مہنگائی کا دور اور بچت
عمدہ منصوبہ بندی سے بچت کی جاسکتی ہے۔
منہگائی کے اس دور میں بچت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، خاص طور پر جب زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اخراجات قابو میں نہ آرہے ہوں۔ بلاشبہہ بڑھتے ہوئے اخراجات کی صورت میں بچت کرنا بہت ہی مشکل ہے۔
90 فی صد خواتین گھر کا خرچ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں، جب کہ صرف 10 فی صد مرد یہ ذمے داری اٹھاتے ہیں۔ مرد کسی بھی کام میں بچت کرنے کے حق میں نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کہ دکان دار سے بحث کرنے سے بہتر ہے کہ وہ چیز اسی قیمت میں خرید لی جائے جو دکان دار مانگتا ہے۔ مگر خواتین دکان داروں سے قیمتوں پر بحث کرتی ہیں اور ان میں کمی بیشی کراتی ہیں۔
اگر دکان دار کسی چیز کی قیمت ہزار روپے مانگ رہا ہے تو خواتین اسے تین سو یا چار سو میں خریدنا چاہتی ہیں۔ خواتین ان معاملات میں بہت ماہر ہوتی ہیں۔ گھریلو اشیاء کی قیمتوں کمی بیشی کرکے وہ مہینے کے خرچ میں کافی حد تک بچت کرلیتی ہیں، لیکن بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو چاہتے ہوئے بھی بچت نہیں کرپاتیں اور ایسی خواتین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر کہاں پیسے ضائع کررہی ہیں۔
ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کے بعد ہی خواتین بچت کرنا سیکھ سکیں گی۔ کچھ خاص باتیں ایسی ہیں جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آخر بچت کیوں نہیں ہو پا رہی یا یہ کہ یہ بچت کم کیوں ہورہی ہے۔
پاکستانی روایات ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ہمیں کسی صورت بھی رزق ضائع نہیں کرنا چاہیے، لیکن عام طور پر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ بہت سا کھانا ضائع ہوکر یا تو کچروں کے ڈھیر میں شامل ہوجاتا ہے یا گلی کے باہر کسی کونے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ صرف شادی کی تقریبات میں ہی نہیں، بلکہ عام زندگی میں بھی بہت سا کھانا ضائع کیا جاتا ہے، بالخصوص نئی نسل میں تازہ کھانا کھانے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوان گذشتہ روز تیار کردہ کھانے کے استعمال کو تقریباً ختم کرچکے ہیں۔
کھانے کی چیزوں کا ضیاع ہونے سے بھی آپ کے ماہانہ اخراجات میں بچت نہیں ہوپاتی۔ چناں چہ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمیں جتنے کھانے کی ضرورت ہے، صرف اتنا ہی پکایا جائے۔ اگر گھر میں ایک وقت باسی کھانا نہیں کھایا جاتا تو دو وقت تیار کریں، تاکہ ضائع ہونے کا اندیشہ کم ہو۔
جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں استعمال ہونے والے ٹیلی ویژن اب ایل ای ڈی میں بدل گئے ہیں، اسی طرح کمپیوٹرز کی جگہ لیپ ٹاپ استعمال ہورہے ہیں، یہ سب بجلی سے چلنے والی مصنوعات ہیں جنہیں آئے دن تبدیل کرنا بھی اب ایک فیشن بن گیا ہے۔
اس کے علاوہ موبائل فون بدلنا بھی اب ایک عام سی بات ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی چیز ڈبا پیک خریدی گئی ہے تو ڈبا کھلنے کے بعد یہ چیز اپنی اصل قیمت کھو دیتی ہے۔ روز روز ان چیزوں کی تبدیلی بھی کوئی عقل مندی کا کام نہیں ہے۔ ان سب سے بھی گھر کے بجٹ پر بہت فرق پڑتا ہے جس سے بچت نہیں ہوپاتی۔
ہماری خواتین کو خریداری کا بہت شوق ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ اگر وہ کسی تقریب میں جا رہی ہیں تو ان کا لباس سب سے منفرد ہو اور وہ سب سے الگ دکھائی دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر دور کے رشتے داروں کی بھی شادی ہو تو بھی خواتین کو نیا سوٹ ہی خریدنا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ میچنگ سینڈلز اور زیورات بھی چاہیے ہوتے ہیں۔ ان میں پیسوں کا ضیاع بھی گھر کے بجٹ پر اثر ڈالتا ہے جس سے بچت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ آئے دن گھر میں دعوتوں کا اہتمام کرنا، طرح طرح کے لوازمات تیار کرنا، اس سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ روز روز کی دعوتوں پر پیسے ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ انہیں مشکل وقت کے لیے سنبھال کر رکھا جائے۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرکے آپ بہ آ سانی اپنے گھریلو اخراجات میں بھی بچت کرسکتی ہیں جس سے آپ کا بجٹ متاثر نہیں ہوگا۔
90 فی صد خواتین گھر کا خرچ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں، جب کہ صرف 10 فی صد مرد یہ ذمے داری اٹھاتے ہیں۔ مرد کسی بھی کام میں بچت کرنے کے حق میں نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کہ دکان دار سے بحث کرنے سے بہتر ہے کہ وہ چیز اسی قیمت میں خرید لی جائے جو دکان دار مانگتا ہے۔ مگر خواتین دکان داروں سے قیمتوں پر بحث کرتی ہیں اور ان میں کمی بیشی کراتی ہیں۔
اگر دکان دار کسی چیز کی قیمت ہزار روپے مانگ رہا ہے تو خواتین اسے تین سو یا چار سو میں خریدنا چاہتی ہیں۔ خواتین ان معاملات میں بہت ماہر ہوتی ہیں۔ گھریلو اشیاء کی قیمتوں کمی بیشی کرکے وہ مہینے کے خرچ میں کافی حد تک بچت کرلیتی ہیں، لیکن بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو چاہتے ہوئے بھی بچت نہیں کرپاتیں اور ایسی خواتین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر کہاں پیسے ضائع کررہی ہیں۔
ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کے بعد ہی خواتین بچت کرنا سیکھ سکیں گی۔ کچھ خاص باتیں ایسی ہیں جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آخر بچت کیوں نہیں ہو پا رہی یا یہ کہ یہ بچت کم کیوں ہورہی ہے۔
پاکستانی روایات ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ہمیں کسی صورت بھی رزق ضائع نہیں کرنا چاہیے، لیکن عام طور پر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ بہت سا کھانا ضائع ہوکر یا تو کچروں کے ڈھیر میں شامل ہوجاتا ہے یا گلی کے باہر کسی کونے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ صرف شادی کی تقریبات میں ہی نہیں، بلکہ عام زندگی میں بھی بہت سا کھانا ضائع کیا جاتا ہے، بالخصوص نئی نسل میں تازہ کھانا کھانے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوان گذشتہ روز تیار کردہ کھانے کے استعمال کو تقریباً ختم کرچکے ہیں۔
کھانے کی چیزوں کا ضیاع ہونے سے بھی آپ کے ماہانہ اخراجات میں بچت نہیں ہوپاتی۔ چناں چہ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمیں جتنے کھانے کی ضرورت ہے، صرف اتنا ہی پکایا جائے۔ اگر گھر میں ایک وقت باسی کھانا نہیں کھایا جاتا تو دو وقت تیار کریں، تاکہ ضائع ہونے کا اندیشہ کم ہو۔
جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں استعمال ہونے والے ٹیلی ویژن اب ایل ای ڈی میں بدل گئے ہیں، اسی طرح کمپیوٹرز کی جگہ لیپ ٹاپ استعمال ہورہے ہیں، یہ سب بجلی سے چلنے والی مصنوعات ہیں جنہیں آئے دن تبدیل کرنا بھی اب ایک فیشن بن گیا ہے۔
اس کے علاوہ موبائل فون بدلنا بھی اب ایک عام سی بات ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی چیز ڈبا پیک خریدی گئی ہے تو ڈبا کھلنے کے بعد یہ چیز اپنی اصل قیمت کھو دیتی ہے۔ روز روز ان چیزوں کی تبدیلی بھی کوئی عقل مندی کا کام نہیں ہے۔ ان سب سے بھی گھر کے بجٹ پر بہت فرق پڑتا ہے جس سے بچت نہیں ہوپاتی۔
ہماری خواتین کو خریداری کا بہت شوق ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ اگر وہ کسی تقریب میں جا رہی ہیں تو ان کا لباس سب سے منفرد ہو اور وہ سب سے الگ دکھائی دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر دور کے رشتے داروں کی بھی شادی ہو تو بھی خواتین کو نیا سوٹ ہی خریدنا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ میچنگ سینڈلز اور زیورات بھی چاہیے ہوتے ہیں۔ ان میں پیسوں کا ضیاع بھی گھر کے بجٹ پر اثر ڈالتا ہے جس سے بچت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ آئے دن گھر میں دعوتوں کا اہتمام کرنا، طرح طرح کے لوازمات تیار کرنا، اس سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ روز روز کی دعوتوں پر پیسے ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ انہیں مشکل وقت کے لیے سنبھال کر رکھا جائے۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرکے آپ بہ آ سانی اپنے گھریلو اخراجات میں بھی بچت کرسکتی ہیں جس سے آپ کا بجٹ متاثر نہیں ہوگا۔