سینیٹ الیکشن 2018ء
نئے چیئرمین اور نئے ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگیا اور حلف اٹھا کر وہ اپنے منصب پر فائز بھی ہوگئے۔
سینیٹ الیکشن کے سارے مراحل پورے ہوگئے۔
نئے اراکین منتخب ہوکر ایوانِ بالا کا حصہ بن گئے۔ نئے چیئرمین اور نئے ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگیا اور حلف اٹھا کر وہ اپنے منصب پر فائز بھی ہوگئے۔ گویا اب یہ ایوان اپنے عوام کے حقوق اور آئین کی پاس داری کے لیے ازسرِنو تیار ہوگیا ہے۔ اس ادارے سے یہ توقع بے جا نہیں ہے۔ اس لیے کہ ملک کا آئین ایوانِ بالا کو اسی حیثیت کا حامل بتاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایوانِ بالا کے حالیہ انتخابات کے بارے میں ایک شور برپا ہے۔
خیر، یہ کون سی نئی بات ہے؟ ہمارے یہاں تو کسی شہر کے بلدیاتی انتخابات ہی کیوں نہ ہوں، شور تو مچتا ہی ہے، یہ تو پھر ایوانِ بالا کا انتخاب تھا۔ جیتنے والے ہمیشہ اپنی فتح کا جشن شور شرابے کے ساتھ مناتے ہیں تو ہارنے والے، ہار کو تسلیم کرنے سے انکار اور دھاندلی کا شور کرتے ہیں۔ گویا شور تو ہمارے یہاں دو طرفہ اور مستقل قسم کی چیز ہے، ہر انتخابی عمل کے موقع پر جس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے سینٹ الیکشن 2018ء پر ہونے والے اس شور کو بھی ہمیں معمول کا رویہ سمجھ کر نظرانداز کردینا چاہیے۔
نہیں، صورتِ حال اس بار ایسی نہیں ہے۔ یہ شور ذرا کچھ مختلف ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مختلف کیوں ہے؟ یہ کام اس لیے ضروری ہے کہ اس کے اثرات ملک، آئین اور عوام پر ہوسکتے ہیں۔ چلیے، دیکھتے ہیں کہ اس بار کیا بات ایسی ہوئی ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوتی رہی۔
جیتنے ہارنے والی سیاسی جماعتوں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیجیے، یعنی کم سے کم اُن کے ایسے رویوں اور بیانات کو تو نظرانداز کردینا چاہیے جو وہ عام طور سے ایسی صورتِ حال میں پارٹی لائن کے طور پر دینے کے عادی ہوتے ہیں۔ اب رہ گئے وہ لوگ جن کا ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور وہ جو تعلق تو بے شک جیتنے ہارنے والی جماعتوں سے رکھتے ہیں، لیکن اُن کے بیانات پارٹی لائن کے کھاتے میں نہیں آتے۔ اس زُمرے میں صحافی اور سیاست داں دونوں ہی شامل ہیں۔
ان میں کچھ تو ایسے لوگ ہیں جنھوں نے سینیٹ کے الیکشن سے ذرا پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ جو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ آزادانہ اور شفاف انتخاب کا نتیجہ نہیں ہوگا، بلکہ اس انتخاب کے لیے منڈی لگ چکی ہے اور ووٹوں کی خریداری کے لیے بھاؤ تاؤ کی گرمی کھلے عام دیکھنے میں آرہی ہے۔
یہ تأثر نہ تو کسی ایک صوبے کے حوالے سے سامنے آیا تھا اور نہ ہی کسی ایک آدھ سیاسی جماعت کے بارے میں، بلکہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور فاٹا، یعنی پورے ملک کے بارے میں یہی اطلاعات تھیں۔ جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کا وہ بازار گرم ہوا کہ دیکھنے والوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ اراکین کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو عام آدمی بھی یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ جو کچھ وہ سنتا آرہا تھا، وہ صرف افواہیں نہیں تھیں، بلکہ عملاً وہ سب ہوا ہے جس نے توقع اور اندازے کے برخلاف نتائج پیش کیے ہیں۔ مسلم لیگ نون حکم راں جماعت ہے، اس کے باوجود اُس کے ووٹ ٹوٹ گئے۔
اس کے برعکس پیپلزپارٹی نے جتنے اراکین ایوانِ بالا میں پہنچا دیے، وہ سب کے لیے حیران کن تھا۔ خود تحریکِ انصاف اپنے صوبے سے وہ نتائج حاصل نہ کرسکی جن کا وہ یقین رکھتی تھی۔ اس پر عمران خان نے باقاعدہ کمیٹی بناکر تحقیقات کا اعلان بھی کیا۔ سندھ میں جو کچھ ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا، وہ بھی غیر متوقع تھا، اس پر جماعت کے بعض رہنماؤں نے اپنے شدید رنج اور تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ تاہم ایم کیو ایم کے مسئلے پر صحافی برادری اور عوام دونوں ہی نے کہا کہ ایم کیو ایم کی شکست دراصل پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ کا نتیجہ ہے۔
سینیٹ کے غیرمتوقع نتائج کے بارے میں صحافت کے لوگوں نے جس رائے کا اظہار کیا اور حالات و حقائق کا جس طرح تجزیہ کیا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ٹی وی چینلز اِس وقت حکومت کے حلیف اور حریف کے دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ تقسیم اتنی واضح اور نمایاں ہے کہ بچے تک یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ کون سا چینل حکومت کا طرف دار ہے اور اُس کے قابلِ گرفت اقدامات کو بھی درست اور مبنی برحق بناکر پیش کررہا ہے، اور کون سا چینل مخالف ہے جو اچھے اقدامات کو بھی عوام اور ملک دشمنی کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔
صحافت کے ادارے اور افراد پہلے بھی سیاسی جماعتوں کے حلیف یا حریف بنتے رہے ہیں، لیکن دونوں طرف کے لوگوں میں پہلے اپنی ساکھ اور اپنے ادارے کی غیرجانب داری کا لحاظ ضرور دیکھنے میں آتا تھا۔ اب کہیں لحاظ محسوس نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے، جیسے چند ایک گنے چنے لوگوں کو چھوڑ کر اس شعبے میں بیشتر وہ لوگ سرگرمِ عمل ہیں جو صحافت کو مقصدیت اور کردار سے مربوط رکھنے کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس، اُن کے نزدیک صحافت اب ایک انڈسٹری کا درجہ رکھتی ہے اور وہ اس سے انڈسٹریل فائدے اٹھانا ہی اصل کام سمجھتے ہیں۔ اس لیے اب آپ کو اخبارات کے صفحات پر اور چینل کے پروگرامز میں ایسے لوگ کم کم ہی ملتے ہیں جن کی بات میں وزن اور معروضیت کا احساس ہوتا ہے۔
جن لوگوں نے بھی سینیٹ کے ان انتخابات کے بارے میں غیرذمے داری اور معروضیت کے ساتھ بات کی ہے، ان میں ایک شخص ایسا نہیں ہے جس نے ان کے نتائج پر تشویش کا اظہار نہ کیا ہو۔ سیاست کے بارے میں تو اب کھلے لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ یہ امکانات کا کھیل ہے، اور بڑا سیاست داں وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ امکانات کو اپنے حق میں بروئے کار لاسکتا ہو، تو پھر تشویش کیسی؟ لیکن یہی تو اصل تشویش کی بات ہے کہ سیاست داں سارے امکانات کو اپنی ذات یا اپنی پارٹی کے حوالے سے دیکھتے اور اپنے اہداف مقرر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، اس کے لیے فائدے کے ہر ممکن اقدام کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور کوئی بھی کچھ بھی کرنے سے نہیں چوکتا۔
پیپلزپارٹی کی سینیٹ الیکشن میں جیت نے اس لیے سنجیدہ لوگوں کو فکرمند کیا ہے کہ اب یہ بھٹو یا بینظیر والی پارٹی نظر نہیں آتی، جس کے جیالے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس لیے کہ انھیں اپنی پارٹی کی آئیڈیالوجی اور قیادت کی عوام دوستی پر کامل یقین تھا۔ سیاسی قیادت کو بھی اپنے منشور کے نکات اور جلسے میں لگائے گئے نعروں کا لحاظ کرنا ہی پڑتا تھا اور عوامی امنگوں کی بے حسی کے ساتھ برملا نفی ممکن نہیں تھی۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ قیامِ پاکستان کے بعد جو سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، اُن میں سب سے بڑی جماعت بلاشبہہ پیپلزپارٹی ہی ہے۔ عوام میں جیسی پذیرائی اس جماعت کی ہوئی، وہ کچھ اسی کا حصہ ہے۔ اس کا دعویٰ تو آج بھی کیا جارہا ہے جو کسی طور درست نہیں ہے، لیکن ہاں بھٹو کی قیادت میں یہ پارٹی یقینا ملک کے چاروں صوبوں میں اپنی جڑیں اور ووٹرز رکھتی تھی، لیکن اب نہ وہ لوگ رہے اور نہ وہ باتیں رہیں۔
سیاست کو آج جن امکانات کا کھیل کہا جارہا ہے، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اُن کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی پارٹی کے لیے توقع سے زیادہ نشستیں ایوانِ بالا میں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ کُھلے لفظوں میں اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ سیاست میں کوئی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ سینیٹ کے اس الیکشن میں انھوں نے اپنی بات کو عملاً درست ثابت کیا ہے۔ سیاست کی بساط پر انھوں نے نہ صرف بڑی عقل مندی سے اپنے مہرے اس طرح چلے کہ انھیں کہیں مات نہیں ہوئی، بلکہ انھوں نے بادشاہ کو جس طرح شہ دی ہے اور جیسے اس کی چالوں کا توڑ کیا ہے، اس سے بہت واضح پیغام ملتا ہے کہ اس سال عام انتخابات کے لیے وہ اپنی تیاری سے غافل نہیں ہیں۔
اب یہ بات الگ ہے کہ آصف زرداری کی سینیٹ الیکشن میں اس کام یابی نے سنجیدہ اور معاملات پر غور کرنے والے لوگوں پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ کن خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ مخالفین کو تو چھوڑیے، عام آدمی بھی آصف علی زرداری کی اس کام یابی کو شک اور تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اچھا، عام آدمی کو بھی چھوڑیے، خود اُن کی پارٹی کے بردبار اور اصولی سیاست پر یقین رکھنے والے لوگ اُن کی اس فتح کو اصولوں کی سیاست کی شکست قرار دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے اپنے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے الیکشن کے بعد جن خیالات کا اظہار کیا، ان سے یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی کہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن کیا تھے اور کام یابی کا پروانہ لے کر کون لوگ ایوانِ بالا میں پہنچے ہیں۔ فرحت اللہ بابر کا یہ بیان پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کس حد تک ناگوار گزرا ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے اس بیان کو اُن کے ذاتی خیالات قرار دیا گیا، اور کہا گیا کہ ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، اور پھر انھیں پارٹی کی نمائندگی کے منصب سے بھی معزول کردیا گیا۔ لیکن اب اس کا کیا کیجیے گا کہ معروف قانون داں اور پیپلز پارٹی کے سینئر کارکن اعتزاز احسن نے بھی اپنے ساتھی فرحت اللہ بابر کے بیان کی تائید کی اور سینیٹ کے انتخابات کے سلسلے میں انھی کی طرح تحفظات کا اظہار کیا۔
پہلے کہا جاتا تھا، محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ پہلے کے لوگ سیاست کو بھی کارِ محبت گردانتے تھے، پھر اس کام میں وہ لوگ بھی آگئے جو سیاست جنگ کے اصولوں کے تحت کرنا چاہتے تھے۔ اب اگر کچھ لوگ خود اپنی پارٹی کی سینیٹ میں سیاسی کام یابی کو اصول، سچ اور کردار کی سیاست کا قتل سمجھتے ہیں اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کی مذمت کرتے ہیں تو کیا انھیں پرانی طرزِسیاست کے نمائندے کہہ کر بات ختم ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے، نہیں ہوسکتی۔ مسئلہ نئے اور پرانے کا نہیں ہے، مسئلہ اصل میں حق اور اصول کا ہے۔ اگر ایک شخص اُن پر یقین ہی نہیں رکھتا تو اُس کے لیے اُن کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اور جو شخص انھیں مانتا ہے، اُس کے لیے وہ ایمان کا درجہ یا جینے مرنے کا مسئلہ ہوسکتے ہیں۔
خیر، کچھ بھی ہے، آصف علی زرداری کو اس بات کی داد ضرور دینی چاہیے کہ براہِ راست نہ سہی، بالواسطہ ہی سہی وہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے لقا کبوتر جیسے مزاج رکھنے والے اراکین کو اپنی چھتری پر اتارنے میں بہرحال کام یاب ہوگئے۔ اب اگر الیکٹرونک میڈیا پر بیٹھے ہوئے اینکر پرسنز چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھیے آصف زرداری عمران خان اور اُن کی پارٹی کے بارے میں کیا کہتے رہے ہیں اور کوئی وہ کلپ بار بار چلا کر دکھا رہا ہے جس میں عمران خان، آصف زرداری کو سندھ کی سب سے بڑی بیماری اور پاکستان کا سب سے بڑا چور قرار دے رہے ہیں، تو اس سے بھلا زرداری صاحب کو کیا فرق پڑا۔
نواز شریف سینیٹ میں اپنے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں ناکام ہوگئے تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنا دل بہلا لیا کہ لوگو، دیکھ لو، زرداری اور عمران جو کل تک ایک دوسرے کے بدترین مخالف تھے، آج اکٹھے ہوگئے ہیں اور کس طرح اکٹھے ہوئے، ایک ہی جگہ جاکر سجدہ ریز ہوگئے۔ بے شک ایسا ہی نظر آرہا ہے، لیکن نتیجہ تو زرداری یا پیپلزپارٹی کے حق میں نکلا ہے۔
زرداری اور اُن کی پیپلز پارٹی فائدے میں رہی، یہ سب نے دیکھ لیا لیکن سوال یہ ہے، عمران خان اور اُن کی تحریکِ انصاف سینیٹ میں اپنی 13 نشستیں بلوچستان کے توسط سے زرداری کی جھولی میں ڈالنے اور اُن کے نامزد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے امیدواروں کو جتوانے کے بعد کہاں کھڑے ہیں؟ یہ بے حد سنجیدہ سوال ہے، اور تحریکِ انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے عوام کے ذہنوں میں آیا ہے۔ اہلِ نظر شک و شبہ سے بالاتر ہوکر اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ زرداری عمران خان اتحاد کا جتنا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچا ہے، اتنا ہی نقصان تحریکِ انصاف نے اٹھایا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ زرداری اور اُن کا قریبی حلقہ جو اس وقت پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھال رہا ہے، اُن کے بارے میں اب عوامی رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یہ رائے یقینا اتنی ہی خراب ہے، جتنی ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اَن تھک سپورٹرز کا ایک طبقہ تو اب کھلے عام اس خیال کا بھی اظہار کرنے لگا ہے کہ بلاول بھٹو کی لانچنگ کے باوجود یہ پارٹی اب وہ نہیں ہے جو خود بے نظیر بھٹو کے عہد تک تھی۔ اس لیے کہ اب بھی پارٹی کا منشور تو بظاہر وہی ہے، لیکن اس کے اصل مقاصد اور اہداف بدل چکے ہیں۔
خیر، اس وقت اصل مسئلہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کا ہے۔ کچھ لوگ حاصل بزنجو اور ان سے پہلے سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کی تقریروں کا حوالہ دے کر بات کرتے ہیں تو مایوسی اور افسوس کا سب سے زیادہ اظہار عمران خان کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ کیوں نہیں کیا جائے گا؟ اس لیے کہ عمران خان نے جو کچھ زرداری اور اُن کے سیاسی کردار کے بارے میں کہا ہے، اُس کے بعد ان کا بالواسطہ ہی سہی، زرداری سے اشتراکِ عمل سیاسی خودکشی کے سوا اور کوئی معنی نہیں رکھتا۔
عمران خان نے صاف لفظوں میں کہا اور کئی بار کہا ہے کہ ان کے نوازشریف اور آصف زرداری سے ہاتھ ملانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنی نظریاتی تحریک سے دستبردار ہورہے ہیں۔ انھوں نے یہ تک کہا کہ وہ سیاست نہیں کررہے، سیاست میں ایک مقصدی تحریک لے کر چل رہے ہیں۔ اس پر انھوں نے کوئی سمجھوتا نہ کرنے کے عزم کا بار بار اظہار بھی کیا ہے- لیکن ہوا کیا؟ اُن کی باتیں ہی باتیں رہ گئیں اور زرداری کام کرگئے۔
سیاست کوئی جوہڑ ہے یا سمندر، سرسبز میدان ہے یا لق و دق صحرا، جو بھی ہے، عمران خان اب اس میں لگ بھگ دو دہائیوں کا عرصہ گزار چکے ہیں۔ انھیں اب ناتجربے کاری کا مارجن لینے کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ آخر انھوں نے بلوچستان کے ذریعے ہی سہی، زرداری سے مفاہمت کا فیصلہ یوں ہی تو نہیں ہوگا۔ تو پھر کیا جو عوامی تأثر اس سلسلے میں آیا ہے، وہ درست ہے کہ کچھ غیرجمہوری قوتیں سیاست اور عوام کے ووٹ کی طاقت سے بالاتر ہوکر اس وقت ہمارے یہاں اپنا کھیل جما رہی ہیں؟
یہ بہت اہم سوال ہے۔ افسوس کے ساتھ ہی سہی، لیکن ماننا پڑتا ہے کہ سیاست سے لے کر اقتدار تک، تعلیم سے لے کر مذہب تک، سماجی و تہذیبی اداروں سے لے کر معاشی و انتظامی اداروں تک ہمارا ملک اُن سب لوگوں کے لیے لینڈ اوف اپورچونٹی بنا ہوا ہے، جو سچ، حق، محبت اور انصاف کے نام پر جھوٹ، باطل اور دھوکے کا کاروبار کررہے ہیں۔ تاہم اب یہ کھیل بہت زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا۔ اب یہاں عوام نے جذباتی نعروں کی گونج سے مسحور ہونا بہت حد تک کم کردیا ہے۔ اب یہاں ذہنوں میں سوال اٹھنے لگے ہیں اور زبانیں استفسار کرنے لگی ہیں۔ ان سب موقع پرست لوگوں کو اس کا تجربہ اس بار کے عام انتخابات میں ہوجائے گا۔
نئے اراکین منتخب ہوکر ایوانِ بالا کا حصہ بن گئے۔ نئے چیئرمین اور نئے ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگیا اور حلف اٹھا کر وہ اپنے منصب پر فائز بھی ہوگئے۔ گویا اب یہ ایوان اپنے عوام کے حقوق اور آئین کی پاس داری کے لیے ازسرِنو تیار ہوگیا ہے۔ اس ادارے سے یہ توقع بے جا نہیں ہے۔ اس لیے کہ ملک کا آئین ایوانِ بالا کو اسی حیثیت کا حامل بتاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایوانِ بالا کے حالیہ انتخابات کے بارے میں ایک شور برپا ہے۔
خیر، یہ کون سی نئی بات ہے؟ ہمارے یہاں تو کسی شہر کے بلدیاتی انتخابات ہی کیوں نہ ہوں، شور تو مچتا ہی ہے، یہ تو پھر ایوانِ بالا کا انتخاب تھا۔ جیتنے والے ہمیشہ اپنی فتح کا جشن شور شرابے کے ساتھ مناتے ہیں تو ہارنے والے، ہار کو تسلیم کرنے سے انکار اور دھاندلی کا شور کرتے ہیں۔ گویا شور تو ہمارے یہاں دو طرفہ اور مستقل قسم کی چیز ہے، ہر انتخابی عمل کے موقع پر جس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے سینٹ الیکشن 2018ء پر ہونے والے اس شور کو بھی ہمیں معمول کا رویہ سمجھ کر نظرانداز کردینا چاہیے۔
نہیں، صورتِ حال اس بار ایسی نہیں ہے۔ یہ شور ذرا کچھ مختلف ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مختلف کیوں ہے؟ یہ کام اس لیے ضروری ہے کہ اس کے اثرات ملک، آئین اور عوام پر ہوسکتے ہیں۔ چلیے، دیکھتے ہیں کہ اس بار کیا بات ایسی ہوئی ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوتی رہی۔
جیتنے ہارنے والی سیاسی جماعتوں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیجیے، یعنی کم سے کم اُن کے ایسے رویوں اور بیانات کو تو نظرانداز کردینا چاہیے جو وہ عام طور سے ایسی صورتِ حال میں پارٹی لائن کے طور پر دینے کے عادی ہوتے ہیں۔ اب رہ گئے وہ لوگ جن کا ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور وہ جو تعلق تو بے شک جیتنے ہارنے والی جماعتوں سے رکھتے ہیں، لیکن اُن کے بیانات پارٹی لائن کے کھاتے میں نہیں آتے۔ اس زُمرے میں صحافی اور سیاست داں دونوں ہی شامل ہیں۔
ان میں کچھ تو ایسے لوگ ہیں جنھوں نے سینیٹ کے الیکشن سے ذرا پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ جو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ آزادانہ اور شفاف انتخاب کا نتیجہ نہیں ہوگا، بلکہ اس انتخاب کے لیے منڈی لگ چکی ہے اور ووٹوں کی خریداری کے لیے بھاؤ تاؤ کی گرمی کھلے عام دیکھنے میں آرہی ہے۔
یہ تأثر نہ تو کسی ایک صوبے کے حوالے سے سامنے آیا تھا اور نہ ہی کسی ایک آدھ سیاسی جماعت کے بارے میں، بلکہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور فاٹا، یعنی پورے ملک کے بارے میں یہی اطلاعات تھیں۔ جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کا وہ بازار گرم ہوا کہ دیکھنے والوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ اراکین کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو عام آدمی بھی یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ جو کچھ وہ سنتا آرہا تھا، وہ صرف افواہیں نہیں تھیں، بلکہ عملاً وہ سب ہوا ہے جس نے توقع اور اندازے کے برخلاف نتائج پیش کیے ہیں۔ مسلم لیگ نون حکم راں جماعت ہے، اس کے باوجود اُس کے ووٹ ٹوٹ گئے۔
اس کے برعکس پیپلزپارٹی نے جتنے اراکین ایوانِ بالا میں پہنچا دیے، وہ سب کے لیے حیران کن تھا۔ خود تحریکِ انصاف اپنے صوبے سے وہ نتائج حاصل نہ کرسکی جن کا وہ یقین رکھتی تھی۔ اس پر عمران خان نے باقاعدہ کمیٹی بناکر تحقیقات کا اعلان بھی کیا۔ سندھ میں جو کچھ ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا، وہ بھی غیر متوقع تھا، اس پر جماعت کے بعض رہنماؤں نے اپنے شدید رنج اور تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ تاہم ایم کیو ایم کے مسئلے پر صحافی برادری اور عوام دونوں ہی نے کہا کہ ایم کیو ایم کی شکست دراصل پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ کا نتیجہ ہے۔
سینیٹ کے غیرمتوقع نتائج کے بارے میں صحافت کے لوگوں نے جس رائے کا اظہار کیا اور حالات و حقائق کا جس طرح تجزیہ کیا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ٹی وی چینلز اِس وقت حکومت کے حلیف اور حریف کے دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ تقسیم اتنی واضح اور نمایاں ہے کہ بچے تک یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ کون سا چینل حکومت کا طرف دار ہے اور اُس کے قابلِ گرفت اقدامات کو بھی درست اور مبنی برحق بناکر پیش کررہا ہے، اور کون سا چینل مخالف ہے جو اچھے اقدامات کو بھی عوام اور ملک دشمنی کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔
صحافت کے ادارے اور افراد پہلے بھی سیاسی جماعتوں کے حلیف یا حریف بنتے رہے ہیں، لیکن دونوں طرف کے لوگوں میں پہلے اپنی ساکھ اور اپنے ادارے کی غیرجانب داری کا لحاظ ضرور دیکھنے میں آتا تھا۔ اب کہیں لحاظ محسوس نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے، جیسے چند ایک گنے چنے لوگوں کو چھوڑ کر اس شعبے میں بیشتر وہ لوگ سرگرمِ عمل ہیں جو صحافت کو مقصدیت اور کردار سے مربوط رکھنے کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس، اُن کے نزدیک صحافت اب ایک انڈسٹری کا درجہ رکھتی ہے اور وہ اس سے انڈسٹریل فائدے اٹھانا ہی اصل کام سمجھتے ہیں۔ اس لیے اب آپ کو اخبارات کے صفحات پر اور چینل کے پروگرامز میں ایسے لوگ کم کم ہی ملتے ہیں جن کی بات میں وزن اور معروضیت کا احساس ہوتا ہے۔
جن لوگوں نے بھی سینیٹ کے ان انتخابات کے بارے میں غیرذمے داری اور معروضیت کے ساتھ بات کی ہے، ان میں ایک شخص ایسا نہیں ہے جس نے ان کے نتائج پر تشویش کا اظہار نہ کیا ہو۔ سیاست کے بارے میں تو اب کھلے لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ یہ امکانات کا کھیل ہے، اور بڑا سیاست داں وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ امکانات کو اپنے حق میں بروئے کار لاسکتا ہو، تو پھر تشویش کیسی؟ لیکن یہی تو اصل تشویش کی بات ہے کہ سیاست داں سارے امکانات کو اپنی ذات یا اپنی پارٹی کے حوالے سے دیکھتے اور اپنے اہداف مقرر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، اس کے لیے فائدے کے ہر ممکن اقدام کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور کوئی بھی کچھ بھی کرنے سے نہیں چوکتا۔
پیپلزپارٹی کی سینیٹ الیکشن میں جیت نے اس لیے سنجیدہ لوگوں کو فکرمند کیا ہے کہ اب یہ بھٹو یا بینظیر والی پارٹی نظر نہیں آتی، جس کے جیالے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس لیے کہ انھیں اپنی پارٹی کی آئیڈیالوجی اور قیادت کی عوام دوستی پر کامل یقین تھا۔ سیاسی قیادت کو بھی اپنے منشور کے نکات اور جلسے میں لگائے گئے نعروں کا لحاظ کرنا ہی پڑتا تھا اور عوامی امنگوں کی بے حسی کے ساتھ برملا نفی ممکن نہیں تھی۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ قیامِ پاکستان کے بعد جو سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، اُن میں سب سے بڑی جماعت بلاشبہہ پیپلزپارٹی ہی ہے۔ عوام میں جیسی پذیرائی اس جماعت کی ہوئی، وہ کچھ اسی کا حصہ ہے۔ اس کا دعویٰ تو آج بھی کیا جارہا ہے جو کسی طور درست نہیں ہے، لیکن ہاں بھٹو کی قیادت میں یہ پارٹی یقینا ملک کے چاروں صوبوں میں اپنی جڑیں اور ووٹرز رکھتی تھی، لیکن اب نہ وہ لوگ رہے اور نہ وہ باتیں رہیں۔
سیاست کو آج جن امکانات کا کھیل کہا جارہا ہے، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اُن کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی پارٹی کے لیے توقع سے زیادہ نشستیں ایوانِ بالا میں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ کُھلے لفظوں میں اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ سیاست میں کوئی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ سینیٹ کے اس الیکشن میں انھوں نے اپنی بات کو عملاً درست ثابت کیا ہے۔ سیاست کی بساط پر انھوں نے نہ صرف بڑی عقل مندی سے اپنے مہرے اس طرح چلے کہ انھیں کہیں مات نہیں ہوئی، بلکہ انھوں نے بادشاہ کو جس طرح شہ دی ہے اور جیسے اس کی چالوں کا توڑ کیا ہے، اس سے بہت واضح پیغام ملتا ہے کہ اس سال عام انتخابات کے لیے وہ اپنی تیاری سے غافل نہیں ہیں۔
اب یہ بات الگ ہے کہ آصف زرداری کی سینیٹ الیکشن میں اس کام یابی نے سنجیدہ اور معاملات پر غور کرنے والے لوگوں پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ کن خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ مخالفین کو تو چھوڑیے، عام آدمی بھی آصف علی زرداری کی اس کام یابی کو شک اور تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اچھا، عام آدمی کو بھی چھوڑیے، خود اُن کی پارٹی کے بردبار اور اصولی سیاست پر یقین رکھنے والے لوگ اُن کی اس فتح کو اصولوں کی سیاست کی شکست قرار دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے اپنے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے الیکشن کے بعد جن خیالات کا اظہار کیا، ان سے یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی کہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن کیا تھے اور کام یابی کا پروانہ لے کر کون لوگ ایوانِ بالا میں پہنچے ہیں۔ فرحت اللہ بابر کا یہ بیان پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کس حد تک ناگوار گزرا ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے اس بیان کو اُن کے ذاتی خیالات قرار دیا گیا، اور کہا گیا کہ ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، اور پھر انھیں پارٹی کی نمائندگی کے منصب سے بھی معزول کردیا گیا۔ لیکن اب اس کا کیا کیجیے گا کہ معروف قانون داں اور پیپلز پارٹی کے سینئر کارکن اعتزاز احسن نے بھی اپنے ساتھی فرحت اللہ بابر کے بیان کی تائید کی اور سینیٹ کے انتخابات کے سلسلے میں انھی کی طرح تحفظات کا اظہار کیا۔
پہلے کہا جاتا تھا، محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ پہلے کے لوگ سیاست کو بھی کارِ محبت گردانتے تھے، پھر اس کام میں وہ لوگ بھی آگئے جو سیاست جنگ کے اصولوں کے تحت کرنا چاہتے تھے۔ اب اگر کچھ لوگ خود اپنی پارٹی کی سینیٹ میں سیاسی کام یابی کو اصول، سچ اور کردار کی سیاست کا قتل سمجھتے ہیں اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کی مذمت کرتے ہیں تو کیا انھیں پرانی طرزِسیاست کے نمائندے کہہ کر بات ختم ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے، نہیں ہوسکتی۔ مسئلہ نئے اور پرانے کا نہیں ہے، مسئلہ اصل میں حق اور اصول کا ہے۔ اگر ایک شخص اُن پر یقین ہی نہیں رکھتا تو اُس کے لیے اُن کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اور جو شخص انھیں مانتا ہے، اُس کے لیے وہ ایمان کا درجہ یا جینے مرنے کا مسئلہ ہوسکتے ہیں۔
خیر، کچھ بھی ہے، آصف علی زرداری کو اس بات کی داد ضرور دینی چاہیے کہ براہِ راست نہ سہی، بالواسطہ ہی سہی وہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے لقا کبوتر جیسے مزاج رکھنے والے اراکین کو اپنی چھتری پر اتارنے میں بہرحال کام یاب ہوگئے۔ اب اگر الیکٹرونک میڈیا پر بیٹھے ہوئے اینکر پرسنز چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھیے آصف زرداری عمران خان اور اُن کی پارٹی کے بارے میں کیا کہتے رہے ہیں اور کوئی وہ کلپ بار بار چلا کر دکھا رہا ہے جس میں عمران خان، آصف زرداری کو سندھ کی سب سے بڑی بیماری اور پاکستان کا سب سے بڑا چور قرار دے رہے ہیں، تو اس سے بھلا زرداری صاحب کو کیا فرق پڑا۔
نواز شریف سینیٹ میں اپنے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں ناکام ہوگئے تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنا دل بہلا لیا کہ لوگو، دیکھ لو، زرداری اور عمران جو کل تک ایک دوسرے کے بدترین مخالف تھے، آج اکٹھے ہوگئے ہیں اور کس طرح اکٹھے ہوئے، ایک ہی جگہ جاکر سجدہ ریز ہوگئے۔ بے شک ایسا ہی نظر آرہا ہے، لیکن نتیجہ تو زرداری یا پیپلزپارٹی کے حق میں نکلا ہے۔
زرداری اور اُن کی پیپلز پارٹی فائدے میں رہی، یہ سب نے دیکھ لیا لیکن سوال یہ ہے، عمران خان اور اُن کی تحریکِ انصاف سینیٹ میں اپنی 13 نشستیں بلوچستان کے توسط سے زرداری کی جھولی میں ڈالنے اور اُن کے نامزد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے امیدواروں کو جتوانے کے بعد کہاں کھڑے ہیں؟ یہ بے حد سنجیدہ سوال ہے، اور تحریکِ انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے عوام کے ذہنوں میں آیا ہے۔ اہلِ نظر شک و شبہ سے بالاتر ہوکر اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ زرداری عمران خان اتحاد کا جتنا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچا ہے، اتنا ہی نقصان تحریکِ انصاف نے اٹھایا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ زرداری اور اُن کا قریبی حلقہ جو اس وقت پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھال رہا ہے، اُن کے بارے میں اب عوامی رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یہ رائے یقینا اتنی ہی خراب ہے، جتنی ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اَن تھک سپورٹرز کا ایک طبقہ تو اب کھلے عام اس خیال کا بھی اظہار کرنے لگا ہے کہ بلاول بھٹو کی لانچنگ کے باوجود یہ پارٹی اب وہ نہیں ہے جو خود بے نظیر بھٹو کے عہد تک تھی۔ اس لیے کہ اب بھی پارٹی کا منشور تو بظاہر وہی ہے، لیکن اس کے اصل مقاصد اور اہداف بدل چکے ہیں۔
خیر، اس وقت اصل مسئلہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کا ہے۔ کچھ لوگ حاصل بزنجو اور ان سے پہلے سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کی تقریروں کا حوالہ دے کر بات کرتے ہیں تو مایوسی اور افسوس کا سب سے زیادہ اظہار عمران خان کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ کیوں نہیں کیا جائے گا؟ اس لیے کہ عمران خان نے جو کچھ زرداری اور اُن کے سیاسی کردار کے بارے میں کہا ہے، اُس کے بعد ان کا بالواسطہ ہی سہی، زرداری سے اشتراکِ عمل سیاسی خودکشی کے سوا اور کوئی معنی نہیں رکھتا۔
عمران خان نے صاف لفظوں میں کہا اور کئی بار کہا ہے کہ ان کے نوازشریف اور آصف زرداری سے ہاتھ ملانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنی نظریاتی تحریک سے دستبردار ہورہے ہیں۔ انھوں نے یہ تک کہا کہ وہ سیاست نہیں کررہے، سیاست میں ایک مقصدی تحریک لے کر چل رہے ہیں۔ اس پر انھوں نے کوئی سمجھوتا نہ کرنے کے عزم کا بار بار اظہار بھی کیا ہے- لیکن ہوا کیا؟ اُن کی باتیں ہی باتیں رہ گئیں اور زرداری کام کرگئے۔
سیاست کوئی جوہڑ ہے یا سمندر، سرسبز میدان ہے یا لق و دق صحرا، جو بھی ہے، عمران خان اب اس میں لگ بھگ دو دہائیوں کا عرصہ گزار چکے ہیں۔ انھیں اب ناتجربے کاری کا مارجن لینے کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ آخر انھوں نے بلوچستان کے ذریعے ہی سہی، زرداری سے مفاہمت کا فیصلہ یوں ہی تو نہیں ہوگا۔ تو پھر کیا جو عوامی تأثر اس سلسلے میں آیا ہے، وہ درست ہے کہ کچھ غیرجمہوری قوتیں سیاست اور عوام کے ووٹ کی طاقت سے بالاتر ہوکر اس وقت ہمارے یہاں اپنا کھیل جما رہی ہیں؟
یہ بہت اہم سوال ہے۔ افسوس کے ساتھ ہی سہی، لیکن ماننا پڑتا ہے کہ سیاست سے لے کر اقتدار تک، تعلیم سے لے کر مذہب تک، سماجی و تہذیبی اداروں سے لے کر معاشی و انتظامی اداروں تک ہمارا ملک اُن سب لوگوں کے لیے لینڈ اوف اپورچونٹی بنا ہوا ہے، جو سچ، حق، محبت اور انصاف کے نام پر جھوٹ، باطل اور دھوکے کا کاروبار کررہے ہیں۔ تاہم اب یہ کھیل بہت زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا۔ اب یہاں عوام نے جذباتی نعروں کی گونج سے مسحور ہونا بہت حد تک کم کردیا ہے۔ اب یہاں ذہنوں میں سوال اٹھنے لگے ہیں اور زبانیں استفسار کرنے لگی ہیں۔ ان سب موقع پرست لوگوں کو اس کا تجربہ اس بار کے عام انتخابات میں ہوجائے گا۔