انگوٹھا کشتی بچکانہ کھیل اب جوانی میں بھی
پاؤں کے انگوٹھا کی کشتی بڑی حد تک پنجہ آزمائی جیسی ہے۔
بعض اوقات بچپن میں کھیلے جانے والے معصوم کھیل جب جوانی یا بڑھاپے میں یاد آتے ہیں تو انسان اِک آہ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا۔
بچپن کے کھیل کھیلنے کو انسان کا دل مچلتا ہے، لیکن وہ '' لوگ کیا کہیں گے؟، یا اب میری عمر نہیں رہی'' جیسے توجیہات پیش کرکے خاموش ہو جاتا ہے۔ لیکن آج دنیا کے مختلف ممالک میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں آنے والی نت نئی جہتوں نے بڑوں کی بچکانہ خواہشات کی تکمیل کا بھی اہتمام کر دیا ہے۔
ایسے ہی بچگانہ کھیلوں میں سے ایک کھیل انگوٹھا کشتی بھی ہے، جس سے آج بڑی عمر کے لوگ بھی محظوظ ہو رہے ہیں، تاہم اس کی شروعات کے بارے میں جو تاریخ بیان کی جاتی ہے، وہ بھی بچگانہ ہی ہے۔
یہ گیم 1974ء میں انگلش کاؤنٹی ڈربی شائر کے علاقہ ویٹن کے 4 باشندوں نے اس سوچ کے ساتھ شروع کی کہ برطانیہ کو چوں کہ مختلف کھیلوں میں عالمی چیمپئنز کا اعزاز حاصل کرنے میں خاصی دشواریوں کا سامنا ہے تو کیوں ناں ایسے کھیلوں کو جنم دیا جائے جس کے بارے میں ان سے زیادہ کوئی نہ جانتا ہوں، لہذا پیٹی چیتھم، ایڈی سٹینس فیلڈ، پیٹی ڈین اور مک ڈاؤسن نے انگوٹھا کشتی کی بنیاد رکھ دی۔
اس کھیل کے قواعد و ضوابط یارک شائر ایوننگ پوسٹ (مقامی جریدہ) سے وابستہ افراد نے بنائے اور مقابلوں میں فتح یاب ہونے والے چیمپئن کے لئے ایک ٹرافی بھی ڈیزائن کی۔ مک ڈاؤسن اس گیم کے پہلے ورلڈ چیمپئن ٹھہرے اور اگلے سال یعنی 1975ء میں وہ اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں بھی کامیاب رہے لیکن 1976ء میں ایک کینیڈین سیاح نے انگوٹھا کشتی میں حصہ لیا اور ٹائٹل اپنے نام کر لیا، جس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے یہ کھیل تعطل کا شکار ہوا، لیکن بعدازاں مقامی سطح پر دوبارہ مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
1997ء میں آگنائزرز نے انگوٹھا کشتی کی اولمپکس گیمز میں شمولیت کے لئے درخواست دی، جو مسترد ہو گئی، لیکن مذکورہ گیم کے شائقین کی نظر میں اس کی قدر کم نہ ہوئی۔ ڈربی شائر میں ہر سال پاؤں کے انگوٹھے کی کشتی کا عالمی مقابلہ منعقد کروایا جاتا ہے، جس میں لوگوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ آخری انگوٹھا کشتی چیمپئن شپ گزشتہ سال اگست میں ڈربی شائر میں منعقد ہوئی، جس میں الان ناش مردوں جبکہ ریبیکا بیچ خواتین کے مقابلوں میں کامیاب قرار پائیں۔
پاؤں کے انگوٹھا کی کشتی بڑی حد تک پنجہ آزمائی جیسی ہے۔ کھلاڑی اپنے جوتے اور جرابیں نکال کر ننگے پاؤں ٹوڈیئم کا رخ کرتے ہیں، جہاں سب سے پہلے ان کے پیروں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ کھیل شروع ہونے سے قبل بعض اوقات خیرسگالی کے طور پر فریقین خود ایک دوسرے کے جوتے اور جرابیں بھی اتارتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ جس کھلاڑی کا انگوٹھا بڑا ہو گا، وہی جیتے گا، کیوں کہ بڑے انگوٹھے کا مطلب طاقت اور مضبوطی ہے۔
یہ مقابلہ بیسٹ آف تھری ناک آؤٹ راؤنڈز کا ہوتا ہے۔ پہلے راؤنڈ میں دائیں پاؤں کے انگوٹھے، دوسرے میں بائیں جبکہ تیسرے راؤنڈ میں ایک بار پھر دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے مقابلہ کیا جاتا ہے، لیکن تیسرے راؤنڈ کی ضرورت صرف تب ہی ہوتی ہے، جب پہلے دو راؤنڈز ایک ایک سے برابر رہیں۔ مقابلے کے دوران آپ کو مخالف کے پاؤں کا انگوٹھا 3 سکینڈ کے لئے زمین سے لگائے رکھنا ہوتا ہے۔ جو کھلاڑی تین میں سے دو راؤنڈز کے دوران مخالف فریق کا انگوٹھا 3 سکینڈ کے لئے زمین سے لگائے رکھے گا، اسے فاتح قرار دیا جائے گا۔
بچپن کے کھیل کھیلنے کو انسان کا دل مچلتا ہے، لیکن وہ '' لوگ کیا کہیں گے؟، یا اب میری عمر نہیں رہی'' جیسے توجیہات پیش کرکے خاموش ہو جاتا ہے۔ لیکن آج دنیا کے مختلف ممالک میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں آنے والی نت نئی جہتوں نے بڑوں کی بچکانہ خواہشات کی تکمیل کا بھی اہتمام کر دیا ہے۔
ایسے ہی بچگانہ کھیلوں میں سے ایک کھیل انگوٹھا کشتی بھی ہے، جس سے آج بڑی عمر کے لوگ بھی محظوظ ہو رہے ہیں، تاہم اس کی شروعات کے بارے میں جو تاریخ بیان کی جاتی ہے، وہ بھی بچگانہ ہی ہے۔
یہ گیم 1974ء میں انگلش کاؤنٹی ڈربی شائر کے علاقہ ویٹن کے 4 باشندوں نے اس سوچ کے ساتھ شروع کی کہ برطانیہ کو چوں کہ مختلف کھیلوں میں عالمی چیمپئنز کا اعزاز حاصل کرنے میں خاصی دشواریوں کا سامنا ہے تو کیوں ناں ایسے کھیلوں کو جنم دیا جائے جس کے بارے میں ان سے زیادہ کوئی نہ جانتا ہوں، لہذا پیٹی چیتھم، ایڈی سٹینس فیلڈ، پیٹی ڈین اور مک ڈاؤسن نے انگوٹھا کشتی کی بنیاد رکھ دی۔
اس کھیل کے قواعد و ضوابط یارک شائر ایوننگ پوسٹ (مقامی جریدہ) سے وابستہ افراد نے بنائے اور مقابلوں میں فتح یاب ہونے والے چیمپئن کے لئے ایک ٹرافی بھی ڈیزائن کی۔ مک ڈاؤسن اس گیم کے پہلے ورلڈ چیمپئن ٹھہرے اور اگلے سال یعنی 1975ء میں وہ اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں بھی کامیاب رہے لیکن 1976ء میں ایک کینیڈین سیاح نے انگوٹھا کشتی میں حصہ لیا اور ٹائٹل اپنے نام کر لیا، جس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے یہ کھیل تعطل کا شکار ہوا، لیکن بعدازاں مقامی سطح پر دوبارہ مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
1997ء میں آگنائزرز نے انگوٹھا کشتی کی اولمپکس گیمز میں شمولیت کے لئے درخواست دی، جو مسترد ہو گئی، لیکن مذکورہ گیم کے شائقین کی نظر میں اس کی قدر کم نہ ہوئی۔ ڈربی شائر میں ہر سال پاؤں کے انگوٹھے کی کشتی کا عالمی مقابلہ منعقد کروایا جاتا ہے، جس میں لوگوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ آخری انگوٹھا کشتی چیمپئن شپ گزشتہ سال اگست میں ڈربی شائر میں منعقد ہوئی، جس میں الان ناش مردوں جبکہ ریبیکا بیچ خواتین کے مقابلوں میں کامیاب قرار پائیں۔
پاؤں کے انگوٹھا کی کشتی بڑی حد تک پنجہ آزمائی جیسی ہے۔ کھلاڑی اپنے جوتے اور جرابیں نکال کر ننگے پاؤں ٹوڈیئم کا رخ کرتے ہیں، جہاں سب سے پہلے ان کے پیروں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ کھیل شروع ہونے سے قبل بعض اوقات خیرسگالی کے طور پر فریقین خود ایک دوسرے کے جوتے اور جرابیں بھی اتارتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ جس کھلاڑی کا انگوٹھا بڑا ہو گا، وہی جیتے گا، کیوں کہ بڑے انگوٹھے کا مطلب طاقت اور مضبوطی ہے۔
یہ مقابلہ بیسٹ آف تھری ناک آؤٹ راؤنڈز کا ہوتا ہے۔ پہلے راؤنڈ میں دائیں پاؤں کے انگوٹھے، دوسرے میں بائیں جبکہ تیسرے راؤنڈ میں ایک بار پھر دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے مقابلہ کیا جاتا ہے، لیکن تیسرے راؤنڈ کی ضرورت صرف تب ہی ہوتی ہے، جب پہلے دو راؤنڈز ایک ایک سے برابر رہیں۔ مقابلے کے دوران آپ کو مخالف کے پاؤں کا انگوٹھا 3 سکینڈ کے لئے زمین سے لگائے رکھنا ہوتا ہے۔ جو کھلاڑی تین میں سے دو راؤنڈز کے دوران مخالف فریق کا انگوٹھا 3 سکینڈ کے لئے زمین سے لگائے رکھے گا، اسے فاتح قرار دیا جائے گا۔