روٹی نہ پکانے پر ظالم مالک نے کم سن گھریلو ملازمہ کو جلا ڈالا
بینش ہسپتال میں دم توڑ گئی، ملزم کے خلاف مقدمہ درج، گرفتار کر لیا گیا
بچوں سے جسمانی مشقت کروانے اور تعلیم نہ دلوانے کے خلاف حکومتی سطح پر سخت قوانین بنائے گئے ہیں، چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے علاوہ متعدد ادارے اس حوالے سے کام کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ تمام ادارے بچوں سے مزدوری کروانے کے رجحان کو رکوانے میں ناکام ہیں۔
کم سن بچے غربت میں ہاتھ بٹانے کیلئے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ مختلف گھروں، مارکیٹوں کی دکانوں، ورکشاپس میں بطور ملازم کام کررہے ہیں، جن کو تین ہزار سے 5 ہزار ماہانہ پر ملازم رکھا جاتا ہے، مگر ملازمت میں جہاں پر بچوں کے بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں وہیں پر بچوں پر ظلم و ستم بھی معمول بنتے جا رہے ہیں۔
بچوں پر تشدد کے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں، مگر جب پڑھے لوگ ایسا ظلم کرتے ہیں تو مجموعی طور پر معاشرے کی شکستہ حالی کا تاثر جنم لیتا ہے۔ گوجرانوالہ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جہاں پر کم سن پر ایک سرکاری آفیسر نے اس قد رظلم و ستم کیا کہ روٹی نہ پکانے پر بچی کو جلادیا، جس سے معصوم بچی اپنی جان ہی گنوا بیٹھی۔
حافظ آباد کے علاقہ بیری والا میں رہائشی مقصود کی 9 سالہ بیٹی بینش کو سرکاری آفیسر لینڈ مینجر شہزاد کھوکھر کے ہاں سات ہزار روپے ماہانہ ملازمت پر رکھوایا گیا۔ مقصود کے مطابق دونوں کے درمیان طے پایا تھا کہ بینش صرف گھر کی صاف صفائی کرے گی اور کوئی وزنی کام نہ کرے گی اور اس کے علاوہ ہرماہ وہ اپنے والدین سے بھی ملے گی، مگر بینش نہیں جانتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
شہزاد کھوکھر اور اس کی اہلیہ نے پہلے پہل بینش سے صرف صفائی کا کام کروایا اور پہلے ماہ کی سات ہزار روپے تنخواہ بھی وقت پر دی۔ بینش کی اچھے ماحول میں والدین سے ملاقات بھی کروائی گئی، یوں والدین مطمئن ہوگئے کہ ان کی بیٹی کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی، دوسرے ماہ بھی حالات تقریباً ٹھیک تھے، لیکن 27 فروری کے روز بینش پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ معصوم کم سن بچی یہ نہ جانتی تھی کہ دو ماہ سے جو گھر کے مالک اس کے ساتھ ٹھیک برتاؤ کررہے ہیں، وہ اس روز اس کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں؟
اس دن شہزاد کھوکھر کے گھر پر مہمان آنے والے تھے، جن کیلئے کھانا بنانا تھا۔ شہزاد کی اہلیہ نے ہنڈیا خود بنائی اور بینش کو روٹی پکانے کیلئے کہہ دیا لیکن بینش نے صاف انکار کردیا کہ وہ یہ کام نہیں جانتی، صرف صفائی کرسکتی ہے۔ پہلے تو شہزاد کھوکھر کی بیوی نے بینش کو تھپڑوں سے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس دوران چولہے سے بینش کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔
بینش جان بچانے کیلئے کچن سے باہر کی طرف بھاگی تو شہزاد کھوکھر نے پکڑا اور اس پر گرم چائے پھینک دی، بچی پوری طرح جل گئی مگر ظالموں نے اس کا علاج کروانے کے بجائے اور کسی ہسپتال لے جانے کے بجائے گھر پر مرہم لگاتے رہے۔ جب بچی کے زخم بگڑ گئے اور ان میں پس پڑنے لگی تو بھی انہیں کسی ڈاکٹر سے علاج کروانے کا خیال نہ آیا۔
مقصود کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں تھیں اور بینش کا نمبر دوسرا تھا، مقصود خود گھر چلانے کیلئے محنت مزدوری کرتا جبکہ اس کی بیوی بھی چوہدریوں کے ڈیرے پر جانوروں کا گوبر وغیرہ اٹھانے کا کام کرتی تھی، جس سے گھر چل رہا تھا۔ بینش کے والد کے مطابق وہ اسے ملنے کیلئے فون کررہے تھے مگر کوئی ان کا فون نہیں سن رہا تھا اور بالا خر جو نمبر انہیں دیا گیاتھا وہ بند کر دیا گیا، بوڑھے والدین کو بچی کی فکر ستا رہی تھی، لیکن انہیں اپنی بچی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔
وہ رات اسی طرح گزری مگر صبح کے وقت ایک محلے دار نے انہیں بتایا کہ ان کی بینش باہر والی دیوار کے ساتھ زخمی حالت میں پڑی ہے۔ غریب والدین کا کلیجہ پھٹ گیا، ایک گھنٹہ کی مسافت طے کرکے بچی کو سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں پر ڈاکٹرز نے ابتدائی طبی امداد دے کر بچی کی حالت نازک قرار دیتے ہوئے لاہور ہسپتال ریفر کردیا، جہاں پر اس کاعلاج چلنے لگا۔
مقصود نے ظلم کی داستان بیٹی سے سنی تو رہا نہ گیا اور فوری طور پر گوجرانوالہ پہنچ کر متعلقہ تھانہ سول لائن میں کارروائی کیلئے درخواست دے دی۔ پولیس نے اس پر فوری کارروائی کی اور درخواست پر تفتیشی آفیسر کو لاہور بھیجا، جنہوں نے بچی کا بیان لیا اور اس کی روشنی میں لینڈ مینجر شہزاد کھوکھر کو گرفتار کر کے اس پر تشدد کرنے اور ارادہ قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کردیا۔
شہزاد کھوکھر کا اس بارے میں کہناتھا کہ یہ ایک حادثہ تھا، اب سارا ملبہ ان پر ڈالا جارہاہے، مگر پولیس کے پاس بچی کا زخمی حالت میں بیان تھا، ادھر لاہور میں بچی کا علاج جاری تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق بچی 70 فیصد تک جل چکی تھی۔ شہزاد کھوکھر نے بچی کو والدین کے حوالہ کرنے اور اس کے علاج بارے میں کہا کہ جہاں تک ہوا اس کا علاج کروایا، بچی کو گھر نہ چھوڑنا صرف ایک غلطی تھی۔
ابھی اس بارے میں تفتیش جاری تھی کہ ایک ہفتہ بعد ہی ایک دل دہلا دینے والی خبر آئی کہ بینش موت سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئی ہے۔ والدین کیلئے یہ خبر قیامت صغریٰ سے کم نہ تھی، والدین اپنی کم سن بچی کی نعش لے کر گاؤں چلے گئے۔ پولیس کو اطلاع ملی تو گوجرانوالہ سے ہومی سائیڈ کی فورس پہنچی اور تصاویر لی گئیں کہ بچی دم توڑ گئی ہے۔ کیس شہزاد کھوکھر پر پہلے سے ہی درج تھا، جس کی دفعات تبدیل کرتے ہوئے مقدمہ قتل بنا دیا گیا۔
بینش کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی کے ساتھ ظلم ہوا ہے، ظالموں نے اسے کیوں جلایا؟ جب ان کے ساتھ بات ہوئی تھی کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتی تو اسے روٹی پکانے کو کیوں کہا گیا؟ اگر ظالم مالک کہتا ہے کہ حادثہ تھا تو بچی نے ان کا نام کیوں لیا؟ اگر ہوا تو ہمیں فون پر اطلاع کرتا؟ لیکن اس کا علاج کروایا گیا اور نہ ہی ہمیں اطلاع دی گئی اور پھر ظالم اسے رات کے اندھیرے میں پھینک کر فرار ہو گیا۔
والدہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس وقت کو کوس رہی ہیں جب اس نے اپنی کم سن بچی کو ان کے گھر بھیجا تھا۔ پولیس نے اس کیس کے بارے میں باریکی بینی سے تفتیش شروع کردی ہے۔ ہومی سائیڈ انچارج کے مطابق ملزم شہزاد کھوکھر کا چالان عدالت میں پیش کیا جاچکاہے اور اس کا جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کب تک بینش جیسی بچیاں ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہیں گی، کب تک جن ہاتھوں میں کتاب ہونی چاہیے گھر کے برتن یا کوڑا کرکٹ ہوگا؟ اور کیا بینش کو انصاف ملے گا؟
کم سن بچے غربت میں ہاتھ بٹانے کیلئے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ مختلف گھروں، مارکیٹوں کی دکانوں، ورکشاپس میں بطور ملازم کام کررہے ہیں، جن کو تین ہزار سے 5 ہزار ماہانہ پر ملازم رکھا جاتا ہے، مگر ملازمت میں جہاں پر بچوں کے بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں وہیں پر بچوں پر ظلم و ستم بھی معمول بنتے جا رہے ہیں۔
بچوں پر تشدد کے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں، مگر جب پڑھے لوگ ایسا ظلم کرتے ہیں تو مجموعی طور پر معاشرے کی شکستہ حالی کا تاثر جنم لیتا ہے۔ گوجرانوالہ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جہاں پر کم سن پر ایک سرکاری آفیسر نے اس قد رظلم و ستم کیا کہ روٹی نہ پکانے پر بچی کو جلادیا، جس سے معصوم بچی اپنی جان ہی گنوا بیٹھی۔
حافظ آباد کے علاقہ بیری والا میں رہائشی مقصود کی 9 سالہ بیٹی بینش کو سرکاری آفیسر لینڈ مینجر شہزاد کھوکھر کے ہاں سات ہزار روپے ماہانہ ملازمت پر رکھوایا گیا۔ مقصود کے مطابق دونوں کے درمیان طے پایا تھا کہ بینش صرف گھر کی صاف صفائی کرے گی اور کوئی وزنی کام نہ کرے گی اور اس کے علاوہ ہرماہ وہ اپنے والدین سے بھی ملے گی، مگر بینش نہیں جانتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
شہزاد کھوکھر اور اس کی اہلیہ نے پہلے پہل بینش سے صرف صفائی کا کام کروایا اور پہلے ماہ کی سات ہزار روپے تنخواہ بھی وقت پر دی۔ بینش کی اچھے ماحول میں والدین سے ملاقات بھی کروائی گئی، یوں والدین مطمئن ہوگئے کہ ان کی بیٹی کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی، دوسرے ماہ بھی حالات تقریباً ٹھیک تھے، لیکن 27 فروری کے روز بینش پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ معصوم کم سن بچی یہ نہ جانتی تھی کہ دو ماہ سے جو گھر کے مالک اس کے ساتھ ٹھیک برتاؤ کررہے ہیں، وہ اس روز اس کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں؟
اس دن شہزاد کھوکھر کے گھر پر مہمان آنے والے تھے، جن کیلئے کھانا بنانا تھا۔ شہزاد کی اہلیہ نے ہنڈیا خود بنائی اور بینش کو روٹی پکانے کیلئے کہہ دیا لیکن بینش نے صاف انکار کردیا کہ وہ یہ کام نہیں جانتی، صرف صفائی کرسکتی ہے۔ پہلے تو شہزاد کھوکھر کی بیوی نے بینش کو تھپڑوں سے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس دوران چولہے سے بینش کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔
بینش جان بچانے کیلئے کچن سے باہر کی طرف بھاگی تو شہزاد کھوکھر نے پکڑا اور اس پر گرم چائے پھینک دی، بچی پوری طرح جل گئی مگر ظالموں نے اس کا علاج کروانے کے بجائے اور کسی ہسپتال لے جانے کے بجائے گھر پر مرہم لگاتے رہے۔ جب بچی کے زخم بگڑ گئے اور ان میں پس پڑنے لگی تو بھی انہیں کسی ڈاکٹر سے علاج کروانے کا خیال نہ آیا۔
مقصود کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں تھیں اور بینش کا نمبر دوسرا تھا، مقصود خود گھر چلانے کیلئے محنت مزدوری کرتا جبکہ اس کی بیوی بھی چوہدریوں کے ڈیرے پر جانوروں کا گوبر وغیرہ اٹھانے کا کام کرتی تھی، جس سے گھر چل رہا تھا۔ بینش کے والد کے مطابق وہ اسے ملنے کیلئے فون کررہے تھے مگر کوئی ان کا فون نہیں سن رہا تھا اور بالا خر جو نمبر انہیں دیا گیاتھا وہ بند کر دیا گیا، بوڑھے والدین کو بچی کی فکر ستا رہی تھی، لیکن انہیں اپنی بچی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔
وہ رات اسی طرح گزری مگر صبح کے وقت ایک محلے دار نے انہیں بتایا کہ ان کی بینش باہر والی دیوار کے ساتھ زخمی حالت میں پڑی ہے۔ غریب والدین کا کلیجہ پھٹ گیا، ایک گھنٹہ کی مسافت طے کرکے بچی کو سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں پر ڈاکٹرز نے ابتدائی طبی امداد دے کر بچی کی حالت نازک قرار دیتے ہوئے لاہور ہسپتال ریفر کردیا، جہاں پر اس کاعلاج چلنے لگا۔
مقصود نے ظلم کی داستان بیٹی سے سنی تو رہا نہ گیا اور فوری طور پر گوجرانوالہ پہنچ کر متعلقہ تھانہ سول لائن میں کارروائی کیلئے درخواست دے دی۔ پولیس نے اس پر فوری کارروائی کی اور درخواست پر تفتیشی آفیسر کو لاہور بھیجا، جنہوں نے بچی کا بیان لیا اور اس کی روشنی میں لینڈ مینجر شہزاد کھوکھر کو گرفتار کر کے اس پر تشدد کرنے اور ارادہ قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کردیا۔
شہزاد کھوکھر کا اس بارے میں کہناتھا کہ یہ ایک حادثہ تھا، اب سارا ملبہ ان پر ڈالا جارہاہے، مگر پولیس کے پاس بچی کا زخمی حالت میں بیان تھا، ادھر لاہور میں بچی کا علاج جاری تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق بچی 70 فیصد تک جل چکی تھی۔ شہزاد کھوکھر نے بچی کو والدین کے حوالہ کرنے اور اس کے علاج بارے میں کہا کہ جہاں تک ہوا اس کا علاج کروایا، بچی کو گھر نہ چھوڑنا صرف ایک غلطی تھی۔
ابھی اس بارے میں تفتیش جاری تھی کہ ایک ہفتہ بعد ہی ایک دل دہلا دینے والی خبر آئی کہ بینش موت سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئی ہے۔ والدین کیلئے یہ خبر قیامت صغریٰ سے کم نہ تھی، والدین اپنی کم سن بچی کی نعش لے کر گاؤں چلے گئے۔ پولیس کو اطلاع ملی تو گوجرانوالہ سے ہومی سائیڈ کی فورس پہنچی اور تصاویر لی گئیں کہ بچی دم توڑ گئی ہے۔ کیس شہزاد کھوکھر پر پہلے سے ہی درج تھا، جس کی دفعات تبدیل کرتے ہوئے مقدمہ قتل بنا دیا گیا۔
بینش کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی کے ساتھ ظلم ہوا ہے، ظالموں نے اسے کیوں جلایا؟ جب ان کے ساتھ بات ہوئی تھی کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتی تو اسے روٹی پکانے کو کیوں کہا گیا؟ اگر ظالم مالک کہتا ہے کہ حادثہ تھا تو بچی نے ان کا نام کیوں لیا؟ اگر ہوا تو ہمیں فون پر اطلاع کرتا؟ لیکن اس کا علاج کروایا گیا اور نہ ہی ہمیں اطلاع دی گئی اور پھر ظالم اسے رات کے اندھیرے میں پھینک کر فرار ہو گیا۔
والدہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس وقت کو کوس رہی ہیں جب اس نے اپنی کم سن بچی کو ان کے گھر بھیجا تھا۔ پولیس نے اس کیس کے بارے میں باریکی بینی سے تفتیش شروع کردی ہے۔ ہومی سائیڈ انچارج کے مطابق ملزم شہزاد کھوکھر کا چالان عدالت میں پیش کیا جاچکاہے اور اس کا جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کب تک بینش جیسی بچیاں ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہیں گی، کب تک جن ہاتھوں میں کتاب ہونی چاہیے گھر کے برتن یا کوڑا کرکٹ ہوگا؟ اور کیا بینش کو انصاف ملے گا؟