ایاز امیر نہیں توکچھ بھی نہیں
یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اگر ایاز امیر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اگر انتخابی عمل کی ساکھ بچانی ہے تو یہ کھیل بند کرنا ہوگا۔
اگر ایاز امیر نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں، عام انتخابات مذاق بن جائیں گے اور ساری قوم ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ اب تو ریٹرننگ افسروں کا غیر سنجیدہ رویہ سوالیہ نشان بن گیا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں بکھرے ہوئے یہ ریٹرننگ آفیسرکیونکر متنازعہ اور غیر سنجیدہ سوالات کرتے رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے بروقت نوٹس لے کر ریٹرننگ افیسروں کو امیدواروں کا تمسخر اڑانے سے روک دیا لیکن باقی صوبوں میں تو لاہور ہائی کورٹ کا حکم لاگو نہیں ہو سکے گا۔
جہاں تک ایاز امیر کا تعلق ہے، وہ صرف ایک شخص نہیں، ہمارے زوال پذیر معاشرے میں راست گوئی اور روشن خیالی کی ایک کرن بن چکے ہیں، مدتوں ہم ایک ہی گلی میں مقیم رہے ہیں لیکن ہمارے مراسم کی نوعیت بڑی رسمی رہی۔ جو شناسائی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ خواہش اور لاتعداد مواقع کے باوجود ایک حجاب سا مانع رہا۔
لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ہونے والے لانگ مارچ کے اختتام پر لاہور ہائیکورٹ سے متصل 10,8 منزلہ عمارت کی چھت پر گزاری رات قلب و ذہن میں پوری طرح روشن اور مجسم ہے جہاں تھکن سے چور ایاز امیر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر بے سدھ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے جب کہ میری اور برادرم محسن رضا کی زبان یہ سوچ سوچ کر خشک ہو رہی تھی کہ صرف ایک کروٹ انھیں سیکڑوں فٹ گہرائی میں ہائی کورٹ کے احاطے میں گرا سکتی تھی۔ ہم نے کسی رکاوٹ یا پردے کے بغیر اس چھت پر وہ رات سولی پر لٹکتے ہوئے گزاری تھی۔ جناب ایاز امیر کو گرنے سے بچانے کے لیے چند اینٹیں رکھ کر ان کی ''حفاظت'' کا بندوبست کیا تھا۔
ایاز امیر اس وقت رکن قومی اسمبلی تھے۔ ایک جیسا ظاہر و باطن رکھنے والے ایاز امیر کی وجہ سے ہماری پارلیمان کی توقیر میں اضافہ ہوا تھا۔ بے لاگ گفتگو کرنے والے اس کالم نگار ایم این اے نے تمسخر سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے سامنے بھی حق بات کہنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ جناب حسین حقانی سے لے کر مشاہد حسین تک ایسے نابغۂ روزگار عالی دماغ سیاست میں آئے ہیں لیکن کوئی بھی ایاز امیر کے ہم سر اس لیے نہیں کہ وہ براہ راست انتخاب جیت کر پنجاب اور قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ اپنی افتاد طبع اور آزاد خیالی کی وجہ سے وہ کبھی بھی ن لیگ کی قیادت کی قربت نہ پا سکے ۔
بہت سے کالم نگار اپنا فن گروی رکھ کر ، ضمیر پر پتھر رکھ کر سیاستدانوں کی نوکریوں پر نازاں ہیں۔ یہ اعزاز صرف ایاز امیر کے حصے میں آیا کہ اپنے والد کے ورثے میں ملنے والے حلقہ انتخاب سے متعدد بار منتخب ہونے کے باوجود وہ کبھی بھی کامیاب سیاستدان نہ بن سکے نہ ان کا تلوار کی دھار جیسا کاٹ دار قلم کبھی کند ہو سکا۔ وہ اپنی سوچ اور طرز فکر کی روشنی میں لکھتے رہے، عوامی سطح پر انھیں قبول عام کا درجہ اس وقت حاصل ہوا جب ان کا انگریزی کالم ترجمہ ہوکر شایع ہونے لگا۔
چکوال کے ریٹرننگ افسر نے نظریہ پاکستان کے حوالے سے ان کے تین تجزیاتی کالموں کی بنیاد پر کاغذات نامزدگی مسترد کر کے بہت زیادتی کی ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ آج ایاز امیر پر خندہ زن لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیا کی عقل و دانش کا استعارہ ہے، اسے اگر انتخابی عمل سے نکال بھی دیا گیا تو اس کی توقیر پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا لیکن ہمارا انتخابی عمل بے توقیر ضرور ہو جائے گا۔ جناب والا اگر ایاز امیر کو نظریہ پاکستان کی تشریح و تعبیر کی آڑ میں نشانہ بنایا گیا تو اس ملک میں اختلاف رائے رکھنے والا کوئی بھی اہل نظر نہیں بچ سکے گا۔
یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اگر ایاز امیر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اگر انتخابی عمل کی ساکھ بچانی ہے تو یہ کھیل بند کرنا ہوگا، باضمیر اور بہادر اہل فکر کی تلخ باتوں کو ہضم کرنا ہو گا۔ یہی بقا اور سلامتی کا راستہ ہے۔ انتخابی عمل اور قواعد و ضوابط کو عالمی قوانین سے مربوط کرنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ انتہا پسندانہ سوچ کی جگہ عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے عمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ورنہ دامن سب آرزوئوں اور امیدوں سے خالی ہو جائے گا۔
انتخابی منظر پر پنجاب میں بظاہر نواز شریف سب سے آگے ہیں، ان کے اعتماد میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا ہم خیال لیگی رہنما' جناب نواز شریف سب کو ان کی اصل اوقات یاد دلانے پر تلے نظر آتے ہیں، حامد ناصر چٹھہ ہوں یا سید منور حسن (ن) لیگ اب کسی سے بھی مروت کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حامد ناصر چٹھہ کے حلقے میں بزرگ جج جسٹس (ر) افتخار چیمہ کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا معاملہ ہے تو تمام تر رکھ رکھائو اور نیاز مندی کے باوجود (ن) لیگ جماعت اسلامی کو لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست دینے پر ہی آمادہ ہوسکتی ہے۔ یونیفکیشن بلاک پنجاب میں آخری لمحے تک شہباز شریف کا سہارا بنا رہا لیکن اب کوئی ان کو پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کو بجا طور پر اپنی سیاست پر بڑا ناز رہا ہے لیکن اب (ن) لیگ انھیں بھی نظر انداز کرتی نظر آرہی ہے۔اگر جماعت اسلامی اپنے آپ کو خیبر کے پی کے تک محدود کر کے تحریک انصاف سے اتحاد کر لیتی تو 70 سے 80 نشستیں جیتی جاسکتی تھیں لیکن لاہور کے سیاسی کھلاڑی ایسا نہیں ہونے دیں گے جو مدتوں سے پارلیمان کی جدائی میں تڑپ رہے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ انتخابی مہم کے زور پکڑنے کے ساتھ ساتھ ساری قوم کو چاک و چوبند ہو کر دہشت گردی اور تخریب کاری کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ خاص طور پر مئی کا پہلا ہفتہ بہت اہم ہو گا۔ پاکستان کے دشمن انتخابات کا راستہ روکنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ ہمیں ہر دم چوکس و بیدار رہنا ہو گا۔
اعتراض: بے شمار قارئین اور دوستوں نے توجہ دلائی ہے کہ مادام مسرت شاہین نے اسلامی تاریخ اور 63,62 کا مقابلہ لاہور نہیں ڈیرہ اسماعیل خان کی عدالت میں جیتا تھا، اس پر معذرت کرتا ہوں۔
جہاں تک ایاز امیر کا تعلق ہے، وہ صرف ایک شخص نہیں، ہمارے زوال پذیر معاشرے میں راست گوئی اور روشن خیالی کی ایک کرن بن چکے ہیں، مدتوں ہم ایک ہی گلی میں مقیم رہے ہیں لیکن ہمارے مراسم کی نوعیت بڑی رسمی رہی۔ جو شناسائی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ خواہش اور لاتعداد مواقع کے باوجود ایک حجاب سا مانع رہا۔
لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ہونے والے لانگ مارچ کے اختتام پر لاہور ہائیکورٹ سے متصل 10,8 منزلہ عمارت کی چھت پر گزاری رات قلب و ذہن میں پوری طرح روشن اور مجسم ہے جہاں تھکن سے چور ایاز امیر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر بے سدھ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے جب کہ میری اور برادرم محسن رضا کی زبان یہ سوچ سوچ کر خشک ہو رہی تھی کہ صرف ایک کروٹ انھیں سیکڑوں فٹ گہرائی میں ہائی کورٹ کے احاطے میں گرا سکتی تھی۔ ہم نے کسی رکاوٹ یا پردے کے بغیر اس چھت پر وہ رات سولی پر لٹکتے ہوئے گزاری تھی۔ جناب ایاز امیر کو گرنے سے بچانے کے لیے چند اینٹیں رکھ کر ان کی ''حفاظت'' کا بندوبست کیا تھا۔
ایاز امیر اس وقت رکن قومی اسمبلی تھے۔ ایک جیسا ظاہر و باطن رکھنے والے ایاز امیر کی وجہ سے ہماری پارلیمان کی توقیر میں اضافہ ہوا تھا۔ بے لاگ گفتگو کرنے والے اس کالم نگار ایم این اے نے تمسخر سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے سامنے بھی حق بات کہنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ جناب حسین حقانی سے لے کر مشاہد حسین تک ایسے نابغۂ روزگار عالی دماغ سیاست میں آئے ہیں لیکن کوئی بھی ایاز امیر کے ہم سر اس لیے نہیں کہ وہ براہ راست انتخاب جیت کر پنجاب اور قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ اپنی افتاد طبع اور آزاد خیالی کی وجہ سے وہ کبھی بھی ن لیگ کی قیادت کی قربت نہ پا سکے ۔
بہت سے کالم نگار اپنا فن گروی رکھ کر ، ضمیر پر پتھر رکھ کر سیاستدانوں کی نوکریوں پر نازاں ہیں۔ یہ اعزاز صرف ایاز امیر کے حصے میں آیا کہ اپنے والد کے ورثے میں ملنے والے حلقہ انتخاب سے متعدد بار منتخب ہونے کے باوجود وہ کبھی بھی کامیاب سیاستدان نہ بن سکے نہ ان کا تلوار کی دھار جیسا کاٹ دار قلم کبھی کند ہو سکا۔ وہ اپنی سوچ اور طرز فکر کی روشنی میں لکھتے رہے، عوامی سطح پر انھیں قبول عام کا درجہ اس وقت حاصل ہوا جب ان کا انگریزی کالم ترجمہ ہوکر شایع ہونے لگا۔
چکوال کے ریٹرننگ افسر نے نظریہ پاکستان کے حوالے سے ان کے تین تجزیاتی کالموں کی بنیاد پر کاغذات نامزدگی مسترد کر کے بہت زیادتی کی ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ آج ایاز امیر پر خندہ زن لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیا کی عقل و دانش کا استعارہ ہے، اسے اگر انتخابی عمل سے نکال بھی دیا گیا تو اس کی توقیر پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا لیکن ہمارا انتخابی عمل بے توقیر ضرور ہو جائے گا۔ جناب والا اگر ایاز امیر کو نظریہ پاکستان کی تشریح و تعبیر کی آڑ میں نشانہ بنایا گیا تو اس ملک میں اختلاف رائے رکھنے والا کوئی بھی اہل نظر نہیں بچ سکے گا۔
یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اگر ایاز امیر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اگر انتخابی عمل کی ساکھ بچانی ہے تو یہ کھیل بند کرنا ہوگا، باضمیر اور بہادر اہل فکر کی تلخ باتوں کو ہضم کرنا ہو گا۔ یہی بقا اور سلامتی کا راستہ ہے۔ انتخابی عمل اور قواعد و ضوابط کو عالمی قوانین سے مربوط کرنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ انتہا پسندانہ سوچ کی جگہ عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے عمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ورنہ دامن سب آرزوئوں اور امیدوں سے خالی ہو جائے گا۔
انتخابی منظر پر پنجاب میں بظاہر نواز شریف سب سے آگے ہیں، ان کے اعتماد میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا ہم خیال لیگی رہنما' جناب نواز شریف سب کو ان کی اصل اوقات یاد دلانے پر تلے نظر آتے ہیں، حامد ناصر چٹھہ ہوں یا سید منور حسن (ن) لیگ اب کسی سے بھی مروت کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حامد ناصر چٹھہ کے حلقے میں بزرگ جج جسٹس (ر) افتخار چیمہ کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا معاملہ ہے تو تمام تر رکھ رکھائو اور نیاز مندی کے باوجود (ن) لیگ جماعت اسلامی کو لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست دینے پر ہی آمادہ ہوسکتی ہے۔ یونیفکیشن بلاک پنجاب میں آخری لمحے تک شہباز شریف کا سہارا بنا رہا لیکن اب کوئی ان کو پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کو بجا طور پر اپنی سیاست پر بڑا ناز رہا ہے لیکن اب (ن) لیگ انھیں بھی نظر انداز کرتی نظر آرہی ہے۔اگر جماعت اسلامی اپنے آپ کو خیبر کے پی کے تک محدود کر کے تحریک انصاف سے اتحاد کر لیتی تو 70 سے 80 نشستیں جیتی جاسکتی تھیں لیکن لاہور کے سیاسی کھلاڑی ایسا نہیں ہونے دیں گے جو مدتوں سے پارلیمان کی جدائی میں تڑپ رہے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ انتخابی مہم کے زور پکڑنے کے ساتھ ساتھ ساری قوم کو چاک و چوبند ہو کر دہشت گردی اور تخریب کاری کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ خاص طور پر مئی کا پہلا ہفتہ بہت اہم ہو گا۔ پاکستان کے دشمن انتخابات کا راستہ روکنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ ہمیں ہر دم چوکس و بیدار رہنا ہو گا۔
اعتراض: بے شمار قارئین اور دوستوں نے توجہ دلائی ہے کہ مادام مسرت شاہین نے اسلامی تاریخ اور 63,62 کا مقابلہ لاہور نہیں ڈیرہ اسماعیل خان کی عدالت میں جیتا تھا، اس پر معذرت کرتا ہوں۔