نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم تاریخ کے آئینے میں
اسی گراؤنڈ میں پہلا میچ 26 فروری تا یکم مارچ1955 تک پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انٹرنیشنل کھیلوں کی دوری کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔
2002میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھے، مہمان ٹیم کراچی کے جس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، اس کے قریب بم دھماکہ ہوا، پھر وہی ہوا جوکمزور ملکوں کے کمزور بورڈز کے ساتھ ہوتا ہے، نیوزی لینڈ نے اس واقعہ کو رائی کا پہاڑ بنا لیا اوردورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔
یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے واقعے کو ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، پوری دنیا دہشت، وحشت اور خوف کے سائے میں مبتلا تھی، گزرتے وقت کے ساتھ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک میں تو زندگی اپنی اصلی حالت میں پلٹ آئی لیکن غربت، مہنگائی ، بے روزگاری و دیگر مسائل کے مارے ملکوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انٹرنیشنل کھیلوں کی دوری کی صورت میں برداشت کرنا پڑا، تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے ملکی گراؤنڈز انٹرنیشنل کرکٹ سے ویران ہی رہے، پی سی بی کی انتھک کوششوں سے2008 میں بنگلہ دیش جبکہ اگلے برس سری لنکن ٹیم پاکستان کے دورے پر آ ہی گئی لیکن لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد پاکستان غیر ملکی ٹیموں کے لئے ایک بار پھر نو گو ایریا بن گیا۔
سانحہ لبرٹی کے6سال کے بعد قذافی سٹیڈیم میں تو زمبابوے، کینیا اور ورلڈ الیون کی ٹیمیں ایکشن میں دکھائی دے چکیں، پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل بھی ہو چکا تاہم نیشنل سٹیڈیم کراچی کو9سال کے طویل عرصے کے بعد پی ایس ایل کے فائنل کی شکل میں کرکٹ کے بڑے میلے کی میزبانی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کراچی کی تاریخ کی بات کی جائے تو اسی گراؤنڈ میں پہلا میچ 26 فروری تا یکم مارچ1955 تک پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جبکہ آخری بار پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں 21 تا25 فروری2009میں ایک دوسرے کے خلاف ایکشن میں دکھائی دیں،1955 سے دسمبر2000تک ہونے والے 34 ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی ٹیم نے 17 میں فتح سمیٹی جبکہ اسے کسی ایک بھی مقابلے میں ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
پہلا ایک روزہ میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان 21 نومبر 1980 جبکہ آخری میچ21 جنوری 2009کو سری لنکا کے خلاف کھیلا گیا۔اسی گراؤنڈ پر پہلا اور آخری ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ 20 اپریل2008میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا، پاکستان نے میچ کا نتیجہ 102 رنز سے اپنے نام کیا۔
ملک کے سب سے بڑے سٹیڈیم کو اب تک ورلڈ کپ1987 اور عالمی کپ 1996 کے6میچز کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اسی گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میں 765 رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے اور آسٹریلیا کو 80 کے سب سے کم سکور پر پویلین کی راہ دکھانے سمیت متعدد ریکارڈز بنانے کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔
اسٹیڈیم میں 34228 افراد کے میچ دیکھنے کی گنجائش موجود ہے،کرکٹ کے دیوانوں کو شکوہ رہا ہے کہ 2 کروڑ کی آبادی والے ملک کے سب سے بڑے شہر میں یہ تعداد بہت کم ہے، پی سی بی نے متعدد بار وعدہ کیا ہے کہ یہ تعداد بڑھا کر90ہزار تک کر دی جائے گی تاہم ابھی تک یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا ہے۔
ایک عشرہ تک اس گراؤنڈ میں کرکٹ کی سرگرمیاں بحال نہ ہو سکنے کی وجہ سے سٹیڈیم کا کوئی پرسان حال نہیں رہا تھا تاہم جب پی سی بی نے پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن کا فائنل کراچی میں کروانے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی ڈیرھ ارب کی خطیر رقم سے سٹیڈیم کی تزئین وآرائش کا کام بھی شروع کروا دیا گیا،کرکٹ کراچی میں واپس لوٹ آنے کے بعد شائقین کی خوشی قابل دید ہے، ہر پرستار پی ایس ایل کا فائنل سٹیڈیم میں جا کر دیکھنے کا خواہشمند ہے، جن کو ٹکٹ نہیں مل سکے وہ ابھی تک ٹکٹوں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔
شائقین میں ٹکٹوں کے حصول کی دوڑ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں کرکٹ کے کھیل سے کتنا پیار ہے،25مارچ کو نیشنل سٹیڈیم کی مصنوعی روشنیوں میں شیڈول پاکستان سپر لیگ کے فائن میچ کا کامیاب انعقادکسی ایک کی نہیں بلکہ پوری قوم کی کامیابی ہوگی۔
2002میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھے، مہمان ٹیم کراچی کے جس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، اس کے قریب بم دھماکہ ہوا، پھر وہی ہوا جوکمزور ملکوں کے کمزور بورڈز کے ساتھ ہوتا ہے، نیوزی لینڈ نے اس واقعہ کو رائی کا پہاڑ بنا لیا اوردورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔
یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے واقعے کو ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، پوری دنیا دہشت، وحشت اور خوف کے سائے میں مبتلا تھی، گزرتے وقت کے ساتھ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک میں تو زندگی اپنی اصلی حالت میں پلٹ آئی لیکن غربت، مہنگائی ، بے روزگاری و دیگر مسائل کے مارے ملکوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انٹرنیشنل کھیلوں کی دوری کی صورت میں برداشت کرنا پڑا، تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے ملکی گراؤنڈز انٹرنیشنل کرکٹ سے ویران ہی رہے، پی سی بی کی انتھک کوششوں سے2008 میں بنگلہ دیش جبکہ اگلے برس سری لنکن ٹیم پاکستان کے دورے پر آ ہی گئی لیکن لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد پاکستان غیر ملکی ٹیموں کے لئے ایک بار پھر نو گو ایریا بن گیا۔
سانحہ لبرٹی کے6سال کے بعد قذافی سٹیڈیم میں تو زمبابوے، کینیا اور ورلڈ الیون کی ٹیمیں ایکشن میں دکھائی دے چکیں، پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل بھی ہو چکا تاہم نیشنل سٹیڈیم کراچی کو9سال کے طویل عرصے کے بعد پی ایس ایل کے فائنل کی شکل میں کرکٹ کے بڑے میلے کی میزبانی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کراچی کی تاریخ کی بات کی جائے تو اسی گراؤنڈ میں پہلا میچ 26 فروری تا یکم مارچ1955 تک پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جبکہ آخری بار پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں 21 تا25 فروری2009میں ایک دوسرے کے خلاف ایکشن میں دکھائی دیں،1955 سے دسمبر2000تک ہونے والے 34 ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی ٹیم نے 17 میں فتح سمیٹی جبکہ اسے کسی ایک بھی مقابلے میں ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
پہلا ایک روزہ میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان 21 نومبر 1980 جبکہ آخری میچ21 جنوری 2009کو سری لنکا کے خلاف کھیلا گیا۔اسی گراؤنڈ پر پہلا اور آخری ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ 20 اپریل2008میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا، پاکستان نے میچ کا نتیجہ 102 رنز سے اپنے نام کیا۔
ملک کے سب سے بڑے سٹیڈیم کو اب تک ورلڈ کپ1987 اور عالمی کپ 1996 کے6میچز کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اسی گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میں 765 رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے اور آسٹریلیا کو 80 کے سب سے کم سکور پر پویلین کی راہ دکھانے سمیت متعدد ریکارڈز بنانے کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔
اسٹیڈیم میں 34228 افراد کے میچ دیکھنے کی گنجائش موجود ہے،کرکٹ کے دیوانوں کو شکوہ رہا ہے کہ 2 کروڑ کی آبادی والے ملک کے سب سے بڑے شہر میں یہ تعداد بہت کم ہے، پی سی بی نے متعدد بار وعدہ کیا ہے کہ یہ تعداد بڑھا کر90ہزار تک کر دی جائے گی تاہم ابھی تک یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا ہے۔
ایک عشرہ تک اس گراؤنڈ میں کرکٹ کی سرگرمیاں بحال نہ ہو سکنے کی وجہ سے سٹیڈیم کا کوئی پرسان حال نہیں رہا تھا تاہم جب پی سی بی نے پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن کا فائنل کراچی میں کروانے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی ڈیرھ ارب کی خطیر رقم سے سٹیڈیم کی تزئین وآرائش کا کام بھی شروع کروا دیا گیا،کرکٹ کراچی میں واپس لوٹ آنے کے بعد شائقین کی خوشی قابل دید ہے، ہر پرستار پی ایس ایل کا فائنل سٹیڈیم میں جا کر دیکھنے کا خواہشمند ہے، جن کو ٹکٹ نہیں مل سکے وہ ابھی تک ٹکٹوں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔
شائقین میں ٹکٹوں کے حصول کی دوڑ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں کرکٹ کے کھیل سے کتنا پیار ہے،25مارچ کو نیشنل سٹیڈیم کی مصنوعی روشنیوں میں شیڈول پاکستان سپر لیگ کے فائن میچ کا کامیاب انعقادکسی ایک کی نہیں بلکہ پوری قوم کی کامیابی ہوگی۔