روس اور بھارت کی جدا ہوتی راہیں
ان جیو پالٹیکس عوامل کا بیان جو ماضی کے گہرے دوستوں میں خلیج حائل کر چکے۔
پچھلے دنوں روس اور برطانیہ نے ایک دوسرے کے تیئس ،تیئس سفارت کار نکال باہر کیے اور یوں دونوں عالمی قوتوں کے باہمی تعلقات میں نئی دراڑ آ گئی۔
چند برس سے روس اور مغرب کے تعلقات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سے حالیہ منہ ماری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔کم ہی پاکستانی جانتے ہیں کہ مغرب خصوصاً امریکا کی جانب بھارت کے بڑھتے جھکاؤ کی وجہ ہی سے روس بھارتی حکومت سے بھی خاصا متنفر ہو چکا۔
اس ناراضی کا مظاہرہ کچھ عرصہ قبل دیکھنے کو ملاجب روس نے حیران کن طور پہ بلوچ رہنماؤں کو بھارت پر لعنت ملامت کرنے کی اجازت دے دی۔دنیا میں تیل، گیس اور معدنیات کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والا روس عسکری لحاظ سے بھی ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ چناں چہ کئی ممالک اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان اور روس کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے ۔اس کی وجہ روس اور بھارت کی قربت ہے۔تاہم چند برس سے عالمی سطح پر ایسی تبدیلیاں جنم لے چکیں جنہوں نے روس اور بھارت میں دوریاں بڑھا دیں۔
مغربی ممالک نے بسلسلہ مسئلہ کریمیا روس پر پابندیاں لگائیں تو وہ چین کی سمت جھک گیا۔ اب روس اور چین کے مابین باہمی تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس دوران پاکستان اور امریکا کے مابین دوریاں بڑھتی گئیں۔ حتیٰ کہ اب قوم پرست امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو معاشی نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ امریکی حکومت نے وطن عزیز کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل کروا دیا۔ اس سے قبل امریکا پاکستان کی عسکری امداد بھی روک چکا ہے۔
امریکا سے بڑھتے فاصلوں کے باعث اب پاکستان قریبی عالمی طاقتوں، چین اور روس سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اُدھر چین اور روس کی بڑھتی قربت بھارتی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ بن رہی ہے۔ گو بھارت اور چین کے مابین اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے مگر عسکری و سیاسی معاملات میں اکثر دونوں پڑوسی آپس میں الجھے رہتے ہیں۔ اب تو بھارت امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے بالمقابل ایک پروجیکٹ شروع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
بھارتی حکومت کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس شش و پنج میں ہیں، مستقبل میں اگر چین اور بھارت کے مابین کوئی بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہوا تو روس کس کا ساتھ دے گا؟ چین اور روس کی بڑھتی قربت تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ روسی حکومت چینیوں کی طرف داری کرے گی۔ ممکن ہے کہ وہ کسی مسئلے پر چین کے آگے بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے۔ اسی سوچ کے باعث بھارتی حکمران بتدریج امریکا اور یورپ سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگے ہیں۔
ظاہر ہے، روسی حکومت کو بھارت کا یہ جھکاؤ پسند نہیں آیا۔ وجہ یہ کہ روس اور امریکا کے درمیان تناؤ رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں روسی صدر پیوٹن نے امریکی ریاست کیلیفورنیا پر ایٹمی میزائل حملہ کرنے کی دھمکی دی جو نہایت اہم بات ہے۔ اسی طرح روس جدید ترین اسلحہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کرچکا اور امریکی بھی اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ گویا دونوں ممالک کے مابین نت نیا اسلحہ بنانے کی دوڑ پھر جنم لے چکی۔ یہ کرۂ ارض کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔
اس معاندانہ صورتحال میں روس کو بھارتی وزیراعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کی ''جھپیاں'' پسند نہیں آئیں لہٰذا وہ پاکستان سے قربت بڑھا کر بھی بھارت کے سامنے اظہار ناراضی کرتا ہے۔ روس زمانہ قریب میں نہ صرف پاکستان کو ہیلی کاپٹر فراہم کرچکا بلکہ اس نے جے ایف 17 طیاروں کی خاطر انجن بھی فروخت کیے۔ معاشی طور پر بھی روس پاکستان کی مدد کررہا ہے۔ امکان ہے کہ کراچی تا لاہور کی ایل این جی گیس پائپ لائن روسی کمپنیاں ہی تعمیر کریں گی۔پچھلے ماہ روس نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے سیاسی سطح پر بھی پاکستان کی حمایت کردی۔ یہ نہایت اہم تبدیلی ہے۔ جیسا کہ نئی دہلی میں واقع مشہور بھارت تھنک ٹینک، آبزور ریسرچ فاؤنڈیشن سے منسلک محقق، پروفیسر سوشانت سیرین کا کہنا ہے ''اگر روسی حکومت عالمی و مقامی سطح پر پاکستان کی سیاسی حمایت کرنے لگی، تو اس سے بھارت کے لیے کافی مشکلات جنم لیں گی۔''
پاکستان کے لیے روسی حکومت کی زبردست سیاسی حمایت یہ ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پر ایک ممتاز بلوچ قوم پرست لیڈر کو بھارت پر کھلے عام لعنت ملامت کرنے کی اجازت دے دی۔ یہی نہیں بلوچی رہنما نے علی اعلان کہہ ڈالا کہ بلوچستان میں بھارت دہشت گردی کروا رہا ہے۔سرزمین روس پر کسی بلوچ قوم پرست لیڈر کا یہ اعلان کرنا نہایت اہم تبدیلی ہے۔ یاد رہے، ماضی میں روسی حکمران بھارتی حکومت کی مدد کرتے رہے ہیں تاکہ وہ پاکستانی صوبوں سرحد اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دے سکے۔ مگر اب صورت حال بدل چکی اور روسی حکومت بھارتیوں کے دیئے گئے گندے انڈے سامنے لارہی ہے۔یاد رہے،حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ نے روس کا دورہ بھی کیا ہے۔
بلوچستان کا اہم خاندان
17 فروری کو اہل قوم نے یہ خبر بہ صد مسّرت سنی کہ درج بالا بلوچ قوم پرست لیڈر، ڈاکٹر جمعہ خان مری نے ریاست پاکستان کے خلاف جدوجہد ترک کرتے ہوئے اس سے وفادار رہنے کا اعلان کردیا۔ یوں بلوچستان میں سرگرم مسلح اور غیر مسلح جدوجہد کرنے والے علیحدگی پسندوں کو زبردست ضرب پہنچی اور ان کے حوصلے پست ہوگئے۔ اب یہ نظر آنے لگا ہے کہ مستقبل میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک رفتہ رفتہ دم توڑ جائے اور بلوچستان امن و محبت کا گہوارہ بننے لگے گا۔ اس خوش کن امید کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے نئے اتحاد بن رہے ہیں اور خصوصاً بڑی طاقتوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔
ڈاکٹر جمعہ خان مری معمولی شخصیت نہیں، ان کے خاندان کا شمار بلوچستان اور وہاں کی مقامی تاریخ کے اہم خاندانوں میں ہوتا ہے۔ اسی لیے پاکستان سے وفادار رہنے کے اعلان کو بڑی اہمیت دی گئی۔ اس اعلان کے بعد پاک فوج کے سربراہ نے بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں نئے ترقیاتی اور عوام دوست منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان منصوبوں میں ضلع آواران کے جھلماؤ قصبے میں کیڈٹ کالج کا قیام بھی شامل ہے۔عوام کی فلاح وبہبود پر مبنی ان منصوبوں کے ذریعے بلوچوں میں ملک و قوم سے محبت و قربت کے جذبات جنم لیں گے۔
مری قبیلہ بلوچستان کے بڑے بلوچ قبائل میں سے ایک ہے۔ اس کی تین بڑی شاخیں ہیں: بجارانی، گزینی اور لوہارانی۔ ان شاخوں کی مزید ذیلی شاخیں ہیں۔ بجارانی کی ایک اہم ذیلی شاخ رامکانی کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر جمعہ خان مری اسی را مکانی مری قبیلے کے سردار، میر ہزار خان رامکانی کے فرزند ہیں۔
ڈاکٹر جمعہ کے دادا، مخدوم گُلہ خان مشہور حریت پسند بلوچ رہنما گزرے ہیں۔ انہوں نے اوائل بیسویں صدی میں غاصب انگریزوں کے خلاف لڑ کر بہت شہرت کمائی۔ ہوا یہ کہ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، تو ہندوستان پر قابض انگریز کوشش کرنے لگے کہ برطانوی ہند کی فوج میں مری قبائل کے نوجوان بھی شامل ہوجائیں۔ مگر سرداروں نے انکار کردیا۔اس انکار کو انگریز آقا نے اپنی ہتک سمجھا۔
چناں چہ بدلہ لینے کی خاطر انگریزوں نے مری قبائل کے علاقوں پر حملہ کردیا۔ اس وقت تمام مری سرداروں میں گلہ خان ہی امیر ترین سردار تھے۔ ان کے پاس سب سے زیادہ بھیڑ بکریاں تھیں اور زمینیں بھی۔ گلہ خان نے اعلان کردیا کہ مری قبائل کا لشکر تیار کرنے کی خاطر وہ خوب سرمایہ فراہم کریں گے۔ اس اعلان سے دیگر سرداروں کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے حملہ آور انگریز فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر لشکر تیار کرلیا۔مری قبائل اور انگریزوں کے مابین چار برس (1917ء تا 1921ء) لڑائی جاری رہی۔ مری لشکر وسائل سے محروم تھا مگر جذبہ حب الوطنی اور گلہ خان کے سرمائے نے اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ طویل عرصہ طاقتور دشمن کا مقابلہ کرسکے۔ آخر جدید ترین اسلحے کے بل پر انگریز غالب آگئے۔ تب بھی مری سرداروں نے تاوان دینا تو قبول کرلیا مگر انگریزوں کو میدان جنگ میں بجھوانے کی خاطر اپنے بیٹے نہ دیئے۔
جب غلط فہمیوں کے باعث بلوچ سرداروں اور پاکستانی حکومت کے مابین مناقشہ شروع ہوا تو گلہ خان بھی اس کا حصہ بن گئے۔1970ء میں جب وہ بوڑھے ہوئے، تو قبیلے کی سرداری ان کے بیٹے، میر ہزار خان کو سونپ دی گئی۔1973ء میں بھٹو حکومت نے بلوچ سرداروں پر علیحدگی پسند تحریک چلانے کا الزام لگایا اور انہیں قابو کرنے کی خاطر صوبے میں فوج بھجوادی۔ یوں بلوچستان خانہ جنگی کا نشانہ بن گیا۔ تب نواب خیر بخش مری مری قبائل کے سربراہ تھے۔ ان کی وجہ سے مری قبائل کے دیگر سردار بھی خانہ جنگی میں حصہ لینے لگے۔
یہ خانہ جنگی پانچ برس جاری رہی۔ اس میں میر ہزار خان نے بھی حصہ لیا۔ انہیں نواب خیر بخش مری کا دست راست سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 1978ء میں پسپائی کے بعد میر ہزار سمیت کئی بلوچ سردار افغانستان چلے گئے۔ میر ہزار کے اہل خانہ میں بیٹا جمعہ خان بھی شامل تھا۔ڈاکٹر جمعہ نے ابتدائی تعلیم کابل کے ایک بھارتی اسکول میں پائی۔ وہ پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ماسکو چلے گئے۔ انہوں نے وہاں مناعیات (immunology) اور الرجی پر پی ایچ ڈی کیا۔ گویا ان کا شمار انتہائی تعلیم یافتہ بلوچ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
1995ء میں میر ہزار خان افغانستان سے بلوچستان واپس چلے آئے۔ انہوں نے تبھی مسلح جدوجہد ترک کرنے کا اعلان کردیا۔ اس پر ڈاکٹرجمعہ خان نے والد سے لاتعلقی کا اعلان کر ڈالا۔ انہوں نے باپ پر الزام لگایا کہ وہ پاکستانی حکومت کے ہاتھوں بک گئے ہیں مگر میر ہزار خان نے واضح کیا کہ اپنے قبیلے کے عوام کے اچھے مستقبل اور فلاح و بہبود کی خاطر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ میر ہزار کا کہنا تھا کہ آپس کی لڑائی میں کچھ نہیں رکھا بلکہ یہ اپنے آپ ہی کو تباہ کردیتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ میر ہزار خان رامکانی دیگر بلوچ سرداروں سے مختلف ہیں۔ اکثر بلوچ سردار ذاتی مفادات رکھتے ہیں مگر میر ہزار ہمیشہ اپنے عوام کی بہتری کے لیے کوشاں رہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 1995ء میں بے نظیر بھٹو حکومت نے انہیں ایک کروڑ ڈالر دینے کی پیش کش کی تھی تاکہ وہ مسلح جدوجہد ترک کردیں مگر میر ہزار خان نے یہ زر کثیر لینے سے انکار کردیا۔ اس کے بدلے انہوں نے یہ شرط رکھی کہ بجارانی قبیلے کے 1300 افراد کو سرکاری ملازمتیں دے دی جائیں۔ یوں انہوں نے ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنے لوگوں کا مستقبل سنوار دیا۔اس دوران ڈاکٹر جمعہ خان نے ان بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھی جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر جمعہ ہی ہیں جنہوں نے وہ جھنڈا ڈیزائن کیا جسے بلوچ علیحدگی پسند اپنی آزاد ریاست (بلوچستان) کا قومی پرچم قرار دیتے ہیں۔ یہ امر واضح کرتا ہے کہ ڈاکٹر جمعہ کو بلوچ علیحدگی پسند تحریک میں نمایاں مقام حاصل تھا۔
2015ء میں ڈاکٹر جمعہ خان نے بلوچستان میں جاری مسلح سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اس عمل کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیا۔ تاہم وہ آزاد بلوچ ریاست کے قیام کی خاطر سرگرم رہے۔ انہوں نے مختلف بلوچ علیحدگی پسند لیڈروں مثلاً براہمداغ بگٹی، ہربیار مری، مہران مری وغیرہ سے ملاقاتیں جاری رکھیں اور پاکستانی ریاست کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ لیکن اب وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں سے تائب ہوچکے اور اس دیس کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر جمعہ خان مری بلوچ علیحدگی پسند تحریک کا اہم حصہ رہے ہیں۔
لہٰذا وہ ایسے رازوں سے بھی واقف ہیں جن سے عام لوگ آشنا نہیں۔ پاکستان سے اظہار وفاداری کرنے کے بعد انہوں نے میڈیا کو انٹرویو دیئے اور اہم ترین انکشاف یہ کیا کہ آج بھارت بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کا سب سے بڑا سرپرست بن چکا ہے۔ ماضی میں یہ محض قیاس آرائی تھی کہ ریاست پاکستان سے نبرد آزما بلوچوں کو بھارت سرمایہ و اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ مگر اہم سابق علیحدگی پسند رہنما کے انکشاف نے سبھی مفروضوں کو درست ثابت کردیا۔ انھون نے یہ بھی افشا کیا کہ براہمداغ بگٹی، ہربیار مری، مہران مری وغیرہ بھارتی خفیہ ایجنسی،را کے باقاعدہ تنخواہ دار ایجنٹ ہیں۔
اس انکشاف سے ان ہم وطنوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں جو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کا ذمے دار بھارت کو قرار نہیں دیتے۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت بلوچ علحیدگی پسندوں ہی نہیں پاکستانی طالبان اور فرقہ ورانہ پاکستانی تنظیموں کو بھی کسی نہ کسی طرح اسلحہ وسرمایہ فراہم کر رہا ہے تاکہ بالخصوص بلوچستان مسلسل انتشار وبدامنی کا شکار رہے اور وہاں سی پیک کے منصوبے التوا کا نشانہ بن جائیں۔بھارت نے امریکا اور امریکی حکمرانوں کی کٹھ پتلی افغان حکومت کی آشیرباد سے افغانستان میں اپنے خفیہ اڈے بنا رکھے ہیں جہاں تعنیات را کے افسر پاکستانی صوبوں میں سرگرم دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں۔لیکن چین اور اب روس کی حمایت سے پاکستان اس قابل ہو رہا ہے کہ ان بھارتی پیادوں کا قلع قمع کر سکے۔یہ پاکستان کے بہتر مستقبل کی نوید سناتی خوش آئند تبدیلی ہے۔
چند برس سے روس اور مغرب کے تعلقات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سے حالیہ منہ ماری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔کم ہی پاکستانی جانتے ہیں کہ مغرب خصوصاً امریکا کی جانب بھارت کے بڑھتے جھکاؤ کی وجہ ہی سے روس بھارتی حکومت سے بھی خاصا متنفر ہو چکا۔
اس ناراضی کا مظاہرہ کچھ عرصہ قبل دیکھنے کو ملاجب روس نے حیران کن طور پہ بلوچ رہنماؤں کو بھارت پر لعنت ملامت کرنے کی اجازت دے دی۔دنیا میں تیل، گیس اور معدنیات کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والا روس عسکری لحاظ سے بھی ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ چناں چہ کئی ممالک اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان اور روس کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے ۔اس کی وجہ روس اور بھارت کی قربت ہے۔تاہم چند برس سے عالمی سطح پر ایسی تبدیلیاں جنم لے چکیں جنہوں نے روس اور بھارت میں دوریاں بڑھا دیں۔
مغربی ممالک نے بسلسلہ مسئلہ کریمیا روس پر پابندیاں لگائیں تو وہ چین کی سمت جھک گیا۔ اب روس اور چین کے مابین باہمی تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس دوران پاکستان اور امریکا کے مابین دوریاں بڑھتی گئیں۔ حتیٰ کہ اب قوم پرست امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو معاشی نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ امریکی حکومت نے وطن عزیز کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل کروا دیا۔ اس سے قبل امریکا پاکستان کی عسکری امداد بھی روک چکا ہے۔
امریکا سے بڑھتے فاصلوں کے باعث اب پاکستان قریبی عالمی طاقتوں، چین اور روس سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اُدھر چین اور روس کی بڑھتی قربت بھارتی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ بن رہی ہے۔ گو بھارت اور چین کے مابین اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے مگر عسکری و سیاسی معاملات میں اکثر دونوں پڑوسی آپس میں الجھے رہتے ہیں۔ اب تو بھارت امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے بالمقابل ایک پروجیکٹ شروع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
بھارتی حکومت کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس شش و پنج میں ہیں، مستقبل میں اگر چین اور بھارت کے مابین کوئی بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہوا تو روس کس کا ساتھ دے گا؟ چین اور روس کی بڑھتی قربت تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ روسی حکومت چینیوں کی طرف داری کرے گی۔ ممکن ہے کہ وہ کسی مسئلے پر چین کے آگے بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے۔ اسی سوچ کے باعث بھارتی حکمران بتدریج امریکا اور یورپ سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگے ہیں۔
ظاہر ہے، روسی حکومت کو بھارت کا یہ جھکاؤ پسند نہیں آیا۔ وجہ یہ کہ روس اور امریکا کے درمیان تناؤ رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں روسی صدر پیوٹن نے امریکی ریاست کیلیفورنیا پر ایٹمی میزائل حملہ کرنے کی دھمکی دی جو نہایت اہم بات ہے۔ اسی طرح روس جدید ترین اسلحہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کرچکا اور امریکی بھی اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ گویا دونوں ممالک کے مابین نت نیا اسلحہ بنانے کی دوڑ پھر جنم لے چکی۔ یہ کرۂ ارض کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔
اس معاندانہ صورتحال میں روس کو بھارتی وزیراعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کی ''جھپیاں'' پسند نہیں آئیں لہٰذا وہ پاکستان سے قربت بڑھا کر بھی بھارت کے سامنے اظہار ناراضی کرتا ہے۔ روس زمانہ قریب میں نہ صرف پاکستان کو ہیلی کاپٹر فراہم کرچکا بلکہ اس نے جے ایف 17 طیاروں کی خاطر انجن بھی فروخت کیے۔ معاشی طور پر بھی روس پاکستان کی مدد کررہا ہے۔ امکان ہے کہ کراچی تا لاہور کی ایل این جی گیس پائپ لائن روسی کمپنیاں ہی تعمیر کریں گی۔پچھلے ماہ روس نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے سیاسی سطح پر بھی پاکستان کی حمایت کردی۔ یہ نہایت اہم تبدیلی ہے۔ جیسا کہ نئی دہلی میں واقع مشہور بھارت تھنک ٹینک، آبزور ریسرچ فاؤنڈیشن سے منسلک محقق، پروفیسر سوشانت سیرین کا کہنا ہے ''اگر روسی حکومت عالمی و مقامی سطح پر پاکستان کی سیاسی حمایت کرنے لگی، تو اس سے بھارت کے لیے کافی مشکلات جنم لیں گی۔''
پاکستان کے لیے روسی حکومت کی زبردست سیاسی حمایت یہ ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پر ایک ممتاز بلوچ قوم پرست لیڈر کو بھارت پر کھلے عام لعنت ملامت کرنے کی اجازت دے دی۔ یہی نہیں بلوچی رہنما نے علی اعلان کہہ ڈالا کہ بلوچستان میں بھارت دہشت گردی کروا رہا ہے۔سرزمین روس پر کسی بلوچ قوم پرست لیڈر کا یہ اعلان کرنا نہایت اہم تبدیلی ہے۔ یاد رہے، ماضی میں روسی حکمران بھارتی حکومت کی مدد کرتے رہے ہیں تاکہ وہ پاکستانی صوبوں سرحد اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دے سکے۔ مگر اب صورت حال بدل چکی اور روسی حکومت بھارتیوں کے دیئے گئے گندے انڈے سامنے لارہی ہے۔یاد رہے،حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ نے روس کا دورہ بھی کیا ہے۔
بلوچستان کا اہم خاندان
17 فروری کو اہل قوم نے یہ خبر بہ صد مسّرت سنی کہ درج بالا بلوچ قوم پرست لیڈر، ڈاکٹر جمعہ خان مری نے ریاست پاکستان کے خلاف جدوجہد ترک کرتے ہوئے اس سے وفادار رہنے کا اعلان کردیا۔ یوں بلوچستان میں سرگرم مسلح اور غیر مسلح جدوجہد کرنے والے علیحدگی پسندوں کو زبردست ضرب پہنچی اور ان کے حوصلے پست ہوگئے۔ اب یہ نظر آنے لگا ہے کہ مستقبل میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک رفتہ رفتہ دم توڑ جائے اور بلوچستان امن و محبت کا گہوارہ بننے لگے گا۔ اس خوش کن امید کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے نئے اتحاد بن رہے ہیں اور خصوصاً بڑی طاقتوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔
ڈاکٹر جمعہ خان مری معمولی شخصیت نہیں، ان کے خاندان کا شمار بلوچستان اور وہاں کی مقامی تاریخ کے اہم خاندانوں میں ہوتا ہے۔ اسی لیے پاکستان سے وفادار رہنے کے اعلان کو بڑی اہمیت دی گئی۔ اس اعلان کے بعد پاک فوج کے سربراہ نے بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں نئے ترقیاتی اور عوام دوست منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان منصوبوں میں ضلع آواران کے جھلماؤ قصبے میں کیڈٹ کالج کا قیام بھی شامل ہے۔عوام کی فلاح وبہبود پر مبنی ان منصوبوں کے ذریعے بلوچوں میں ملک و قوم سے محبت و قربت کے جذبات جنم لیں گے۔
مری قبیلہ بلوچستان کے بڑے بلوچ قبائل میں سے ایک ہے۔ اس کی تین بڑی شاخیں ہیں: بجارانی، گزینی اور لوہارانی۔ ان شاخوں کی مزید ذیلی شاخیں ہیں۔ بجارانی کی ایک اہم ذیلی شاخ رامکانی کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر جمعہ خان مری اسی را مکانی مری قبیلے کے سردار، میر ہزار خان رامکانی کے فرزند ہیں۔
ڈاکٹر جمعہ کے دادا، مخدوم گُلہ خان مشہور حریت پسند بلوچ رہنما گزرے ہیں۔ انہوں نے اوائل بیسویں صدی میں غاصب انگریزوں کے خلاف لڑ کر بہت شہرت کمائی۔ ہوا یہ کہ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، تو ہندوستان پر قابض انگریز کوشش کرنے لگے کہ برطانوی ہند کی فوج میں مری قبائل کے نوجوان بھی شامل ہوجائیں۔ مگر سرداروں نے انکار کردیا۔اس انکار کو انگریز آقا نے اپنی ہتک سمجھا۔
چناں چہ بدلہ لینے کی خاطر انگریزوں نے مری قبائل کے علاقوں پر حملہ کردیا۔ اس وقت تمام مری سرداروں میں گلہ خان ہی امیر ترین سردار تھے۔ ان کے پاس سب سے زیادہ بھیڑ بکریاں تھیں اور زمینیں بھی۔ گلہ خان نے اعلان کردیا کہ مری قبائل کا لشکر تیار کرنے کی خاطر وہ خوب سرمایہ فراہم کریں گے۔ اس اعلان سے دیگر سرداروں کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے حملہ آور انگریز فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر لشکر تیار کرلیا۔مری قبائل اور انگریزوں کے مابین چار برس (1917ء تا 1921ء) لڑائی جاری رہی۔ مری لشکر وسائل سے محروم تھا مگر جذبہ حب الوطنی اور گلہ خان کے سرمائے نے اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ طویل عرصہ طاقتور دشمن کا مقابلہ کرسکے۔ آخر جدید ترین اسلحے کے بل پر انگریز غالب آگئے۔ تب بھی مری سرداروں نے تاوان دینا تو قبول کرلیا مگر انگریزوں کو میدان جنگ میں بجھوانے کی خاطر اپنے بیٹے نہ دیئے۔
جب غلط فہمیوں کے باعث بلوچ سرداروں اور پاکستانی حکومت کے مابین مناقشہ شروع ہوا تو گلہ خان بھی اس کا حصہ بن گئے۔1970ء میں جب وہ بوڑھے ہوئے، تو قبیلے کی سرداری ان کے بیٹے، میر ہزار خان کو سونپ دی گئی۔1973ء میں بھٹو حکومت نے بلوچ سرداروں پر علیحدگی پسند تحریک چلانے کا الزام لگایا اور انہیں قابو کرنے کی خاطر صوبے میں فوج بھجوادی۔ یوں بلوچستان خانہ جنگی کا نشانہ بن گیا۔ تب نواب خیر بخش مری مری قبائل کے سربراہ تھے۔ ان کی وجہ سے مری قبائل کے دیگر سردار بھی خانہ جنگی میں حصہ لینے لگے۔
یہ خانہ جنگی پانچ برس جاری رہی۔ اس میں میر ہزار خان نے بھی حصہ لیا۔ انہیں نواب خیر بخش مری کا دست راست سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 1978ء میں پسپائی کے بعد میر ہزار سمیت کئی بلوچ سردار افغانستان چلے گئے۔ میر ہزار کے اہل خانہ میں بیٹا جمعہ خان بھی شامل تھا۔ڈاکٹر جمعہ نے ابتدائی تعلیم کابل کے ایک بھارتی اسکول میں پائی۔ وہ پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ماسکو چلے گئے۔ انہوں نے وہاں مناعیات (immunology) اور الرجی پر پی ایچ ڈی کیا۔ گویا ان کا شمار انتہائی تعلیم یافتہ بلوچ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
1995ء میں میر ہزار خان افغانستان سے بلوچستان واپس چلے آئے۔ انہوں نے تبھی مسلح جدوجہد ترک کرنے کا اعلان کردیا۔ اس پر ڈاکٹرجمعہ خان نے والد سے لاتعلقی کا اعلان کر ڈالا۔ انہوں نے باپ پر الزام لگایا کہ وہ پاکستانی حکومت کے ہاتھوں بک گئے ہیں مگر میر ہزار خان نے واضح کیا کہ اپنے قبیلے کے عوام کے اچھے مستقبل اور فلاح و بہبود کی خاطر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ میر ہزار کا کہنا تھا کہ آپس کی لڑائی میں کچھ نہیں رکھا بلکہ یہ اپنے آپ ہی کو تباہ کردیتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ میر ہزار خان رامکانی دیگر بلوچ سرداروں سے مختلف ہیں۔ اکثر بلوچ سردار ذاتی مفادات رکھتے ہیں مگر میر ہزار ہمیشہ اپنے عوام کی بہتری کے لیے کوشاں رہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 1995ء میں بے نظیر بھٹو حکومت نے انہیں ایک کروڑ ڈالر دینے کی پیش کش کی تھی تاکہ وہ مسلح جدوجہد ترک کردیں مگر میر ہزار خان نے یہ زر کثیر لینے سے انکار کردیا۔ اس کے بدلے انہوں نے یہ شرط رکھی کہ بجارانی قبیلے کے 1300 افراد کو سرکاری ملازمتیں دے دی جائیں۔ یوں انہوں نے ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنے لوگوں کا مستقبل سنوار دیا۔اس دوران ڈاکٹر جمعہ خان نے ان بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھی جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر جمعہ ہی ہیں جنہوں نے وہ جھنڈا ڈیزائن کیا جسے بلوچ علیحدگی پسند اپنی آزاد ریاست (بلوچستان) کا قومی پرچم قرار دیتے ہیں۔ یہ امر واضح کرتا ہے کہ ڈاکٹر جمعہ کو بلوچ علیحدگی پسند تحریک میں نمایاں مقام حاصل تھا۔
2015ء میں ڈاکٹر جمعہ خان نے بلوچستان میں جاری مسلح سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اس عمل کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیا۔ تاہم وہ آزاد بلوچ ریاست کے قیام کی خاطر سرگرم رہے۔ انہوں نے مختلف بلوچ علیحدگی پسند لیڈروں مثلاً براہمداغ بگٹی، ہربیار مری، مہران مری وغیرہ سے ملاقاتیں جاری رکھیں اور پاکستانی ریاست کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ لیکن اب وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں سے تائب ہوچکے اور اس دیس کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر جمعہ خان مری بلوچ علیحدگی پسند تحریک کا اہم حصہ رہے ہیں۔
لہٰذا وہ ایسے رازوں سے بھی واقف ہیں جن سے عام لوگ آشنا نہیں۔ پاکستان سے اظہار وفاداری کرنے کے بعد انہوں نے میڈیا کو انٹرویو دیئے اور اہم ترین انکشاف یہ کیا کہ آج بھارت بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کا سب سے بڑا سرپرست بن چکا ہے۔ ماضی میں یہ محض قیاس آرائی تھی کہ ریاست پاکستان سے نبرد آزما بلوچوں کو بھارت سرمایہ و اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ مگر اہم سابق علیحدگی پسند رہنما کے انکشاف نے سبھی مفروضوں کو درست ثابت کردیا۔ انھون نے یہ بھی افشا کیا کہ براہمداغ بگٹی، ہربیار مری، مہران مری وغیرہ بھارتی خفیہ ایجنسی،را کے باقاعدہ تنخواہ دار ایجنٹ ہیں۔
اس انکشاف سے ان ہم وطنوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں جو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کا ذمے دار بھارت کو قرار نہیں دیتے۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت بلوچ علحیدگی پسندوں ہی نہیں پاکستانی طالبان اور فرقہ ورانہ پاکستانی تنظیموں کو بھی کسی نہ کسی طرح اسلحہ وسرمایہ فراہم کر رہا ہے تاکہ بالخصوص بلوچستان مسلسل انتشار وبدامنی کا شکار رہے اور وہاں سی پیک کے منصوبے التوا کا نشانہ بن جائیں۔بھارت نے امریکا اور امریکی حکمرانوں کی کٹھ پتلی افغان حکومت کی آشیرباد سے افغانستان میں اپنے خفیہ اڈے بنا رکھے ہیں جہاں تعنیات را کے افسر پاکستانی صوبوں میں سرگرم دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں۔لیکن چین اور اب روس کی حمایت سے پاکستان اس قابل ہو رہا ہے کہ ان بھارتی پیادوں کا قلع قمع کر سکے۔یہ پاکستان کے بہتر مستقبل کی نوید سناتی خوش آئند تبدیلی ہے۔