا
اب تو آجا پاس
کیسے کٹے بِن بانس
احمد عمر شریف کی کتاب گیت اور گیتا کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے احمد عمر شریف نے زندگی کی سچائیوں کو اپنی روح میں سمیٹ رکھا ہے اور یہی بات احمد عمر شریف کو دوسرے شاعروں سے منفرد اور ممتاز رکھتی ہے۔