تفتیش کے جدید آلات بھی پولیس کا رویہ نہ بدل سکے
محنت کش کی گمشدگی پر رپورٹ درج کرکے پولیس اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآء، 8 روز بعد زاہد کی نعش ہی ملی
کریمینل جسٹس کوارڈینیشن کمیٹی کی حالیہ میٹنگ میں بھی فیصل آباد پولیس کی ناقص تفتیش پرکئی سوالات اٹھے، ماتحت عملہ کی کارگزاریوں کے سبب شعبہ تفتیش کے ضلعی سربراہ توصیف حیدرخان اس موقع پرمدلل موقف اپنانے کے بجائے معذرت خواہانہ اندازاختیارکئے رہے۔
کمیٹی کے سربراہ اور دیگر اراکین کو مطمئن کرنے کیلئے افسرموصو ف یہ بیان کرتے رہے کہ ناقص تفتیش کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ ماہ 201 انوسٹی گیشن آفیسرزکے خلاف ڈسیپلنری ایکشن عمل میں لایاگیاتاہم وہ یہ واضح نہ کرپائے کہ تفتیشی عملہ کی نالائقی کی بھینٹ چڑھنے والے مقدمات اوران کے متاثرین کاکیابنا،ان کی اشک شوئی کیسے کی گئی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس ملازمین کی پیشہ وارانہ کارکردگی میں بہتری لانے کیلئے محکمہ کی طرف سے گاہے بگاہے تربیتی و ریفریشرکورسزکاانعقاد عمل میں لایاجاتاہے۔ اس ضمن میں شعبہ تفتیش سے منسلک افسران کوجہاں اہم شواہد کے حصول کیلئے فرانزک لیب، ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت حاصل ہے، وہاں لاپتہ اور روپوش مجرمان کاسراغ لگانے کیلئے بائیومیٹرک چیکنگ سسٹم اورموبائل فون ڈیٹاکے حصول کیلئے سیلولرڈٹیکٹیویونٹ تک رسائی بھی دی گئی ہے۔
اس کے باوجود تفتیشی افسران فرائض کی انجا م دہی میں بسااوقات اس قدر لاپرواہی سے کام لیتے ہیں کہ عام نوعیت کے معاملات بھی ناقابل فہم اورپیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ فیصل آبادپولیس کی ناقص کارکردگی کی ایک مثال ہمت پورہ سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے محنت کش زاہد جمیل کے کیس میں دیکھنے کو ملی۔ سینٹری کاکام کرنے والا28 سالہ زاہد جمیل 16 دسمبرکی رات 9 بجے گھر سے گیا اور پھر لوٹ کر نہ آیا۔
پراسرارگمشدگی پر پولیس کو صورتحال سے آگاہ کرنے والے پریشان حال لواحقین کی طرف سے موبائل فون مسلسل بندجانے پر اس کے اغواکاخدشہ بھی ظاہرکیاگیاتاہم گمشدگی رپٹ پر اکتفاکرنے والی مدینہ ٹاون پولیس زاہد جمیل کے لواحقین کو زبانی تسلیاں دیتے ہوئے تلاش جاری رکھنے کی ہدایت کرتی رہی۔ تب بھی سراغ نہ مل پایاتواس کے بھائی محمد شفیق کے بیان پر26 دسمبرکونامعلوم عناصرکے خلاف مقدمے کااندراج عمل میں لایاگیا۔
پولیس کی تساہل پسندی کااندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اغواء کیس کے اندراج کے فوری بعد بھی مغوی کی لوکیشن اوراس کے آخری رابطوں کا پتہ چلانے کیلئے سیلولرڈٹیکشن یونٹ سے رجوع نہ کیاگیا۔انسانی اغواء کاکیس ڈیل کرنے والاانوسٹی گیشن آفیسر اس دوران اپنی تفتیش نہ جانے کس پیرائے میں آگے بڑھاتا رہا۔
اس موڑپر یہ انکشاف یقیناکسی حیرت سے کم نہ تھاکہ جس زاہد جمیل کی تلاش میں لواحقین مارے مارے پھر رہے تھے وہ موت کی وادی میں اترکرگمنامی کے عالم میں اپنی تدفین کا منتظرتھا۔ نہررکھ برانچ کی بندش کے سبب پانی کی سطح کم ہوئی تو راہگیروں کی اطلاع پر 22 دسمبرکے روزبٹالہ کالونی پولیس نے سمندری روڈکینال پارک کے قریب سے نعش قبضہ میں لی۔ اس کے دونوں ہاتھ پشت پربندھے ہونے کے سبب یہ توواضح ہوگیاکہ اسے قتل کرکے نہرمیں پھینکاگیا۔
سب انسپکٹرجاوید کی طرف سے لاوارث پائی گئی نعش مردہ خانہ منتقل کرانے کے بعد بٹالہ کالونی تھانہ میں نامعلوم قاتلوں کے خلاف اندھے قتل کا مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ رپٹ گمشدگی اوراغواکیس کے بعد فیصل آبادپولیس کی طرف سے زاہد جمیل کے حوالہ سے عمل میں لائی جانے والی یہ تیسری کارروائی تھی۔
افسوس صد افسوس کہ مدینہ ٹاؤن پولیس کے بعد بٹالہ کالونی تھانے کااندھاقتل کیس ڈیل کرنے والے ہومی سائیڈانوسٹی گیشن کے سب انسپکٹر ظفراقبال بھی مقتول کی شناخت اور ورثاکاپتہ چلانے کیلئے بائیومیٹرک یاڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی زحمت نہ کرسکے۔ اس طرح مقتول کی نعش کئی روز بعد بھی بے یارومددگارپڑی رہی ۔ تاہم بعدازاں ضروری کارروائی کے بعد زاہد جمیل کی نعش گھرمنتقل کی گئی تو وہاں کہرام برپا ہو گیا۔
تدفین کے بعد پولیس کارروائی کوآگے بڑھاتے ہوئے مقتول کے موبائل فون کاڈیٹاحاصل کرکے ریکارڈکاجائزہ لیاگیاتو16 دسمبرکی آخری کالز کے ذریعے رابطہ میں رہنے والے اسی محلہ کے نزاکت علی اورشہزاد نامی دوافرادکوشامل تفتیش کیاگیا۔موبائل ڈیٹاریکارڈمیں وقوعہ کے روز مقتول اورنزاکت کی لوکیشن بھی ایک ساتھ آئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق دوران تفتیش گہرے دوست زاہد جمیل کے قتل کااعتراف کرنے والے نزاکت علی کا کہنا تھا کہ بھاوج سے ناجائز تعلقات استوار کرنے کی کوشش پر طیش میں آکر اس نے شہزاد اور حسن نامی دیگر دو ساتھیوں کی مشاورت سے زاہد جمیل کے قتل کی سازش تیار کی۔
وقوعہ کے روززاہد جمیل کو شہزاد کے گھرلے جاکرنشہ آور چائے سے بیہوش کرکے گلا دباکرقتل کیا گیا، نعش بعدازاں شہزاد کے رکشہ میں ڈال کررات کے اندھیرے میں نہرمیں پھینک دی گئی ۔اس صورتحال پر زیرحراست نزاکت اور شہزاد کو گرفتار کر لیا گیا، تیسرے روپوش ملزم حسن کی تلاش جاری رکھے جانے کی خبردی گئی ہے۔
دونوں ملزمان کی گرفتاری کے بعد ڈی ایس پی پیپلزکالونی احسان اللہ شادنے ماہ فروری میں بلائی گئی میڈیاکانفرنس میں فخریہ انداز میں زاہد جمیل کا اندھا قتل ٹریس کرنے کاموقف اپنایا۔سرکل آفسیر کا کہنا تھاکہ زاہد جمیل کے اغواکامقدمہ درج ہوتے ہی سی پی او فیصل آباداطہراسماعیل امجدکی طرف سے میری سپرویژن میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس نے شب و روز کی محنت سے ''سی ڈی یو''برانچ کی مدد سے ٹیکنیکل آلات بروئے کارلاتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کیا۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ داری نبھانے کیلئے پولیس فورس آخری حد تک جائے گی۔ اغوا اور قتل کے ملزمان کی گرفتاری یقینا پولیس کی ذمہ داری تھی، جس کی انجام دہی کیلئے فیصل آبادپولیس اوریہاں کے افسران کاکردارکیسارہا اس کافیصلہ توحالات سے آگاہی رکھنے والے ہی کرسکتے ہیں،زاہد جمیل کے لاپتہ سے اغواہونے ،قتل کردیئے جانے اورنعش کی برآمدگی تک کے مراحل میں پولیس ورکنگ سے یہ اندازہ تو ہو گیاکہ سنگین نوعیت کے ایسے واقعات میں بھی اگرٹیم ورک کے فقدان اوربے خبری کا عالم یہ ہوگاتوعام نوعیت کے مقدمات میں پولیس کے تجربہ کار افسران کی مہارت کا کیاحال ہوتا ہوگا۔
دیکھا جائے توپولیس کاکام مقدمہ کے اندراج کی بجائے کسی بھی جرم کے حوالہ سے موصول ہونیوالی ابتدائی اطلاع سے ہی شروع ہوجاتاہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے مراحل پر ایکشن لینے کاکوئی رواج نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کیس سے وابستہ زاہد جمیل کے گھر سے لاپتہ سے قتل ہونے تک ایک ہی شہرکے دوتھانوں کی پولیس کئی روز تک بے خبررہی،دوسری جانب سینئرپولیس افسران بھی حالات کی نزاکت کابروقت نوٹس نہ لے پائے۔
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سینئرپولیس افسران کوبھی غفلت شعار ماتحتوں کے خلاف ڈسیپلنری ایکشن لئے جانے کا موقف پیش کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری لانے کیلئے موثرکردارادا کریں، کیوں کہ محکمہ پولیس کی بہتری کیلئے صرف نعروں اور دعوؤں سے بات نہیں بنے گی، اس مقصد کے حصول کیلئے ٹھوس بنیادوں پر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
کمیٹی کے سربراہ اور دیگر اراکین کو مطمئن کرنے کیلئے افسرموصو ف یہ بیان کرتے رہے کہ ناقص تفتیش کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ ماہ 201 انوسٹی گیشن آفیسرزکے خلاف ڈسیپلنری ایکشن عمل میں لایاگیاتاہم وہ یہ واضح نہ کرپائے کہ تفتیشی عملہ کی نالائقی کی بھینٹ چڑھنے والے مقدمات اوران کے متاثرین کاکیابنا،ان کی اشک شوئی کیسے کی گئی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس ملازمین کی پیشہ وارانہ کارکردگی میں بہتری لانے کیلئے محکمہ کی طرف سے گاہے بگاہے تربیتی و ریفریشرکورسزکاانعقاد عمل میں لایاجاتاہے۔ اس ضمن میں شعبہ تفتیش سے منسلک افسران کوجہاں اہم شواہد کے حصول کیلئے فرانزک لیب، ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت حاصل ہے، وہاں لاپتہ اور روپوش مجرمان کاسراغ لگانے کیلئے بائیومیٹرک چیکنگ سسٹم اورموبائل فون ڈیٹاکے حصول کیلئے سیلولرڈٹیکٹیویونٹ تک رسائی بھی دی گئی ہے۔
اس کے باوجود تفتیشی افسران فرائض کی انجا م دہی میں بسااوقات اس قدر لاپرواہی سے کام لیتے ہیں کہ عام نوعیت کے معاملات بھی ناقابل فہم اورپیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ فیصل آبادپولیس کی ناقص کارکردگی کی ایک مثال ہمت پورہ سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے محنت کش زاہد جمیل کے کیس میں دیکھنے کو ملی۔ سینٹری کاکام کرنے والا28 سالہ زاہد جمیل 16 دسمبرکی رات 9 بجے گھر سے گیا اور پھر لوٹ کر نہ آیا۔
پراسرارگمشدگی پر پولیس کو صورتحال سے آگاہ کرنے والے پریشان حال لواحقین کی طرف سے موبائل فون مسلسل بندجانے پر اس کے اغواکاخدشہ بھی ظاہرکیاگیاتاہم گمشدگی رپٹ پر اکتفاکرنے والی مدینہ ٹاون پولیس زاہد جمیل کے لواحقین کو زبانی تسلیاں دیتے ہوئے تلاش جاری رکھنے کی ہدایت کرتی رہی۔ تب بھی سراغ نہ مل پایاتواس کے بھائی محمد شفیق کے بیان پر26 دسمبرکونامعلوم عناصرکے خلاف مقدمے کااندراج عمل میں لایاگیا۔
پولیس کی تساہل پسندی کااندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اغواء کیس کے اندراج کے فوری بعد بھی مغوی کی لوکیشن اوراس کے آخری رابطوں کا پتہ چلانے کیلئے سیلولرڈٹیکشن یونٹ سے رجوع نہ کیاگیا۔انسانی اغواء کاکیس ڈیل کرنے والاانوسٹی گیشن آفیسر اس دوران اپنی تفتیش نہ جانے کس پیرائے میں آگے بڑھاتا رہا۔
اس موڑپر یہ انکشاف یقیناکسی حیرت سے کم نہ تھاکہ جس زاہد جمیل کی تلاش میں لواحقین مارے مارے پھر رہے تھے وہ موت کی وادی میں اترکرگمنامی کے عالم میں اپنی تدفین کا منتظرتھا۔ نہررکھ برانچ کی بندش کے سبب پانی کی سطح کم ہوئی تو راہگیروں کی اطلاع پر 22 دسمبرکے روزبٹالہ کالونی پولیس نے سمندری روڈکینال پارک کے قریب سے نعش قبضہ میں لی۔ اس کے دونوں ہاتھ پشت پربندھے ہونے کے سبب یہ توواضح ہوگیاکہ اسے قتل کرکے نہرمیں پھینکاگیا۔
سب انسپکٹرجاوید کی طرف سے لاوارث پائی گئی نعش مردہ خانہ منتقل کرانے کے بعد بٹالہ کالونی تھانہ میں نامعلوم قاتلوں کے خلاف اندھے قتل کا مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ رپٹ گمشدگی اوراغواکیس کے بعد فیصل آبادپولیس کی طرف سے زاہد جمیل کے حوالہ سے عمل میں لائی جانے والی یہ تیسری کارروائی تھی۔
افسوس صد افسوس کہ مدینہ ٹاؤن پولیس کے بعد بٹالہ کالونی تھانے کااندھاقتل کیس ڈیل کرنے والے ہومی سائیڈانوسٹی گیشن کے سب انسپکٹر ظفراقبال بھی مقتول کی شناخت اور ورثاکاپتہ چلانے کیلئے بائیومیٹرک یاڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی زحمت نہ کرسکے۔ اس طرح مقتول کی نعش کئی روز بعد بھی بے یارومددگارپڑی رہی ۔ تاہم بعدازاں ضروری کارروائی کے بعد زاہد جمیل کی نعش گھرمنتقل کی گئی تو وہاں کہرام برپا ہو گیا۔
تدفین کے بعد پولیس کارروائی کوآگے بڑھاتے ہوئے مقتول کے موبائل فون کاڈیٹاحاصل کرکے ریکارڈکاجائزہ لیاگیاتو16 دسمبرکی آخری کالز کے ذریعے رابطہ میں رہنے والے اسی محلہ کے نزاکت علی اورشہزاد نامی دوافرادکوشامل تفتیش کیاگیا۔موبائل ڈیٹاریکارڈمیں وقوعہ کے روز مقتول اورنزاکت کی لوکیشن بھی ایک ساتھ آئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق دوران تفتیش گہرے دوست زاہد جمیل کے قتل کااعتراف کرنے والے نزاکت علی کا کہنا تھا کہ بھاوج سے ناجائز تعلقات استوار کرنے کی کوشش پر طیش میں آکر اس نے شہزاد اور حسن نامی دیگر دو ساتھیوں کی مشاورت سے زاہد جمیل کے قتل کی سازش تیار کی۔
وقوعہ کے روززاہد جمیل کو شہزاد کے گھرلے جاکرنشہ آور چائے سے بیہوش کرکے گلا دباکرقتل کیا گیا، نعش بعدازاں شہزاد کے رکشہ میں ڈال کررات کے اندھیرے میں نہرمیں پھینک دی گئی ۔اس صورتحال پر زیرحراست نزاکت اور شہزاد کو گرفتار کر لیا گیا، تیسرے روپوش ملزم حسن کی تلاش جاری رکھے جانے کی خبردی گئی ہے۔
دونوں ملزمان کی گرفتاری کے بعد ڈی ایس پی پیپلزکالونی احسان اللہ شادنے ماہ فروری میں بلائی گئی میڈیاکانفرنس میں فخریہ انداز میں زاہد جمیل کا اندھا قتل ٹریس کرنے کاموقف اپنایا۔سرکل آفسیر کا کہنا تھاکہ زاہد جمیل کے اغواکامقدمہ درج ہوتے ہی سی پی او فیصل آباداطہراسماعیل امجدکی طرف سے میری سپرویژن میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس نے شب و روز کی محنت سے ''سی ڈی یو''برانچ کی مدد سے ٹیکنیکل آلات بروئے کارلاتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کیا۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ داری نبھانے کیلئے پولیس فورس آخری حد تک جائے گی۔ اغوا اور قتل کے ملزمان کی گرفتاری یقینا پولیس کی ذمہ داری تھی، جس کی انجام دہی کیلئے فیصل آبادپولیس اوریہاں کے افسران کاکردارکیسارہا اس کافیصلہ توحالات سے آگاہی رکھنے والے ہی کرسکتے ہیں،زاہد جمیل کے لاپتہ سے اغواہونے ،قتل کردیئے جانے اورنعش کی برآمدگی تک کے مراحل میں پولیس ورکنگ سے یہ اندازہ تو ہو گیاکہ سنگین نوعیت کے ایسے واقعات میں بھی اگرٹیم ورک کے فقدان اوربے خبری کا عالم یہ ہوگاتوعام نوعیت کے مقدمات میں پولیس کے تجربہ کار افسران کی مہارت کا کیاحال ہوتا ہوگا۔
دیکھا جائے توپولیس کاکام مقدمہ کے اندراج کی بجائے کسی بھی جرم کے حوالہ سے موصول ہونیوالی ابتدائی اطلاع سے ہی شروع ہوجاتاہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے مراحل پر ایکشن لینے کاکوئی رواج نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کیس سے وابستہ زاہد جمیل کے گھر سے لاپتہ سے قتل ہونے تک ایک ہی شہرکے دوتھانوں کی پولیس کئی روز تک بے خبررہی،دوسری جانب سینئرپولیس افسران بھی حالات کی نزاکت کابروقت نوٹس نہ لے پائے۔
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سینئرپولیس افسران کوبھی غفلت شعار ماتحتوں کے خلاف ڈسیپلنری ایکشن لئے جانے کا موقف پیش کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری لانے کیلئے موثرکردارادا کریں، کیوں کہ محکمہ پولیس کی بہتری کیلئے صرف نعروں اور دعوؤں سے بات نہیں بنے گی، اس مقصد کے حصول کیلئے ٹھوس بنیادوں پر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔